ایک تحریر نے میری زندگی بالکل بدل دی
میری کہانی میری زبانی
ایک تحریر نے میری زندگی بالکل بدل دی
از آئرین ہوکستَنباک
یہ سن ۱۹۷۲، منگل کی ایک شام کا واقعہ تھا۔ مَیں ۱۶ برس کی تھی اور اپنے والدین کیساتھ نیدرلینڈز کے شہر آئنڈہوون میں ایک مذہبی اجلاس پر گئی ہوئی تھی۔ مَیں سہمی ہوئی تھی اور میرا جی چاہتا تھا کہ مَیں یہاں سے دور کسی اَور جگہ چلی جاؤں۔ پھر دو جوان لڑکیوں نے مجھے ایک تحریر دی، جس پر لکھا تھا: ”پیاری آئرین، ہم دل سے تمہاری مدد کرنا چاہتے ہیں۔“ اُس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ تحریر میری زندگی ہی بدل دیگی۔ مگر اِس سے پہلے کہ مَیں آپکو بتاؤں کہ اُسکے بعد کیا واقع ہوا مَیں آپکو اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتاتی ہوں۔
مَیں انڈونیشیا کے جزیرے بیلیٹنگ میں پیدا ہوئی۔ مجھے آج بھی اُس جزیرے کی کچھ آوازیں یاد ہیں، مثلاً ہوا میں پتوں کی سرسراہٹ، دریا کی لہروں کا شور، ہمارے گھر کے اِردگرد کھیلنے والے بچوں کے قہقہے اور وہ موسیقی جو ہمارے گھر میں بجائی جاتی تھی۔ سن ۱۹۶۰ میں جب مَیں ۴ سال کی تھی تو میرا خاندان انڈونیشیا سے نیدرلینڈز چلا گیا۔ ہم نے اِس لمبے سفر کو سمندری جہاز میں طے کِیا۔ سفر کی یادوں میں مجھے خاص طور پر اپنے اُس پسندیدہ کھلونے کی آواز یاد ہے جسے مَیں اپنے ساتھ لے کر گئی تھی۔ یہ کھلونا ایک چھوٹا سا مسخرہ تھا جو ڈھول بجایا کرتا تھا۔ جب مَیں ۷ سال کی تھی تو مَیں بیمار ہونے کی وجہ سے بہری ہو گئی اور اُس کے بعد مَیں نے پھر کبھی کسی چیز کی آواز نہ سنی۔ البتہ مَیں مختلف آوازوں کی یادیں ضرور رکھتی ہوں۔
بہرےپن میں جوان ہونا
میرے والدین نے اتنے پُرمحبت طریقے سے میری نگہداشت کی کہ مجھے پہلے تو احساس ہی نہ ہوا کہ بہرے ہونے کی وجہ سے زندگی پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے۔ مجھے بچپن میں ایک آلۂسماعت دیا گیا تھا۔ مگر اِس آلے کا مجھے زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی مجھے اِس بڑے آلے کو کان میں ڈالنے پر کوئی اعتراض نہ تھا، بلکہ مَیں تو اِسے ایک قسم کا مذاق سمجھتی تھی۔ پڑوس کے بچے میرے ساتھ باتچیت
کرنے کیلئے سڑک پر چاک کیساتھ پوری داستانیں لکھ دیتے تھے اور میں بول کر اُنکا جواب دیا کرتی تھی، حالانکہ مجھے خود اپنی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔مجھے بالغ ہونے کیساتھ احساس ہونے لگا کہ مَیں باقی لوگوں سے فرق تھی۔ مجھے یہ بھی احساس ہونے لگا کہ کچھ لوگ میرے بہرےپن کی وجہ سے میرا مذاق اُڑاتے تھے اور کئی تو میرے ساتھ دوستی بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ مَیں خود کو تنہا اور الگ محسوس کرنے لگی۔ اب مجھے بہرےپن کا اصلی مطلب سمجھ میں آنے لگا اور جوں جوں مَیں بڑی ہوتی گئی مَیں سننے کے قابل لوگوں کی صحبت سے ڈرنے لگی۔
میرے والدین پورے خاندان کو لیکر گاؤں سے آئنڈہوون نامی ایک شہر میں جا کر رہنے لگے تاکہ مَیں ایک ایسے سکول میں جا سکوں جو خاص طور پر بہرے بچوں کیلئے تھا۔ وہاں میرے ابو نے کام تلاش کر لیا اور میرے بہن بھائی ایک نئے سکول میں جانے لگے۔ مَیں اُن تمام تبدیلیوں کیلئے بہت شکرگزار ہوں جو وہ میرے لئے کرنے کو تیار تھے۔ اپنی آواز کو خود نہ سننے کی وجہ سے مَیں بہت اُونچی آواز میں باتیں کرتی تھی اور مَیں صاف طریقے سے بول بھی نہیں سکتی تھی۔ اِسلئے میری باتوں کو کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ سکول میں میری مدد کی گئی تاکہ مَیں اپنی آواز پر قابو پا سکوں۔ اِسکے علاوہ بہرے لوگوں کی ایک خاص زبان ہوتی ہے جو وہ ہاتھوں اور بازوؤں کے اشاروں کو استعمال کر کے بولتے ہیں۔ میرے اُستادوں کو اشاروں کی یہ زبان تو نہیں آتی تھی مگر مَیں نے اِسے اپنے ہمجماعتوں سے سیکھ لیا۔
اپنی محدود دُنیا میں رہنا
جوں جوں مَیں بڑی ہوتی گئی میرے والدین نے میرے ساتھ باتیں کرنے کی بہت کوشش کی مگر مَیں اُنکی زیادہتر باتوں کو نہیں سمجھ سکتی تھی۔ مثال کے طور پر مَیں یہ نہیں سمجھی تھی کہ میرے والدین یہوواہ کے گواہوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہے تھے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ ایک دن ہم سب مل کر ایک جگہ گئے جہاں بہت سے لوگ کُرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب سامنے کی طرف دیکھ رہے تھے، کبھی وہ تالیاں بجاتے اور کبھی وہ اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے۔ البتہ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے تھے، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ اِس واقعہ کے بہت عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ایک کنونشن پر گئی ہوئی تھی۔ میرے والدین مجھے آئنڈہوون شہر کے ایک چھوٹے سے ہال میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ مجھے وہاں جانا اچھا لگتا تھا اِسلئے کہ سب لوگ مشفقانہ طریقے سے ایک دوسرے کیساتھ پیش آتے تھے اور میرا خاندان وہاں جا کر خوش ہوتا تھا، مگر ہم وہاں کیوں جایا کرتے تھے یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ لیکن اب مجھے معلوم ہے کہ وہ چھوٹا سا ہال یہوواہ کے گواہوں کا کنگڈم ہال تھا۔
بدقسمتی سے اُدھر کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو مجھے کسی نہ کسی طرح سمجھا سکے کہ پیش کی جانے والی تقریروں میں کیا کہا جا رہا تھا۔ اب مَیں سمجھ گئی ہوں کہ اُس وقت لوگ میری مدد تو ضرور کرنا چاہتے تھے مگر اُنہیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ بہرے انسان کو کیسے سمجھائیں۔ مَیں اِن اجلاسوں پر تنہا محسوس کرتی تھی اور سوچا کرتی تھی کہ ’کاش مَیں یہاں ہونے کی بجائے اپنے سکول میں ہوتی۔‘ مگر مَیں ایسا سوچ ہی رہی تھی کہ دو جوان لڑکیوں نے جلدی سے کاغذ کے ٹکڑے پر مجھے کچھ لکھ کر دیا۔ یہ وہی تحریر تھی جسکا ذکر مَیں نے کہانی کے شروع میں کِیا تھا۔
اُس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ تحریر ایک ایسی دوستی کا باعث بنے گی جو مجھے میری تنہائی سے آزاد کریگی۔ایک گرانقدر دوستی پیدا کرنا
کولیٹ اور ہرمین جنہوں نے مجھے تحریر دی تھی وہ ابھی ۲۵ سال کی بھی نہیں تھیں۔ مجھے بعدازاں پتہ چلا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کی اُس کلیسیا میں جہاں مَیں جایا کرتی تھی باقاعدہ پائنیر کی حیثیت سے کام کرنے کیلئے آئی تھیں۔ اِسکا مطلب ہے کہ وہ مہینے میں ۱۰۰ گھنٹوں کیلئے منادی کے کام میں حصہ لینے کو تیار تھیں۔ کولیٹ اور ہرمین کو اشاروں کی زبان تو نہیں آتی تھی، مگر جب وہ میرے ساتھ بات کرتی تھیں تو مَیں اُنکے ہونٹوں کی حرکت کو دھیان سے دیکھ کر اُنکی باتوں کو سمجھ جایا کرتی تھی۔ اِسطرح ہم ایک دوسرے کیساتھ اچھی خاصی باتچیت کر لیا کرتے تھے۔
جب کولیٹ اور ہرمین نے میرے ماںباپ سے میرے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے کی اجازت مانگی تو وہ اس بات سے بہت خوش ہوئے۔ مگر اِن دو جوان لڑکیوں نے میرے لئے اِس سے بڑھکر بہت کچھ کیا۔ اُنہوں نے مجھے اجلاسوں کو سمجھانے اور کنگڈم ہال میں دوسرے لوگوں کیساتھ رفاقت قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُنہوں نے میری منادی کے کام میں مدد کی تاکہ مَیں بھی اس کام میں حصہ لے سکوں اور جب بھی مجھے مسیحی خدمتی سکول میں تقریر پیش کرنی ہوتی تھی تو وہ تقریر کو تیار کرنے میں میری مدد کرتی تھیں۔ ذرا تصور کیجئے، اب مجھے سننے کے قابل لوگوں کے سامنے بھی تقریر دینے سے ڈر نہیں لگتا تھا!
اِسکے علاوہ کولیٹ اور ہرمین نے مجھے یہ احساس دلایا کہ مَیں اُن پر بھروسا رکھ سکتی ہوں۔ وہ صبر سے کام لیتی تھیں اور میری باتوں کو غور سے سنتی تھیں۔ جب مَیں غلطیاں کرتی تو ہم سب مل کر ہنستی تھیں، مگر اُنہوں نے میرا کبھی مذاق نہیں اُڑایا۔ اُنہوں نے میری موجودگی کی وجہ سے کبھی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی۔ وہ میرے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتیں اور میرے ساتھ بالکل اپنوں جیسا سلوک کرتی تھیں۔ اِن مہربان لڑکیوں نے مجھے اپنی محبت اور دوستی کا ایک بہت ہی خوبصورت تحفہ دیا۔
سب سے اہم چیز جو کولیٹ اور ہرمین نے مجھے سکھائی تھی وہ یہ تھی کہ مجھے یہوواہ خدا کو ایک ایسے دوست کی طرح جاننے کی ضرورت ہے جس پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے۔ اُنہوں نے مجھے سمجھایا کہ یہوواہ نے مجھے کنگڈم ہال میں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ بہری ہونے کی وجہ سے مجھے کس قسم کے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ مَیں کتنی شکرگزار ہوں کہ ہم تینوں یہوواہ سے محبت رکھتے ہیں۔ اِس محبت کی بِنا پر ہم سہیلیاں بن گئی تھیں۔ اِس بات نے میرے دِل پر گہرا اَثر کِیا کہ یہوواہ میری اتنی زیادہ پرواہ کرتا ہے اور اس وجہ سے مَیں نے جولائی ۱۹۷۵ میں بپتسمہ لے لیا۔
ایک خاص دوست کا ساتھ
بعد کے سالوں میں مَیں اَور بھی بہت سے مسیحی بہن بھائیوں کو جاننے لگی۔ اِن میں سے ایک میرا خاص دوست بن گیا اور ہم نے ۱۹۸۰ میں شادی کر لی۔ اِس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مَیں نے پائنیر کے طور پر خدمت کرنا شروع کر دی۔ میرے خاوند ہیری بہرے تو نہیں تھے پھر بھی ۱۹۹۴ میں ہم دونوں کو سپیشلپائنیر کی حیثیت سے اُن لوگوں کو منادی کرنے کیلئے بھیجا گیا جو بہرے تھے اور اشاروں کی زبان بول سکتے تھے۔ اگلے سال ہی، مجھے ایک چیلنجخیز کام کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ میرے خاوند کو متبادل سفری نگہبان بنا دیا گیا تھا۔
اِسکا مطلب تھا کہ ہمیں مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرنا تھا جہاں بہن بھائی یہ نہیں جانتے تھے کہ مَیں بہری ہوں۔ لہٰذا جب بھی ہم پہلی بار ایک نئی کلیسیا میں جاتے ہیں تو مَیں نے لوگوں سے ملنے کا ایک خاص طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ میری کوشش ہوتی کہ ہال میں داخل ہوتے ہی مَیں زیادہ سے زیادہ بہن بھائیوں سے جا کر اپنا تعارف کراؤں۔ مَیں اُنکو بتاتی ہوں کہ مَیں بہری ہوں، اِسلئے جب اُنکو میرے ساتھ بات کرنی ہو تو اُنکو میری طرف دیکھ کر آہستہ سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مَیں یہ بھی پوچھتی ہوں کہ کیا کوئی اِس ہفتے کے اجلاسوں اور منادی کے کام میں میرا ساتھ دینے کو تیار ہے تاکہ وہ مجھے دوسرے لوگوں کی باتوں کی وضاحت کر سکے۔ میری یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ مَیں اُس کلیسیا کے اجلاسوں میں فوراً تبصرہ کروں۔
یہ طریقہ اتنا کامیاب رہا ہے کہ اکثر اوقات بہن بھائی بھول جاتے ہیں کہ مَیں بہری ہوں جسکی وجہ سے کچھ مضحکہخیز واقعات بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے
طور پر، وہ مجھے بتاتے ہیں کہ جب وہ مجھے شہر میں دیکھتے تھے تو وہ مجھے سلام کرنے کیلئے اپنی گاڑی کا ہارن بجاتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ مَیں اُنکی طرف نہیں دیکھتی تھی۔ کبھی مَیں خود بھی بھول جاتی ہوںکہ مَیں بہری ہوں۔ مثلاً جب مَیں اپنے خاوند کو کان میں دھیمی آواز سے کوئی راز بتانے کی کوشش کرتی ہوں تو اُسکے چہرے پر شرمندگی کی وجہ سے سُرخی آ جاتی ہے۔ پھر مجھے پتہ چلتا ہے کہ میری ”دھیمی آواز“ بہت ہی اُونچی تھی۔اکثر بچے بھی میری مدد کرتے ہیں۔ جب ہم ایک کلیسیا میں پہلی بار حاضر ہوئے تو ایک ۹ سالہ لڑکے نے دیکھا کہ کئی بہن بھائی میرے ساتھ بات کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ اُس نے کچھ کرنے کا اِرادہ کر لیا اور میرے پاس آ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے ہال کے بیچ میں کھڑا کر کے اُونچی آواز میں کہنے لگا: ”آئیے آئرین سے ملیں—وہ بہری ہے!“ اُسکے بعد سب آ کر مجھ سے ملنے لگتے۔
مَیں اپنے خاوند کیساتھ مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرتی ہوں اور میرے دوستوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آجکل میری زندگی اُس وقت سے کتنی مختلف ہے جب مَیں تنہااور ٹھکرائی ہوئی محسوس کِیا کرتی تھی۔ جب سے کولیٹ اور ہرمین نے مجھے وہ تحریر دی تھی مَیں نے سچی دوستی کی طاقت کا تجربہ کِیا ہے اور ایسے لوگوں سے ملی ہوں جو میرے لئے خاص اہمیت رکھنے لگے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مَیں یہوواہ کو جاننے لگی ہوں جو میرا سب سے پیارا دوست ہے۔ (رومیوں ۸:۳۸، ۳۹) اُس مختصر سی تحریر نے میری زندگی کو کیسے بدل دیا ہے!
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
منادی کے کام میں اور اپنے خاوند ہیری کیساتھ
[صفحہ ۲۵ پر تصویریں]
مجھے اپنے پسندیدہ کھلونے کی آواز یاد ہے