”جاگتے رہو“!
”جاگتے رہو“!
”جو کچھ مَیں تم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو۔“ —مرقس ۱۳:۳۷۔
۱، ۲. (ا) اپنے مالودولت کی حفاظت کے سلسلے میں ایک آدمی نے کیا سبق سیکھا؟ (ب) جاگتے رہنے کے سلسلے میں ہم یسوع کی چور کی تمثیل سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
خوان اپنی قیمتی اشیا اپنے گھر میں رکھتا تھا۔ اُس نے یہ چیزیں اپنے پلنگ کے نیچے یہ سوچ کر رکھیں تھیں کہ یہ جگہ گھر میں سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ ایک رات، جب وہ اور اُس کی بیوی سو رہے تھے تو ایک چور اُن کے کمرے میں داخل ہوا۔ بدیہی طور پر، اِس چور کو یہ پتہ تھا کہ اِن چیزوں کی تلاش کہاں کی جائے۔ اس لئے وہ چپکے سے تمام چیزوں کو پلنگ کے نیچے سے نکالتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ خوان نے جو روپے پلنگ کے ساتھ دراز میں رکھے تھے چور وہ بھی چرا لیتا ہے۔ اگلی صبح، جب خوان کو اس چوری کی خبر ہوتی ہےتو جو تکلیفدہ سبق اُس نے سیکھا ہے وہ اُسے مُدتوں تک یاد رہے گا: ایک خوابیدہ انسان اپنے مالودولت کی حفاظت نہیں کر سکتا۔
۲ روحانی اعتبار سے بھی یہ بات سچ ہے۔ اگر ہم روحانی طور پر سو گئے ہیں تو ہم اپنے ایمان اور اُمید کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ لہٰذا پولس تاکید کرتا ہے: ”پس اَوروں کی طرح سو نہ رہیں بلکہ جاگتے اور ہوشیار رہیں۔“ (۱-تھسلنیکیوں ) یسوع نے جاگتے رہنے کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے ایک چور کی تمثیل کو استعمال کیا۔ اُس نے اُن واقعات کو اُجاگر کِیا جو اُس کے منصف کے طور پر آنے کا سبب بنیں گےچنانچہ وہ آگاہی دیتا ہے: ”پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا۔ لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئیگا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔ اِسلئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمکو گمان بھی نہ ہوگا ابنِآدم آ جائیگا۔“ ( ۵:۶متی ۲۴:۴۲-۴۴) ایک چور اپنی آمد کی پیشگی اطلاع نہیں دیتا۔ وہ اُس وقت آتا ہے جب کسی کہ وہموگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اِسی طرح، یسوع کے بیان کے مطابق اس دستوراُلعمل کا خاتمہ اُس دن آئیگا ’جس گھڑی ہمیں گمان بھی نہ ہوگا۔‘
”جاگتے رہو، ایمان میں قائم رہو“
۳. یسوع نے تمثیل کا استعمال کرتے ہوئے جاگتے رہنے کی اہمیت کو کیسے اُجاگر کِیا؟
۳ لوقا کی انجیل میں درج بیان میں، یسوع مسیحیوں کا موازنہ اُن نوکروں کے ساتھ کرتا ہے جو اپنے مالک کے شادی سے لوٹنے کے انتظار میں ہیں۔ اُنہیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ جب اُن کا مالک آتا ہے تو وہ جاگتے ہوئے پائے جائیں اور اُسے خوشآمدید کہہ سکیں۔ اِسی طرح یسوع نے کہا: ”کیونکہ جس گھڑی تمہیں گمان بھی نہ ہوگا ابنِآدم آ جائے گا۔“ (لوقا ۱۲:۴۰) بعض جو بہت عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں وہ ہمارے موجودہ زمانے کی اہمیت کھو سکتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ابھی اِس دستوراُلعمل کے خاتمے میں بہت دیر باقی ہے۔ لیکن ایسی سوچ ہماری توجہ کو روحانیت سے ہٹا کر مادی چیزوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اِس قسم کا انتشارِخیال ہمیں روحانی طور پر سُست کر دے گا۔—لوقا ۸:۱۴؛ ۲۱:۳۴، ۳۵۔
۴. ہمیں کونسا اعتقاد جاگتے رہنے کی تحریک دے گا اور یسوع نے اِسے کس طرح اُجاگر کِیا؟
۴ ہم یسوع کی تمثیل سے ایک اور سبق بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ نوکروں کو یہ تو نہیں پتہ تھا کہ اُن کا مالک رات کے کس پہر آئیگا لیکن وہ اُس رات کے بارے میں ضرور جانتے تھے۔ رات بھر اُن سب کے لئے جاگنا مشکل کا باعث ہو سکتا تھا اگر وہ یہ سوچتے کہ اُن کا مالک کسی اَور رات کو آئے گا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ کس رات آنے والا ہے اور اِسی بات نے اُن کو جاگتے رہنے کی عمدہ وجہ فراہم کی تھی۔ اِس طرح، بائبل کی پیشینگوئیاں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ہم اخیر زمانہ میں رہ رہے ہیں لیکن یہ اُس گھڑی اور دن کی بابت کچھ نہیں بتاتیں۔ (متی ۲۴:۳۶) ہمارا یہ ایمان کہ خاتمہ جلد آ رہا ہے ہماری جاگتے رہنے میں مدد کرتا ہے، لیکن اگر ہم اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ اُس کے آنے کا دن واقعی قریب ہے تو یہ ہمیں اور بھی ثابتقدمی کیساتھ جاگتے رہنے کی تحریک دیگا۔—صفنیاہ ۱:۱۴۔
۵. ہم پولس کی ”جاگتے رہو“ کی نصیحت پر کیسا ردِعمل دِکھا سکتے ہیں؟
۵ پولس کرنتھیوں کی کلیسیا کو لکھتے ہوئے نصیحت کرتا ہے: ”جاگتے رہو۔ ایمان میں قائم رہو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۱۳) جیہاں، جاگتے رہنے کا تعلق ہمارے پُختہ مسیحی ایمان سے ہے۔ ہم کس طرح جاگتے رہ سکتے ہیں؟ خدا کے علم کا گہرا مطالعہ کرنے سے ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴، ۱۵) اس لئے ذاتی مطالعے کی اچھی عادات اور اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری سے ہمارے ایمان کو تقویت ملے گی۔ یہوواہ کے دن کو اپنے ذہن میں رکھنا ہمارے ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔ پس وقتاًفوقتاً صحائف کا جائزہ لینے سے ہمیں یہ ثبوت فراہم ہوگا کہ ہم اس دستوراُلعمل کے خاتمہ کے بالکل قریب ہیں۔ * اِس کے ساتھ ہی ساتھ صحائف خاتمے کی بابت حقیقت کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے میں بھی ہماری مدد کریں گے۔ اس لئے دُنیا کے واقعات کا جائزہ لیتے رہنا بہتر ہے کیونکہ یہ بائبل کی پیشینگوئیوں کو پورا کر رہے ہیں۔ جرمنی سے ایک بھائی نے لکھا: ”جب بھی میں خبریں دیکھتا ہوں تو جنگیں، زلزلے، تشدد، اور زمین پر آلودگی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ خاتمہ بہت قریب ہے۔“
۶. یسوع کی تمثیل کے مطابق، وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم کیسے روحانی طور پر سُست پڑ سکتے ہیں؟
۶ مرقس ۱۳ باب، میں ہمیں یسوع کی ایک اور نصیحت ملتی ہے کہ اُس کے پیروکار جاگتے رہیں۔ اِس باب کے مطابق، یسوع نے اُن کا موازنہ ایک دربان سے کِیا جو اپنے مالک کے پردیس سے لوٹنے کے انتظار میں ہے۔ یہ دربان اپنے مالک کے لوٹنے کے وقت کی بابت کچھ نہیں جانتا تھا۔ اُسے صرف جاگتے رہنے کی ضرورت تھی۔ یسوع نے چار مختلف پہروں کا ذکر کِیا جس میں شاید مالک آ سکتا تھا۔ چوتھا پہرا صبح تین بجے سے سورج کے طلوع ہونے تک تھا۔ اِس آخری پہر میں دربان پر نیند آسانی سے غلبہ پا سکتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، فوجی بےخبر دُشمن کو پکڑنے کیلئے اِسی وقت کو مناسب قرار دیتے ہیں۔ اِسی طرح، خاتمے کے آخری دِنوں میں رہتے ہوئے ہمارے اِردگرد کی دُنیا روحانی طور پر گہری نیند سو رہی ہے، اِسلئے ہمیں جاگتے رہنے میں پہلے سے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ (رومیوں ۱۳:۱۱، ۱۲) اس لئے اپنی تمثیل میں یسوع اِس نصیحت کو دُہراتا ہے: ”جاگتے اور دُعا کرتے رہو . . . پس جاگتے رہو . . . اور جو کچھ مَیں تم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو۔“—مرقس ۱۳:۳۲-۳۷۔
۷. آجکل کونسا حقیقی خطرہ موجود ہے اور اس کے پیشِنظر ہم بائبل میں بار بار کیا حوصلہافزائی پاتے ہیں؟
۷ یسوع نے اپنی خدمتگزاری میں بہت مرتبہ اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد بھی مستعدی کے ساتھ ہوشیار رہنے کی تاکید کی تھی۔ درحقیقت، صحائف جب بھی اس نظامالعمل کے خاتمے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہیں، تو وہاں ہمیں جاگتے رہنے کی آگاہی ملتی ہے۔ * (لوقا ۱۲:۳۸، ۴۰؛ مکاشفہ ۳:۲؛۱۶:۱۴-۱۶) بِلاشُبہ، روحانی غنودگی بہت بڑا خطرہ ہے۔ اِس لئے ہمیں اِن تمام آگاہیوں کی ضرورت ہے!—۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۲، ۶۔
تین شاگرد جو جاگتے رہنے میں ناکام رہے
۸. گتسمنی باغ میں تین شاگردوں نے یسوع کی جاگتے رہنے کی درخواست پر کیسا ردِعمل دِکھایا؟
۸ جاگتے رہنا نیک ارادوں سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے، جِسے ہم پطرس، یعقوب اور یوحنا کی مثال سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ تینوں روحانی انسان تھے اور وفاداری سے یسوع کے پیچھے چلنے کیساتھ ساتھ اُس سے گہری اُلفت بھی رکھتے تھے۔ اِس کے باوجود وہ ۱۴ نیسان، ۳۳ س.ع. کی رات کو جاگتے رہنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ اُس کمرے کو چھوڑنے کے بعد جہاں وہ فسح منا رہے تھے، یسوع اپنے تین شاگردوں کیساتھ گتسمنی باغ میں آتا ہے۔ یہاں یسوع اُن سے کہتا ہے: ”میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔“ (متی ۲۶:۳۸) یسوع نے اپنے آسمانی باپ سے تین مرتبہ دِلسوزی سے دُعا کی، اور تینوں بار اپنے شاگردوں کے پاس آ کر اُنہیں سوتے پایا۔—متی ۲۶:۴۰، ۴۳، ۴۵۔
۹. شاگردوں پر نیند طاری ہونے کی کِیا وجوہات ہو سکتی تھیں؟
۹ اِن تین وفادار شاگردوں نے اُس رات یسوع کو کیوں مایوس کِیا؟ جسمانی تھکاوٹ ایک عنصر تھی۔ رات بہت ہو چکی تھی، شاید آدھی رات سے بھی زیادہ، اسلئے ”اُنکی آنکھیں نیند سے بھری تھیں۔“ (متی ۲۶:۴۳) اِس کے باوجود یسوع کہتا ہے: ”جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔ رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔“—متی ۲۶:۴۱۔
۱۰، ۱۱. (ا) کس چیز نے یسوع کی تھکاوٹ کے باوجود گتسمنی باغ میں جاگتے رہنے میں مدد کی تھی؟ (ب) جب یسوع نے شاگردوں کو جاگتے رہنے کی بابت کہا تو ہم اِس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۱۰ بِلاشُبہ، یسوع بھی اُس اہم رات کو تھکا ہوا تھا۔ سونے کی بجائے اُس نے آزادی کے آخری لمحات پُرجوش دُعا میں صرف کئے۔ کچھ دنوں پہلے اُس نے اپنے پیروکاروں کو دُعا کرنے کی نصیحت کی اور کہا: ”پس ہر وقت جاگتے اور دُعا کرتے رہو تاکہ تم کو اِن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو۔“ (لوقا ۲۱:۳۶؛ افسیوں ۶:۱۸) اگر ہم یسوع کی نصیحت اور دُعا کے معاملے میں اُسکے اچھے نمونے پر عمل کرتے ہیں تو یہوواہ سے ہماری مخلص درخواستیں ہمیں روحانی طور پر جاگتے رہنے میں مدد دینگی۔
۱۱ بیشک، یسوع یہ جانتا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں اُسے گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی جائے گی لیکن اُس کے شاگرد یہ نہیں جانتے تھے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اِن واقعات کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ کر دیا تھا کہ اُس کی آزمائشوں کا عروج سولی پر تکلیفدہ موت پر ہوگا لیکن وہ اُس کی باتوں کو نہیں سمجھے کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ نتیجتاً، وہ سو گئے اور وہ جاگتے رہ کر دُعا کر رہا تھا۔ (مرقس ۱۴:۲۷-۳۱؛ لوقا ۲۲:۱۵-۱۸) لہٰذا شاگردوں کی بابت یہ سچ تھا اور ہمارا جسم بھی کمزور ہے اور کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو ہم نہیں جانتے۔ اگر ہم اخیر زمانہ میں سُست پڑ جاتے ہیں تو ہم روحانی اعتبار سے سو سکتے ہیں۔ ہم صرف ہوشیاروبیدار رہنے سے ہی ہم جاگتے رہ سکتے ہیں۔
تین اہم خوبیاں
۱۲. پولس کے مطابق ہوشیار رہنے میں کونسی تین خوبیاں ہماری مدد کرتی ہیں؟
۱۲ ہم کس طرح چوکس رہ سکتے ہیں؟ ہم نے دُعا اور یہوواہ کے دن کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ بہرحال، پولس تین ایسی خوبیوں کا ذکر کرتا ہے جن کو ہمیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”مگر ہم جو دِن کے ہیں ایمان اور محبت کا بکتر لگا کر اور نجات کی اُمید کا خود پہن کر ہوشیار رہیں۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۸) آئیے ایمان، اُمید، اور محبت کی خوبیوں کا جائزہ لیں جو ہمیں روحانی طور پر جاگتے رہنے میں مدد دیتی ہیں۔
۱۳. ایمان چوکس رہنے میں کس طرح اہم کردار ادا کرتا ہے؟
۱۳ ہمارا غیرمتزلزل ایمان ہونا چاہئے کہ یہوواہ موجود ہے ”اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶) پہلی صدی میں یسوع کی اخیر زمانہ کی بابت تمام پیشینگوئیاں پوری ہوئیں اور ہمارے زمانہ میں اِسکی بڑی تکمیل سے ہمارے ایمان کو تقویت ملتی ہے۔ اِس طرح ہمارا ایمان ہمیں یہوواہ کے دِن کا منتظر رہنے میں مدد دیتا ہے، درحقیقت ”[یہ نبوتی رویا] یقیناً وقوع میں آئیگی۔ تاخیر نہ کریگی۔“—حبقوق ۲:۳۔
۱۴. اُمید جاگتے رہنے میں کس طرح اہم کردار ادا کرتی ہے؟
عبرانیوں ۶:۱۸، ۱۹) مارگریٹ، ۹۰ سالہ روح سے مسحشُدہ ایک بہن ہے جس نے ۷۰ سال پہلے بپتسمہ لیا تھا۔ وہ تسلیم کرتی ہے: ”جب میرا خاوند ۱۹۶۳ میں کینسر کی وجہ سے مر رہا تھا تو میرا جی چاہتا تھا کہ خاتمہ جلد سے جلد آ جائے۔ لیکن اب مَیں یہ سمجھ گئی ہوں کہ اُس وقت مَیں صرف اپنے مفادات کی بابت سوچتی تھی۔ اُس وقت ہمارے ذہن میں یہ بات بالکل نہیں تھی کہ منادی کا کام پوری دُنیا میں پھیل جائے گا۔ آجکل بھی کئی جگہوں پر منادی کا کام صرف شروع ہو رہا ہے۔ اِسلئے میں بہت خوش ہوں کہ یہوواہ نے صبر کا مظاہرہ کِیا ہے۔“ پولس رسول ہمیں یقین دلاتا ہے: ”صبر سے پختگی اور پختگی سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔ اور اُمید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی۔“—رومیوں ۵:۳-۵۔
۱۴ پُختہ اُمید ”ہماری جان کا ایسا لنگر ہے“ جو ہمیں یہوواہ کے وعدوں کی تکمیل کے لئے انتظار کی صورت میں بھی مشکلات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ (۱۵. محبت ہمیں بظاہر طویل عرصے سے انتظار کرنے کے باوجود کسطرح تحریک دیگی؟
۱۵ مسیحی محبت ایک نمایاں خوبی ہے کیونکہ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اِسی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ ہم کسی ٹائمٹیبل سے قطعنظر یہوواہ سے محبت کی وجہ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۳) محبت برداشت کرنے اور جاگتے رہنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ ”[محبت] سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں۔“—۱-کرنتھیوں ۱۳:۷، ۸۔
سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ ہمسائے سے محبت ہمیں بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ جب تک خدا اِس کام کو جاری رکھنا چاہتا ہے ہم منادی کا یہ کام کرتے رہیں گے خواہ اِس کیلئے ہمیں بار بار اُنہی لوگوں کے گھر دوبارہ کیوں نہ جانا پڑے۔ جیسا پولس نے لکھا، ”غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت ہے۔“ (”جو کچھ تیرے پاس ہے اُسے تھامے رہ“
۱۶. ہمیں سُست پڑنے کی بجائے کس قسم کا رحجان ظاہر کرنا چاہئے؟
۱۶ آجکل ہم ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جس میں دُنیا کے واقعات ہمیں لگاتار یہ یاددہانی کراتے ہیں کہ ہم اس اخیر زمانہ کے اختتام پر ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) اِسلئے ہمیں اب ڈھیلے ہاتھوں سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ ’جو کچھ ہمارے پاس ہے اُسے تھامے رہنا‘ چاہئے۔ (مکاشفہ ۳:۱۱) ”دُعا کرنے کے لئے تیار“ اور ایمان، اُمید اور محبت کو فروغ دینے سے ہم یہ ثابت کرینگے کہ ہم امتحان کی گھڑی کیلئے تیار ہیں۔ (۱-پطرس ۴:۷) ہمارے پاس خداوند کے کام میں افزائش کرنے کیلئے بہت کام ہے۔ اِسلئے خدائیعقیدت کے کاموں میں مصروف رہنا ہمیں جاگتے رہنے میں مدد دیگا۔—۲-پطرس ۳:۱۱۔
۱۷. (ا) ہمیں وقتی مایوسیوں سے دلبرداشتہ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ (صفحہ۲۱ پر بکس کو دیکھے) (ب) ہم کسطرح یہوواہ کی نقل کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے لئے کونسی برکات منتظر ہیں؟
۱۷ ”میرا بخرہ [یہوواہ] ہے،“ یرمیاہ نے لکھا، ”اس لئے میری اُمید اُسی سے ہے۔ [یہوواہ] اُن پر مہربان ہے جو اُس کے منتظر ہیں۔ اُس جان پر جو اُس کی طالب ہے۔ یہ خوب ہے کہ آدمی اُمیدوار رہے اور خاموشی سے [یہوواہ] کی نجات کا انتظار کرے۔“ (نوحہ ۳:۲۴-۲۶) ہم میں سے بعض تھوڑے عرصہ سے اور بعض کئی سالوں سےیہوواہ کی نجات کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب ہم انتظار کی مدت کا ابدیت سے موازنہ کرتے ہیں تو یہ بہت مختصر لگتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۱۶-۱۸) چنانچہ جب ہم یہوواہ کے وقت کا انتظار کرتے ہیں تو ہمیں عمدہ مسیحی خوبیوں کو بڑھانا چاہئے اور دوسروں کو سچائی سیکھنے اور ترقی کرنے میں مدد کرنی چاہئے۔ یہواوہ ابھی صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے اِس لئے ہمیں جاگتے رہنے کی ضرورت ہے۔ دُعا ہے کہ ہم سب یہوواہ کی نقل کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کریں اور اُس اُمید کے شکرگزار ہوں جو اُس نے ہمیں دی ہے۔ اِسی طرح سے اگر ہم وفاداری کے ساتھ ہوشیار رہینگے تو ہم ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کو تھامے رہ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ نبوتی الفاظ ہم پر لاگو ہوں گے: ”[یہوواہ] تجھے سرفراز کر کے زمین کا وارث بنائیگا۔ جب شریر کاٹ ڈالے جائیں گے تو تُو دیکھے گا۔“—زبور ۳۷:۳۴۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 شہادت کے اُن چھ پہلوؤں کا جائزہ لینا مددگار ثابت ہوگا جو ”اخیر زمانہ“ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ جنوری ۱۵،۲۰۰۰ کے مینارِنگہبانی کے شمارے صفحہ ۱۲-۱۳ پر شائع ہوئے تھے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۔
^ پیراگراف 7 یونانی لفظ ”جاگتے رہو“ کا حوالہ دیتے ہوئے لغتنویس ڈبلیو. ای. وائن وضاحت کرتا ہے کہ اس کا حقیقی مطلب ’نیند کو دُور بھگانا‘ ہے، اور ”یہ جاگتے رہنے کیساتھ ساتھ چوکس رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہم اپنے یقین کو کسطرح تقویت دے سکتے ہیں کہ اِس نظامالعمل کا خاتمہ قریب ہے؟
• ہم پطرس، یقوب اور یوحنا کی مثالوں سے کیا سیکھ سکھتے ہیں؟
• روحانی طور پر ہوشیار رہنے میں کونسی تین خوبیاں ہماری مدد کرتی ہیں؟
• ’جو کچھ ہمارے پاس ہے اُسے تھامے رہنے‘ کا وقت ابھی کیوں ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۱ پر بکس/تصویر]
”مبارک ہے وہ جو انتظار کرتا ہے۔“—دانیایل ۱۲:۱۲
ذرا تصور کریں، جب ایک نگہبان کو یہ شک ہوکہ اُس کی جائےملازمت کی جگہ پر ایک چور چوری کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ چنانچہ جب رات ہوتی ہے تو نگہبان بڑی ہوشیاری کیساتھ ہر ایک آواز کو سنتا ہے کہ شاید چور کے آنے کی آواز اُسے سنائی دے۔ وہ اپنے کانوں اور آنکھوں کو گھنٹوں چوکنا رکھتا ہے۔ اُس کے کان بجنے لگتے ہیں اور وہ معمولی سی آواز پر بھی چونک جاتا ہے جو شاید پتوں کی سرسراہٹ، بلی کا گزرنا یا ہوا کے چلنے کی آواز بھی ہو سکتی ہے۔—لوقا ۱۲:۳۹، ۴۰۔
اِسی طرح اُن کیساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے جو ”ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے ظہور کے منتظر“ ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۷) رسولوں کا خیال تھا کہ یسوع اپنے مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد ”اسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کریگا۔“ (اعمال ۱:۶) کئی سالوں بعد، تھسلنیکیوں کی کلیسیا کو یہ یادہانی کروائی گئی تھی کہ یسوع کی موجودگی آنے والے مستقبل میں ہوگی۔ (۲-تھسلنیکیوں ۲:۳، ۸) تاہم، یسوع کے ابتدائی پیروکار یہوواہ کے دن کی بابت اپنی توقعات کے پورا نہ ہونے کے باوجود زندگی کے راستے سے نہیں مڑے تھے۔—متی ۷:۱۳۔
آجکل ہمیں بھی اِس نظامالعمل کا خاتمہ آنے میں ظاہری تاخیر کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اِسے ہمیں ہوشیار رہنے سے بھی نہیں روکنا چاہئے۔ نگہبان شاید ایسے ہی جھوٹے خطرے سے دھوکا کھا جاتا، تاہم اُسے جاگتے رہنا تھا! یہ اُس کا کام تھا۔ آج مسیحیوں کے سلسلے میں بھی اِیسا ہی ہے۔
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
کِیا آپ کو پورا یقین ہےکہ یہوواہ کا دن قریب ہے؟
[صفحہ ۱۹ پر تصویریں]
اجلاس، دُعا اور مطالعے کی عمدہ عادات ہمیں جاگتے رہنے میں مدد دیتی ہیں
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
مارگریٹ کی طرح، ہم بھی صبر اور سرگرمی سے بیدار رہ سکتے ہیں