مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُکھ اٹھانے والوں کیلئے اُمید

دُکھ اٹھانے والوں کیلئے اُمید

دُکھ اٹھانے والوں کیلئے اُمید

صدیوں سے فلاسفر اور عالمِ‌دین اِس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ خدا بُرائی کی اجازت کیوں دیتا ہے۔‏ بعض کی رائے میں خدا بُرائی کا ذمہ‌دار ہے اِسلئے کہ وہ قادرِمطلق ہے۔‏ دوسری صدی کے عالمِ‌دین کلیمنٹ کا دعویٰ تھا کہ خدا دونوں ہاتھوں سے دُنیا پر حکومت کرتا ہے۔‏ شیطان اُس کا ”‏بایاں ہاتھ“‏ ہے جس کے ذریعے وہ اذیت پہنچاتا ہے اور یسوع اُس کا ”‏دایاں ہاتھ“‏ ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو برکت اور نجات دلاتا ہے۔‏

ایسے لوگ بھی ہیں جو اِس بات کا تصور ہی نہیں کر سکتے کہ خدا تکلیف کی اجازت دے سکتا ہے۔‏ وہ سمجھتے ہیں کہ تکالیف محض انسانی وہم ہیں۔‏ میری بیکر ایڈی اپنی کتاب میں دعویٰ کرتی ہے کہ ’‏اصل میں دُکھ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔‏ یہ صرف ہمارا وہم ہے۔‏ اگر ہم گناہ،‏ بیماری اور موت کے وجود کو نہ مانیں تو یہ بالکل ختم ہو جائینگے۔‏‘‏—‏سائنس اینڈ ہَیلتھ وِتھ کی ٹو دی سکرِپچرز

بہتیروں نے تاریخ کے مایوس‌کن واقعات اور خاص طور پر پہلی عالمی جنگ سے لیکر حالیہ واقعات پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خدا تکلیف کو روکنے کے قابل ہی نہیں ہے۔‏ ایک عالم نے لکھا کہ اسکے خیال میں دوسری عالمی جنگ کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ خدا برائی کو ختم کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔‏ ورنہ وہ نیک ہونے کے باوجود تکلیف کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟‏

اِن دعوؤں کے مطابق لوگ خدا کو تکالیف کا باعث بناتے ہیں یا وہ کہتے ہیں کہ خدا اذیتوں کو روکنے کے قابل نہیں ہے یا پھر وہ سوچتے ہیں کہ تکالیف محض ایک وہم ہیں۔‏ بھلا ایسے دعوؤں سے وہ لوگ جو ابھی دُکھ اُٹھا رہے ہیں کیسے تسلی پا سکتے ہیں؟‏ اِس کے علاوہ یہ عقیدے اُس خدا کی شخصیت کے بالکل برعکس ہیں جسکے بارے میں ہم بائبل میں پڑھتے ہیں کہ وہ انصاف پسند،‏ پُرمحبت اور قدرت والا ہے۔‏ (‏ایوب ۳۴:‏۱۰،‏ ۱۲؛‏ یرمیاہ ۳۲:‏۱۷؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ پھر بائبل ہمیں اِسکے بارے میں کیا بتاتی ہے کہ خدا نے تکلیف کی اجازت کیوں دی ہے؟‏

تکلیف کا آغاز کیسے ہوا

خدا نے انسان کو دُکھ سہنے کیلئے خلق نہیں کیا تھا۔‏ اِس کے برعکس اُس نے پہلے انسانی جوڑے،‏ آدم اور حوا کو ایک کامل ذہن اور بدن عطا کیا،‏ اُنکو ایک خوبصورت باغ میں رکھا اور اُنکو ایک معنی‌خیز اور تسلی‌بخش کام دیا۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷،‏ ۲۸،‏ ۳۱؛‏ ۲:‏۸‏)‏ مگر اس خوشی کو ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے انکو دو باتوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت تھی۔‏ خدا حاکمِ‌اعلیٰ ہونے کے علاوہ یہ بتانے کا حق رکھتا ہے کہ اچھا اور بُرا کیا ہے۔‏ اِس بات کو ایک درخت سے آشکارہ کیا گیا تھا جسکا نام ’‏نیک‌وبد کی پہچان کا درخت‘‏ تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۷‏)‏ خدا نے آدم اور حوا کو حکم دیا تھا کہ وہ اِس درخت سے نہ کھائیں۔‏ اِس حکم کی فرمانبرداری کرنے سے وہ واضح طور پر خدا کیلئے اپنی تابعداری ظاہر کر سکتے تھے۔‏ *

افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا خدا کا کہنا ماننے میں ناکام رہے۔‏ شیطان کے طور پر مشہور ہو جانے والے ایک فرشتے نے حوا کو یقین دلایا کہ خدا کے حکم کی تعمیل کرنا اُس کے لئے فائدہ‌مند نہیں تھا بلکہ خدا اُس کو ایک بہترین چیز سے محروم رکھ رہا تھا۔‏ وہ کیا چیز تھی؟‏ وہ خودمختاری یعنی اخلاقی طور پر اپنے لئے اچھے اور بُرے کے درمیان انتخاب کرنے کی آزادی تھی۔‏ شیطان کے دعویٰ کے مطابق اُس درخت سے پھل کھانے کے ساتھ ہی حوا کی ’‏آنکھیں کُھل جائیں گی اور وہ خدا کی مانند نیک‌وبد کی جاننے والی بن جائے گی۔‏‘‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ یہ بات حوا کو اچھی لگی اور اس نے ممنوعہ درخت سے پھل لے کر کھا لیا اور بعد میں آدم نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏

اُس روز سے آدم اور حوا بغاوت کے بُرے اثرات کو محسوس کرنے لگے۔‏ اگر وہ خدا کے تابع رہتے تو وہ اُنکو برکت دیتا اور اُنکی حفاظت بھی کرتا۔‏ مگر الہٰی حکمرانی کو ترک کرنے کیساتھ ساتھ وہ خدائی تحفظ اور برکات سے بھی محروم ہو گئے۔‏ خدا نے اُن کو فردوس سے نکال دیا اور آدم سے کہا کہ ”‏زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔‏ مشقت کیساتھ تُو اپنی عمر بھر اُس کی پیداوار کھائے گا۔‏ تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لوٹ نہ جائے۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۷،‏ ۱۹‏)‏ آدم اور حوا دُکھ محسوس کرنے لگے،‏ وہ بیمار اور بوڑھے ہونے لگے اور آخرکار اُنکو موت کا مزا چکھنا پڑا۔‏ اِس طرح تکلیف انسانی وجود کا ایک اہم حصہ بن گئی۔‏—‏پیدایش ۵:‏۲۹‏۔‏

مسئلے کا حل

شاید کوئی یہ پوچھے کہ ’‏کیا خدا آدم اور حوا کے گناہ کو نظرانداز نہیں کر سکتا تھا؟‏‘‏ خدا ایسا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اُس کے اختیار کے خلاف بغاوت ہوئی تھی۔‏ اگر وہ ایسا کرتا تو باقی مخلوق بھی خدا کے اختیار کی بےادبی کرنے لگتی جس کے نتیجے میں بغاوت اور دُکھ‌درد میں اَور بھی زیادہ اضافہ ہو جاتا۔‏ (‏واعظ ۸:‏۱۱‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ اُن کی نافرمانی کو نظرانداز کرنے سے خدا آدم اور حوا کے گناہ میں شریک ہو جاتا۔‏ موسیٰ نے توریت میں خدا کی بابت لکھا ہے:‏ ”‏اُس کی صنعت کامل ہے۔‏ کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔‏ وہ منصف اور برحق ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴‏)‏ اگر خدا آدم اور حوا کو نافرمانی کے بُرے اثرات محسوس کرنے کی اجازت نہ دیتا تو وہ خود اپنے اُصولوں کی خلاف‌ورزی کرتا۔‏ اِس لئے اُس کو ایسا کرنا لازمی تھا۔‏

تاہم خدا نے آدم اور حوا اور اُن کو ورغلانے والے فرشتہ یعنی شیطان کو فوراً ختم کیوں نہیں کر دیا؟‏ وہ ایسا کرنے کی قوت تو رکھتا تھا۔‏ پھر آدم اور حوا ایسی اولاد بھی پیدا نہیں کر سکتے تھے جسکی وراثت تکلیف اور موت ہوتی۔‏ لیکن اگر خدا ایسا کرتا تو یہ صرف الہٰی قدرت کا مظاہرہ ہوتا۔‏ اِس سے یہ بات ثابت نہ ہوتی کہ خدا اپنی مخلوق پر اختیار جتانے کا حقدار بھی ہے۔‏ اِسکے علاوہ،‏ اگر آدم اور حوا بچے پیدا کرنے کے بغیر مر جاتے تو یہ بات ثابت ہو جاتی کہ خدا زمین کو اُنکی کامل اولاد سے معمور کرنے کے اپنے مقصد کو پورا نہیں کر سکتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸‏)‏ مگر،‏ ”‏خدا انسان نہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ کہ جو کچھ اُس نے کہا ہے اُسے نہ کرے؟‏ یا جو فرمایا ہے اسے پورا نہ کرے؟‏“‏—‏گنتی ۲۳:‏۱۹‏۔‏

خدا کامل حکمت کا مالک ہے اِس لئے اُس نے بغاوت کو مختصر عرصہ تک برداشت کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔‏ اِس طرح خدا نے باغیوں کو کافی وقت دے دیا کہ وہ اُس سے جُدا رہ کر دیکھ سکیں کہ آیا وہ اُس کی حکمرانی کے بغیر کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں۔‏ مستقبل میں جو کچھ ہونا تھا اُس سے بِلا شک‌وشُبہ ظاہر ہو جاتا کہ انسان کو الہٰی رہنمائی کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ خدا کی حکومت کا درجہ انسانی یا شیطان کی حکومت سے بہت اُونچا ہے۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ خدا نے زمین کے لئے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے بھی اقدام اُٹھانا شروع کر دئے تھے۔‏ اُس نے ایک ”‏نسل“‏ یا اولاد کو بھیجنے کا وعدہ کِیا جو ’‏شیطان کے سر کو کچلے گا‘‏ اور اِس طرح ہمیشہ کے لئے شیطان اور اُسکی بغاوت کے بُرے نتائج کو ختم کر دیگا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱۵‏۔‏

وہ موعودہ نسل یسوع مسیح تھا۔‏ ہم ۱-‏یوحنا ۳:‏۸ میں پڑھتے ہیں کہ ”‏خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہؤا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹائے۔‏“‏ یسوع نے یہ اُس وقت کِیا جب اُس نے اپنی کامل انسانی جان کی قربانی دیکر ہمارے لئے فدیہ مہیا کیا۔‏ فدیہ آدم اور حوا کی اولاد کو موروثی گناہ اور موت سے آزاد کرنے کے قابل تھا۔‏ (‏یوحنا ۱:‏۲۹؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۵،‏ ۶‏)‏ ایسے لوگ جو پورے دل سے یسوع کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں اُنکے لئے یہ وعدہ کِیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے تکلیف سے رہائی حاصل کر سکیں گے۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ مکاشفہ ۷:‏۱۷‏)‏ ایسا کب ہوگا؟‏

تکلیف کا خاتمہ

خدا کے اختیار کو ترک کرنے سے دُنیا میں شدید دُکھ‌درد اور تکلیف پھیل گئی ہے۔‏ اِس وجہ سے یہ مناسب تھا کہ خدا زمین پر اپنے ابتدائی مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنے اختیار کو خاص طریقے سے کام میں لاتے ہوئے انسانی تکلیف کو ختم کر دے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھاتے ہوئے اِس الہٰی انتظام کا ذکر کِیا:‏ ”‏اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے .‏ .‏ .‏ تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏—‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

جس وقت کی خدا نے انسانوں کو اپنے آپ پر حکومت کرنے کی اجازت دی ہے وہ بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔‏ بائبل پیشینگوئی کے مطابق اُس کی بادشاہت ۱۹۱۴ میں آسمان پر قائم کی گئی تھی اور یسوع کو اسکا بادشاہ مقرر کِیا گیا تھا۔‏ * بہت جلد یہ بادشاہت تمام انسانی حکومتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُنکو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیگی۔‏—‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏۔‏

زمین پر اپنی مختصر خدمت کے دوران یسوع نے اُن برکات کی جھلک دکھائی جو اُس وقت انسانیت کے لئے سچ ثابت ہونگی جب خدا دوبارہ پوری دُنیا پر حکمرانی کریگا۔‏ اناجیل اِس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ یسوع اُن لوگوں کیساتھ ہمیشہ دردمندی سے پیش آتا تھا جنکو اذیت پہنچائی جاتی تھی یا جو غریب تھے۔‏ اُس نے بیماروں کو شفا بخشی،‏ بھوکوں کو کھانا کھلایا اور مُردوں کو زندہ کیا۔‏ ہوا اور پانی بھی اُسکا کہنا مانتے تھے۔‏ (‏متی ۱۱:‏۵؛‏ مرقس ۴:‏۳۷-‏۳۹؛‏ لوقا ۹:‏۱۱-‏۱۶‏)‏ اب ذرا تصور کریں کہ یسوع اُس وقت کیا کچھ کرے گا جب وہ اپنے فدیہ کی قربانی کے ذریعے تمام فرمانبردار انسانوں کو فائدہ پہنچائے گا۔‏ بائبل وعدہ کرتی ہے کہ خدا مسیح کی حکومت کے ذریعے ”‏[‏نوعِ‌انسان کی]‏ آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہیگی ہے گی اور نہ ماتم رہیگا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏۔‏

دُکھ میں مبتلا لوگوں کیلئے اُمید

یہ جاننا کتنا تسلی‌بخش ہے کہ ہمارا پُرمحبت اور قادرِمطلق خدا ہماری پرواہ کرتا ہے اور وہ جلد ہی تمام تکالیف کو دور کر دے گا۔‏ عام طور پر جب ایک شخص بہت زیادہ بیمار ہوتا ہے تو وہ ہر تکلیف‌دہ علاج کرانے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے۔‏ اِسی طرح اگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ جس طریقے سے خدا مسئلے کو حل کر رہا ہے اُس سے ابدی برکات حاصل ہونگی تو یہ علم ہمیں ہر اُس مشکل سے نپٹنے کی طاقت دے گا جس کا ہمیں عارضی طور پر سامنا ہے۔‏

ریکارڈو جسکا ذکر پہلے مضمون میں کیا گیا تھا اُس نے بھی بائبل کے وعدوں سے تسلی حاصل کی ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے کہ ”‏اپنی بیوی کی موت کے بعد میرا جی چاہتا تھا کہ میں اپنے آپکو سب سے الگ رکھوں مگر میں جلد ہی سمجھ گیا کہ ایسا کرنے سے میری بیوی واپس نہیں لوٹے گی اور میری جذباتی حالت بھی بگڑتی جائیگی۔‏“‏ اِسکی بجائے ریکارڈو نے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے اور منادی کرنے کے معمول کو برقرار رکھا۔‏ وہ بیان کرتا ہے کہ ”‏جب میں نے محسوس کیا کہ یہوواہ معمولی باتوں میں بھی میری سنتا اور مجھے سہارا دیتا ہے تو اُسکے ساتھ میرا رشتہ اَور بھی زیادہ قریب ہوتا گیا۔‏ میں صرف اس وجہ سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش کو برداشت کر سکا کیونکہ میں خدا کی اُس محبت کو سمجھ گیا تھا جو وہ میرے لئے محسوس کرتا ہے۔‏“‏ آخر میں وہ کہتا ہے کہ ”‏میں ابھی بھی اپنی بیوی کو بہت یاد کرتا ہوں مگر اب میں پکا یقین رکھتا ہوں کہ یہوواہ کبھی ایسی چیز کی اجازت نہیں دیگا جو ہمیں مستقل نقصان پہنچا سکے۔‏“‏

کیا آپ بھی ریکارڈو اور دیگر لاکھوں لوگوں کی طرح اُس وقت کے مشتاق ہیں جب بنی نوع انسان کی موجودہ تکالیف ”‏کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۷‏)‏ ہم آپ کو یقین دلا سکتے ہیں کہ آپ بھی خدا کی بادشاہت کی برکات سے لطف‌اندوز ہو سکتے ہیں اگر آپ بائبل کے اِس مشورے پر عمل کرنے کو تیار ہیں:‏ ”‏جب تک خداوند مل سکتا ہے اُس کے طالب ہو۔‏ جب تک وہ نزدیک ہے اُسے پکارو۔‏“‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۶‏۔‏

ایسا کرنے کیلئے آپکو خدا کے کلام کی پڑھائی اور مطالعہ کرنے کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔‏ خدا اور اُسکے بھیجے ہوئے یسوع کو جاننے کیلئے محنت کریں۔‏ خدائی اُصولوں پر عمل کرنے کی اپنی کوشش کو جاری رکھیں اور یہ ثابت کریں کہ آپ اُسکی حاکمیت کے تابعدار رہنا پسند کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے آپ آزمائشوں کے باوجود بھی زیادہ خوشی محسوس کرینگے اور مستقبل میں آپ ایک ایسی دُنیا میں زندگی بسر کر سکیں گے جس میں دُکھ‌درد کا نام‌ونشان ہی مٹ گیا ہوگا۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 دی جیروصلم بائبل پیدایش ۲:‏۱۷ کے ایک فٹ‌نوٹ میں یہ کہتی ہے کہ ”‏نیک‌وبد کی پہچان“‏ کا مطلب ”‏اچھائی اور برائی کے سلسلے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنا اور اِس فیصلے پر عمل بھی کرنا ہے۔‏ انسان یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتا کہ وہ خلق کیا گیا تھا اِسلئے وہ اخلاقی ذمہ‌داریوں سے بالکل آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔‏ پہلا گناہ خدا کی اعلیٰ حاکمیت کے خلاف بغاوت تھی۔‏“‏

^ پیراگراف 17 اگر آپ ۱۹۱۴ کی بابت بائبل پیشینگوئیوں کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کتاب کے ۱۰ اور ۱۱ باب کو دیکھیں،‏ جس کو یہوواہ کے گواہوں نے شائع کیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر کی عبارت]‏

ہم دُکھ‌درد کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏”‏اپنی ساری فکر [‏خدا]‏ پر ڈال دو۔‏“‏ ‏(‏۱-‏پطرس ۵:‏۷‏)‏ جب ہم خود کو یا اپنے کسی عزیز کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے ہیں تو ہم اکثر یہ سوچتے ہوئے غصہ اور پریشانی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے اور ایسا محسوس کرنا غلط بھی نہیں ہے۔‏ پھر بھی ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے جذبات کو سمجھتا ہے۔‏ (‏خروج ۳:‏۷؛‏ یسعیاہ ۶۳:‏۹‏)‏ قدیم زمانے کے وفادار لوگوں کی طرح ہم بھی دل کھول کر خدا کو اپنی پریشانیاں اور فکریں بتا سکتے ہیں۔‏ (‏خروج ۵:‏۲۲؛‏ ایوب ۱۰:‏۱-‏۳؛‏ یرمیاہ ۱۴:‏۱۹؛‏ حبقوق ۱:‏۱۳‏)‏ شاید وہ معجزانہ طور پر ہماری آزمائشوں کو ختم تو نہ کرے لیکن وہ ہماری دلی دُعاؤں کے جواب میں ہمیں اُن سے نپٹنے کیلئے حکمت اور طاقت ضرور عطا کریگا۔‏—‏یعقوب ۱:‏۵،‏ ۶‏۔‏

‏”‏جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمایش کے لئے تم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اُس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہوئی ہے۔‏“‏ ‏(‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۲‏)‏ یہاں پطرس خاص طور پر مسیح کی خاطر ستائے جانے کی بابت بات کر رہا ہے مگر ہم اِس بیان کا اطلاق ہر اُس مصیبت سے کر سکتے ہیں جس کا باایمان لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ آجکل لوگ بیماری،‏ عزیزوں کی موت اور محرومیت کا سامنا کر رہے ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏وقت اور حادثہ“‏ تمام لوگوں کے لئے ہے۔‏ (‏واعظ ۹:‏۱۱‏)‏ جب ہم کسی آفت کی وجہ سے دُکھ اُٹھاتے ہیں تو یہ جاننا ہمیں مدد دے گا کہ آجکل ایسی باتیں انسانی حالات کا ایک حصہ ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۹‏)‏ تاہم سب سے زیادہ تسلی ہمیں اِس بات کو یاد رکھنے سے ملتی ہے کہ ”‏خداوند [‏یہوواہ]‏ کی نگاہ صادقوں پر ہے۔‏ اور اُس کے کان اُن کی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۱۵؛‏ امثال ۱۵:‏۳؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۲‏۔‏

‏”‏اُمید میں خوش .‏ .‏ .‏ رہو۔‏“‏ ‏(‏رومیوں ۱۲:‏۱۲‏)‏ خدا وعدہ کرتا ہے کہ وہ تمام دُکھ‌درد اور تکلیفوں کو ختم کر دیگا۔‏ ہم چھن جانے والی خوشی کی بابت سوچنے کی بجائے خدا کے وعدے پر غور کر کے اپنی اُمید کو بڑھا سکتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۰‏)‏ ایسی پُختہ اُمید قدیم زمانے میں جنگ کے دوران سپاہی کے سر کو چوٹ سے بچانے والی خود کی طرح ہماری حفاظت کر سکتی ہے۔‏ اُمید اُن آزمائشوں کی شدت کو کم کرتی ہے اور اسطرح تکلیف کے باوجود بھی ہماری ذہنی،‏ جذباتی اور روحانی صحت برقرار رہتی ہے۔‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

آدم اور حوا نے الہٰی حکمرانی کو ترک کر دیا

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

خدا وعدہ کرتا ہے کہ وہ دُنیا سے دُکھ‌درد کو مٹا دیگا