سوالات از قارئین
سوالات از قارئین
یسوع کی موت کی یادگار کو سال میں کتنی مرتبہ منایا جانا چاہئے؟
پولس نے یسوع کی موت کی یادگار منانے کے رواج کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ کہا: ”جب کبھی تم یہ روٹی کھاتے اور اِس پیالے میں سے پیتے ہو تو خداوند کی موت کا اظہار کرتے ہو۔ جب تک وہ نہ آئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۲۵، ۲۶) بعض کے خیال میں ”جب کبھی“ کے اظہار سے مراد یہ ہے کہ یسوع کی موت کی یادگار کو اکثروبیشترمنایا جانا چاہئے۔ اِسلئے وہ اُسکو سال میں صرف ایک بار نہیں بلکہ کئی بار مناتے ہیں۔ کیا پولس یہی کہنا چاہتا تھا؟
جب یسوع نے اپنی موت کی یادگار منانے کو مروّج کیا تو اُس وقت سے اب کوئی ۰۰۰،۲ سال گزر چکے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم اِسکو سال میں صرف ایک مرتبہ بھی مناتے ہیں تو اِسکا مطلب یہ ہے کہ جس سال سے یسوع کی موت واقع ہوئی تھی اُس سال سے لے کر آج تک اسے اکثر منایا جا چکا ہے۔ مگر جب ہم ۱-کرنتھیوں ۱۱:۲۵، ۲۶ کے سلسلۂبیان کو پڑھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پولس یہاں اِس کے بارے میں بات نہیں کر رہا تھا کہ یادگار کو کتنی مرتبہ منایا جانا چاہئے بلکہ وہ اِس کے بارے میں بات کر رہا تھا کہ اِس کو کیسے منایا جانا چاہئے۔ پولس اِس کو یونانی زبان میں لکھ رہا تھا اور اُس نے یہاں یونانی لفظ پولاکِس کو استعمال نہیں کیا جو ”اکثر“ یا ”کئی بار دُہرانے“ کا مفہوم رکھتا ہے۔ اِس کی بجائے اُس نے یونانی لفظ اوساکِس کو استعمال کیا ہے جس کا مطلب ”جب کبھی“، ”جب بھی“ اور ”ہر مرتبہ“ ہے۔ پولس کہنا چاہتا تھا کہ ’جب بھی تم ایسا کرو گے تم اپنے خداوند کی موت کا اظہار کرو گے۔‘ *
پھر ہمیں یسوع کی یاگار کو کتنی بار منانا چاہئے؟ اس کو سال میں ایک ہی مرتبہ منانا مناسب ہے۔ اصل میں یہ ایک ایسے دن کی یادگار ہے جس میں کوئی خاص بات واقع ہوئی تھی اور ایسے دنوں یعنی تہواروں کو عموماً سال میں ایک ہی بار منایا جاتا ہے۔ علاوہازیں، یسوع نے یہودیوں کے فسح کے دن وفات پائی تھی جو سال میں ایک مرتبہ منایا جاتا تھا۔ اِس وجہ سے یہ بالکل مناسب تھا کہ پولس نے یسوع کو ’ہمارا فسح یعنی مسیح‘ کہا تھا۔ یسوع نے اپنی جان کی قربانی دے کر روحانی اسرائیل کیلئے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ بالکل اِسی طرح تاریخ کے سب سے پہلے فسح کے دن پیش کی جانے والی قربانی نے بنی اسرائیل کے پہلوٹھوں کو بچایا تھا اور اُن کو ملکِمصر کی غلامی سے بھی آزاد کِیا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۷؛ گلتیوں ۶:۱۶) یسوع کی موت اور یہودیوں کے سالانہ فسح کی عید ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک اَور ثبوت ہے کہ یسوع کی موت کی یادگار سال میں صرف ایک ہی مرتبہ منایا جانا چاہئے۔
پولس نے یسوع کی موت کو کفارے کے دن کے ساتھ بھی منسلک کِیا تھا جو یہودیوں کا ایک اَور تہوار تھا۔ عبرانیوں ۹:۲۵، ۲۶ میں ہم پڑھ سکتے ہیں کہ ”یہ نہیں کہ وہ [یسوع] اپنے آپ کو باربار قربان کرے جس طرح سردار کاہن پاک مکان میں ہر سال [یومِکفارہ کے روز] دوسرے کا خون لے کر جاتا ہے۔ . . . مگر اب زمانوں کے آخر میں [وہ] ایک بار ظاہر ہؤا تاکہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے گناہ کو مٹا دے۔“ یومِکفارہ کا تہوار سال میں ایک بار منایا جاتا تھا، اسلئے اگر یسوع کی قربانی نے سالانہ یومِکفارہ کی قربانی کی جگہ لے لی ہے تو یسوع کی موت کی یادگار کو بھی سال میں ایک ہی مرتبہ منایا جانا چاہئے۔ اِس یادگار کو سال میں ایک سے زیادہ بارمنانے کیلئے کوئی صحیفائی وجہ موجود نہیں ہے۔
مؤرخ جان لورنس وان موسہم اِس بات پر اتفاقِرائے ظاہر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دوسری صدی میں ایشیائے کوچک کے رہنے والے مسیحی یسوع کی موت کی یادگار کو ”یہودی سال کے پہلے مہینے [نیسان] کے چودھویں دن“ پر منانے کے عادی تھے۔ اِس کے بعد کے سالوں میں ہی دُنیائےمسیحیت میں اِس کو سال میں اکثر منانے کا رواج عام ہو گیا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 اس کا مقابلہ ۱-سموئیل ۱:۳، ۷ کی سرگزشت کے ساتھ کریں۔ وہاں لفظ ”جب کبھی“ (عبرانی زبان کے جدید ترجمے میں) اُن واقعات کا ذکر کرتے ہوئے استعمال ہوتا ہے جو ”سالبسال“ یا سال میں ایک بار منعقد ہوتے تھے۔ یعنی جب القانہ اور اُس کی دونوں بیویاں ہر سال سیلا میں خیمۂاجتماع میں عبادت کیلئے حاضر ہوتے تھے۔