مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پہلے سے بھی زیادہ ہوشیاروبیدار رہیں!‏

پہلے سے بھی زیادہ ہوشیاروبیدار رہیں!‏

پہلے سے بھی زیادہ ہوشیاروبیدار رہیں!‏

‏”‏پس اَوروں کی طرح سو نہ رہیں بلکہ جاگتے اور ہوشیار رہیں۔‏“‏ —‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ پامپائی اور ہرکولینیم کس قسم کے شہر تھے؟‏ (‏ب)‏ پامپائی اور ہرکولینیم کے لوگوں نے کس آگاہی کو نظرانداز کِیا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

پامپائی اور ہرکولینیم۔‏ دو ہزار سال پہلے یہ رومی سلطنت کے دو امیر شہر تھے۔‏ یہ شہر آتش‌فشاں پہاڑ ویسووس کے دامن میں واقع تھے۔‏ یہ جگہیں دولتمندوں کی تفریح کیلئے بہت مشہور تھیں۔‏ اُن شہروں میں بڑی بڑی تماشاگاہیں تھیں۔‏ پامپائی کی تماشاگاہ اتنی بڑی تھی کہ اس میں پورا شہر سما سکتا تھا۔‏ یہ شہر شراب‌خانوں اور جوۓخانوں اور قحبہ‌خانوں سے بھرے تھے۔‏ بداخلاقی اور مادہ‌پرستی عام تھی جسکی تصدیق دیواروں پر منقش تصاویر اور باقی اثریّات سے ہوتی ہے۔‏

۲ ویسووس پہاڑ ۷۹ س.‏ع.‏ میں ۲۴ اگست کو گرجنے لگا۔‏ پہلے دھماکے کی وجہ سے صرف لاوے اور راکھ کی بارش شروع ہوئی۔‏ بہت کم لوگاس آگاہی پر دھیان دےکر بھاگ نکلے۔‏ دوسروں نے آگاہی پر کوئی توجہ نہ دی اور خطرے کو معمولی خیال کِیا۔‏ اچانک آدھی رات کو زوردار دھماکہ ہوا۔‏ لاوے کے سیلاب نے پورے ہرکولینیم کو زندہ دفنا دیا۔‏ اگلی صبح،‏ اِسی طرح کے دھماکے نے پامپائی کے رہنے والوں کو ہلاک کر دیا۔‏ آگاہی پر کان نہ لگانے کا کِیا ہی افسوسناک نتیجہ!‏

یہودی نظام کا خاتمہ

۳.‏ تینوں شہروں کی تباہی کے سلسلے میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے؟‏

۳ اِس سے نو سال پہلے ایسا ہی کچھ یروشلیم کے ساتھ بھی ہوا۔‏ اگرچہ یروشلیم سماوی تباہی کی بجائے انسان کے ہاتھوں برباد ہوا تھا۔‏ رومی فوج نے شہر کو گھیر لیا۔‏ مورخین ”‏محاصرے کو تاریخ کا ہولناک محاصرہ“‏ بتاتے ہیں جسکے مطابق تقریباً دس لاکھ سے زیادہ یہودی ہلاک ہوئے۔‏ یہاں بھی تباہی آنے سے پہلے آگاہی دی گئی تھی۔‏

۴.‏ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کرنے کے لئے کیا نشان دیا اور اُسکی باتیں کیسے پوری ہوئیں؟‏

۴ یسوع مسیح یروشلیم کی بربادی کی پیشینگوئی کر چکا تھا اور اُس نے تباہی سے پہلے رونما ہونے والی جنگوں،‏ قحط‌سالی،‏ زلزلوں اور لاقانونیت جیسے پریشان‌کُن واقعات کی نشاندہی کر دی تھی۔‏ بہت سے جھوٹے نبی سرگرمِ‌عمل ہونگے مگر خدا کی بادشاہی کی خوشخبری تمام دُنیا میں سنائی جائے گی۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴-‏۷،‏ ۱۱-‏۱۴‏)‏ جیسے آجکل وسیع پیمانے پر یسوع کی باتیں پوری ہو رہی ہیں ویسے ہی اُس وقت چھوٹے پیمانے پر رونما ہوئی تھیں۔‏ اعمال ۱۱:‏۲۸ میں لکھا ہے کہ یروشلیم اور اُس کے آس‌پاس کے علاقوں میں واقعی بہت بڑا کال پڑا اور یہودی تاریخ‌دان یوسیفس نے اِنہی علاقوں میں زلزلے کا بھی ذکر کِیا تھا۔‏ یروشلیم کے خاتمے کے کچھ عرصہ پہلے وہاں بغاوتیں،‏ خانہ‌جنگی اور ہنگامہ‌آرائیاں ہونے لگی تھیں اور کئی شہروں میں یہودیوں اور غیرقوم آبادی کے درمیان قتلِ‌عام بھی ہوا۔‏ پھر بھی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی ”‏آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں“‏ ہو رہی تھی۔‏—‏کلسیوں ۱:‏۲۳‏۔‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ یسوع کی کن نبوتی باتوں کی تکمیل ۶۶ س.‏ع.‏ میں ہوئی تھی؟‏ (‏ب)‏ جب یروشلیم ۷۰ س.‏ع.‏ میں مکمل طور پر تباہ ہوا تو اُس میں بہت سے لوگ کیوں مارے گئے؟‏

۵ آخرکار،‏ ۶۶ س.‏ع.‏ میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی۔‏ جب سیسٹیئس گیلس کی فوج نے یروشلیم کو گھیر لیا تو یسوع کے پیروکاروں کو اُس کی باتیں یاد آ گئیں:‏ ”‏جب تم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گِھرا ہؤا دیکھو تو جان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔‏ اُس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور جو یرؔوشلیم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں شہر میں نہ جائیں۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یروشلیم سے بھاگنے کا وقت آ پہنچا تھا۔‏ مگر کیسے؟‏ اچانک،‏ گیلس اپنی فوج کو یروشلیم سے واپس بلا لیتا ہے اور یروشلیم اور یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو پہاڑوں پر بھاگ جانے اور یسوع کے حکم کی تعمیل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۶ اِس کے چار سال بعد،‏ فسح کے موقع پر،‏ رومی فوجیں جنرل ٹائٹس کی زیرِکمان دوبارہ لوٹ آئیں،‏ جو یہودی بغاوت کو کچلنے کے لئے پُرعزم تھا۔‏ اُس کی فوجوں نے یروشلیم کے ”‏گرد مورچہ باندھ“‏ لیا۔‏ (‏لوقا ۱۹:‏۴۳،‏ ۴۴‏)‏ جنگ کے خطرے کے باوجود،‏ تمام رومی سلطنت سے یہودی یروشلیم میں فسح منانے کے لئے آئے ہوئے تھے۔‏ اب یہ تمام لوگ یروشلیم میں پھنس گئے تھے۔‏ یوسیفس کے مطابق،‏ رومی محاصرے کے باعث ہلاک ہونے والوں کی اکثریت باہر سے آنے والے یہودیوں ہی کی تھی۔‏ * آخرکار،‏ جب یروشلیم تباہ ہوا تو پوری رومی سلطنت میں سے ہر ساتویں یہودی کے ہلاک ہونے کی وجہ سے کوئی گیارہ لاکھ یہودی ہلاک ہوئے۔‏ دراصل یروشلیم اور ہیکل کی تباہی سے مُراد یہودی سیاست اور موسوی شریعت پر مبنی اُسکے مذہب کا خاتمہ تھا۔‏ *‏—‏مرقس ۱۳:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۷.‏ وفادار مسیحی یروشلیم کی تباہی سے کیوں بچ گئے تھے؟‏

۷ یروشلیم میں رہنے والے مسیحیوں نے ۷۰ س.‏ع.‏ میں یسوع کی آگاہی پر کان لگا کر شہر کو چھوڑ دیا اور وہ پھر واپس نہیں آئے۔‏ اِس وجہ سے تاریخی ثبوت کے مطابق وہ نہ تو مارے گئے اور نہ دوسروں کی طرح قید میں چلے گئے۔‏

رسولوں کی طرف سے بروقت آگاہیاں

۸.‏ پطرس نے مسیحیوں کو کیا نصیحت کی اور غالباً یسوع کے کونسے الفاظ اُس کے ذہن میں تھے؟‏

۸ آجکل زیادہ بڑی تباہی اس زمین پر آنے والی ہے،‏ ایک ایسی تباہی جو اس شریر دستوراُلعمل کو ختم کر دیگی۔‏ یروشلیم کی تباہی سے ۶ سال پہلے پطرس رسول نے ایک بروقت اور ضروری آگاہی دی تھی جو خاص طور پر ہمارے زمانے کے مسیحیوں پر لاگو ہوتی ہے:‏ ہوشیار رہو!‏ پطرس نے مسیحیوں کے ’‏دلوں کو اُبھارنے‘‏ کی ضرورت کو دیکھ لیا تھا تاکہ وہ مسیحی ’‏خداوند یسوع مسیح کے حکم‘‏ کو نظرانداز نہ کریں۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ مسیحیوں کو ہوشیار رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے پطرس کو ضرور یسوع کے وہ الفاظ یاد تھے جو یسوع نے اپنی موت سے کچھ دن پہلے اپنے شاگردوں کو کہے:‏ ”‏خبردار!‏ جاگتے اور دُعا کرتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا۔‏“‏—‏مرقس ۱۳:‏۳۳‏۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ بعض لوگکس قسم کا خطرناک رُحجان پیدا کر لیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ شکی رُحجان خاص طور پر کیوں خطرناک ہے؟‏

۹ آجکل بعض لوگ تمسخر سے پوچھتے ہیں:‏ ”‏اُس کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴‏)‏ بدیہی طور پر،‏ وہ لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ حقیقت میں حالات بالکل ہی نہیں بدلے۔‏ ایسا رُحجان مسیحیوں کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے اِس لئے کہ اِس قسم کے شک‌وشبات ہمارے روحانی طور پر بیدار رہنے کی خواہش کو کمزور کر سکتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۲۱:‏۳۴‏)‏ پطرس کے نقطۂ‌نظر کے مطابق،‏ ایسے ٹھٹھاباز لوگ نوح کے دنوں کے طوفان کو بھول جاتے ہیں،‏ جس کے ذریعے تمام دُنیا کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔‏ اُس وقت دُنیا واقعی بدل کئی تھی!‏—‏پیدایش ۶:‏۱۳،‏ ۱۷؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۵ ،‏۶‏۔‏

۱۰.‏ پطرس اُن لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کن الفاظ سے کرتا ہے جو صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے؟‏

۱۰ اپنے خط کے ذریعے پطرس اُن لوگوں کو سمجھا رہا تھا کہ خدا کیوں جلد خاتمہ نہیں لاتا۔‏ اِسطرح وہ اُنکی صبر پیدا کرنے میں مدد کر رہا تھا۔‏ سب سے پہلے پطرس یوں کہتا ہے:‏ ”‏خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ یہوواہ ازلی ہونے کی وجہ سے تمام حالات کا جائزہ لیکر فیصلہ کریگا کہ کونسا وقت خاتمہ لانے کے لئے بہتر ہے۔‏ پھر پطرس یہوواہ کی اُس خواہش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام لوگ توبہ کی نوبت تک پہنچیں۔‏ اگر یہوواہ اپنا فیصلہ کرنے میں جلدبازی کرے تو کم ہی لوگ نجات پا سکیں گے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۳،‏ ۴؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۹‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ کے صبر کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ خاتمہ نہیں لائے گا۔‏ پطرس نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا دن چور کی طرح آ جائے گا۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۰‏۔‏

۱۱.‏ ہمیں روحانی طور پر بیدار رہنے میں کیا چیز مدد دیگی اور یہ یہوواہ کے دن کے انتظار کو کیسے آسان بنائیگا؟‏

۱۱ پطرس کا یہ موازنہ واقعی غور طلب ہے۔‏ ایک چور کو قابو کرنا آسان نہیں ہے۔‏ ساری رات جاگنے والا نگہبان اچھی طرح چور کی تاک میں رہتا ہے،‏ اس کے برعکس تھوڑی تھوڑی دیر میں اونگنے والا شخص ایسا نہیں کر سکتا۔‏ ایک نگہبان کس طرح جاگ سکتا ہے؟‏ ساری رات بیٹھ کر گزارنے کی بجائے چہل‌قدمی کرنا ہوشیاری سے نگہبانی کرنے میں مدد دے گا۔‏ اِسی طرح،‏ روحانی طور پر ہوشیار رہنا بھی ایک مسیحی کی بیدار رہنے میں مدد کرے گا۔‏ اِس لئے پطرس نصیحت کرتا ہے کہ ہمیں ”‏پاک چال‌چلن اور دینداری میں“‏ مصروف رہنا چاہئے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۱‏)‏ ایسا کرنا ہمیں ’‏خدا کے اُس دن کے آنے کا مشتاق‘‏ رہنے میں مدد کرے گا۔‏ یونانی زبان میں ’‏مشتاق رہنے‘‏ کا مطلب ”‏کسی چیز کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانا“‏ ہے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۲‏)‏ درحقیقت ہم یہوواہ کے مقررہ وقت کو نہیں بدل سکتے۔‏ اُس کا دن اُس کے مقررہ وقت پر ہی آئے گا۔‏ لیکن جب ہم اپنے آپ کو یہوواہ کی خدمت میں مصروف رکھتے ہیں تو یہ وقت جلد گزرتا ہوا محسوس ہوگا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏۔‏

۱۲.‏ ہم سب یہوواہ کے صبر سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۱۲ اگر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ یہوواہ کے دن میں ابھی بہت دیر ہے تو اُسے پطرس کی مشورت پر ضرور کان لگانا چاہئے۔‏ اِس طرح وہ یہوواہ کے مقررہ وقت کا صبر سے انتظار کر سکے گا۔‏ جتنی دیر تک خدا صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے ہمیں اس اضافی وقت کو عقلمندی سے استعمال کرنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر ہمیں عمدہ مسیحی خوبیاں پیدا کرنی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری کے بارے میں منادی کرنی چاہئے۔‏ اگر ہم جاگتے رہتے ہیں تو اس نظام‌اُلعمل کے خاتمے پر یہوواہ ہمیں ”‏بیداغ اور بےعیب“‏ پائیگا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ کیا ہی شاندار برکات!‏

۱۳.‏ خاص طور پر آجکل پولس کی نصیحت کیوں مناسب ہے؟‏

۱۳ جب پولس نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کو خط لکھا تو اُس نے اُنہیں جاگتے رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”‏اَوروں کی طرح سو نہ رہیں بلکہ جاگتے اور ہوشیار رہیں۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲،‏ ۶‏)‏ آجکل اس نظام‌العمل کے خاتمے کے بالکل قریب آ جانے کے ساتھ ہمیں جاگتے اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں لوگ روحانی چیزوں کو پہلا درجہ نہیں دیتے۔‏ یہ اُن پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔‏ پس پولس ہمیں نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏ایمان اور محبت کا بکتر لگا کر اور نجات کی اُمید کا خود پہن کر ہوشیار رہیں۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۸‏)‏ بائبل کا باقاعدہ مطالعہ اور اجلاسوں پر بھائیوں کے ساتھ باقاعدہ رفاقت پولس کی نصیحت پر چلنے میں ہماری مدد کریگی۔‏ ایسا کرنا ہمیں ہوشیار رہنے میں بھی مدد دے گا۔‏—‏متی ۱۶:‏۱-‏۳‏۔‏

لاکھوں لوگ جاگ رہے ہیں

۱۴.‏ کونسی معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ آجکل بہت سے لوگ پولس کی جاگتے رہنے کی نصیحت پر عمل کر رہے ہیں؟‏

۱۴ کیا آجکل ایسے لوگ موجود ہیں جو ہوشیار رہنے کے لئے بائبل کی نصیحت پر عمل کر رہے ہیں؟‏ جی‌ہاں!‏ سن ۲۰۰۲ کے خدمتی سال کے دوران پبلشروں کی انتہائی تعداد ۶۴۵،‏۰۴،‏۶۳ تھی جو سن ۲۰۰۱ کی نسبت ۱.‏۳ فیصد ترقی ظاہر کرتی ہے۔‏ اُنہوں نے دوسروں کے ساتھ خدا کی بادشاہت پر بات کرتے ہوئے ۳۰۲،‏۸۱،‏۲۳،‏۲۰،‏۱ گھنٹے صرف کئے تھے۔‏ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ روحانی طور پر ہوشیار ہیں۔‏ یہ کام اُن کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے کیونکہ اُنہوں نے اِسے ٹھنڈے دل سے نہیں کِیا۔‏ اُن گواہوں کے رُحجان کے بارے میں ہم السلواڈور سے ایڈورڈ اور نومی کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔‏

۱۵.‏ السلواڈور سے کونسا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت لوگ روحانی طور پر ہوشیار ہیں؟‏

۱۵ کچھ سال پہلے،‏ ایڈورڈ اور نومی نے پولس کے الفاظ پر دھیان دیا:‏ ”‏دنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱‏)‏ اُنہوں نے اپنی زندگی کو سادہ بنایا اور کُل‌وقتی پائنیر خدمت شروع کر دی۔‏ اُنہوں نے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے یہوواہ کی برکات کا تجربہ کِیا،‏ اُنہیں سرکٹ اور ڈسٹرکٹ کے کام کی بدولت کلیسیاؤں کی خدمت کرنے کا موقع بھی ملا۔‏ مختلف مشکلات کے باوجود ایڈورڈ اور نومی پورا یقین رکھتے ہیں کہ مادی چیزوں کو چھوڑ کر کُل‌وقتی خدمت شروع کرنا اُن کے لئے بالکل صحیح فیصلہ تھا۔‏ السلواڈور میں ۲۶۹،‏۲۹ پبلشروں اور ۴۵۴،‏۲ پائنیروں نے اسی طرح کی قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کِیا ہے،‏ اِسی وجہ سے اس ملک میں پچھلے سال کی نسبت اِس سال ۲ فیصد پبلشروں میں اضافہ ہوا ہے۔‏

۱۶.‏ کوٹ ڈی آئیوری میں ایک بھائی نے کس قسم کا رُحجان ظاہر کِیا؟‏

۱۶ ایسا ہی رُحجان کوٹ ڈی آئیوری میں ایک جوان مسیحی بھائی نے ظاہر کِیا جس نے برانچ آفس کو یوں لکھا:‏ ”‏مَیں خدمت‌گزار خادم ہوں۔‏ لیکن جبتک میں خود عمدہ مثال قائم نہیں کرتا مَیں کلیسیا کے بھائیوں کو پائنیر خدمت کے لئے نہیں کہہ سکتا۔‏ اس لئے مَیں نے ایک اچھی پیسوں والی نوکری چھوڑ دی۔‏ اب میرے پاس ایک چھوٹا سا کاروبار ہے جو مجھے منادی کے کام میں حصہ لینے کے لئے زیادہ وقت فراہم کرتا ہے۔‏“‏ یہ جوان آدمی کوٹ ڈی آئیوری میں اُن ۹۸۳ پائنیروں میں سے ایک ہے جہاں پچھلے سال ۷۰۱،‏۶ پبلشروں کی رپورٹ دی گئی تھی۔‏ یہ ۵ فیصد ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔‏

۱۷.‏ ایک جوان گواہ بہن نے کس طرح یہ ظاہر کِیا کہ وہ تعصّب کی وجہ سے خوف‌زدہ نہیں تھی؟‏

۱۷ تعصّب اور مذہبی امتیاز جیسی مشکلات بیلجیئم میں ۹۶۱،‏۲۴ پبلشروں کے لئے مسائل کھڑے کر رہی ہیں۔‏ پھر بھی وہ پُرجوش ہیں اور اِن مشکلات کی وجہ سے خوف‌زدہ نہیں ہوتے۔‏ ایک ۱۶ سالہ گواہ بہن نے سکول میں اخلاقیات کی کلاس کے دوران یہ سنا کہ یہوواہ کے گواہوں کو ایک مذہبی فرقہ کہا گیا ہے۔‏ اس پر اُس نے اس بات کا دوسرا رُخ پیش کرنے کی درخواست کی۔‏ ویڈیو جیہوواز وِٹنسز—‏دی آرگنائزیشن بیہائنڈ دی نیم اور بروشر جیہوواز وِٹنسز—‏ہو آر دے؟‏،‏ کی مدد سے وہ اس بات کو اچھی طرح بتانے کے قابل ہوئی کہ یہوواہ کے گواہ کون ہیں۔‏ کلاس نے ان معلومات کی بہت قدر کی۔‏ کچھ ہفتوں بعد جب طالب‌علموں کا امتحان لیا گیا تو امتحان کے تمام سوالات یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں تھے۔‏

۱۸.‏ ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ معاشی‌بدحالی کے باوجود بھی ارجنٹینا اور موزمبیق کے پبلشر یہوواہ کی خدمت کرنے سے باز نہیں آئے؟‏

۱۸ مسیحیوں کو ان آخری دنوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ لیکن پھر بھی وہ ہوشیار رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ معاشی بدحالی کے باوجود ارجنٹائن کے ملک میں پچھلے سال گواہوں کی اِنتہائی تعداد ۷۰۹،‏۱۲۶ تھی۔‏ موزمبیق میں سخت غربت کے باوجود ۵۶۳،‏۳۷ نے گواہی کے کام میں حصہ لیا جو ۴ فیصد اضافے کی رپورٹ دیتی ہے۔‏ البانیہ کے لوگوں کے لئے ابھی بھی زندگی بہت دشوار ہے۔‏ پھر بھی اُس ملک میں پبلشروں کی انتہائی تعداد ۷۰۸،‏۲ ہے جس سے ۱۲ فیصد اضافے کی شاندار رپورٹ ملتی ہے۔‏ اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کی روح مشکل حالات میں بھی اُن خادموں کی مدد کرتی ہے جو بادشاہت کو پہلا درجہ دیتے ہیں۔‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

۱۹.‏ (‏ا)‏ کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی بھی بہت سے لوگ بائبل کی سچائیوں کو سیکھنا چاہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ دوسرے ممالک کی سالانہ رپورٹ کیسے ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ کے گواہ روحانی طور پر بیدار ہیں؟‏ (‏صفحہ ۱۲-‏۱۵ کے چارٹ کو دیکھیں)‏

۱۹ پچھلے سال اوسطاً ہر مہینے پوری دُنیا میں ۲۸۹،‏۰۹،‏۵۳ بائبل مطالعوں کی رپورٹ نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو بائبل کی سچائی کو سیکھنا چاہتے ہیں۔‏ میموریل کی انتہائی حاضری ۷۴۶،‏۹۷،‏۵۵،‏۱ تعداد تھی۔‏ اِن میں سے بہت زیادہ لوگ ابھی یہوواہ کے خادم نہیں ہیں۔‏ پس ہماری یہ دُعا ہے کہ وہ بائبل کی سچائی کو بہتر طور پر جاننے کی کوشش کرتے رہیں اور یہوواہ اور برادری کیلئے اپنی محبت کو بڑھاتے رہیں۔‏ ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ”‏دوسری بھیڑوں“‏ کی ”‏بڑی بھیڑ“‏ ترقی کر رہی ہے۔‏ وہ ”‏اُسکے مقدِس میں رات دن اُس کی عبادت کرتے“‏ ہوئے اپنے روح سے مسح‌شُدہ بھائیوں کیساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۵؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏۔‏

لوط سے سبق سیکھیں

۲۰.‏ ہم لوط اور اُسکی بیوی کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۲۰ خدا کے وفادار خادم بھی عارضی طور پر سُست پڑ سکتے ہیں۔‏ ذرا ابراہام کے بھتیجے لوط کے بارے میں غور کریں۔‏ دو فرشتوں نے اُسے بتایا کہ خدا جلد ہی سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے والا ہے۔‏ یہ خبر لوط کے لئے حیران‌کُن نہیں تھی کیونکہ وہ ”‏بےدینوں کے ناپاک چال‌چلن سے دِق تھا۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۷‏)‏ لیکن جب فرشتوں نے اُنہیں سدوم سے نکلنے میں رہنمائی کی تو ”‏اُس نے پھر بھی دیر لگائی۔‏“‏ یہاں تک کہ اُن فرشتوں نے اُسے اور اُس کے خاندان کو ہاتھ پکڑ کر شہر سے باہر نکالا۔‏ بعدازاں،‏ لوط کی بیوی نے فرشتوں کی آگاہی کو نظرانداز کِیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔‏ اس غفلت کی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔‏ (‏پیدایش ۱۹:‏۱۴-‏۱۷،‏ ۲۶‏)‏ یسوع نے آگاہی دی کہ ”‏لوؔط کی بیوی کو یاد رکھو۔‏“‏—‏لوقا ۱۷:‏۳۲‏۔‏

۲۱.‏ ابھی پہلے سے زیادہ جاگتے رہنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۲۱ پامپائی،‏ ہرکولینیم،‏ یروشلیم اور نوح کے دنوں کی تباہیوں اور لوط کی مثال پر غور کرتے وقت ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ آگاہیوں پر دھیان دینا کتنا ضروری ہے۔‏ یہوواہ کے خادموں کے طور پر ہم اِس دستوراُلعمل کے خاتمے کے نشان کو پہچانتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳‏)‏ ہم نے اپنے آپ کو جھوٹے مذہب سے علیٰحدہ کر لیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۸:‏۴‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح ہمیں ’‏خدا کے اُس دن کے آنے کا مشتاق رہنا چاہئے۔‏‘‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ مسیحیوں کو ابھی پہلے سے زیادہ جاگتے رہنے کی ضرورت ہے!‏ اگر ہم جاگتے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کونسے اقدام اُٹھانے چاہئیں اور کس قسم کی خوبیوں کو پیدا کرنا چاہئے؟‏ اگلا مضمون ان نکات پر غور کرے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 یروشلیم کی آبادی کوئی ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔‏ یوسیبیس کے بیان کے مطابق ۷۰ س.‏ع.‏ میں عیدِفسح کیلئے ۳ لاکھ کے قریب لوگ یروشلیم کے آس‌پاس کے علاقوں سے آئے ہوئے تھے اور باقی لوگ رومی سلطنت کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔‏

^ پیراگراف 6 یہوواہ کے لئے یسوع کی موت کے وقت ایک نئے عہد نے موسوی شریعت کی جگہ لے لی تھی۔‏—‏افسیوں ۲:‏۱۵‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• کس تبدیلی نے مسیحیوں کو یروشلیم کی تباہی سے بھاگنے کا موقع دیا؟‏

‏• پطرس اور پولس کی نصیحت کیسے ہمیں جاگنے میں مدد دیتی ہے؟‏

‏• آجکل کون اچھی طرح جاگتے رہنے کا ثبوت دیتے ہیں؟‏

‏• لوط اور اُس کی بیوی سے ہم کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵-‏۱۲ پر چارٹ]‏

یہوواہ کے گواہوں کے خدمتی سال ۲۰۰۲ کی عالمی رپورٹ

‏(‏چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

یروشلیم کے مسیحیوں نے ۶۶ س.‏ع.‏ میں یسوع کی آگاہی پر دھیان دیا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

سرگرم رہنے سے مسیحیوں کی جاگتے رہنے میں مدد ہوتی ہے