مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏نیک آدمی خدا کا مقبول ہوگا‘‏

‏’‏نیک آدمی خدا کا مقبول ہوگا‘‏

‏’‏نیک آدمی خدا کا مقبول ہوگا‘‏

یہوواہ خدا تمام زندگی کا سرچشمہ ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ ”‏اُسی میں ہم جیتے اور چلتےپھرتے اور موجود ہیں۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۸‏)‏ نیز جب ہم اُس اَجر پر غور کرتے ہیں جو وہ اپنے ساتھ قریبی رشتہ رکھنے والے لوگوں کو بخشتا ہے تو کیا ہمارے دل شکرگزاری سے معمور نہیں ہو جاتے؟‏ واقعی،‏ ”‏خدا کی بخشش .‏ .‏ .‏ ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ یہوواہ کی مقبولیت حاصل کرنا ہمارے لئے کسقدر ضروری ہے!‏

زبورنویس ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے کہ ’‏خداوند فضل بخشتا ہے۔‏‘‏ (‏زبور ۸۴:‏۱۱‏)‏ تاہم،‏ وہ کن پر فضل کرتا ہے؟‏ آجکل لوگ اکثر تعلیم،‏ دولت،‏ رنگ اور نسلی پس‌منظر جیسے عناصر کی بنیاد پر پسندیدگی ظاہر کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ خدا کس چیز کو پسند کرتا ہے؟‏ قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان جواب دیتا ہے:‏ ‏”‏نیک آدمی [‏یہوواہ]‏ کا مقبول ہوگا لیکن بُرے منصوبے باندھنے والے کو وہ مجرم ٹھہرائیگا۔‏“‏—‏امثال ۱۲:‏۲

واقعی یہوواہ ایک نیک—‏بااخلاق شخص کو پسند کرتا ہے۔‏ ایک نیک شخص ذاتی تربیت،‏ غیرجانبداری،‏ فروتنی،‏ ہمدردی اور دانشمندی جیسی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے۔‏ اُس کے خیالات راست،‏ اُس کا کلام تقویت‌بخش اور اُس کے اعمال جائز اور مفید ہوتے ہیں۔‏ بائبل میں امثال کی کتاب کے ۱۲ ویں باب کا پہلا حصہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیکی کو کیسے ہماری روزمرّہ زندگی کا حصہ ہونا چاہئے،‏ اِس کے علاوہ یہ اس خوبی کو ظاہر کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد بھی بیان کرتا ہے۔‏ یہاں پر بیان‌کردہ باتوں پر غور کرنے سے ہم ”‏دانش اور نیکی“‏ حاصل کریں گے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۳‏)‏ اس کی دانشمندانہ نصیحت کا اطلاق کرنا ہمیں خدا کی مقبولیت حاصل کرنے میں مدد دے گا۔‏

تربیت لازمی ہے

سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏جو تربیت کو دوست رکھتا ہے وہ علم کو دوست رکھتا ہے لیکن جو تنبیہ سے نفرت رکھتا ہے وہ حیوان ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۱‏)‏ ایک نیک آدمی اپنے اندر بہتری پیدا کرنے کے لئے تربیت کا مشتاق رہتا ہے۔‏ وہ مسیحی اجلاسوں یا ذاتی بات‌چیت سے حاصل ہونے والی نصیحت کا اطلاق کرنے میں دیر نہیں کرتا۔‏ صحائف اور بائبل پر مبنی مطبوعات کے الفاظ پینوں کی مانند ہیں جو اُسے ایک راست روش پر چلنے کی تحریک دیتے ہیں۔‏ وہ اپنی راہوں کو درست کرنے کے لئے حاصل‌کردہ علم کا اطلاق کرتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ تربیت سے محبت رکھنے والا شخص علم سے بھی محبت رکھتا ہے۔‏

سچے پرستاروں کے لئے تربیت—‏بالخصوص ذاتی تربیت—‏کتنی ضروری ہے!‏ ہم خدا کے کلام کا گہرا علم رکھنے کے مشتاق ہو سکتے ہیں۔‏ ہم مسیحی خدمتگزاری میں زیادہ مؤثر اور خدا کے کلام کے بہتر اُستاد بننے کی خواہش بھی رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ تاہم،‏ ایسی خواہشات کو حقیقت بنانے کیلئے ذاتی تربیت ضروری ہے۔‏ زندگی کے دیگر حلقوں میں بھی ذاتی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ آجکل غیراخلاقی خواہشات کو اُبھارنے والے مواد کی کمی نہیں ہے۔‏ کیا اپنی آنکھوں کو غیرمناسب چیزیں دیکھنے سے باز رکھنا ذاتی تربیت کا تقاضا نہیں کرتا؟‏ علاوہ‌ازیں،‏ چونکہ ”‏انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے“‏ اسلئے ذہن کے تاریک گوشوں میں کوئی بداخلاق خیال واقعی جنم لے سکتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱‏)‏ ذاتی تربیت ایسے خیال پر توجہ نہ دینے کیلئے ضروری ہے۔‏

اس کے برعکس،‏ تنبیہ سے نفرت کرنے والا تربیت اور علم سے محبت نہیں رکھتا۔‏ ایسا شخص تنبیہ کو ناپسند کرنے کے گنہگارانہ انسانی میلان سے مغلوب ہوکر ایک کم‌عقل جانور—‏وحشی—‏کی مانند بن جاتا ہے جس میں اخلاقی امتیاز کی حس نہیں ہوتی۔‏ ہمیں مستعدی سے ایسے میلان کی مزاحمت کرنی چاہئے۔‏

‏”‏جڑوں کو اُکھاڑا نہیں جا سکتا“‏

ایک نیک آدمی یقیناً ناراست یا بےانصاف نہیں ہو سکتا۔‏ لہٰذا یہوواہ کی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے راستی بھی ضروری ہے۔‏ بادشاہ داؤد نے گیت گایا:‏ ”‏تُو صادق کو برکت بخشے گا۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو اُسے کرم سے سپر کی طرح ڈھانک لیگا۔‏“‏ (‏زبور ۵:‏۱۲‏)‏ ایک راستباز اور بدکردار کی حالت کا موازنہ کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏آدمی شرارت سے پایدار نہیں ہوگا لیکن صادقوں کی جڑ کو کبھی جنبش نہ ہوگی۔‏“‏—‏امثال ۱۲:‏۳‏۔‏

بدکردار خوشحال نظر آ سکتے ہیں۔‏ زبورنویس آسف کے تجربے پر غور کریں۔‏ وہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏میرے پاؤں تو پھسلنے کو تھے۔‏ میرے قدم قریباً لغزش کھا چکے تھے۔‏“‏ کیوں؟‏ آسف جواب دیتا ہے:‏ ”‏جب مَیں شریروں کی اقبالمندی دیکھتا تو مغروروں پر حسد کرتا تھا۔‏“‏ (‏زبور ۷۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ تاہم،‏ خدا کے مقدس میں جاکر اُسے احساس ہوا کہ یہوواہ نے اُنہیں پھسلنی جگہوں پر رکھا ہے۔‏ (‏زبور ۷۳:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ بدکرداروں کو حاصل ہونے والی ظاہری کامیابی عارضی ہوتی ہے۔‏ ہم اُن سے کیوں حسد کریں؟‏

اسکے برعکس،‏ یہوواہ کی نظر میں مقبول شخص مستحکم ہوتا ہے۔‏ ایک درخت کی مضبوط جڑوں کے نظام کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ”‏نیک آدمیوں کی جڑوں کو اُکھاڑا نہیں جا سکتا۔‏“‏ (‏امثال ۱۲:‏۳‏؛‏ دی نیو انگلش بائبل‏)‏ کیلیفورنیا میں سیکویا کے درخت کی طرح،‏ ایک دیوقامت درخت کی کئی ایکڑ زمین میں پھیلی ہوئی جڑیں آندھی اور طوفان کے باوجود مضبوط سہارا فراہم کر سکتی ہیں۔‏ سیکویا کا ایک دیوقامت درخت شدید زلزلے کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے۔‏

زمین کی زرخیز مٹی میں ایسی جڑوں کی طرح،‏ ہمارے دل‌ودماغ کو بھی خدا کے کلام کی مفصل تحقیق کرنے اور اس کے زندگی‌بخش پانیوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اس طرح ہمارا ایمان قائم اور مضبوط ہوگا اور ہماری اُمید یقینی اور ٹھوس بن جائے گی۔‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۱۹‏)‏ ہم ”‏ہر ایک [‏جھوٹی]‏ تعلیم کے جھوکے سے .‏ .‏ .‏ اُچھلتے بہتے نہ پھریں“‏ گے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۴‏)‏ ہم یقیناً شدید آزمائشوں کے اثرات کو محسوس کریں گے اور مصائب ہمیں خوفزدہ بھی کر سکتے ہیں۔‏ تاہم ہماری ’‏بنیاد جنبش نہ کھائے گی۔‏‘‏

‏”‏نیک عورت اپنے شوہر کیلئے تاج ہے“‏

بہتیرے لوگ اس کہاوت سے واقف ہیں،‏ ”‏ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک نیک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔‏“‏ ایک مددگار عورت کی قدروقیمت پر زور دیتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏نیک عورت اپنے شوہر کے لئے تاج ہے لیکن ندامت لانے والی اُسکی ہڈیوں میں بوسیدگی کی مانند ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۴‏)‏ لفظ ”‏نیک“‏ اچھائی کے تمام پہلوؤں کا نچوڑ ہے۔‏ امثال ۳۱ باب میں اچھی بیوی کی خوبیوں کے مفصل بیان میں محنت،‏ وفاداری اور دانشمندی کا ذکر بھی کِیا گیا ہے۔‏ جس عورت میں ایسی خوبیاں موجود ہوں وہ اپنے شوہر کے لئے تاج ہے اسلئےکہ اُس کا عمدہ چال‌چلن اُس کے شوہر کے لئے باعثِ‌عزت ہے اور اسے دوسروں کی نظر میں مقبول ٹھہراتا ہے۔‏ وہ شہرت حاصل کرنے کی خاطر اس پر سبقت حاصل کرنے یا اُس کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‏ اسکی بجائے وہ اپنے شوہر کی تکملہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔‏

ایک عورت ندامت کا باعث کیسے ہو سکتی ہے اور اس کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟‏ اس ندامت لانے والے چال‌چلن میں لڑائی‌جھگڑے سے لے کر بداخلاقی ہو سکتی ہے۔‏ (‏امثال ۷:‏۱۰-‏۲۳؛‏ ۱۹:‏۱۳‏)‏ ایک بیوی کے ایسے کام اُس کے شوہر کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔‏ وہ ”‏اُس کی ہڈیوں میں بوسیدگی“‏ کی مانند ہے جس کی وضاحت ایک کتاب یوں کرتی ہے کہ ‏”‏وہ جسم کو کمزور کر دینے والی بیماری کی طرح اُس کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔‏“‏ ایک اَور کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏اس اظہار کا جدید مماثل ’‏سرطان‘‏ ہے جو ایک شخص کی توانائی کو بتدریج ختم کر دینے والی بیماری ہے۔‏“‏ دُعا ہے کہ مسیحی بیویاں ایک نیک بیوی کی خوبیوں پر غور کرنے سے خدا کی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔‏

خیالات سے افعال اور نتائج

خیالات،‏ افعال کا اور افعال نتائج کا باعث بنتے ہیں۔‏ اس کے بعد سلیمان ایک صادق اور شریر شخص کا موازنہ کرتے ہوئے خیالات سے افعال تک کے عمل کو واضح کرتا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏صادقوں کے خیالات درست ہیں لیکن شریروں کی مشورت مکر ہے۔‏ شریروں کی باتیں یہی ہیں کہ خون کرنے کے لئے تاک میں بیٹھیں لیکن صادقوں کی باتیں اُنکو رہائی دینگی۔‏“‏‏—‏امثال ۱۲:‏۵،‏ ۶‏۔‏

نیک لوگوں کے خیالات اخلاقی طور پر پاک ہوتے ہیں اور غیرجانبداری اور انصاف پر مُرتکز رہتے ہیں۔‏ خدا اور ساتھی انسانوں کی محبت سے تحریک پانے والوں کے ارادے نیک ہوتے ہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ شریر خودغرضی سے تحریک پاتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ اُن کے ارادے—‏اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے اُن کے طریقے—‏پُرفریب ہوتے ہیں۔‏ اُن کے کام گمراہ‌کُن ہیں۔‏ وہ شاید عدالت میں جھوٹے الزامات لگا کر بیگناہوں کو پھنسانے سے نہیں ہچکچاتے۔‏ اُن کی باتیں ایسی ہی ہیں جیسےکہ وہ ”‏خون کرنے کے لئے تاک میں بیٹھے“‏ ہوں،‏ کیونکہ وہ اپنے بیگناہ شکار کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‏ ان بُرے منصوبوں کا علم اور ان سے بچنے کی حکمت راستبازوں کو اس خطرے سے محفوظ رکھتی ہے۔‏ وہ ناسمجھ لوگوں کو خبردار کرنے اور انہیں شریروں کے دغاباز منصوبوں سے بچانے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔‏

صادقوں اور شریروں کا کیا انجام ہوگا؟‏ ‏”‏شریر پچھاڑ کھاتے ہیں اور نیست ہوتے ہیں،‏“‏ سلیمان جواب دیتا ہے،‏ ‏”‏لیکن صادقوں کا گھر قائم رہے گا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۷‏)‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ گھر ”‏ایک شخص کے گھرانے اور ایسی تمام چیزوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اُس کے نزدیک قابلِ‌قدر ہیں اور اُس کی زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں۔‏“‏ یہ ایک راست شخص کے خاندان اور اولاد کا حوالہ بھی دے سکتا ہے۔‏ بہرکیف اس مثل کا سبق واضح ہے:‏ راستباز مصیبت میں ثابت‌قدم رہے گا۔‏

فروتن شخص کہیں بہتر ہے

اسرائیل کا بادشاہ فہم کی قدروقیمت پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے:‏ ‏”‏آدمی کی تعریف اُس کی عقلمندی کے مطابق کی جاتی ہے لیکن بےعقل حقیر ہوگا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۸‏)‏ ایک فہیم شخص بولنے میں جلدبازی نہیں کرتا۔‏ وہ بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور دوسروں کے ساتھ پُرامن تعلقات سے محظوظ ہوتا ہے اس لئےکہ وہ ”‏عقلمندی“‏ سے جچےتُلے الفاظ استعمال کرتا ہے۔‏ احمقانہ سوالات یا قیاس‌آرائی کا سامنا کرتے وقت ایک فہیم شخص ”‏کم‌گو“‏ ہوتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۲۷‏)‏ ایسے شخص کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ یہوواہ کو بھی خوش کرتا ہے۔‏ وہ ایک ’‏بےعقل شخص‘‏ سے اور اُس کے بگڑے ہوئے خیالات سے کسقدر فرق ہے!‏

جی‌ہاں،‏ ایک فہیم شخص کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اگلی مثل ہمیں فروتنی کی قدروقیمت سکھاتی ہے۔‏ یہ بیان کرتی ہے:‏ ‏”‏جو چھوٹا سمجھا جاتا ہے لیکن اُسکے پاس ایک نوکر ہے اُس سے بہتر ہے جو اپنے آپکو بڑا جانتا اور روٹی کا محتاج ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۹‏)‏ سلیمان بظاہر یہ کہتا ہے کہ صرف ایک نوکر اور کم دولت رکھنے والا فروتن شخص ایسے فضول خرچ آدمی سے بہتر ہے جو ضروریاتِ‌زندگی کی بجائے معاشرے میں اعلیٰ معیارِزندگی برقرار رکھنے کیلئے پیسہ لٹاتا ہے۔‏ یہ مشورت ہمارے لئے کسقدر معقول ہے کہ ہم اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں!‏

زرعی زندگی نیکی کی سبق‌آموز مثالیں فراہم کرتی ہے

سلیمان زرعی طرزِزندگی کو مثال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نیکی کے دو اہم سبق سکھاتا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏صادق اپنے چوپائے کی جان کا خیال رکھتا ہے لیکن شریروں کی رحمت بھی عین ظلم ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۱۰‏)‏ صادق اپنے جانوروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا ہے۔‏ وہ اُنکی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور اُنکی فکر کرتا ہے۔‏ ایک شریر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کی فکر رکھتا ہے لیکن وہ اُنکی ضروریات کو محسوس نہیں کرتا۔‏ اُسکے محرکات خودغرضانہ ہیں اور جانوروں کیساتھ اُسکا سلوک اُس منافع کے مطابق ہوتا ہے جو وہ اُن کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔‏ ایسا شخص جسے جانوروں کی مناسب دیکھ‌بھال کہتا ہے وہ درحقیقت ظالمانہ سلوک بھی ہو سکتا ہے۔‏

جانوروں کیساتھ مہربانی سے پیش آنے کے اصول کا اطلاق پالتو جانوروں کی دیکھ‌بھال پر بھی ہوتا ہے۔‏ جانور پالنے کے بعد انہیں نظرانداز کرنا یا ان کیساتھ بدسلوکی کرنے سے انہیں تکلیف پہنچانا کسقدر ظالمانہ عمل ہے!‏ اگر ایک جانور کسی سنگین بیماری یا چوٹ کی وجہ سے سخت تکلیف میں مبتلا ہو تو اُسکی زندگی کو ختم کرنا ایک مہربانہ عمل ہو سکتا ہے۔‏

زرعی زندگی کے ایک اَور پہلو—‏کاشتکاری—‏پر توجہ دلاتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏جو اپنی زمین میں کاشتکاری کرتا ہے روٹی سے سیر ہوگا۔‏“‏ واقعی،‏ بامقصد محنت اَجر لاتی ہے۔‏ ‏”‏لیکن بطالت کا پیرو بےعقل ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۱۱‏)‏ اچھی بصیرت یا سمجھ کی کمی ظاہر کرتے ہوئے ”‏بطالت کا پیرو“‏ بےفائدہ اور وقت ضائع کرنے والے کاروباری کاموں میں اُلجھ جاتا ہے۔‏ ان دو آیات کے سبق بالکل واضح ہیں:‏ محنت کریں اور مہربانی سے پیش آئیں۔‏

راستباز کامیاب ہوتا ہے

‏”‏شریر بدکرداروں کے دام کا مشتاق ہے،‏“‏ دانشمند بادشاہ کہتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۲الف‏)‏ ایک شریر شخص یہ کیسے کرتا ہے؟‏ بدیہی طور پر وہ ناجائز ذرائع سے مال بٹورنے کی خواہش کرتا ہے۔‏ اس سلسلے میں ایک نیک شخص کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ ایسا شخص تربیت کو پسند کرتا ہے اور مضبوط ایمان رکھتا ہے۔‏ وہ صادق،‏ انصاف‌پسند،‏ فہیم،‏ فروتن،‏ مہربان اور مستقل‌مزاج ہے۔‏ نیز سلیمان بیان کرتا ہے ‏”‏صادقوں کی جڑ پھلتی ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۲:‏۱۲‏)‏ این امریکن ٹرانسلیشن بیان کرتی ہے کہ ”‏صادقوں کی جڑ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔‏“‏ ایسا شخص مستحکم اور محفوظ رہتا ہے۔‏ واقعی،‏ ’‏نیک آدمی خدا کا مقبول ہوتا ہے۔‏‘‏ پس آئیے ’‏یہوواہ پر توکل کریں اور نیکی کریں۔‏‘‏—‏زبور ۳۷:‏۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویریں]‏

ایک مضبوط درخت کی طرح راستباز شخص کا ایمان قائم رہتا ہے