مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ واقعی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں؟‏

کیا آپ واقعی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں؟‏

کیا آپ واقعی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں؟‏

‏”‏خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏ توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ۔‏“‏—‏مرقس ۱:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ آپ مرقس ۱:‏۱۴،‏ ۱۵ کی وضاحت کیسے کرینگے؟‏

یہ سن ۳۰ سنِ‌عام کی بات ہے۔‏ یسوع مسیح گلیل میں اپنی عظیم خدمتگزاری کا آغاز کر چکا تھا۔‏ وہ ”‏خدا کی خوشخبری“‏ کی منادی کر رہا تھا اور بہتیرے گلیلی اُس کے اس بیان سے متاثر ہوئے تھے:‏ ”‏وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏ توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ۔‏“‏—‏مرقس ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۲ یسوع کے لئے اپنی خدمتگزاری شروع کرنے اور لوگوں کے لئے الہٰی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر ایسا فیصلہ کرنے کا ”‏وقت“‏ آ گیا تھا۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۵۴-‏۵۶‏)‏ ان معنوں میں ’‏خدا کی بادشاہی نزدیک تھی‘‏ کیونکہ یسوع بادشاہی کے مقررہ بادشاہ کے طور پر ان کے درمیان تھا۔‏ اُس کی منادی نے خلوصدل لوگوں کو توبہ کرنے کی تحریک دی۔‏ تاہم اُنہوں نے کیسے ”‏خوشخبری پر ایمان“‏ ظاہر کِیا اور ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۳.‏ کس طرزِعمل سے لوگوں نے خوشخبری پر اپنے ایمان کو ظاہر کِیا ہیں؟‏

۳ یسوع کی طرح،‏ پطرس رسول نے لوگوں کو توبہ کرنے کیلئے نصیحت کی تھی۔‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے موقع پر،‏ یروشلیم میں یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے پطرس نے کہا:‏ ”‏توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم رُوح‌اُلقدس انعام میں پاؤگے۔‏“‏ ہزاروں لوگوں نے توبہ کی،‏ بپتسمہ لیا اور یسوع کے شاگرد بن گئے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۳۸،‏ ۴۱؛‏ ۴:‏۴‏)‏ غیرقوم کے تائب لوگوں نے بھی ۳۶ س.‏ع.‏ میں ایسے ہی اقدام اُٹھائے تھے۔‏ (‏اعمال ۱۰:‏۱-‏۴۸‏)‏ ہمارے زمانہ میں،‏ خوشخبری پر ایمان ہزاروں لوگوں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے،‏ خدا کے لئے مخصوصیت کرنے اور بپتسمہ لینے کی تحریک دے رہا ہے۔‏ اُنہوں نے نجات کی خوشخبری قبول کر لی ہے اور یسوع کے فدیے کی قربانی پر ایمان ظاہر کر رہے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ وہ راستی کو عمل میں لا رہے اور خدا کی بادشاہت کی حمایت کا مؤقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔‏

۴.‏ ایمان کیا ہے؟‏

۴ تاہم ایمان کیا ہے؟‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱‏)‏ ہمارا ایمان ہمیں اس بات کی یقین‌دہانی کراتا ہے کہ خدا کے کلام میں درج اُس کا ہر وعدہ اسقدر یقینی ہے کہ گویا وہ پہلے ہی پورا ہو چکا ہے۔‏ یہ بالکل ایک ایسی دستاویز کی مانند ہے جو ہمیں کسی جائیداد کا مالک ثابت کرتی ہے۔‏ ایمان اندیکھی چیزوں کا ”‏ثبوت“‏ یا ان پر بھروسے کی ضمانت بھی ہے۔‏ ہماری فہم‌وفراست اور دلی قدردانی اس بات کی یقین‌دہانی کراتی ہے کہ اگرچہ ہم دیکھ نہیں سکتے توبھی یہ سب کچھ حقیقی ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۷؛‏ افسیوں ۱:‏۱۸‏۔‏

ہمیں ایمان کی ضرورت ہے!‏

۵.‏ ایمان اسقدر ضروری کیوں ہے؟‏

۵ ہم پیدائشی طور پر روحانی چیزوں کے حاجتمند ہیں لیکن ہم ایمان کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے۔‏ درحقیقت،‏ ”‏سب میں ایمان نہیں۔‏“‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۲‏)‏ تاہم،‏ خدا کے وعدوں سے استفادہ کرنے کے لئے مسیحیوں کو ایمان کی ضرورت ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۱۲‏)‏ ایمان کی کئی مثالوں کا حوالہ دینے کے بعد پولس نے لکھا:‏ ”‏جب کہ گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کرکے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔‏ اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ یہ کونسا گُناہ ہے ”‏جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے“‏؟‏ یہ ایمان کی کمی بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے کھو دینے کا عمل ہے۔‏ مضبوط ایمان برقرار رکھنے کیلئے ہمیں یسوع کو ’‏تکتے رہنے‘‏ اور اُس کے نمونے پر چلنے کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں بداخلاقی،‏ نفسانی کاموں،‏ مادہ‌پرستی،‏ دُنیاوی فیلسوفیوں اور غیرصحیفائی رسومات کی مزاحمت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱؛‏ کلسیوں ۲:‏۸؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ یہوداہ ۳،‏ ۴‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہمیں یہ بھی ایمان رکھنا چاہئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور اُسکے کلام کی نصیحت واقعی مؤثر ہے۔‏

۶،‏ ۷.‏ ایمان کیلئے دُعا کرنا کیوں موزوں ہے؟‏

۶ ہم اپنی طاقت کے بل‌بوتے پر اپنے اندر ایمان پیدا نہیں کر سکتے؟‏ ایمان خدا کی رُوح‌اُلقدس یا سرگرم قوت کے پھلوں میں سے ایک ہے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ لہٰذا اگر ہمارے ایمان کو مضبوطی کی ضرورت ہے تو پھر کیا کِیا جانا چاہئے؟‏ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏جب تم .‏ .‏ .‏ اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوح‌اُلقدس کیوں نہ دے گا؟‏“‏ (‏لوقا ۱۱:‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں رُوح‌اُلقدس کے لئے دُعا کرنی چاہئے کیونکہ یہ نہایت صبرآزما حالات میں بھی ہمارے اندر خدا کی مرضی پوری کرنے کیلئے درکار ایمان پیدا کر سکتی ہے۔‏—‏افسیوں ۳:‏۲۰‏۔‏

۷ ایمان کو بڑھانے کیلئے دُعا کرنا مناسب ہے۔‏ جب یسوع ایک نوجوان لڑکے سے بدروح نکالنے والا تھا تو اُسکے باپ نے فریاد کی:‏ ”‏مَیں اعتقاد رکھتا ہوں۔‏ تُو میری بےاعتقادی کا علاج کر۔‏“‏ (‏مرقس ۹:‏۲۴‏)‏ یسوع کے شاگردوں نے کہا،‏ ”‏ہمارے ایمان کو بڑھا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۷:‏۵‏)‏ لہٰذا ہمیں اس اعتماد کے ساتھ ایمان کے لئے دُعا کرنی چاہئے کہ خدا ایسی دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۴‏۔‏

خدا کے کلام پر ایمان لازمی ہے

۸.‏ خدا کے کلام پر ایمان ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

۸ قربانی کی موت مرنے سے کچھ دیر پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تمہارا دل نہ گھبرائے۔‏ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۱‏)‏ مسیحیوں کے طور پر ہم خدا اور اُسکے بیٹے پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ خدا کے کلام کی بابت کیا ہے؟‏ اگر ہم اس مکمل بھروسے کیساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے اور اس پر عمل‌پیرا ہوتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے بہترین نصیحت اور راہنمائی فراہم کرتا ہے تو یہ ہماری زندگی کو پُرزور طریقے سے متاثر کر سکتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ آپ یعقوب ۱:‏۵-‏۸ میں ایمان کی بابت بیان کی وضاحت کیسے کرینگے؟‏

۹ ناکامل انسانوں کے طور پر ہماری زندگی تکلیف سے پُر ہے۔‏ تاہم،‏ خدا کے کلام پر ایمان واقعی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱‏)‏ مثال کے طور پر،‏ فرض کریں ہم کسی خاص آزمائش سے نپٹنا نہیں جانتے۔‏ خدا کا کلام ہمیں نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔‏ اُسکو دی جائیگی۔‏ مگر ایمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔‏ ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے [‏یہوواہ]‏ سے کچھ ملیگا۔‏ وہ شخص دو دِلا ہے اور اپنی سب باتوں میں بےقیام۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۵-‏۸‏۔‏

۱۰ یہوواہ خدا حکمت کی کمی اور اس کے لئے دُعا کرنے کی وجہ سے ہمیں ملامت نہیں کریگا۔‏ اسکی بجائے،‏ وہ ہمیں آزمائش کی بابت مناسب نقطۂ‌نظر رکھنے میں مدد دیگا۔‏ ساتھی ایمانداروں کی مدد سے یا بائبل مطالعے کے دوران ہماری توجہ مفید صحائف کی طرف دلائی جا سکتی ہے۔‏ یا کسی اَور طریقے سے بھی ہمیں یہوواہ کی پاک روح سے راہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔‏ اگر ہم ’‏ایمان سے مانگیں اور کچھ شک نہ کریں‘‏ تو ہمارا آسمانی باپ ہمیں آزمائشوں سے نپٹنے کیلئے حکمت عطا کریگا۔‏ اگر ہم ہوا سے بہنے والی سمندر کی لہروں کی مانند ہیں تو ہم خدا سے کسی بھی چیز کی توقع نہیں کر سکتے۔‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ اسکا مطلب ہے کہ ہم دُعا کرنے میں یا دیگر طریقوں سے—‏بلکہ ایمان کے اظہار میں بھی—‏متذبذب ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں خدا کے کلام اور اسکی فراہم‌کردہ راہنمائی پر پُختہ ایمان رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ آئیے چند مثالوں پر غور کریں کہ یہ کیسے مدد اور راہنمائی فراہم کرتی ہے۔‏

ایمان اور تقویت

۱۱.‏ خدا کے کلام پر ایمان ہماری روزمرّہ کی ضروریات کی بابت کیا یقین‌دہانی کراتا ہے؟‏

۱۱ اگر ہم تنگ‌دستی اور غربت کا شکار ہیں تو کیا ہو سکتا ہے؟‏ خدا کے کلام پر ایمان ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے کہ یہوواہ ہماری روزمرّہ کی ضروریات کا خیال رکھیگا اور آخرکار ایسے تمام لوگوں کے لئے کثیر برکات عطا کرے گا جو اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۲:‏۱۶؛‏ لوقا ۱۱:‏۲،‏ ۳‏)‏ اس بات پر غور کرنا ہمارے لئے حوصلہ‌افزائی کا باعث ہو سکتا ہے کہ یہوواہ نے کیسے قحط کے دوران اپنے نبی ایلیاہ کے لئے خوراک فراہم کی تھی۔‏ بعدازاں،‏ خدا نے معجزانہ طریقے سے آٹے اور تیل کی کمی نہ ہونے دینے سے ایک بیوہ،‏ اُسکے بیٹے اور ایلیاہ کو زندہ رکھا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۲-‏۱۶‏)‏ اسی طرح یہوواہ نے یروشلیم کے بابلی محاصرے کے دوران یرمیاہ نبی کی دیکھ‌بھال کی تھی۔‏ (‏یرمیاہ ۳۷:‏۲۱‏)‏ اگرچہ یرمیاہ اور ایلیاہ کے پاس کھانے کو بہت کم تھا توبھی یہوواہ نے اُنکا خیال رکھا۔‏ اُس پر ایمان رکھنے والوں کے لئے وہ آجکل بھی ایسا ہی کرتا ہے۔‏—‏متی ۶:‏۱۱،‏ ۲۵-‏۳۴‏۔‏

۱۲.‏ ایمان بنیادی ضروریات پوری کرنے میں کیسے معاون ثابت ہوتا ہے؟‏

۱۲ بائبل اُصولوں کے اطلاق کے ساتھ ایمان ہمیں مادّی طور پر دولتمند تو نہیں بنائے گا لیکن یہ بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ہماری مدد ضرور کرے گا۔‏ مثال کے طور پر:‏ بائبل ہمیں دیانتدار،‏ لائق اور محنتی اشخاص بننے کی نصیحت کرتی ہے۔‏ (‏امثال ۲۲:‏۲۹؛‏ واعظ ۵:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۲۱‏)‏ تاہم ہمیں ایک کارکن کے طور پر اپنی اچھی شہرت کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے۔‏ جہاں بیروزگاری بہت عام ہوتی ہے وہاں بھی دیانتدار،‏ قابل اور محنتی کارکنوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔‏ اگرچہ ایسے کارکن مادّی طور پر غریب ہو سکتے ہیں توبھی وہ عموماً اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی کھانے سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔‏—‏۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

ایمان غم برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے

۱۳،‏ ۱۴.‏ ایمان غم برداشت کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

۱۳ خدا کا کلام حقیقت‌پسندی سے ظاہر کرتا ہے کہ کسی عزیز کی موت پر غم کا تجربہ کرنا ایک فطری عمل ہے۔‏ ایماندار آبائی بزرگ ابرہام نے اپنی پیاری بیوی،‏ سارہ کی موت پر ماتم کِیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲۳:‏۲‏)‏ داؤد اپنے بیٹے ابی‌سلوم کی موت کا سن کر غم سے نڈھال ہو گیا تھا۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۱۸:‏۳۳‏)‏ یسوع بھی اپنے دوست لعزر کی موت پر رویا تھا حالانکہ وہ کامل انسان تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳۵،‏ ۳۶‏)‏ ایک عزیز کی موت پر ہم ناقابلِ‌برداشت غم میں مبتلا ہو سکتے ہیں،‏ لیکن خدا کے کلام میں پائے جانے والے وعدوں پر ایمان ایسے غم کی برداشت کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏

۱۴ پولس نے کہا کہ ”‏خدا سے اسی بات کی اُمید رکھتا ہوں .‏ .‏ .‏ کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏)‏ ہمیں لاکھوں اشخاص کو زندہ کرنے کے خدائی بندوبست پر ایمان رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ ان میں ابرہام اور سارہ،‏ اضحاق اور ربقہ،‏ یعقوب اور لیاہ—‏نیز خدا کی نئی دُنیا میں قیامت کے انتظار میں موت کی نیند سونے والے—‏دیگر لوگ شامل ہونگے۔‏ (‏پیدایش ۴۹:‏۲۹-‏۳۲‏)‏ اُس وقت کتنی خوشی کا سماں ہوگا جب ہمارے عزیزوں کو زمین پر رہنے کے لئے موت کی نیند سے اُٹھایا جائے گا!‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۱۱-‏۱۵‏)‏ اس اثنا میں،‏ ایمان ہمارے غم کو دُور نہیں کریگا لیکن یہ ہمیں خدا کی قربت میں ضرور رکھیگا جو غم کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏—‏زبور ۱۲۱:‏۱-‏۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳‏۔‏

ایمان افسردہ‌دلوں کو طاقت بخشتا ہے

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ایمانداروں کے درمیان افسردگی کوئی نئی بات نہیں ہے؟‏ (‏ب)‏ افسردگی کا مقابلہ کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏

۱۵ خدا کا کلام یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ایماندار لوگ بھی افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ اپنی شدید آزمائش میں،‏ ایوب نے محسوس کِیا کہ خدا نے اُسے ترک کر دیا ہے۔‏ (‏ایوب ۲۹:‏۲-‏۵‏)‏ یروشلیم کی تباہ‌کُن حالت نے نحمیاہ کو غمگین کر دیا تھا۔‏ (‏نحمیاہ ۲:‏۱-‏۳‏)‏ یسوع کا انکار کرنے کے بعد پطرس اسقدر دل‌برداشتہ ہوا کہ وہ ”‏زار زار رویا۔‏“‏ (‏لوقا ۲۲:‏۶۲‏)‏ نیز پولس نے تھسلنیکے کی کلیسیا کے ساتھی ایمانداروں کو تاکید کی تھی کہ ”‏کم‌ہمتوں کو دلاسا دو۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏)‏ لہٰذا،‏ آجکل ایمانداروں کا افسردہ ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔‏ پس ہم افسردگی کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا سکتے ہیں؟‏

۱۶ ہم سنگین مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سے افسردہ ہو سکتے ہیں۔‏ انہیں کوئی بڑی مصیبت خیال کرنے کی بجائے،‏ بائبل اُصولوں کا اطلاق کرتے ہوئے ہم انہیں ایک ایک کرکے حل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏ اس سے ہماری افسردگی قدرے کم ہو سکتی ہے۔‏ متوازن کارکردگی اور موزوں آرام مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔‏ ایک بات یقینی ہے:‏ خدا اور اس کے کلام پر ایمان روحانی فلاح کو فروغ دیتا ہے کیونکہ اس سے ہمارے یقین کو تقویت ملتی ہے کہ خدا واقعی ہماری پروا کرتا ہے۔‏

۱۷.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ ہماری فکر رکھتا ہے؟‏

۱۷ پطرس ہمیں یہ تسلی‌بخش یقین‌دہانی کراتا ہے:‏ ”‏خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سربلند کرے۔‏ اور اپنی ساری فکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏)‏ زبورنویس نے یہ گیت گایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ گِرتے ہوئے کو سنبھالتا اور جھکے ہوئے کو اُٹھا کھڑا کرتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۴‏)‏ ہمیں ان یقین‌دہانیوں پر ایمان لانا چاہئے کیونکہ یہ خدا کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔‏ اگرچہ افسردگی قائم رہ سکتی ہے توبھی یہ جاننا بڑا ایمان‌افزا ہے کہ ہم اپنی ساری فکر اپنے شفیق آسمانی باپ پر ڈال سکتے ہیں!‏

ایمان اور دیگر آزمائشیں

۱۸،‏ ۱۹.‏ ایمان بیماری کا مقابلہ کرنے اور بیمار ساتھی ایمانداروں کو تسلی دینے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

۱۸ جب ہم یا ہمارے عزیز کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمیں ایمان کی بڑی آزمائش کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ اگرچہ بائبل اپفردُتس،‏ تیمتھیس اور ترفمس جیسے مسیحیوں کی معجزانہ شفایابی کا ذکر نہیں کرتی توبھی یہوواہ نے برداشت کرنے میں اُنکی مدد کی تھی۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۲۵-‏۳۰؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۵:‏۲۳؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۲۰‏)‏ مزیدبرآں،‏ زبورنویس نے اس شخص کے متعلق ”‏جو غریب کا خیال رکھتا ہے“‏ گیت گایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اُسے بیماری کے بستر پر سنبھالیگا۔‏ تُو اُسکی بیماری میں اُسکے پورے بستر کو ٹھیک کرتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۴۱:‏۱-‏۳‏)‏ زبورنویس کے الفاظ بیمار ساتھی ایمانداروں کو تسلی دینے میں کیسے ہماری مدد کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ بیمار اشخاص کو روحانی مدد فراہم کرنے کا ایک طریقہ ان کے لئے دُعا کرنا ہے۔‏ آجکل معجزانہ شفا کی درخواست نہ کرتے ہوئے بھی ہم ایسے لوگوں کے لئے خدا سے تقویت کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی تکلیف اور کمزوری کے اوقات میں برداشت کرنے کیلئے ضروری روحانی طاقت حاصل کر سکیں۔‏ یہوواہ انہیں سنبھالیگا اور انکا ایمان مستقبل میں ایسے وقت کی اُمید رکھنے سے تقویت حاصل کریگا جب ”‏وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴‏)‏ یہ جاننا کسقدر تسلی‌بخش ہے کہ قیامت‌یافتہ یسوع مسیح اور خدا کی بادشاہت کے ذریعے،‏ فرمانبردار نسلِ‌انسانی گناہ،‏ بیماری اور موت سے دائمی رہائی حاصل کرے گی!‏ ان شاندار حالتوں کیلئے ہم یہوواہ کے شکرگزار ہیں جو ’‏ہمیں تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔‏‘‏—‏زبور ۱۰۳:‏۱-‏۳؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۵‏۔‏

۲۰.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ ایمان بڑھاپے کے ’‏بُرے دنوں‘‏ کو بھی برداشت کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے؟‏

۲۰ ایمان بڑھاپے میں صحت اور طاقت کے کم ہونے والے ’‏بُرے دنوں‘‏ کی برداشت کرنے میں بھی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱-‏۷‏)‏ پس ہمارے درمیان عمررسیدہ اشخاص بھی کہن‌سال زبورنویس کی طرح دُعا کر سکتے ہیں:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ خدا!‏ تُو ہی میری اُمید ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ بڑھاپے کے وقت مجھے ترک نہ کر۔‏ میری ضعیفی میں مجھے چھوڑ نہ دے۔‏“‏ (‏زبور ۷۱:‏۵،‏ ۹‏)‏ زبورنویس نے یہوواہ کی حمایت کی ضرورت کو محسوس کِیا جیساکہ بیشتر ساتھی مسیحی محسوس کرتے ہیں جو خدا کی خدمت میں عمررسیدہ ہو گئے ہیں۔‏ اپنے ایمان کی وجہ سے،‏ وہ اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ انہیں یہوواہ کے ابدی بازوؤں کی لازوال حمایت حاصل ہے۔‏—‏استثنا ۳۳:‏۲۷‏۔‏

خدا کے کلام پر ایمان کو قائم رکھیں

۲۱،‏ ۲۲.‏ اگر ہم ایمان رکھتے ہیں تو یہ خدا کے ساتھ ہمارے رشتے پر کیسے اثرانداز ہو سکتا ہے؟‏

۲۱ خوشخبری اور خدا کے کلام پر ایمان یہوواہ کے نزدیک آنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ یہ سچ ہے کہ وہ ہمارا حاکمِ‌اعلیٰ ہے لیکن وہ ہمارا خالق اور باپ بھی ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۶۴:‏۸؛‏ متی ۶:‏۹؛‏ اعمال ۴:‏۲۴‏)‏ زبورنویس نے یہ گیت گایا:‏ ”‏تُو میرا باپ میرا خدا اور میری نجات کی چٹان ہے۔‏“‏ (‏زبور ۸۹:‏۲۶‏)‏ اگر ہم یہوواہ اور اس کے الہامی کلام پر ایمان رکھتے ہیں تو ہم بھی اُسے ’‏اپنی نجات کی چٹان‘‏ سمجھ سکتے ہیں۔‏ کیا ہی دل کو گرما دینے والا شرف!‏

۲۲ یہوواہ رُوح سے مسح‌شُدہ مسیحیوں اور زمینی اُمید رکھنے والے اُن کے ساتھیوں کا بھی باپ ہے۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۱۵‏)‏ نیز اپنے آسمانی باپ پر ایمان ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔‏ داؤد نے کہا:‏ ”‏جب میرا باپ اور میری ماں مجھے چھوڑ دیں تو [‏یہوواہ]‏ مجھے سنبھال لے گا۔‏“‏ (‏زبور ۲۷:‏۱۰‏)‏ مزیدبرآں،‏ ہمیں یہ یقین‌دہانی حاصل ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے بڑے نام کے باعث اپنے لوگوں کو ترک نہیں کرے گا۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۱۲:‏۲۲‏۔‏

۲۳.‏ یہوواہ کیساتھ ابدی رشتے سے مستفید ہونے کیلئے ہم سے کیا تقاضا کِیا جاتا ہے؟‏

۲۳ بیشک،‏ یہوواہ کے ساتھ ابدی رشتے سے مستفید ہونے کے لئے،‏ ہمیں خوشخبری اور صحائف یعنی خدا کے کلام پر جیساکہ وہ حقیقت میں ہے ایمان رکھنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۳‏)‏ ہمیں یہوواہ پر پُختہ ایمان رکھتے ہوئے اس کے کلام کو اپنی مشعل‌راہ بنانا چاہئے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۵؛‏ امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ جب ہم اسکی دردمندی،‏ رحم اور حمایت پر اعتماد کیساتھ دُعا کرتے ہیں تو ہمارا ایمان بڑھیگا۔‏

۲۴.‏ رومیوں ۱۴:‏۸ میں کونسا تسلی‌بخش خیال پیش کِیا گیا ہے؟‏

۲۴ ایمان نے ہمیں خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا کیلئے مخصوص کرنے کی تحریک دی تھی۔‏ اگر ہم پُختہ ایمان کی حالت میں مر بھی جاتے ہیں تو ہم قیامت کی اُمید رکھنے والے اسکے مخصوص‌شُدہ خادم ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ ”‏ہم جئیں یا مریں [‏یہوواہ]‏ ہی کے ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۸‏)‏ پس،‏ آئیے خدا کے کلام پر اعتماد اور خوشخبری پر ایمان قائم رکھتے ہوئے اِس تسلی‌بخش خیال کو اپنے دل میں رکھیں۔‏

آپ کیسے جواب دینگے

‏•ایمان کیا ہے اور ہمیں اس خوبی کی کیوں ضرورت ہے؟‏

‏•یہ کیوں اہم ہے کہ ہم خوشخبری اور خدا کے کلام پر ایمان رکھیں؟‏

‏•ایمان مختلف آزمائشوں کا سامنا کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

‏•کونسی چیز ایمان رکھنے میں ہماری مدد کریگی؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویریں]‏

یہوواہ نے یرمیاہ اور ایلیاہ کو اُن کے ایمان کی وجہ سے سنبھالے رکھا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویریں]‏

ایوب،‏ پطرس اور  نحمیاہ مضبوط ایمان رکھتے تھے

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

یہوواہ کیساتھ ابدی رشتے سے مستفید ہونے کیلئے ہمیں خوشخبری پر ایمان رکھنا چاہئے