مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا بدی فاتح رہی ہے؟‏

کیا بدی فاتح رہی ہے؟‏

کیا بدی فاتح رہی ہے؟‏

نیکی اور بدی کی طاقتوں کے مابین عالمگیر جنگ کے خیال نے تمام تاریخ میں ئنن اور مفکروں کو مسلسل قیاس‌آرائی کرنے کی تحریک دی ہے۔‏ تاہم ایک کتاب میں خدا اور ابلیس کے درمیان جنگ کی سچی سرگزشت قلمبند ہے۔‏ وہ کتاب بائبل ہے۔‏ یہ اس جنگ میں شامل مسائل پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس بات کا تعیّن کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے کہ جیت کس کی ہوئی۔‏

پہلے مرد اور عورت کی تخلیق کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نادیدہ روحانی مخلوق،‏ شیطان ابلیس نے خدا کی حاکمیت کو چیلنج کِیا۔‏ وہ کیسے؟‏ اُس نے بڑی عیاری سے کہا کہ خدا اپنی مخلوق کو اچھی چیزوں سے محروم رکھتا ہے اور یہ کہ انسان اُس سے آزاد رہ کر بہتر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱-‏۵؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏۔‏

بعدازاں،‏ آبائی بزرگ ایوب کے زمانہ میں شیطان نے ایک اَور مسئلہ کھڑا کر دیا۔‏ خدا کیلئے ایوب کی راستی کو توڑنے کی جستجو میں شیطان نے کہا:‏ ”‏کھال کے بدلے کھال بلکہ انسان اپنا سارا مال اپنی جان کیلئے دے ڈالیگا۔‏“‏ (‏ایوب ۲:‏۴‏)‏ یہ کتنا بڑا دعویٰ تھا!‏ ایوب کا بنام ذکر کرنے کی بجائے اصطلاح ”‏انسان“‏ استعمال کرنے سے شیطان نے ہر انسان کی راستی کو مشکوک بنا دیا۔‏ اُس نے درحقیقت یہ دعویٰ کِیا:‏ ’‏ایک شخص اپنی جان بچانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔‏ مجھے موقع دے کر دیکھو،‏ مَیں کسی بھی انسان کو خدا سے منحرف کر سکتا ہوں۔‏‘‏

خدا اور ابلیس کے مابین جنگ میں فتح کا تعیّن دو سوالوں کے جواب سے ہوتا ہے:‏ کیا انسان خود پر کامیاب حکمرانی کر سکتا ہے؟‏ کیا ابلیس تمام لوگوں کو سچے خدا سے دُور کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟‏

کیا انسان خود پر کامیاب حکمرانی کر سکتے ہیں؟‏

ہزاروں سال سے انسانوں نے مختلف قسم کی حکومتوں کو آزمایا ہے۔‏ پوری تاریخ میں شہنشاہیت،‏ اشرافیت،‏ جمہوریت،‏ خودمختاری،‏ فاشزم اور اشتراکیت جیسی مختلف حکومتوں کو آزمایا گیا ہے۔‏ کیا مختلف حکومتوں کو آزمانے کی یہ مستقل ضرورت اس بات کا ثبوت نہیں کہ حکومت کرنے کے یہ مختلف طریقے ناکام ثابت ہوئے ہیں؟‏

ایچ.‏ جی.‏ ویلز نے ۱۹۲۲ میں،‏ اپنی شائع‌کردہ کتاب اے ہسٹری آف دی ورلڈ میں لکھا،‏ ”‏رومیوں نے غیرمتوقع طور پر ایک وسیع حکومتی نظام کو آزمایا تھا۔‏“‏ وہ مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ ہمیشہ تبدیل ہوتا رہا اور کبھی بھی مستحکم ثابت نہیں ہوا تھا۔‏ ایک لحاظ سے یہ تجربہ ناکام رہا۔‏ باالفاظِ‌دیگر یہ تجربہ کبھی مکمل نہیں ہوا اس لئےکہ یورپ اور امریکہ آج بھی دُنیاوی حکومتی نظام کے داؤپیچ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جنکا رومی لوگوں کو سامنا تھا۔‏“‏

مختلف حکومتیں آزمانے کا یہ تجربہ ۲۰ ویں صدی میں بھی جاری رہا۔‏ اس صدی کے اختتام پر جمہوری حکومت نے پہلے سے کہیں زیادہ شہرت حاصل کی تھی۔‏ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت تمام لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔‏ تاہم،‏ کیا جمہوریت نے یہ ظاہر کِیا ہے کہ انسان خدا کے بغیر کامیابی سے حکمرانی کر سکتا ہے؟‏ سابقہ بھارتی وزیرِاعظم جواہر لال نہرو نے جمہوریت کو قابلِ‌قبول قرار دیا لیکن مزید بیان کِیا:‏ ”‏مَیں ایسا اس لئے کہتا ہوں کہ دیگر نظاموں میں اس سے زیادہ خامیاں پائی جاتی ہیں۔‏“‏ سابقہ فرانسیسی صدر ویلری جسکارڈ ڈسٹائن نے بیان کِیا:‏ ”‏ہم نمائندہ جمہوریت کی بحرانی صورتحال کے گواہ ہیں۔‏“‏

پانچویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں بھی یونانی فلسفی افلاطون نے  جمہوری طرزِحکومت کی ایک خامی دریافت کی تھی۔‏ کتاب اے ہسٹری آف پولیٹیکل تھیوری میں وہ ”‏سیاستدانوں کی غفلت اور نااہلی“‏ پر تنقید کرتا ہے ”‏جو جمہوری حکومتوں کی خاص کمزوری ہے۔‏“‏ آجکل کے بہتیرے سیاستدان حکومت کرنے کی صلاحیت رکھنے والے لائق اشخاص کی کمی پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔‏ دی وال سٹریٹ جرنل بیان کرتا ہے کہ لوگ ”‏ان راہنماؤں سے تنگ آ گئے ہیں جو عوام کو درپیش بڑے مسائل کے سامنے بےبس دکھائی دیتے ہیں۔‏“‏ اس میں مزید بیان کِیا گیا:‏ ”‏جب اُنہیں معقول راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ متذبذب اور بدعنوان اشخاص کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔‏“‏

اب قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان کی حکمرانی پر غور کریں۔‏ یہوواہ نے سلیمان کو غیرمعمولی حکمت بخشی تھی۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۴:‏۲۹-‏۳۴‏)‏ سلیمان کے ۴۰ سالہ دورِحکومت میں اسرائیلی قوم کی حالت کیسی تھی؟‏ بائبل جواب دیتی ہے،‏ ”‏یہوؔداہ اور اؔسرائیل کے لوگ کثرت میں سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند تھے اور کھاتے پیتے اور خوش رہتے تھے۔‏“‏ سرگزشت یہ بھی بیان کرتی ہے:‏ ”‏سلیماؔن کی عمربھر یہوؔداہ اور اؔسرائیل کا ایک ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے داؔن سے بیرسبعؔ تک امن سے رہتا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۴:‏۲۰،‏ ۲۵‏)‏ نادیدہ حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ خدا کے دیدنی نمائندے کے طور پر،‏ دانشمند بادشاہ کی حکمرانی میں اس قوم نے لاثانی استحکام،‏ خوشحالی اور شادمانی سے استفادہ کِیا تھا۔‏

انسانی اور خدائی حکمرانی کے مابین کس قدر تضاد!‏ کیا کوئی دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہے کہ حکمرانی کے مسئلے میں جیت شیطان کی ہوئی ہے؟‏ جی‌نہیں،‏ اس لئے کہ یرمیاہ نبی نے موزوں طور پر بیان کِیا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اُسکے اختیار میں نہیں۔‏ انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏—‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏۔‏

کیا شیطان سب کو خدا سے منحرف کر سکتا ہے؟‏

کیا شیطان اپنے اس دعوے میں کامیاب ہوا ہے کہ وہ سب کو خدا سے منحرف کر سکتا ہے؟‏ بائبل کی کتاب عبرانیوں ۱۱ باب میں پولس رسول مسیحی دَور سے قبل کے کئی ایماندار مردوزن کا بنام ذکر کرتا ہے۔‏ اس کے بعد وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏اتنی فرصت کہاں کہ جدعوؔن اور برقؔ اور سمسوؔن اور افتاؔہ اور داؔؤد اور سموؔئیل اور اَور نبیوں کا احوال بیان کروں؟‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۲‏)‏ پولس خدا کے ان وفادار خادموں کا حوالہ محض ’‏گواہوں کے ایک بڑے بادل‘‏ کے طور پر دیتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱‏)‏ ”‏بادل“‏ کیلئے مستعمل یونانی لفظ ایک مخصوص وسعت اور شکل کے بادل کی بجائے ایک بہت بڑے اور لامحدود بادل کا مطلب رکھتا ہے۔‏ یہ بالکل موزوں ہے اسلئےکہ ماضی میں خدا کے ایماندار خادموں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ ایک بڑے لامحدود بادل کی طرح تھے۔‏ جی‌ہاں،‏ صدیوں کے دوران،‏ لاتعداد لوگوں نے اپنی آزاد مرضی کو عمل میں لاتے ہوئے یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کا انتخاب کِیا ہے۔‏—‏یشوع ۲۴:‏۱۵‏۔‏

ہمارے زمانہ کی بابت کیا ہے؟‏ بیسویں صدی میں شدید اذیت اور مخالفت کا سامنا کرنے کے باوجود دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کی تعداد چھ ملین سے زیادہ ہو گئی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ تقریباً نو ملین دوسرے لوگ ان کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں جن میں سے بہتیرے خدا کے ساتھ ایک قریبی ذاتی رشتہ اُستوار کرنے کے لئے ٹھوس اقدام اُٹھا رہے ہیں۔‏

انسانوں کو یہوواہ سے منحرف کرنے کی بابت شیطان کے دعوے کا حتمی جواب خدا کے اپنے بیٹے یسوع مسیح نے دیا تھا۔‏ سولی پر انتہائی تکلیف بھی اُسکی راستی کو نہ توڑ سکی۔‏ جب یسوع نے آخری سانس لی تو بڑی آواز سے پکار کر کہا:‏ ”‏اَے باپ!‏ مَیں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔‏“‏—‏لوقا ۲۳:‏۴۶‏۔‏

انسانوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کی حتی‌المقدور کوشش کرتے ہوئے،‏ شیطان آزمائشوں سے لے کر تشدد تک مختلف طرح سے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے۔‏ شیطان ”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی“‏ کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو یہوواہ سے دُور کرنے یا لالچ دیکر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶‏)‏ شیطان نے ’‏بےایمانوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے۔‏‘‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ نیز شیطان اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ڈرانےدھمکانے اور انسانی خوف کا سہارا لینے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔‏—‏اعمال ۵:‏۴۰‏۔‏

تاہم،‏ جو لوگ خدا کی طرف ہیں اُن پر ابلیس کسی بھی طرح فتح حاصل نہیں کر سکتا۔‏ وہ یہوواہ خدا کو جان گئے ہیں اور اُس سے ’‏اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھتے‘‏ ہیں۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع مسیح اور دیگر لاتعداد انسانوں کی غیرمتزلزل وفاداری شیطان ابلیس کیلئے ایک بڑی ناکامی ثابت ہوتی ہے۔‏

مستقبل میں کیا ہوگا؟‏

کیا مختلف حکومتوں کو آزمانے کیلئے انسانی تجربات کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہیگا؟‏ دانی‌ایل نبی نے پیشینگوئی کی:‏ ”‏اُن بادشاہوں کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کریگا جو تاابد نیست نہ ہوگی اور اُسکی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائیگی بلکہ وہ اِن تمام مملکتوں کو ٹکڑےٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی ابد تک قائم رہے گی۔‏“‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ آسمان کا خدا جو بادشاہت قائم کرتا ہے وہ یسوع مسیح کے تحت ایک آسمانی حکومت ہے۔‏ یہ وہی بادشاہت ہے جس کیلئے یسوع نے اپنے پیروکاروں کو دُعا کرنا سکھائی تھی۔‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ یہ بادشاہت ”‏قادرِمطلق خدا کے [‏جلد آنے والے]‏ روزِعظیم کی لڑائی“‏ پر تمام انسانی حکومتوں کو نیست‌ونابود کر دیگی اور پوری زمین پر اثرانداز ہوگی۔‏—‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏۔‏

شیطان کیساتھ کیا ہوگا؟‏ بائبل مستقبل میں رُونما ہونے والے اس واقعہ کو یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ کے فرشتے]‏ نے اُس اژدہا یعنی پُرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کے لئے باندھا۔‏ اور اُسے اتھاہ گڑھے میں ڈال کر بند کر دیا اور اُس پر مہر کر دی تاکہ وہ ہزار برس کے پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۳‏)‏ جب شیطان کو اس بےعملی کی حالت میں قید کر دیا جائیگا تب یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکومت شروع ہوگی۔‏

اُس وقت زمین کسقدر پُرمسرت جگہ ہوگی!‏ بدکاری اور اس کے ذمہ‌دار اشخاص کو ختم کر دیا جائے گا۔‏ بائبل وعدہ کرتی ہے:‏ ”‏بدکردار کاٹ ڈالے جائینگے .‏ .‏ .‏ لیکن حلیم مُلک کے وارث ہونگے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۹-‏۱۱‏)‏ اُنکی سلامتی کو کسی انسان یا جانور کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔‏ (‏یسعیاہ ۱۱:‏۶-‏۹‏)‏ ایسے لاکھوں لوگوں کو بھی جو انسانی تاریخ کے دوران غفلت اور یہوواہ کو جاننے کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے ابلیس کی طرف تھے دوبارہ زندہ کِیا جائیگا اور انہیں الہٰی تعلیم دی جائیگی۔‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

ہزارسالہ حکمرانی کے اختتام پر پوری زمین کو فردوس میں تبدیل کر دیا جائے گا اور نسلِ‌انسانی کاملیت کو پہنچ چکی ہوگی۔‏ بعدازاں شیطان کو ”‏تھوڑے عرصہ“‏ کے لئے آزاد کِیا جائے گا جس کے بعد خدا کی حکمرانی کے تمام مخالفین سمیت اُسے ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جائے گا۔‏—‏مکاشفہ ۲۰:‏۳،‏ ۷-‏۱۰‏۔‏

آپ کس کی طرف ہونگے؟‏

بیسویں صدی ایک ایسا وقت تھا جب شیطان نے زمین پر ابتری پھیلا دی تھی۔‏ تاہم زمینی حالات اسکی فتح کی بجائے اس نشان کی علامت ہیں کہ ہم اس بدکار دُنیا کے آخری ایّام میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳-‏۱۴؛‏ مکاشفہ ۶:‏۱-‏۸‏)‏ زمین پر بدکاری کی شدت اور اکثریت کا نقطۂ‌نظر اس بات کا تعیّن نہیں کرتا کہ فتح کسے حاصل ہوئی ہے۔‏ اس سلسلے میں فیصلہ‌کُن عناصر یہ ہیں کہ کس کی حکمرانی کا طریقہ بہترین ہے اور کیا کسی نے محبت سے تحریک پاکر خدا کی خدمت کی ہے۔‏ دونوں معاملوں میں فتح یہوواہ ہی کی ہوئی ہے۔‏

اگر خدا کی دی ہوئی مہلت نے پہلے ہی شیطان کو غلط ثابت کر دیا ہوتا تو پھر اُس نے بُرائی کو جاری رہنے کی اجازت کیوں دی ہے؟‏ یہوواہ تحمل ظاہر کرتا ہے ”‏اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۹‏)‏ یہ خدا کی مرضی ہے کہ ”‏سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏)‏ دُعا ہے کہ آپ باقی وقت کو بائبل کا مطالعہ کرنے اور ’‏خدایِ‌واحد اور برحق اور اُسکے بھیجے ہوئے یسوع مسیح‘‏ کی بابت علم حاصل کرنے میں صرف کریں۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ یہوواہ کے گواہ اس علم کو حاصل کرنے میں خوشی سے آپ کی مدد کریں گے تاکہ آپ کو بھی لاکھوں فاتح لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا مقدور حاصل ہو۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویریں]‏

یہوواہ کے گواہوں نے راستی برقرار رکھنے سے شیطان کی شکست کا اضافی ثبوت دیا ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

بہتیرے وفادار اشخاص یہوواہ کی طرف ہیں