مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

بائبل یہ کیوں کہتی ہے کہ جب کوئی زنابالجبر کے خطرے میں ہو تو اُسے شور مچانا چاہئے؟‏

جس شخص کیساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی جاتی ہے وہ اِس تجربے کو آسانی سے بھلا نہیں سکتا۔‏ یہ واقعہ اسقدر ہولناک ہے کہ وہ لوگ جن کیساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا وہ اِسکا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‏ * کچھ سال پہلے ایک آدمی کے ہاتھوں بےحُرمت ہونے والی ایک جوان مسیحی عورت بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں آپکو بتا نہیں سکتی کہ اُس رات مَیں کتنی خوفزدہ تھی اور اُس وقت کی بُری یادوں کو بھلانا میرے لئے آج بھی کتنا مشکل ہے۔‏“‏ اِسی وجہ سے زیادہ‌تر لوگ اِس موضوع کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔‏ لیکن آج کی اس بُری دُنیا میں کسی کیساتھ بھی ایسا واقع ہو سکتا ہے۔‏

بائبل ایسے واقعات کا ذکر کرنے سے اجتناب نہیں کرتی جن میں کسی کیساتھ زنابالجبر کِیا گیا ہو یا کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔‏ (‏پیدایش ۱۹:‏۴-‏۱۱؛‏ ۳۴:‏۱-‏۷؛‏ ۲-‏سموئیل ۱۳:‏۱-‏۱۴‏)‏ مگر وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب کسی کی عزت لٹنے کا خطرہ ہو تو وہ کیا کر سکتا ہے۔‏ موسوی شریعت استثنا ۲۲:‏۲۳-‏۲۷ میں اِسکی تفصیل بیان کرتی ہے۔‏ یہاں دو مختلف حالتوں کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ پہلی صورتِ‌حال میں ایک آدمی نے شہر میں ایک لڑکی کو پایا اور اُسکے ساتھ صحبت کی مگر لڑکی نے شور نہیں مچایا۔‏ اِس وجہ سے وہ بھی قصوروار ٹھہرائی گئی کیونکہ ”‏وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلّائی۔‏“‏ اگر وہ چلّاتی تو شاید لوگ آ کر اُسکی مدد کرتے۔‏ دوسری صورتِ‌حال میں ایک آدمی نے شہر سے باہر کسی کھیت میں ایک لڑکی کو پایا اور ”‏جبراً اُس سے صحبت“‏ کی۔‏ وہ لڑکی اپنے دفاع میں ”‏چلّائی بھی پر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو اُسے چھڑاتا۔‏“‏ پہلی صورتِ‌حال والی عورت کی نسبت اِس عورت نے حملہ‌آور کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ اُس سے طاقتور تھا۔‏ اُسکی چیخ‌وپکار سے صاف طور پر ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اِس آدمی سے صحبت کرنا نہیں چاہتی تھی۔‏ اِس وجہ سے اُسکا کوئی گُناہ نہ تھا۔‏

اگرچہ مسیحی آجکل موسوی شریعت کے ماتحت نہیں توبھی اُس میں پائے جانے والے اُصول اُنکی راہنمائی کر سکتے ہیں۔‏ مذکورہ‌بالا بیان سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حملہ‌آور کو روکنے کی کوشش کرنا اور چیخنا چلّانا کتنا اہم ہے۔‏ آجکل بھی عصمت‌دری کے خطرے میں شور مچانے کو عملی قدم خیال کِیا جاتا ہے۔‏ جرائم کی روک‌تھام کے ایک ماہر نے بیان کِیا:‏ ”‏اگر کوئی عورت زنابالجبر کے خطرے میں ہو تو اُسکا بہترین ہتھیار چیخنا چلّانا ہی ہے۔‏“‏ ایک عورت کے چیخنے چلّانے سے حملہ‌آور گھبرا کر بھاگ سکتا ہے۔‏ اِسکے علاوہ دوسرے لوگ بھی شور سُن کر اُسکی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔‏ ایک نوجوان مسیحی خاتون بتاتی ہے کہ جب ایک شخص نے جنسی ہوس مٹانے کیلئے میرے ساتھ دست‌درازی کرنے کی کوشش کی تو ”‏مَیں پورے زور سے چلّائی کہ وہ پیچھے ہٹ گیا۔‏ جب وہ دوبارہ میری طرف بڑھا تو مَیں پھر چلّائی اور وہاں سے بھاگ گئی۔‏ اِس سے پہلے مَیں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اگر کبھی کوئی طاقتور آدمی مجھے ہوس کا نشانہ بنانے کیلئے پکڑ لے تو میری چیخیں اُسے کیسے روک سکتی ہیں۔‏ لیکن اب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ ایسی صورتِ‌حال میں چیخنا فائدہ‌مند ہے۔‏“‏

اُس واقعہ کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے جب کوئی آدمی ایک عورت کو بےحُرمت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا عورت کی زیادتی کو روکنے کی تمام کوششیں فضول تھیں؟‏ ایسا نہیں ہے بلکہ عورت شور مچانے سے اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ اُس نے حملہ‌آور کی مزاحمت کرنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی تھی۔‏ (‏استثنا ۲۲:‏۲۶‏)‏ ایسے ہولناک تجربے سے گزرنے کے باوجود وہ صاف ضمیر،‏ عزتِ‌نفس اور اس بات کا یقین رکھ سکتی ہے وہ خدا کی نظر میں پاک ہے۔‏ ایسا ہولناک تجربہ اُسے جذباتی طور پر مجروح کر سکتا ہے مگر وہ یہ جانتے ہوئے بتدریج بحال ہو سکتی ہے کہ اُس نے حملے کی مزاحمت کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔‏

جب ہم استثنا ۲۲:‏۲۳-‏۲۷ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اُصول ہر صورتِ‌حال پر لاگو نہیں ہوتا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں جن میں عورت شور نہیں مچا سکتی۔‏ شاید وہ گونگی ہے یا بیہوش ہے یا ڈر کے مارے اُس پر سکتہ طاری ہو گیا ہو یا اُسکا مُنہ کسی طریقے سے بند کر دیا گیا ہو تاکہ وہ چلّا نہ سکے۔‏ تاہم،‏ جب یہوواہ محرکات سمیت تمام عناصر کو سمجھ سکتا ہے لہٰذا وہ تمام معاملات میں سمجھ اور انصاف کو کام میں لاتا ہے کیونکہ ”‏اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏“‏(‏استثنا ۳۲:‏۴‏)‏ وہ تمام حالات‌وواقعات سے اور حملہ‌آور کو روکنے کیلئے اُس عورت کی طرف سے کی جانے والی تمام کوششوں سے بھی واقف ہے۔‏ اِس وجہ سے ایک ایسی عورت جو چیخ‌وپکار نہیں کر سکتی تھی مگر اپنے آپکو بچانے کیلئے اُس نے ہر ممکن کوشش کی تھی وہ یہوواہ پر اپنا بوجھ ڈال سکتی ہے۔‏—‏زبور ۵۵:‏۲۲؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۷‏۔‏

بہتیری بےحُرمت ہونے والی مسیحی عورتیں بےحُرمتی سے بچنے کی ازحد کوشش کرنے کے باوجود ناکام رہنے کے بعد یہ سوچتی ہیں کہ شاید اُنہوں نے حملے کو روکنے کیلئے کافی مقابلہ نہیں کِیا تھا۔‏ پس بےحُرمتی کا شکار ہونے والی خواتین خود کو ملزم ٹھہرانے کی بجائے یہوواہ سے دُعا میں اُسکی مدد کیلئے درخواست کر سکتی ہیں اور اُنہیں اُسکی شفقت پر بھروسا کرنا چاہئے۔‏—‏خروج ۳۴:‏۶؛‏ زبور ۸۶:‏۵‏۔‏

پس زنابالجبر کی وجہ سے شدید ذہنی صدمے میں مبتلا ایسی تمام مسیحی عورتیں یہ اعتماد رکھ سکتی ہیں کہ یہوواہ اُنکے تکلیف‌دہ احساسات کو مکمل طور پر سمجھ سکتا ہے۔‏ خدا کا کلام اُنہیں یقین‌دہانی کراتا ہے:‏ ”‏خداوند شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۸‏)‏ مزیدبرآں،‏ جب مسیحی کلیسیا کے اندر ساتھی ایماندار اُنہیں نرمی اور شفقت سے دلاسا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنکو اِسے خوشی سے قبول کرنا چاہئے۔‏ (‏ایوب ۲۹:‏۱۲؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏)‏ اِسکے علاوہ،‏ بےحُرمتی کا شکار ہونے والی خواتین کی تعمیری اور مثبت خیالات پر غوروخوض کرنے کی کوششیں بھی اُن کیلئے مفید ثابت ہونگی کہ وہ ”‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے“‏ کا تجربہ کر سکیں۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶-‏۹‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اگرچہ یہ مضمون صرف عورتوں کے بےحُرمت ہونے کا ذکر کرتا ہے توبھی زیرِبحث اُصول اُن مردوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں جو ایسے تجربے سے گزرے ہیں۔‏