مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مصیبت کی آگ میں تپایا گیا

مصیبت کی آگ میں تپایا گیا

میری کہانی میری زبانی

مصیبت کی آگ میں تپایا گیا

از پری‌کلیز یان‌نُوریز

قیدخانہ میں نمی تھی۔‏ مجھے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔‏ اگرچہ مَیں ہلکا کمبل اُوڑھے بیٹھا تھا توبھی سردی لگ رہی تھی۔‏ مَیں اُس منظر کو یاد کر رہا تھا جو دو دن پہلے واقع ہوا جب سپاہی مجھے گرفتار کرنے کیلئے میرے گھر آ پہنچے۔‏ میری بیوی ہمارے دو ننھے بچوں کیساتھ اکیلی رہ گئی تھی۔‏ بچے بیمار بھی تھے۔‏ پھر بھی اُسکے چہرے پر افسردگی تک نہ تھی۔‏ میری بیوی کا مذہب میرے مذہب سے مختلف تھا۔‏ جب مَیں جیل میں تھا تو اُس نے میرے لئے روٹیاں بھیجیں۔‏ روٹیوں کیساتھ ایک نوٹ بھی تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ”‏یہ روٹیاں تمہارے لئے ہیں۔‏ مَیں اُمید کرتی ہوں تم بھی اپنے بچوں کی طرح بیمار ہو جاؤ۔‏“‏ مَیں خود سے پوچھ رہا تھا:‏ کیا مَیں اپنے بیوی‌بچوں کو پھر کبھی دوبارہ دیکھ سکونگا؟‏

مَیں ایک مسیحی کے طور پر وفادار رہنا چاہتا تھا۔‏ اِس راہ پر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں قیدوبند صرف ایک مشکل تھی۔‏ اِسکے علاوہ میرے خاندان نے بھی میری راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کرنے کی بہت سی کوشش کیں۔‏ پڑوسیوں نے میرے ساتھ رابطہ رکھنا بند کر دیا۔‏ مجھ پر مقدمے چلائے گئے اور مجھے سخت اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔‏ لیکن مَیں تو ایک امن‌پسند شخص تھا جو خدا سے محبت کرتا تھا۔‏ پھر مجھے قید میں بند کیوں کِیا گیا تھا؟‏ آئیے مَیں آپکو اپنی کہانی سناتا ہوں۔‏

ایک غریب لڑکے کی آرزو

مَیں ۱۹۰۹ میں،‏ کریتے کے ایک چھوٹے سے گاؤں سٹاورومینو میں پیدا ہوا۔‏ کریتے میں جنگ کی وجہ سے لوگ غربت اور قحط کا شکار تھے۔‏ کچھ عرصے کے بعد پوری دُنیا میں ایک خطرناک وبا سپینش انفلوئنزا سے لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔‏ ہمارے والدین ہم بہن بھائیوں کو اِس خوف سے گھر سے نہیں نکلنے دیتے تھے کہ کہیں ہم بھی اِس وبا کا شکار نہ ہو جائیں۔‏

ہمارا والد ایک غریب کسان تھا۔‏ کچھ عرصے کیلئے فرانس اور مڈغاسکر میں رہنے کی وجہ سے اُس نے مختلف مذہبی تعلیمات کے بارے میں بھی سیکھا تھا۔‏ اِس وجہ سے وہ کھلے ذہن کا مالک تھا۔‏ لیکن اس کیساتھ ساتھ وہ نہایت مذہبی انسان اور یونان کے آرتھوڈکس چرچ کا وفادار رُکن بھی تھا۔‏ ہمارا پورا خاندان ہر اتوار چرچ جاتا اور جب بشپ اپنے سالانہ دورے پر ہمارے گاؤں آتا تو وہ ہمارے ہی گھر میں ٹھہرتا تھا۔‏ مَیں کوائر بوائے تھا اور میری بڑی آرزو تھی کہ مَیں بھی پادری بنو۔‏

مَیں نے ۱۹۲۹ میں،‏ پولیس میں بھرتی ہو کر شمالی یونان کے علاقے تھسلنیکے میں کام کرنا شروع کر دیا۔‏ والد کی وفات کے بعد مجھے تسلی اور راہنمائی کی ضرورت تھی۔‏ اِسلئے مَیں نے ماؤنٹ ایتھوس کے علاقے میں اپنا تبادلہ کروا لیا۔‏ یہ ”‏مُقدس پہاڑ“‏ عرصۂ‌دراز سے تمام آرتھوڈکس دُنیا کیلئے ایک مُقدس مقام ہے۔‏ * آج تک یہاں پر بیشمار خانقاہیں موجود ہیں۔‏ مَیں نے وہاں کام تو کِیا مگر خدا کی نزدیکی حاصل کرنے کی بجائے مَیں راہبوں کی حرکتوں کو دیکھ کر مایوس ہو گیا۔‏ ایک بڑے راہب نے میرے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی،‏ جسکی مَیں بہت عزت کرتا تھا۔‏ ایسی باتوں سے میرا دل تو ضرور خراب ہوا لیکن خدا کی خدمت کرنے کی میری آرزو بالکل نہ بدلی۔‏ یہانتک کہ ایک بار مَیں نے پادریوں کا چوغہ پہن کر تصویر بھی کھنچوائی۔‏ چار سال کے بعد مَیں واپس کریتے آگیا۔‏

‏”‏وہ تو شیطان ہے!‏“‏

سن ۱۹۴۲ میں،‏ مَیں نے ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کر لی جسکا نام فروزینی تھا۔‏ میرے سُسرال والے نہایت مذہبی لوگ تھے۔‏ * اِس وجہ سے میرے دل میں پادری بننے کی آرزو اَور بھی مضبوط ہو گئی۔‏ آخرکار مَیں نے ایتھنز جا کر پادری بننے کیلئے تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔‏ سن ۱۹۴۳ کے آخر پر،‏ مَیں کریتے میں ایراکلی‌ون کی بندگاہ پر پہنچا لیکن ایتھنز کیلئے روانہ نہ ہوا۔‏ مَیں نے اپنا سفر جاری نہ رکھا اِسلئے کہ میری زندگی تبدیل ہونے والی تھی۔‏ میرا بچپن کا خواب یعنی خدا کی خدمت کرنا ایک مختلف طریقے سے پورا ہونے والا تھا۔‏ وہ کیسے؟‏

کئی سالوں سے یہوواہ کا ایک گواہ عمانوایل لیونوڈاکس کریتے میں بائبل تعلیمات کی منادی کر رہا تھا۔‏ * کچھ لوگ بائبل کی باتوں سے اسقدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے جھوٹے مذہب کو چھوڑ دیا۔‏ سیٹی‌یا کے شہر میں پُرجوش منادوں کا ایک چھوٹا سا گروپ بن گیا۔‏ وہاں کا بشپ اِس بات سے بالکل خوش نہ تھا اِسلئےکہ وہ جانتا تھا کہ یہوواہ کے گواہ کتنے بااثر مُناد ہیں۔‏ اُسکے خیال میں یہ ”‏بدعت“‏ تھی جسے اپنے علاقے سے دُور کرنے کیلئے وہ گواہوں پر غلط الزامات لگایا کرتا تھا جسکی وجہ سے پولیس گواہوں کو گرفتار کر لیا کرتی تھی اور اُن پر مقدمے چلائے جاتے تھے۔‏

سیٹی‌یا میں رہنے والے ایک گواہ نے مجھے بھی بائبل پیغام سنانے کی کوشش کی مگر پھر یہ سوچ کر کہ مجھے ایسی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اُس نے زیادہ تجربہ‌کار گواہ کو میرے پاس بھیج دیا۔‏ مَیں نے اُسے اتنی سختی سے جواب دیا کہ وہ لوٹ کر باقی گواہوں سے کہنے لگا کہ ”‏پری‌کلیز کبھی گواہ نہیں بن سکتا۔‏ وہ تو شیطان ہے!‏“‏

مخالفت کا پہلا تجربہ

مَیں شکرگزار ہوں کہ خدا میرے بارے میں ایسا نہیں سوچتا تھا۔‏ میرا بھائی دیموزتھی‌نیس یقین کرنے لگا کہ یہوواہ کے گواہ لوگوں کو خدا کے بارے میں سچائی سکھا رہے ہیں۔‏ فروری ۱۹۴۵ میں اُس نے مجھے کمفرٹ آل دیٹ مورن کتابچہ دیا۔‏ * کتابچے کو پڑھ کر مَیں بہت متاثر ہوا۔‏ ہم دونوں نے فوراً آرتھوڈکس چرچ جانا بند کر دیا اور سیٹی‌یا میں گواہوں کے گروپ پر حاضر ہونے لگے۔‏ جب ہم نے اپنے بہن‌بھائیوں کو اِس نئے ایمان کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے بھی بائبل کی سچائی کو اپنا لیا۔‏ لیکن میری بیوی اور میرے سُسرال والے اِس بات سے بالکل خوش نہ تھے۔‏ کچھ عرصے کیلئے میرے سُسر نے میرے ساتھ بات‌چیت کرنا بند کر دی۔‏ ہمارے گھر میں ہمیشہ لڑائی‌جھگڑا رہتا تھا۔‏ اِس کے باوجود،‏ بھائی مینوز کوکی‌ناکیس نے مجھے اور دیموزتھی‌نیس کو ۲۱  مئی ۱۹۴۵کو بپتسمہ دیا۔‏ *

آخرکار میرے بچپن کا خواب پورا ہوگیا اور مَیں خدا کے خادم کے طور پر خدمت کرنے لگا!‏ مجھے آج بھی پہلی بار گھرباگھر کی منادی میں جانا یاد ہے۔‏ مَیں بالکل اکیلا تھا۔‏ بس پر سفر کرکے مَیں ایک گاؤں میں پہنچا۔‏ میرے تھیلے میں ۳۵ کتابچے تھے۔‏ شروع میں مَیں ڈر ڈر کر منادی کر رہا تھا۔‏ مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ میرا ڈر دُور ہوتا گیا۔‏ پھر ایک پادری نے مجھے زبردستی اپنے ساتھ تھانے لیجانے کی کوشش کی۔‏ مگر مَیں نے اُسے بتایا کہ جب تک مَیں گاؤں کے تمام لوگوں سے بات نہ کر لوں مَیں ہرگز جانے کو تیار نہیں ہوں۔‏ منادی ختم کرنے کے بعد مَیں اتنا خوش تھا کہ بس پر سفر کرنے کی بجائے مَیں نے گھر واپس لوٹنے کیلئے ۱۵ کلومیٹر پیدل سفر طے کِیا۔‏

غنڈوں کا سامنا

ستمبر ۱۹۴۵ میں،‏ سیٹی‌یا میں مُنادوں کے چھوٹے سے گروپ نے ایک کلیسیا کی شکل اختیار کر لی اور مجھے اِس میں ذمہ‌داریاں سونپی گئیں۔‏ کچھ عرصے کے بعد مُلک میں خانہ‌جنگی شروع ہو گئی اور سپاہیوں کے مختلف گروہ ایک دوسرے کو بڑے ظالمانہ طریقے سے قتل کرنے لگے۔‏ اِسی دوران ایک پادری نے موقع کو غنیمت جانکر سپاہیوں کے ایک گروہ کو کہا کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے گواہوں کا خاتمہ کر دیں۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۲‏)‏ سپاہیوں کا گروہ بس پر سوار ہو کر ”‏خدا کی خدمت کرنے“‏ یعنی ہمیں قتل کرنے کیلئے روانہ ہو گیا۔‏ بس پر ایک نیک دل خاتون بھی سفر کر رہی تھی۔‏ اُس نے ہمیں گروہ کے منصوبے کے بارے میں آگاہ کِیا۔‏ ہم چھپ گئے اور ایک رشتہ‌دار نے ہمیں بچانے کیلئے کوشش کی۔‏ اِسطرح ہم زندہ بچ گئے۔‏

مگر یہ تو مصیبتوں کا شروع ہی تھا۔‏ اِسکے بعد ہمیں باقاعدگی سے دھمکایا اور ماراپیٹا جاتا تھا۔‏ ہمارے مخالفین ہمیں دوبارہ چرچ کے رکُن بننے،‏ اپنے چھوٹے بچوں کو بپتسمہ دلانے اور صلیب کا نشان بنانے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔‏ یہانتک کہ اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کے ۸ بچوں کو زبردستی بپتسمہ دیا۔‏ ایک مرتبہ اُنہوں نے میرے بھائی کو اِس حد تک مارا کہ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ مر گیا ہے۔‏ جب وہ میری بہنوں کے کپڑے پھاڑتے اور اُنہیں مارتے تھے تو مجھے بہت دُکھ ہوتا تھا۔‏

میری والدہ کا انتقال ۱۹۴۹ میں ہوا۔‏ پادری پھر ہمارے پیچھے پڑ گیا ہم پر الزام لگایاکہ ہم نے والدہ کو سرکاری اجازت لئے بغیر دفنایا ہے۔‏ مجھ پر مقدمہ چلا اور پھر رہا کر دیا گیا۔‏ اچھی بات تو یہ تھی کہ عدالت میں یہوواہ خدا کے نام کا ذکر ہوا اور اِسطرح اُسکے نام کی بڑی گواہی دی گئی۔‏ اب ہمارے مخالفین کے پاس ہمیں مُلک‌بدر کرنے کے سوا کوئی اَور راستہ نہیں تھا۔‏ اپریل ۱۹۴۹ میں اُنہوں نے ایسا ہی کِیا۔‏

آگ جیسی آزمائشوں کا سامنا

میرے ساتھ دو اَور گواہوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔‏ میری بیوی مجھ سے ملنے کیلئے تھانے تک نہ آئی۔‏ سب سے پہلے ہمیں ایراکلی‌ون کے جیل میں ڈالا گیا۔‏ جیساکہ مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں مَیں بہت دل‌برداشتہ تھا۔‏ مَیں ایک جوان بیوی اور دو ننھے بچوں کو چھوڑ کر جا رہا تھا اور میری بیوی تو میری ہم‌ایمان بھی نہ تھی۔‏ مَیں نے دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگی۔‏ تب مجھے عبرانیوں ۱۳:‏۵ کے یہ الفاظ یاد آئے:‏ ”‏مَیں تجھ سے ہرگز دست‌بردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔‏“‏ پھر مَیں نے اپنے پورے دل سے یہوواہ پر توکل کرنے کی حکمت کو سمجھ لیا۔‏—‏امثال ۳:‏۵‏۔‏

ہمیں پتہ چلا کہ ہمیں یونان کے دُوردراز جزیرے ماکرونی‌سوس پر جِلاوطن کِیا جا رہا تھا۔‏ ماکرونی‌سوس کا نام سنتے ہی لوگ کانپنے لگ جاتے تھے۔‏ اِس جزیرے پر قیدیوں کا کیمپ تھا جہاں قیدیوں پر سخت ظلم ڈھائے جاتے تھے اور اُن سے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔‏ قیدخانہ تک سفر کرتے ہوئے ہماری کشتی پیرےاَس کی بندرگاہ پر رُکی۔‏ ہماری ہتھکڑیاں دیکھنے کے باوجود بھی وہاں کے کچھ گواہ کشتی پر آ کر ہم سے گلے ملے جسکی وجہ سے ہماری بہت ہمت‌افزائی ہوئی۔‏—‏اعمال ۲۸:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

ماکرونی‌سوس پر زندگی بسر کرنا بہت مشکل تھا۔‏ ایسا لگتا تھا جیسے ہم ایک خوفناک خواب دیکھ رہے ہوں جس سے جاگنا ناممکن ہے۔‏ سپاہی دن رات قیدیوں سے بدسلوکی کرتے تھے۔‏ بہتیرے قیدی جو گواہ نہ تھے اِس وجہ سے پاگل ہو گئے۔‏ بہت سے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے اور بعض قیدیوں کو اپاہج بنا دیا گیا تھا۔‏ رات کے سناٹے میں ہم اُن بدنصیبوں کے چیخنے اور کراہنے کی آوازیں سن سکتے تھے جن پر سپاہی ظلم ڈھا رہے ہوتے تھے۔‏ اِن راتوں کی ٹھنڈک سے بچنے کیلئے میرا ہلکا سا کمبل مجھے تھوڑی سی گرمی پہنچاتا تھا۔‏

کیمپ میں ہر صبح قیدیوں کی حاضری لی جاتی تھی اور اِس وقت یہوواہ  کے گواہوں کا ذکر بھی کِیا جاتا تھا۔‏ اِسطرح ہمیں گواہی دینے کے بہت سے مواقع حاصل ہوئے۔‏ مجھے ایک سیاسی قیدی کو بپتسمہ دینے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا جس نے ترقی کرنے کے بعد اپنی زندگی یہوواہ کیلئے مخصوص کی تھی ۔‏

مَیں ماکرونی‌سوس کی قید سے اپنی بیوی کو باقاعدہ خط لکھتا رہا۔‏ اُس نے ایک بار بھی میرے خط کا جواب نہ دیا۔‏ مگر مَیں پھر بھی اُسکو بڑے پیار سے خط لکھتا رہا۔‏ مَیں اُسکو یہ سمجھاتا تھا کہ یہ صورتحال بہت جلد بدل جائیگی اور ہم ایک دن دوبارہ سے خوش ہونگے۔‏ اِسطرح مَیں اُسکو دلاسا دینے کی کوشش کرتا تھا۔‏

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اَور بھی گواہ ماکرونی‌سوس بھیجے گئے جسکی وجہ سے ہماری تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔‏ مَیں کیمپ کے آفس میں کام کرتا تھا۔‏ وہاں میری واقفیت کیمپ کے کرنل سے ہوئی جو یہوواہ کے گواہوں کی بہت قدر کرتا تھا۔‏ اِسلئے ایک دن مَیں نے ہمت باندھ کر اُس سے پوچھا:‏ ”‏کیا ایتھنز سے ہمارے بھائی ہمیں کتابیں بھیج سکتے ہیں؟‏“‏ اُس نے جواب دیا:‏ ”‏یہ ناممکن ہے۔‏ مگر تم ایک چیز ضرور کر سکتے ہو۔‏ ایتھنز میں اپنے لوگوں کو بتا دو کہ وہ کتابوں کو ایک صندوق میں بند کرکے اُنہیں میرے نام سے یہاں بھیج دیں۔‏“‏ میرا مُنہ تو کُھلا کا کُھلا رہ گیا!‏ اِسکے کچھ دن بعد جب ہم ایک کشتی سے سامان اُتار رہے تھے تو ایک پولیس والے نے آ کر سلوٹ مارتے ہوئے کرنل کو اطلاع دی کہ ”‏جناب آپکا صندوق آ گیا ہے۔‏“‏ ”‏کونسا صندوق؟‏“‏ کرنل نے پوچھا۔‏ اِتفاق سے مَیں پاس ہی کھڑا تھا۔‏ مَیں نے دھیمی آواز میں کہا:‏ ”‏ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارا صندوق ہے جسے آپکے حکم سے آپکے نام پر بھیجا گیا ہے۔‏“‏ یہ صرف ایک طریقہ تھا جسکے ذریعے یہوواہ ہمیں روحانی تقویت پہنچا رہا تھا۔‏

غیرمتوقع خوشی کے بعد مزید مصیبتوں کا سامنا

سن ۱۹۵۰ کے آخر میں مجھے رہا کر دیا گیا۔‏ مَیں بہت کمزور اور بیمار ہو گیا تھا۔‏ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ گھر پر میرا کیسا استقبال کِیا جائیگا۔‏ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو دیکھ کر مَیں بہت خوش ہوا!‏ فروزینی اب مجھ سے ناراض بھی نہیں تھی۔‏ میرے خطوں نے فروزینی کے دل کو موہ لیا تھا۔‏ وہ میری مستقل‌مزاجی سے متاثر تھی۔‏ مَیں اُسے دیر تک سمجھاتا رہا اور آخرکار اُسکو راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‏ اُس نے بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور یہوواہ پر اُسکا بھروسا بڑھتا گیا۔‏ میری زندگی کا سب سے خوش‌کُن لمحہ وہ تھا جب مَیں نے ۱۹۵۲ میں اپنی بیوی کو بپتسمہ دیا!‏

سن ۱۹۵۵ میں ہم نے ہر پادری تک ایک کتابچہ بعنوان دُنیائےمسیحیت یا  سچی مسیحیت—‏دونوں میں سے کون ”‏دُنیا کا نور“‏ ہے؟‏ پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔‏ مجھے اور میرے ساتھ اَور بہت سے بھائیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ہم پر مقدمہ چلایا گیا۔‏ یہوواہ کے گواہوں کیخلاف اتنے مقدمے تھے کہ عدالت نے ایک خاص سیشن منعقد کِیا جس پر تمام مقدموں کا فیصلہ ایک ساتھ کِیا جانا تھا۔‏ اُس دن تمام سرکاری ملازم جو صوبے میں قانون کو برقرار رکھنے کے ذمہ‌دار تھے عدالت میں حاضر تھے۔‏ اِسکے علاوہ عدالت پادریوں سے بھی بھری ہوئی تھی۔‏ بشپ بےچینی سے کمرے میں اِدھر سے اُدھر چل رہا تھا۔‏ ایک پادری نے مجھ پر نومرید بنانے کا الزام لگایا۔‏ جج نے اُس سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپکا ایمان اتنا کمزور ہے کہ آپ محض گواہوں کے ایک کتابچے کو پڑھ کر اپنا مذہب بدلنے کو تیار ہو جائینگے؟‏“‏ پادری آگے سے کوئی جواب نہ دے سکا اور مجھے رہا کر دیا گیا۔‏ مگر کئی بھائیوں کو چھ مہینے کی سزا سنائی گئی۔‏

آنے والے سالوں میں ہمیں باربار گرفتار کرکے ہم پر مقدمے چلائے جاتے جس کی وجہ سے ہمارے وکیل بہت مصروف رہتے تھے۔‏ مجھ پر ۱۷ مرتبہ مقدمہ چلایا گیا۔‏ اِس مخالفت کے باوجود بھی ہم باقاعدگی سے منادی کے کام میں حصہ لیتے رہے۔‏ ہم نے اِن سب مسائل کا خوشی سے سامنا کِیا۔‏ اِن آزمائشوں میں بھی ہم منادی کے کام میں باقاعدگی کیساتھ حصہ لیتے تھے۔‏ ہم نے اِس چیلنج کو خوشی سے قبول کِیا آگ جیسی آزمائشوں نے ہمارے ایمان کو کُندن بنا دیا۔‏—‏یعقوب  ۱:‏۲،‏ ۳۔‏

نئے استحقاق اور نئے مسائل

سن ۱۹۵۷ میں ہم ایتھنز چلے گئے۔‏ جلد ہی مجھے وہاں تشکیل پانے والی ایک نئی کلیسیا میں خدمت کرنے کی تفویض دی گئی۔‏ میری بیوی نے پورے دل سے میرا ساتھ دیا جسکی وجہ سے ہم اپنی زندگی کو سادہ رکھتے ہوئے بیشتر وقت خدا کی خدمت میں صرف کر سکتے تھے۔‏ ہمیں اکثر ایسی کلیسیاؤں کی مدد کرنے کیلئے کہا جاتا تھا جہاں زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔‏

جب میرا بیٹا ۱۹۶۳ میں ۲۱ برس کا ہو گیا تو اُسے فوج میں بھرتی ہونے کا بلاوا ملا۔‏ تاہم اپنی غیرجانبداری کی وجہ سے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے والے جوان گواہوں کو شدید مارپیٹ،‏ تمسخر اور ذلت کا سامنا ہوتا تھا میرے بیٹے کیساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‏ اِسلئے مَیں نے اُسکو وہ پتلا سا کمبل دے دیا جو ماکرونی‌سوس میں میرے پاس تھا۔‏ یہ کمبل اُس کیلئے ایک یاددہانی تھی تاکہ وہ اُن لوگوں کے نمونے پر چلے جو اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے تھے۔‏ اُس زمانے میں جب بھائیوں کو بھرتی ہونے کا بلاوا ملتا تھا تو اُنہیں کورٹ‌مارشل کِیا جاتا اور ۲ سے ۴ سال تک قید میں رکھا جاتا تھا۔‏ اُسکے بعد اُنکو چھوڑ دیا جاتا اور تھوڑے سے عرصے کے بعد اُنہیں دوبارہ بھرتی ہونے کا بلاوا مل جاتا اور ایک مرتبہ پھر اُنہیں کورٹ‌مارشل کرکے قید میں ڈالا جاتا۔‏ اِسطرح میرے بیٹے نے اپنی زندگی کے ۶ سے زیادہ سال قید میں گزرے۔‏ مجھے جیل میں جا کر اپنے بیٹے اور دوسرے وفادار بھائیوں سے ملاقات کرنے کی اجازت مل گئی تھی اور اسطرح مجھے کبھی‌کبھار اپنے بیٹے کو دیکھنے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔‏

یہوواہ نے ہماری مدد کی

یونان میں مذہبی آزادی کی بحالی کے بعد مَیں کچھ عرصے کے لئے رودھوس چلا گیا۔‏ وہاں مَیں نے باقاعدگی سے ہر مہینے ۱۵۰ گھنٹوں کے لئے منادی کے کام میں حصہ لیا۔‏ پھر ۱۹۸۶ میں کریتے کے شہر سیٹی‌یا میں ضرورت پڑ گئی۔‏ یہ وہی شہر تھا جہاں مَیں نے مسیحی روش پر چلنا شروع کیا تھا۔‏ مَیں اُن بھائیوں سے دوبارہ ملنے اور اُن کے ساتھ کام کرنے سے بہت خوش ہوا جو میرے جوانی کے ساتھی تھے۔‏

اپنے خاندان کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ دیکھ کر بہت  خوشی ہوتی ہے کہ میرے رشتہ‌داروں میں سے ۷۰ لوگوں نے یہوواہ خدا کی خدمت کرنی شروع کر دی ہے اور اِنکی تعداد میں دن‌بدن اضافہ ہو رہا ہے۔‏ اِن میں سے کئی بزرگ،‏ خادم،‏ پائنیر،‏ سفری‌نگہبان اور بیت‌ایل میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔‏ اب میری عمر ۹۳ برس کی ہے۔‏ میرا ایمان ۵۸ سالوں سے زیادہ عرصہ تک آگ میں تپایا گیا ہے۔‏ مگر مَیں اِس بات سے کبھی نہیں پچھتایا کہ مَیں نے اپنی زندگی خدا کی خدمت کرنے میں صرف کی ہے۔‏ اُس نے مجھے طاقت دی تاکہ مَیں اُس کی پُرمحبت دعوت کو قبول کرکے اُس کی راہ پر چل سکوں:‏ ”‏اَے  میرے بیٹے!‏ اپنا  دل مجھکو دے اور میری راہوں سے تیری آنکھیں خوش ہوں۔‏“‏—‏امثال  ۲۳:‏۲۶۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 دسمبر ا،‏ ۱۹۹۹ کے مینارِنگہبانی صفحہ ۳۰،‏ ۳۱ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 11 یونانی آرتھوڈکس کلیسیا کے پادریوں کو شادی کرنے کی اجازت ہے۔‏

^ پیراگراف 12 عمانوایل لیونوڈاکس کی کہانی کو ستمبر ۱،‏ ۱۹۹۹ کے مینارِنگہبانی صفحہ ۲۵-‏۲۹ میں دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 15 یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ جو اب دستیاب نہیں ہے۔‏

^ پیراگراف 15 مینوز کوکی‌ناکیس کے خلاف مقدمہ چلا جس میں اُسے قانونی کامیابی حاصل ہوئی۔‏ اِسکے بارے میں تفصیلات کیلئے ستمبر ۱،‏ دی واچ‌ٹاور ۱۹۹۳ کے صفحہ ۲۷-‏۳۱ کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر بکس]‏

ماکرونی‌سوس—‏ایک دہشتناک جزیرہ

ماکرونی‌سوس ایک ریگستانی جزیرہ ہے جسکی آبادی بہت کم ہے۔‏ تقریباً ۱۰ سالوں کیلئے،‏ ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۷ تک اِس پر قیدیوں کا کیمپ تھا جہاں ایک لاکھ سے زائد لوگ قید کئے گئے تھے۔‏ اِن میں سے بہت سے قیدی یہوواہ کے گواہ تھے جو اپنی غیرجانبداری کی وجہ سے وہاں بھیجے گئے تھے۔‏ کس نے اُنکو وہاں بھیجا؟‏ اکثر یونان کے آرتھوڈکس چرچ کے پادری اُن پر کمیونسٹ ہونے کا غلط الزام لگاتے تھے جسکی وجہ سے اُنکو اِس ویران جزیرے پر بھیجا جاتا تھا۔‏

قیدیوں کیساتھ کس قسم کا سلوک کِیا جاتا تھا تاکہ وہ مجبوراً اپنے رُجحانات کو بدلنے کیلئے تیار ہو جائیں؟‏ ایک یونانی انسائیکلوپیڈیا پاپی‌رَس لاروسے بریٹینیکا میں لکھا ہے کہ قیدیوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے تھے۔‏ اُنکو بہت بُرے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کِیا جاتا تھا۔‏ سپاہی اُنکی بہت بےعزتی کرتے تھے۔‏ یہ سب باتیں یونان کے مُلک کی تاریخ پر ایک دھبا ہیں۔‏

بہتیرے گواہوں کو بتایا گیا تھا کہ اُنکو اُس وقت تک آزاد نہ کِیا جائیگا جب تک وہ اپنے ایمان کو ترک نہ دیں۔‏ پھر بھی تمام گواہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے اور اُنکے ایمان کو دیکھ کر کئی دوسرے قیدی جو سیاسی وجوہات کے سبب سے ماکرونی‌سوس پر قید تھے اُنہوں نے بھی بائبل کی سچائیوں کو قبول کر لیا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

ماکرونی‌سوس کے جزیرے پر مینوز کوکی‌ناکیس (‏دائیں طرف سے تیسرے نمبر پر)‏ اور مَیں (‏بائیں طرف سے چوتھے نمبر پر)‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

مَیں ایک گواہ کیساتھ سیٹی‌یا کریتے میں خدمت انجام دے رہا ہوں جہاں مَیں نے اپنی جوانی میں خدمت کی تھی