ملازمت میں خوشیوتحفظ کو لاحق خطرہ
ملازمت میں خوشیوتحفظ کو لاحق خطرہ
تمام انسانوں کو ”کام کرنے کا حق“ حاصل ہے یہ بات اقوامِمتحدہ کے حقوقِانسانی کے عالمگیر منشور میں درج ہے۔ روزگار کے تحفظ کا انحصار مقامی معیشت اور عالمی منڈی کی حالت پر ہوتا ہے۔ لہٰذا، ملازمت سے برطرفی کے نتیجے میں اکثر مظاہرے، ہڑتالیں اور ہنگامے ہوتے رہتے ہیں۔ دُنیا میں ایسے مُلک بہت ہی کم ہونگے جنہیں اس مسئلے کا سامنا نہ ہو۔ ایک مصنف کے مطابق ”لفظ ’کام‘ نہایت جذباتانگیز ہے۔“
بہتیری وجوہات کی بِنا پر کام ہمارے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے؟ اوّل تو ہمیں کام کرنے سے آمدنی ملتی ہے۔ اِس کے علاوہ، یہ ہماری ذہنی اور جذباتی صحت کے لئے بھی اہم ہے۔ ہر شخص فطرتی طور پر اپنے معاشرے کا ایک کامیاب رُکن بننا چاہتا ہے اور کام کرنا اِس خواہش کو پورا کر سکتا ہے۔ کام ہماری زندگی کو بامقصد بنا دیتا اور ہماری عزتِنفس کو بھی بڑھاتا ہے۔ اِسی وجہ سے اکثر دولتمند لوگ کام کرنا پسند کرتے ہیں حالانکہ اُنکو کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ لوگ جو بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے مستحق ہوتے ہیں اکثر ملازمت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں، کام کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسکی کمی سے معاشرے میں کافی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اِسکے برعکس اکثر لوگ ملازمت تو کرتے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ دباؤ محسوس کرنے کی وجہ سے مطمئن نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر، آجکل مختلف کمپنیوں کے درمیان سخت مقابلہبازی جاری ہے۔ اسلئے اپنے اخراجات کو کم کرنے کیلئے کمپنیاں کئی ملازمین کو نوکری سے نکال دیتی ہیں۔ لیکن کمپنی میں کام کی مقدار کم نہیں ہوتی۔ اِس وجہ سے باقی ملازمین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کام کو سنبھالنے کیلئے زیادہ محنت کریں جس سے اُن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کام زیادہ تیزی سے کِیا جا سکتا ہے اور زندگی بھی زیادہ آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن شاید یہی ٹیکنالوجی ملازمین پر کام کا دباؤ بڑھا دیتی ہے۔ مثلاً کمپیوٹر، فیکسمشین اور انٹرنیٹ کی وجہ سے آجکل لوگ دفتر کا کام گھر لے جاتے ہیں۔ اِسطرح دفتر اور گھر میں کوئی فرق نہیں رہتا اور آرام کرنے کا موقع بھی کم ملتا ہے۔ ایک ملازم نے کہا کہ اُسکی کمپنی کا پیجر اور موبائل فون اُسکے مینیجر کے ہاتھ میں ایک ایسی زنجیر کی طرح ہے جسکی مدد سے وہ جب بھی چاہے اُسکو دفتر میں کھینچ لاتا اور اُس سے کام کروا سکتا ہے۔
آجکل کے معاشیاتی ماحول میں اکثر بوڑھے لوگوں کو فالتو سمجھا جاتا ہے۔ اِسلئے جب لوگوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے تو وہ فکر کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں اِس وجہ سے اُنکو کام سے نہ نکال دیا جائے۔ اِس سلسلے میں انسانی حقوق کا کمیشنرکرس سیدوٹی کہتا ہے کہ ”بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر آپکی عمر ۴۰ سال سے زیادہ ہے تو آپ کبھی بھی کمپیوٹر پر کام کرنا
نہیں سیکھ سکتے اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی کو سمجھ سکتے ہیں۔“ پہلے زمانے میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے اُنہیں کام پر زیادہ تجربہکار اور ماہر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اُنکو اچھا کام کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا!اِن تمام باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آجکل زیادہتر لوگوں کے خیال میں اپنی کمپنی کیلئے محنت اور وفاداری سے کام کرنا اتنا اہم نہیں رہا۔ ایک فرانسیسی رسالے لیبیراسیون کا بیان ہے کہ ”جب سٹاک مارکیٹ میں صورتحال خراب ہونے کا ہلکا سا بھی امکان ہوتا ہے تو بڑی بڑی کمپنیاں فوراً اپنے ملازمین کو ملازمت سے نکالنا شروع کر دیتی ہیں۔ اِس وجہ سے ملازمین بھی کمپنی کیلئے وفاداری سے آخر تک کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ جیہاں وہ کام تو ضرور کرتے ہیں لیکن کمپنی کی ترقی کیلئے نہیں بلکہ صرف اپنی خوشحالی کیلئے۔“
اِن تمام مسائل کے باوجود کام کرنے کے سلسلے میں انسان کی بنیادی ضرورت ابھی تک قائم ہے۔ لیکن اِس دَور میں ہر وقت تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں تو پھر کوئی کام کی بابت متوازن نظریہ کیسے قائم رکھ سکتا ہے؟ ہم اِن مسائل کے باوجود اپنی ملازمت میں خوشی اور تحفظ کا احساس کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
[صفحہ ۳ پر تصویر]
جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کام کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے