الطار—پرستش میں اسکا کیا مقام ہے؟
الطار—پرستش میں اسکا کیا مقام ہے؟
کیا آپ الطار (قربانگاہ) کو اپنی پرستش کا ایک اہم حصہ خیال کرتے ہیں؟ الطار دُنیائےمسیحیت کے گرجاگھروں میں جانے والے بہتیرے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہو سکتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی پرستش میں الطار کے استعمال کی بابت بائبل کے نقطۂنظر پر غور کِیا ہے؟
بائبل میں پہلی متذکرہ قربانگاہ نوح نے طوفان کے بعد زندگی بچانے والی کشتی سے نکلنے کے بعد جانوروں کی قربانی پیش کرنے کیلئے بنائی تھی۔ *—پیدایش ۸:۲۰۔
بابل میں زبانوں میں اختلاف کے بعد، نسلِانسانی تمام رویِزمین پر پھیل گئی۔ (پیدایش ۱۱:۱-۹) پرستش کی باطنی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انسان ناآشنا خدا کی قربت حاصل کرنے کی کوشش میں اندھوں کی طرح اُسے ’ڈھونڈنے‘ لگے۔ (اعمال ۱۷:۲۷؛ رومیوں ۲:۱۴، ۱۵) نوح کے زمانہ سے بہتیرے لوگوں نے اپنے دیوتاؤں کیلئے قربانگاہیں بنا لی تھیں۔ مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے جھوٹی پرستش میں بھی قربانگاہوں کا استعمال کِیا ہے۔ سچے خدا سے منحرف ہوکر بعض لوگوں نے انسانوں حتیٰکہ بچوں کی قربانی جیسی افسوسناک رسومات کیلئے بھی قربانگاہوں کا استعمال کِیا ہے۔ یہوواہ کو ترک کر دینے والے بعض اسرائیلی بادشاہوں نے بعل جیسے بُتپرست دیوتاؤں کیلئے قربانگاہیں تعمیر کیں۔ (۱-سلاطین ۱۶:۲۹-۳۲) تاہم، سچی پرستش میں قربانگاہوں کے استعمال کی بابت کیا ہے؟
اسرائیل میں قربانگاہیں اور سچی پرستش
نوح کے بعد، دیگر وفادار اشخاص نے سچے خدا یہوواہ کی پرستش کیلئے قربانگاہیں تعمیر کیں۔ ابرہام نے سکم، بیتایل کے قریب، حبرون اور موریاہ کے پہاڑ پر قربانگاہیں بنائیں جہاں اُس نے اضحاق کی جگہ یہوواہ کے فراہمکردہ مینڈھے کو قربان کِیا تھا۔ بعدازاں، اضحاق، یعقوب اور موسیٰ نے اپنے دل سے تحریک پاکر خدا کی پرستش میں استعمال کیلئے قربانگاہیں بنائیں۔—پیدایش ۱۲:۶-۸؛ ۱۳:۳، ۱۸؛ ۲۲:۹-۱۳؛ ۲۶:۲۳-۲۵؛ ۳۳:۱۸-۲۰؛ ۳۵:۱، ۳، ۷؛ خروج ۱۷:۱۵، ۱۶؛ ۲۴:۴-۸۔
اسرائیلی قوم کو اپنی شریعت دیتے وقت خدا نے اُنہیں اپنی حضوری میں آنے کے بندوبست کے مرکزی حصے کے طور پر مسکن کو کھڑا کرنے کا خروج ۳۹:۳۲، ۴۰) مسکن یا خیمۂاجتماع میں دو قربانگاہیں تھیں۔ سوختنی قربانیوں کیلئے مدخل کے پاس کیکر کی لکڑی سے بنی اور تانبے سے ڈھانپی گئی ایک قربانگاہ رکھی گئی تھی جسے جانوروں کی قربانی کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا۔ (خروج ۲۷:۱-۸؛ ۳۹:۳۹؛ ۴۰:۶، ۲۹) مسکن کے اندر، پاکترین مقام کے پردے کے سامنے بخور کی قربانگاہ بھی کیکر کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور سونے سے منڈھی گئی تھی۔ (خروج ۳۰:۱-۶؛ ۳۹:۳۸؛ ۴۰:۵، ۲۶، ۲۷) دن میں دو بار صبح اور شام کے وقت اس پر خاص بخور جلایا جاتا تھا۔ (خروج ۳۰:۷-۹) مسکن کے نمونے پر بنائی گئی سلیمان بادشاہ کی ہیکل میں بھی دو قربانگاہیں تھیں۔
حکم دیا۔ آسانی سے اُٹھائے جانے والے اس خیمے کو ”خیمۂاجتماع“ بھی کہا جاتا تھا۔ (”حقیقی خیمہ“ اور علامتی قربانگاہ
جب یہوواہ نے اسرائیل کو شریعت دی تو اُس نے لوگوں کی زندگیوں کی راہنمائی اور قربانی اور دُعا کے ذریعے اُس کی قربت میں آنے کے لئے قوانین کے علاوہ بھی بہت کچھ فراہم کِیا۔ اس کے بہتیرے انتظامات کی بابت پولس رسول نے بیان کِیا کہ یہ ”آسمانی چیزوں کی نقل اور عکس“ اور ”ایک مثال“ تھی۔ (عبرانیوں ۸:۳-۵؛ ۹:۹؛ ۱۰:۱؛ کلسیوں ۲:۱۷) باالفاظِدیگر شریعت کے بہتیرے پہلوؤں نے نہ صرف مسیح کے آنے تک اسرائیلیوں کی راہنمائی کی بلکہ یسوع مسیح کے ذریعے خدا کے مقاصد کی تکمیل کی پیشگی جھلک بھی دکھائی تھی۔ (گلتیوں ۳:۲۴) جیہاں، شریعت کے کئی پہلو نبوّتی اہمیت رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر، اسرائیلیوں کی نجات کی علامت کے طور پر استعمال ہونے والے فسح کے بّرہ کا خون یسوع مسیح کی تصویرکشی کرتا تھا۔ یسوع ”خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے،“ جسکا خون ہمیں گناہوں سے آزاد کرانے کے لئے بہایا گیا تھا۔—یوحنا ۱:۲۹؛ افسیوں ۱:۷۔
مسکن اور ہیکل کی خدمت سے تعلق رکھنے والی بہتیری چیزیں روحانی حقائق کی تصویرکشی کرتی تھیں۔ (عبرانیوں ۸:۵؛ ۹:۲۳) درحقیقت، پولس اُس ”حقیقی خیمہ“ کی بابت لکھتا ہے ”جسے [یہوواہ] نے کھڑا کِیا ہے نہ کہ انسان نے۔“ وہ مزید بیان کرتا ہے: ”جب مسیح آیندہ کی اچھی چیزوں کا سردار کاہن ہوکر آیا تو اُس بزرگتر اور کاملتر خیمہ کی راہ سے جو ہاتھوں کا بنا ہوا یعنی اس دُنیا کا نہیں۔“ (عبرانیوں ۸:۲؛ ۹:۱۱) ”بزرگتر اور کاملتر خیمہ“ یہوواہ کی عظیم روحانی ہیکل کا بندوبست تھا۔ صحائف کا اندازِبیان ظاہر کرتا ہے کہ عظیم روحانی ہیکل وہ بندوبست ہے جسکے ذریعے انسان یسوع مسیح کے کفارے کی بنیاد پر یہوواہ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔—عبرانیوں ۹:۲-۱۰، ۲۳-۲۸۔
خدا کے کلام کی تعلیم یقیناً بائبل کے الہامی ہونے پر ایمان کو بڑھاتی ہے کہ شریعت کی فراہمیاں اور اصول زیادہ عظیم، پُرمعنی روحانی حقائق کی تصویرکشی کرتے ہیں۔ یہ صحائف میں منفرد طریقے سے ظاہرکردہ الہٰی حکمت کیلئے قدردانی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔—رومیوں ۱۱:۳۳؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
سوختنی قربانی کی قربانگاہ بھی نبوّتی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بظاہر خدا کی ”مرضی“ یا یسوع کی کامل انسانی قربانی کو قبول کرنے میں اُسکی رضامندی کی علامت ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۱-۱۰۔
بعدازاں عبرانیوں کی کتاب میں پولس یہ دلچسپ تبصرہ پیش کرتا ہے: ”ہماری ایک ایسی قربانگاہ ہے جس میں سے خیمہ کی خدمت کرنے والوں کو کھانے کا اختیار نہیں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۰) وہ کونسی قربانگاہ کا حوالہ دے رہا تھا؟
عبرانیوں ۱۳:۱۰ میں متذکرہ قربانگاہ درحقیقت یوخرست یا ”ساکرامنٹ“ کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کے ذریعے ماس کے دوران مسیح کی قربانی بحال کی جاتی ہے۔ تاہم، آپ سیاقوسباق سے دیکھ سکتے ہیں کہ پولس جس قربانگاہ کی بات کر رہا تھا وہ علامتی تھی۔ بہتیرے علما اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس اقتباس میں اصطلاح ”قربانگاہ“ علامتی مفہوم رکھتی ہے۔ جیسویٹ سکالر گائسپے بونسرون کے مطابق، ”یہ حقیقت عبرانیوں کے نام خط کی علامتی زبان کیساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہے۔“ وہ بیان کرتا ہے: ”مسیحی زبان میں لفظ ’قربانگاہ‘ ابتدا میں روحانی مفہوم میں استعمال ہوا تھا اور ارینائس، بالخصوص طرطلیان اور سینٹ سپریئن کے بعد اسکا اطلاق یوخرست، خاص طور پر یوخرست کی میز پر کِیا گیا ہے۔“
بہتیرے کیتھولک مترجمین کا دعویٰ ہے کہایک کیتھولک رسالے میں بیان کِیا گیا کہ الطار کا استعمال ”قسطنطین کے زمانے“ میں ”چرچ کی تعمیر“ کے ساتھ مشہور ہوا۔ رسالہ ریوسٹا ڈی آرکیالوجیا کرسٹیانا (مسیحی آثارِقدیمہ پر نظرثانی) نے مزید بیان کِیا: ”یہ بات یقین کیساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پہلی دو صدیوں تک مذہبی اجتماع پرستش کی مخصوص جگہوں کی بجائے گھروں پر ہوا کرتے تھے جن میں پرستش کیلئے کچھ ردوبدل کئے جاتے تھے اور بعدازاں انہیں دوبارہ بحال کِیا جاتا تھا۔“
دُنیائےمسیحیت میں الطار کا استعمال
کیتھولک جرنل لا سیولٹا کیٹولیکا بیان کرتا ہے کہ ”الطار گرجاگھر کا ہی نہیں بلکہ زندہ کلیسیا کا بھی مرکزی حصہ ہے۔“ تاہم، یسوع مسیح نے الطار سے منسوب کسی بھی قسم کی مذہبی رسم کا نہ تو اِجرا کِیا اور نہ ہی اپنے شاگردوں کو اس کے استعمال سے متعلق تقریبات منانے کا حکم دیا تھا۔ متی ۵:۲۳، ۲۴ اور دیگر جگہوں پر قربانگاہ کی بابت یسوع کا بیان یہودیوں کی مذہبی رسومات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ ظاہر نہیں کرتا کہ اُسکے شاگردوں کو بھی خدا کی پرستش میں قربانگاہ کا استعمال کرنا تھا۔
امریکی مؤرخ جارج فٹ موئر (۱۸۵۱-۱۹۳۱) نے لکھا: ”مسیحی پرستش کے بنیادی پہلو ہمیشہ یکساں تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جسٹن کی بیانکردہ یہ سادہ سی رسومات کو دوسری صدی کے وسط میں ایک پُروقار نظامِپرستش میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔“ کیتھولک رسومات اور عام مذہبی تقریبات اسقدر زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ کیتھولک سیمنریوں میں ان پر مطالعے کا ایک مضمون—لٹرجی (عبادت)—تشکیل دیا گیا ہے۔ موئر مزید بیان کرتا ہے: ”جب پُرانے عہدنامے کے اثر کے تحت مسیحی پادری طبقے کو سابقہ نظامِپرستش کی کہانت کے پیشرو خیال کِیا جانے لگا تو تمام رسومات میں پائے جانے والے اس میلان کو مزید فروغ ملا۔ سردار کاہن کی شاندار پوشاک، دیگر کاہنوں کے روایتی لباس، پُروقار جلوس، زبور گانے والے لاوی گویوں کی جماعت، لہراتے ہوئے بخوردانوں سے بخور کا دھواں—یہ تمام چیزیں مذہبی پرستش کا ایک الہٰی نمونہ لگتی تھیں جن کے ذریعے چرچ قدیم بُتپرستانہ مذاہب کی شانوشوکت کی نقل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔“
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بہتیری رسومات، طریقۂکار، ملبوسات اور پرستش میں استعمال ہونے والی چرچ کی دیگر چیزیں اناجیل کی مسیحی تعلیمات کی بجائے یہودی اور مُلحد رسومات کی عکاسی کرتی ہیں۔ انسکلوپیڈیا کیٹولیکا بیان کرتا ہے کہ کیتھولک مذہب میں ”الطار کے استعمال کی رسم یہودیت اور کسی حد تک بُتپرست مذاہب سے مستعار ہے۔“ تیسری صدی س.ع. کے معتقد مائنوشیئس فیلکس نے لکھا کہ مسیحیوں کی ’نہ تو ہیکلیں ہوا کرتی تھیں نہ قربانگا ہیں۔‘ انسائیکلوپیڈیا ڈکشنری ریلیجونیِمتی (مذاہب اور روایات) بھی یہی وضاحت کرتی ہے: ”ابتدائی مسیحیوں نے یہودی اور بُتپرستانہ مذاہب سے اپنا امتیاز کرنے کے لئے قربانگاہ کے استعمال کو رد کِیا تھا۔“
چونکہ مسیحیت کی بنیاد ایسے اصولوں پر رکھی گئی ہے جو روزمرّہ زندگی اور تمام لوگوں کے لئے قابلِقبول اور موزوں ہیں لہٰذا زمین پر کسی خاص مُقدس شہر، قربانگاہوں پر مشتمل ہیکل یا شاندار پوشاک میں ملبوس اعلیٰ عہدوں پر فائز انسانی کاہنوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ”وہ وقت آتا ہے،“ یسوع نے کہا، ”کہ تم نہ تُو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یرؔوشلیم میں۔ . . . سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کرینگے۔“ (یوحنا ۴:۲۱، ۲۳) بہتیرے گرجاگھروں کی پیچیدہ رسومات اور الطار کا استعمال سچے خدا کی پرستش کرنے کے سلسلے میں یسوع کے بیان کو نظرانداز کرتا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 اس سے پہلے قائن اور ہابل نے غالباً قربانگاہوں پر یہوواہ کیلئے قربانیاں پیش کی تھیں۔—پیدایش ۴:۳، ۴۔