مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے بچے کی تربیت میں کوتاہی نہ کریں!‏

اپنے بچے کی تربیت میں کوتاہی نہ کریں!‏

اپنے بچے کی تربیت میں کوتاہی نہ کریں!‏

مٹی کا ایک بیکار ٹکڑا ایک ماہر کمہار کے ہاتھ میں دلکش برتن میں تبدیل ہو سکتا ہے۔‏ کچھ ہی کاریگر ایسی معمولی سی چیز سے اتنی پُرکشش اور مفید اشیا تیار کر سکتے ہیں۔‏ کئی ہزار سال سے معاشرہ پیالوں،‏ پلیٹوں کھانا پکانے کے برتنوں،‏ چیزیں محفوظ کرنے والے مرتبان اور آرائشی گلدانوں کیلئے ایک کمہار پر انحصار کرتا رہا ہے۔‏

والدین بھی اپنے بچوں کے کردار اور شخصیت کی نشوونما کرنے  سے معاشرے کو بیش‌قیمت فائدہ پہنچاتے ہیں۔‏ بائبل ہم سب کو مٹی سے تشبِیہ دیتی ہے اور خدا نے والدین کو اپنے بچوں کو ”‏مٹی“‏ کی طرح ڈھالنے کی اہم تفویض سونپی ہے۔‏ (‏ایوب ۳۳:‏۶؛‏ پیدایش ۱۸:‏۱۹‏)‏ ایک خوبصورت برتن کی طرح ایک بچے کو ذمہ‌دار اور معقول شخص بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‏ ایسی تبدیلی محض حادثاتی نہیں ہوتی۔‏

اپنے بچوں کی باطنی شخصیت کی نشوونما کرنے میں کئی قوتیں سرگرمِ‌عمل ہوتی ہیں۔‏ تاہم،‏ بدقسمتی سے ان میں سے بعض قوتیں تباہ‌کُن ثابت ہوتی ہیں۔‏ لہٰذا دانشمند والدین اپنے بچے کی نشوونما کو محض اتفاقی عمل خیال کرنے کی بجائے اس اعتماد کیساتھ ’‏اُس راہ میں اُسکی تربیت کرتے ہیں جس پر اُسے جانا ہے‘‏ کہ وہ ”‏بوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑیگا۔‏“‏—‏امثال ۲۲:‏۶‏۔‏

دانشمند مسیحی والدین کو اپنے بچے کی پرورش کے طویل اور اہم دَور میں اُسکے دل پر اثرانداز ہونے والے منفی اثرات کی مزاحمت کرنے کیلئے وقت مختص کرنا پڑیگا۔‏ جب وہ اپنے بچے کو ”‏خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اُنکی پرورش“‏ کرتے ہیں تو اُنکی محبت کو بارہا آزمائش کا سامنا ہوگا۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ اگر والدین بچپن ہی سے یہ کام شروع کر دیتے ہیں تو یہ اُن کیلئے کافی آسان ہوگا۔‏

بچپن سے شروع کرنا

کمہار ایسی مٹی کو استعمال کرنا پسند کرتے ہیں جو ڈھالنے میں آسان ہونے کیساتھ ساتھ ایک مرتبہ شکل دینے کے بعد اُسے برقرار رکھنے کے قابل بھی ہوتی ہے۔‏ مٹی کو صاف کرنے کے بعد وہ اسے چھ ماہ کے اندر اندر استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔‏ اسی طرح،‏ والدین کیلئے اپنے بچے کی باطنی شخصیت کی نشوونما کرنے کا بہترین وقت وہ ہے جب وہ سب سے زیادہ اثرپذیر ہوتا ہے اور اُسے آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے۔‏

ماہرینِ‌اطفال کے مطابق آٹھ ماہ کی عمر تک بچہ اپنی مقامی زبان کو سمجھنا،‏ اپنے والدین کے ساتھ ایک قریبی رشتہ قائم کرنا،‏ ادراکی صلاحیتیں پیدا کرنا اور اپنے اردگرد کے ماحول سے شناسائی پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے۔‏ اُسکی شخصیت کو ڈھالنے کا بہترین وقت اُسکا بچپن ہے۔‏ اگر آپکا بچہ تیمتھیس کی طرح ”‏بچپن سے اُن پاک نوشتوں سے واقف“‏ ہے تو یہ اُس کیلئے کسقدر فائدہ‌مند ہوگا!‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵‏۔‏ *

بچے فطری طور پر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں۔‏ آواز،‏ اظہارات اور حرکات کی نقل کرنے کے علاوہ جب وہ اپنے والدین کو محبت،‏ مہربانی اور رحمدلی کا مظاہرہ کرتے دیکھتے ہیں تو وہ ان خوبیوں کی بابت بھی سیکھتے ہیں۔‏ اگر ہم یہوواہ کے قوانین کے مطابق اپنے بچے کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خدا کے احکام کو اپنے دلوں پر نقش کرنا چاہئے۔‏ ایسی دلی قدردانی والدین کو اپنے بچوں سے یہوواہ اور اُسکے کلام کی بابت باقاعدہ بات‌چیت کرنے کی تحریک دیگی۔‏ بائبل نصیحت کرتی ہے،‏ ”‏تُو .‏ .‏ .‏ گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت انکا ذکر کِیا کرنا۔‏“‏ (‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ فرانسسکو اور روسا بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے دو نوجوان بچوں کی اس سلسلے میں کیسے مدد کرتے ہیں۔‏ *

‏”‏روزمرّہ کی گفتگو کے علاوہ،‏ ہم ہر روز کم‌ازکم ۱۵ منٹ تک اپنے بچوں کیساتھ انفرادی طور پر بات‌چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ جب ہمیں کوئی مسئلہ نظر آتا ہے تو ہم زیادہ وقت صرف کرتے ہیں مگر اسکے باوجود ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ حال ہی میں ہمارے پانچ سالہ بیٹے نے سکول سے گھر واپس آنے پر ہمیں بتایا کہ وہ یہوواہ پر ایمان نہیں رکھتا۔‏ بدیہی طور پر،‏ اُسکے ایک ساتھی طالبعلم نے اُسکا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔‏“‏

یہ والدین سمجھ گئے کہ بچوں کے اندر اپنے خالق پر ایمان کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔‏ خدا کی تخلیق کیلئے اُنکی فطری قدردانی ایسے ایمان کو فروغ دے سکتی ہے۔‏ بچے جانوروں کو چُھونے،‏ پھول توڑنے یا سمندر کے کنارے ریت پر کھیلنے سے کتنے محظوظ ہوتے ہیں!‏ والدین خالق اور تخلیق کے درمیان تعلق قائم کرنے میں اُنکی مدد کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۰۰:‏۳؛‏ ۱۰۴:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہوواہ کی تخلیق کیلئے انکی قدردانی اور احترام عمربھر قائم رہ سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۱:‏۲،‏ ۱۰‏)‏ ایسی قدردانی بچے کے اندر خدا کو خوش کرنے کی خواہش اور اُسے ناراض کرنے کا خوف پیدا کر سکتی ہے۔‏ یہ اُسے ’‏بدی سے باز رہنے‘‏ کی تحریک دیگا۔‏—‏امثال ۱۶:‏۶‏۔‏

اگرچہ بیشتر بچے متجسس اور جلدی سیکھنے کے قابل ہوتے ہیں توبھی فرمانبرداری ظاہر کرنا اُن کیلئے ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۵‏)‏ بعض‌اوقات وہ آزادی سے کام کرنے یا صرف اپنی خواہشات کی تکمیل پر اصرار کرتے ہیں۔‏ ایسے رُجحانات کو جڑ پکڑنے سے روکنے کیلئے والدین کو عزم،‏ تحمل اور اصلاح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ پانچ بچوں کی کامیاب پرورش کرنے والے فیلس اور پال کو اس بات کا تجربہ ہوا۔‏

فیلس یاد کرتی ہے:‏ ”‏اگرچہ ہر بچے کی شخصیت منفرد تھی توبھی اُن میں سے ہر ایک اپنی مرضی کرنا چاہتا تھا۔‏ یہ کافی مشکل صورتحال تھی لیکن بالآخر وہ ’‏نہیں‘‏ کا مطلب سمجھ ہی گئے۔‏“‏ اسکا شوہر پال بیان کرتا ہے:‏ ”‏جب وہ سمجھنے کے قابل ہوئے تو ہم نے اکثر اُن سے اپنے فیصلوں کی وجوہات بیان کیں۔‏ ہم نے ہمیشہ مہربان رہنے کی کوشش کی اور اُنہیں خدا کی طرف سے دئے گئے اختیار کیلئے احترام ظاہر کرنا سکھایا۔‏“‏

اگرچہ بچے کو بچپن میں بھی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے،‏ توبھی بہتیرے والدین محسوس کرتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج جوانی میں آتا ہے جب ایک ناتجربہ‌کار دل کو بیشمار نئی نئی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏

نوجوان کے دل تک پہنچنا

کمہار کو مٹی خشک ہونے سے پہلے اُسے کام میں لانا ہوتا ہے۔‏ کچھ وقت بچانے کی غرض سے وہ مٹی کو مرطوب اور نرم رکھنے کیلئے اُس میں پانی ملا دیتا ہے۔‏ اسی طرح،‏ والدین کو اپنے نوجوان بچے کے دل کو سخت ہونے سے بچانے کیلئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔‏ بِلاشُبہ اس کام کیلئے اُنکا بنیادی ہتھیار بائبل ہے جس سے وہ ”‏الزام اور اصلاح“‏ کرتے ہوئے اپنے بچے کو ”‏ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار“‏ کر سکتے ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

تاہم ہو سکتا ہے کہ ایک نوجوان شاید بچپن کی طرح اپنے والدین کی نصیحت کو فوری طور پر قبول نہ کرے۔‏ نوجوان اپنے ہمسروں کے اثر کو قبول کرنے کی  طرف زیادہ مائل ہو سکتے ہیں لہٰذا والدین کے ساتھ کھلا اور برجستہ رابطہ متاثر ہو سکتا ہے۔‏ یہ وقت زیادہ برداشت اور مہارت کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ والدین اور بچوں کے تعلقات میں ایک نئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‏ نوجوان کو جسمانی اور جذباتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔‏ اُسے ایسے فیصلے اور نصب‌العین قائم کرنے ہوتے ہیں جو اُس کی باقی زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۲‏)‏ اس مشکل وقت میں اُسے ایک ایسی قوت—‏ہمسروں کے دباؤ—‏سے نپٹنا پڑتا ہے جو اُس کے دل پر ہمیشہ کے لئے تباہ‌کُن اثر ڈال سکتی ہے۔‏

ایسے دباؤ کا آسانی سے نظر آنے کا امکان بہت کم ہے۔‏ اسکی بجائے اسکا اظہار اکثر اعتماد کو کمزور کرنے والے تبصروں یا مواقع پر کِیا جاتا ہے۔‏ یہ دراصل بہتیرے نوجوانوں کی ایک بڑی کمزوری،‏ دوسرے نوجوانوں کی طرف سے رد کئے جانے کے گہرے خوف کو نشانہ بناتا ہے۔‏ اپنی عزتِ‌نفس اور احساسِ‌اپنائیت کی خواہش سے نبردآزما ایک نوجوان ’‏دُنیا کی ایسی چیزوں‘‏ کے پیچھے بھاگ سکتا ہے جنکی دوسرے نوجوان حمایت کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷؛‏ رومیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

ناکامل دل کی فطری خواہشات ہمسروں کے اثر میں اضافہ کرتے ہوئے صورتحال کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔‏ ”‏کھاؤپیو“‏ اور ”‏مزے اُڑاؤ“‏ جیسی ترغیبات پُرکشش دکھائی دے سکتی ہیں۔‏ ماریا اپنا تجربہ یاد کرتی ہے:‏ ”‏مَیں اپنے ساتھیوں کی باتوں میں آگئی جو یہ یقین رکھتے تھے کہ نوجوانوں کو نتائج سے قطع‌نظر زندگی سے بھرپور لطف اُٹھانے کا حق حاصل ہے۔‏ اپنے ساتھی طالبعلموں کی نقل کرنے کی خواہش کیساتھ مَیں نقصاندہ کاموں میں پڑنے والی تھی۔‏“‏ والدین کے طور پر آپ اپنے نوجوان بچے کی ایسے دباؤ کی مزاحمت کرنے میں مدد کرنا چاہینگے لیکن آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

اپنے قول‌وفعل سے اُسے بار بار اس بات کا یقین دلائیں کہ آپ اُس کی فکر رکھتے ہیں۔‏ معاملات کی بابت اُسکے احساسات کو جاننے اور اُسکے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو اُن مسائل سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو سکتے ہیں جنکا آپ  کو سکول میں سامنا تھا۔‏ بالخصوص اس وقت آپکے بچے کو آپکو ایک ایسا شخص  خیال کرنا چاہئے جسے وہ اپنا ہمراز بنا سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۰:‏۵‏)‏ اُس کی حرکات‌وسکنات یا ذہنی کیفیت سے آپ اُس کی پریشانی یا اُلجھن کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‏ اُسکی خاموش التجاؤں کیلئے جوابی‌عمل ظاہر کریں اور ’‏اُسکے دل کو تسلی دیں۔‏‘‏—‏کلسیوں ۲:‏۲‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ درست بات پر ڈٹے رہنا بھی ضروری ہے۔‏ بہتیرے والدین نے محسوس کِیا ہے کہ بعض‌اوقات اُنکے بچوں اور اُنکے درمیان ایک کشمکش جاری ہوتی ہے لیکن اگر اُنکا فیصلہ معقول ہے تو اُنہیں اس پر قائم رہنا چاہئے۔‏ اسکے برعکس،‏ مشفقانہ تنبیہ کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کر لیں کہ آپ صورتحال کو واضح طور پر سمجھتے اور یہ جانتے ہیں کہ بوقتِ‌ضرورت تنبیہ کیسے کرینگے۔‏—‏امثال ۱۸:‏۱۳‏۔‏

کلیسیا میں بھی آزمائش ہو سکتی ہے

ایک مٹی کا برتن بظاہر بالکل تیار دکھائی دے سکتا ہے لیکن جب تک اسے بھٹی میں تپایا نہ جائے یہ اُسی سیال مادّے سے خراب ہو سکتا ہے جس کیلئے اُسے بنایا گیا ہے۔‏ بائبل آزمائشوں اور مشکلات کا موازنہ آگ میں جلائے جانے کے اس عمل سے کرتی ہے اسلئےکہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم درحقیقت کس قسم کے شخص ہیں۔‏ بیشک،‏ بائبل بالخصوص ہمارے ایمان کی آزمائشوں کا ذکر کر رہی ہے تاہم اس بات کا اطلاق بالعموم دیگر آزمائشوں پر بھی ہوتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏)‏ حیرانی کی بات ہے کہ نوجوانوں کی بعض صبرآزما آزمائشیں کلیسیا کے اندر سے بھی آ سکتی ہیں۔‏

اگرچہ آپکا نوجوان بچہ بظاہر اچھی روحانی صحت کا مالک ہو سکتا ہے توبھی اندرونی یا باطنی طور پر اُسکا دل غیرمطمئن ہو سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۸:‏۲۱‏)‏ مثال کے طور پر،‏ می‌گن کو کنگڈم ہال جانے والے بعض نوجوانوں کی طرف سے دُنیاوی خیالات کا سامنا کرنا پڑا:‏

‏”‏مَیں نوجوانوں کے ایک ایسے گروہ کے زیرِاثر تھی جو مسیحیت کو بےکیف مذہب اور خوشی کی راہ میں رُکاوٹ خیال کرتے تھے۔‏ وہ کچھ اس طرح کی باتیں کِیا کرتے تھے:‏ ’‏جیسے ہی مَیں ۱۸ سال کا ہو جاؤنگا مَیں سچائی کو چھوڑ دونگا،‏‘‏ یا ’‏مَیں سچائی چھوڑنے کا بےصبری سے انتظار کر رہا ہوں۔‏‘‏ وہ ایسے نوجوانوں سے دُور رہتے تھے جو اُن سے اتفاق نہیں کرتے اور اُنہیں حد سے زیادہ راستباز بننے کا طعنہ دیتے تھے۔‏“‏

دوسروں کو بھڑکانے کیلئے بُرا رُجحان رکھنے والے ایک یا دو شخص ہی کافی ہیں۔‏ ایک گروہ کے لوگ عموماً اکثریت کی پیروی کرتے ہیں۔‏ حماقت اور دیدہ‌دلیری حکمت اور شائستگی پر غالب آ سکتی ہیں۔‏ بہتیرے ممالک میں بِھیڑ کی پیروی کرنے کی وجہ سے نقصان اُٹھانے والے مسیحی نوجوانوں کی افسوسناک مثالیں ملتی ہیں۔‏

بیشک،‏ نوجوانوں کو کچھ پُرمسرت رفاقت کی ضرورت ہے۔‏ بطور والدین آپ یہ کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟‏ اُن کیلئے تفریح کا بندوبست کرنے کی بابت سنجیدگی سے غور کریں اور خاندان یا نوجوانوں اور بالغوں پر مشتمل گروہ کیساتھ دلچسپ کارگزاریوں کا منصوبہ بنائیں۔‏ اپنے بچے کے دوستوں کو جاننے کی کوشش کریں۔‏ اُنہیں کھانے کیلئے مدعو کریں یا اُن کیساتھ کوئی شام گزاریں۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۳‏)‏ نوجوان بچے کی حوصلہ‌افزائی کریں کہ وہ موسیقی کا کوئی آلہ بجانے یا ایک زبان یا ہنر سیکھنے والی کسی صحتمندانہ کارگزاری میں دلچسپی لے۔‏ بڑی حد تک وہ گھر کے محفوظ ماحول میں رہ کر بھی ایسا کر سکتا ہے۔‏

تعلیم بھی ایک تحفظ ہو سکتی ہے

تعلیم بھی ایک نوجوان کو تفریح کو مناسب مقام پر رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ ایک بڑے سکول میں ۲۰ سال سے منتظم کے طور پر خدمت کرنے والی لالی بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے بہت سے گواہوں کو سکول میں پڑھتے دیکھا ہے۔‏ بہتیروں کا چال‌چلن قابلِ‌تعریف تھا لیکن بعض دوسرے طالبعلموں جیسے تھے۔‏ تاہم اچھا نمونہ ہمیشہ اُن طالبعلموں نے قائم کِیا جو اپنی پڑھائی میں دلچسپی لیتے تھے۔‏ مَیں والدین کو یہ مخلصانہ مشورہ دینا چاہونگی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں دلچسپی لیں،‏ اُنکے اساتذہ کو جاننے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کو اچھی کارکردگی کی اہمیت کیلئے قائل کریں۔‏ سچ ہے کہ چند ہی طالبعلم نمایاں کامیابی حاصل کرینگے تاہم سب ہی قابلِ‌قبول معیار قائم کرکے اپنے اساتذہ کا احترام حاصل کر سکتے ہیں۔‏“‏

ایسی تعلیم نوجوانوں کو روحانی ترقی کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔‏ یہ اُنہیں مطالعہ کی اچھی عادات،‏ ذہنی تربیت اور احساسِ‌ذمہ‌داری سکھا سکتی ہے۔‏ عمدہ پڑھائی کرنے اور خیالات کو سمجھنے کی اُنکی صلاحیت،‏ بِلاشُبہ خدا کے کلام کے اچھے طالبعلم اور اُستاد بننے میں اُنکی حوصلہ‌افزائی کریگی۔‏ (‏نحمیاہ ۸:‏۸‏)‏ اُنکے سکول کے کام کے تقاضے اور روحانی تعلیم اُنہیں تفریح کو مناسب جگہ پر رکھنے میں مدد دینگے۔‏

یہوواہ اور آپ کے لئے باعثِ‌احترام

قدیم یونان میں بیشتر گلدانوں پر کمہار اور نقش‌نگار کے دستخط پائے جاتے تھے۔‏ ویسے ہی خاندان میں بھی ایک بچے کی نشوونما میں عموماً دو کا ہاتھ ہوتا ہے۔‏ بچے کی نشوونما میں بھی ماں اور باپ دونوں حصہ لیتے ہیں اور علامتی طور پر بچے پر اُن دونوں کے ”‏دستخط“‏ ہوتے ہیں۔‏ ایک کامیاب کمہار یا نقش‌نگار کی طرح آپ بھی ایک قابلِ‌تعریف اور خوبصورت نوجوان کی نشوونما کرنے میں اپنے کردار پر فخر کر سکتے ہیں۔‏—‏امثال ۲۳:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

اس شاندار کوشش کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس حد  تک اپنے بچے کی نشوونما کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ اُمید ہے کہ آپ یہ کہہ سکیں گے:‏ ”‏خدا کی شریعت اُسکے دل میں ہے۔‏ وہ اپنی روش میں پھسلے گا نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۳۱‏)‏ ایک بچے کی باطنی شخصیت کو محض اتقافیہ نشوونما پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ یہ ایک نہایت اہم عمل ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 بعض والدین اپنے نوزائیدہ بچے کو بائبل پڑھ کر سناتے ہیں۔‏ یہ پُرسکون آواز اور خوش‌کُن تجربہ بچے کی تمام عمر پڑھائی کیلئے قدردانی کو بڑھا سکتا ہے۔‏

^ پیراگراف 9 بعض نام بدل کر دئے گئے ہیں۔‏