مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے سارے دل سے یہوواہ پر توکل کریں

اپنے سارے دل سے یہوواہ پر توکل کریں

اپنے سارے دل سے یہوواہ پر توکل کریں

‏”‏جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکل کرینگے۔‏“‏—‏زبور ۹:‏۱۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ لوگ تحفظ کیلئے کن چیزوں پر بیفائدہ بھروسا کرتے ہیں؟‏

آج کی دُنیا میں جب ہماری سلامتی کو کئی اطراف سے خطرہ ہےتو تحفظ کے لئے کسی پر آس لگانا فطرتی امر ہے۔‏ بعض کے خیال میں زیادہ دولت اُن کے مستقبل کو محفوظ بناتی ہے جب کہ حقیقت میں دولت پر قطعی بھروسا نہیں کِیا جا سکتا۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏جو اپنے مال پر بھروسا کرتا ہے گِر پڑیگا۔‏“‏ (‏امثال ۱۱:‏۲۸‏)‏ بعض انسانی پیشواؤں پر آس لگاتے ہیں لیکن یہ پیشوا خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں وہ بالآخر مر بھی جاتے ہیں۔‏ پس،‏ بائبل کی یہ بات نہایت پُرحکمت ہے:‏ ”‏نہ اُمرا پر بھروسا کرو نہ آدم‌زاد پر۔‏ وہ بچا نہیں سکتا۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۶:‏۳‏)‏ یہ الہامی الفاظ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں پر بھروسا کرنے سے بھی خبردار کرتے ہیں۔‏ ہم بھی تو محض ’‏خاکی انسان آدم کی اولاد‘‏ ہی ہیں۔‏

۲ یسعیاہ نبی نے اپنے زمانے میں اسرائیلی قوم کے پیشواؤں میں یہ غلطی دیکھی کہ اُنہوں نے ”‏جھوٹ کو اپنی پناہ‌گاہ بنایا“‏ تھا۔‏ (‏یسعیاہ ۲۸:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ اُنہوں نے اپنے تحفظ کی خاطر ہمسایہ اقوام کیساتھ سیاسی گٹھ‌جوڑ کِیا۔‏ ایسا گٹھ‌جوڑ ناقابلِ‌بھروسا—‏محض ایک جھوٹ—‏تھا۔‏ اسی طرح،‏ آجکل بہتیرے مذہبی راہنما سیاسی لیڈروں کیساتھ مراسم بڑھاتے ہیں۔‏ یہ مراسم بھی ”‏جھوٹ“‏ ہی ثابت ہونگے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ یہ دائمی تحفظ فراہم نہیں کر سکیں گے۔‏

یشوع اور کالب کی اچھی مثالیں

۳،‏ ۴.‏ یشوع اور کالب کی پیش‌کردہ معلومات دیگر دس جاسوسوں سے کیسے  فرق  تھیں؟‏

۳ پس،‏ ہمیں تحفظ کیلئے کس پر آس لگانی چاہئے؟‏ ہمیں بھی اُسی پر آس لگانی چاہئے جس پر موسیٰ کے زمانے میں یشوع اور کالب نے لگائی تھی۔‏ مصر سے اسرائیل کی رہائی کے فوراً بعد،‏ یہ قوم کنعان،‏ ملکِ‌موعود میں داخل ہونے کیلئے تیار تھی۔‏ بارہ آدمیوں کو اُس مُلک کی جاسوسی کرنے کیلئے بھیجا اور ۴۰ دن کے بعد وہ ساری معلومات لیکر واپس آئے۔‏ صرف دو اشخاص یعنی یشوع اور کالب نے کنعان پر اسرائیل کی فتح کے مثبت پہلوؤں کو نمایاں کِیا۔‏ دیگر نے مُلک کے نہایت خوبصورت ہونے کی تصدیق تو کی مگر کہا:‏ ”‏جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زورآور ہیں اور اُنکے شہر بڑےبڑے اور فصیل‌دار ہیں .‏ .‏ .‏ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ اُن لوگوں پر حملہ کریں کیونکہ وہ ہم سے زیادہ زورآور ہیں۔‏“‏—‏گنتی ۱۳:‏۲۷،‏ ۲۸،‏ ۳۱‏۔‏

۴ اسرائیلی دس جاسوسوں کی بات سن کر اس حد تک ڈر گئے کہ وہ موسیٰ کے خلاف بڑبڑانے لگے۔‏ بالآخر،‏ یشوع اور کالب نے بڑے جوش کیساتھ کہا:‏ ”‏وہ مُلک جسکا حال دریافت کرنے کو ہم اُس میں سے گذرے نہایت اچھا مُلک ہے۔‏ اگر [‏یہوواہ]‏ ہم سے راضی رہے تو وہ ہمکو اُس مُلک میں پہنچائیگا اور وہی مُلک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ہمکو دیگا۔‏ فقط اتنا ہو کہ تم [‏یہوواہ]‏ سے بغاوت نہ کرو اور نہ اُس مُلک کے لوگوں سے ڈرو۔‏“‏ (‏گنتی ۱۴:‏۶-‏۹‏)‏ لیکن اسرائیلیوں نے اُنکی بات نہ مانی اور نتیجتاً یہوواہ نے اُنہیں اُس وقت ملکِ‌موعود میں داخل ہونے نہ دیا۔‏

۵.‏ یشوع اور کالب نے اچھی معلومات کیوں پیش کی تھیں؟‏

۵ یشوع اور کالب نے اچھی معلومات کیوں پیش کیں جبکہ دیگر دس جاسوسوں نے بُری باتیں بیان کی تھیں؟‏ تمام ۱۲ جاسوسوں نے فصیل‌دار شہروں اور طاقتور لوگوں کو دیکھا تھا۔‏ نیز دس جاسوسوں کی یہ بات بھی درست تھی کہ اسرائیل میں اُس مُلک کو فتح کرنے کی طاقت نہیں تھی۔‏ یشوع اور کالب بھی یہ بات جانتے تھے۔‏ تاہم،‏ دس جاسوسوں نے جسمانی نقطۂ‌نظر اختیار کِیا۔‏ لیکن یشوع اور کالب نے یہوواہ پر توکل کِیا۔‏ وہ مصر،‏ بحرِقلزم اور کوہِ‌سینا کے دامن میں یہوواہ کے طاقتور کام دیکھ چکے تھے۔‏ کئی سالوں بعد ان کاموں کی بابت سن کر یریحو کی راحب اسقدر متاثر ہوئی کہ وہ یہوواہ کے لوگوں کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالنے کیلئے بھی تیار تھی!‏ (‏یشوع ۲:‏۱-‏۲۴؛‏ ۶:‏۲۲-‏۲۵‏)‏ یشوع اور کالب یہوواہ کے کاموں کے عینی شاہد تھے اسلئے اُنہیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ اپنے لوگوں کی خاطر لڑتا رہیگا۔‏ چالیس سال بعد،‏ اُنکا یہ توکل بالکل درست ثابت ہوا جب اسرائیلیوں کی ایک نئی نسل یشوع کی قیادت میں کنعان میں داخل ہوئی اور اُسے فتح کر لیا۔‏

ہمیں یہوواہ پر پورا بھروسا کیوں رکھنا چاہئے

۶.‏ آجکل مسیحی دباؤ کے تحت کیوں ہیں اور وہ کس پر توکل کر سکتے ہیں؟‏

۶ ان ’‏بُرے دنوں‘‏ میں اسرائیل کی طرح ہمیں بھی ایسے دشمنوں کا سامنا ہے جو ہم سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ ہم پر اخلاقی،‏ روحانی اور بعض معاملات میں تو جسمانی دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔‏ ہم اپنے بل‌بوتے پر ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کر سکتے کیونکہ انکا ماخذ مافوق‌البشر ہستی،‏ شیطان ابلیس ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ پس،‏ ہم کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں؟‏ قدیم زمانے کے ایک وفادار شخص نے دُعا میں یہوواہ سے کہا:‏ ”‏جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکل کرینگے۔‏“‏ (‏زبور ۹:‏۱۰‏)‏ اگر ہم واقعی یہوواہ کو جانتے ہیں اور اُسکے نام کے مکمل مفہوم کو سمجھتے ہیں تو ہم بھی یشوع اور کالب کی طرح اُس پر قطعی بھروسا کرینگے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ تخلیق ہمیں یہوواہ پر توکل کرنے کی وجوہات کیسے فراہم کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ بائبل یہوواہ پر توکل کرنے کی کونسی وجوہات پیش کرتی ہے؟‏

۷ ہمیں یہوواہ پر توکل کیوں کرنا چاہئے؟‏ یشوع اور کالب کے اعتماد کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اُنہوں نے اُسکی طاقت کے مظاہرے دیکھے تھے۔‏ ایسے ہی مظاہرے ہم نے بھی دیکھے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ کے تخلیقی کاموں پر غور کریں جس میں اربوں کہکشاؤں پر مشتمل کائنات شامل ہے۔‏ یہوواہ جن عظیم طبیعی قوتوں پر قابو رکھتا ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعی قادرِمطلق ہے۔‏ تخلیقی عجائب پر غور کرتے وقت ہمیں ایوب کی اس بات سے متفق ہونا پڑیگا جس نے یہوواہ کی بابت کہا:‏ ”‏کون اُسے روک سکتا ہے؟‏ کون اُس سے کہیگا کہ تُو کیا کرتا ہے؟‏“‏ (‏ایوب ۹:‏۱۲‏)‏ اگر یہوواہ ہماری طرف ہے توپھر ہمیں پوری کائنات میں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں  ہے۔‏—‏رومیوں ۸:‏۳۱‏۔‏

۸ یہوواہ کے کلام،‏ بائبل پر بھی غور کریں۔‏ الہٰی حکمت کے اس لازوال ماخذ  میں اتنی طاقت ہے کہ یہ بُری عادات پر غالب آنے اور اپنی زندگی یہوواہ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ بائبل کے ذریعے ہی ہم یہوواہ کو اُسکے نام سے جانتے اور اُسکے نام کے مفہوم سے واقف ہوتے ہیں۔‏ (‏خروج ۳:‏۱۴‏)‏ ہم سمجھتے ہیں کہ یہوواہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے جو چاہے—‏شفیق باپ،‏ راست منصف،‏ فاتح جنگجو—‏بن سکتا ہے۔‏ نیز ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اُسکا کلام ہمیشہ پورا ہوتا ہے۔‏ جب ہم خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم زبورنویس کی طرح یہ کہنے کی تحریک پاتے ہیں:‏ ”‏مَیں تیرے کلام پر بھروسا رکھتا ہوں۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۴۲؛‏ یسعیاہ ۴۰:‏۸‏۔‏

۹.‏ فدیہ اور یسوع کی قیامت یہوواہ پر ہمارے اعتماد کو کیسے مضبوط کرتے ہیں؟‏

۹ یہوواہ پر توکل کرنے کی ایک اَور وجہ فدیہ ہے۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ یہ کتنی حیران‌کُن بات ہے کہ یہوواہ نے ہمارا فدیہ دینے کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا!‏ فدیہ واقعی بہت مؤثر ہے۔‏ یہ اُن تمام  انسانوں کے گناہوں کو ڈھانپ لیتا ہے جو خلوصدلی سے توبہ کرکے یہوواہ کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ عبرانیوں ۶:‏۱۰؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۱۶،‏ ۱۹‏)‏ فدیے کی ادائے گی کے عمل کا ایک حصہ یسوع کی قیامت تھی۔‏ اس معجزے کے سینکڑوں عینی شاہد تھے جو یہوواہ پر توکل کرنے کی مزید وجہ فراہم کرتا ہے۔‏ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ ہماری اُمیدوں کا انجام مایوس‌کُن نہیں ہوگا۔‏—‏اعمال ۱۷:‏۳۱؛‏ رومیوں ۵:‏۵؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳-‏۸‏۔‏

۱۰.‏ یہوواہ پر توکل کرنے کی ہمارے پاس کونسی ذاتی وجوہات ہیں؟‏

۱۰ یہ چند ایک وجوہات ہیں جنکی بِنا پر ہمیں یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھنا چاہئے۔‏ اسکی اَور وجوہات بھی ہیں جن میں سے بعض ذاتی نوعیت کی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم سب کو وقتاًفوقتاً زندگی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‏ جب ہم ان سے نپٹنے کیلئے یہوواہ کی راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اُسکی راہنمائی کتنی عملی ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۵-‏۸‏)‏ ہم اپنی روزمرّہ زندگی میں جتنا زیادہ یہوواہ پر توکل کرتے ہیں اُتنا ہی ہم اسکے اچھے نتائج دیکھتے ہیں جس سے ہمارے توکل کو اَور بھی تقویت ملتی ہے۔‏

داؤد نے یہوواہ پر توکل کِیا

۱۱.‏ داؤد نے کیسے حالات میں یہوواہ پر توکل کِیا؟‏

۱۱ قدیم اسرائیل کے داؤد نے بھی یہوواہ پر توکل کِیا تھا۔‏ داؤد کو اُسکے خون کے پیاسے بادشاہ ساؤل اور اسرائیل کو فتح کرنے کے درپے طاقتور فلستی فوج کی طرف سے خطرہ لاحق تھا۔‏ اِسکے باوجود اُس نے فتح حاصل کی اور بچ بھی گیا۔‏ کیوں؟‏ داؤد خود واضح کرتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میری روشنی اور میری نجات ہے۔‏ مجھے کس کی دہشت؟‏ [‏یہوواہ]‏ میری زندگی کا پشتہ ہے۔‏ مجھے کس کی ہیبت؟‏“‏ (‏زبور ۲۷:‏۱‏)‏ اگر ہم بھی یہوواہ پر ایسے ہی توکل کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ داؤد نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ مخالفین کے اپنی زبان کو ہمارے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود ہمیں یہوواہ پر توکل کرنا چاہئے؟‏

۱۲ ایک موقع پر داؤد نے یہ دُعا کی:‏ ”‏اَے خدا!‏ میری فریاد کی آواز سن لے۔‏ میری جان کو دشمن کے خوف سے بچائے رکھ۔‏ شریروں کے خفیہ مشورہ سے اور بدکرداروں کے ہنگامہ سے مجھے چھپا لے جنہوں نے اپنی زبان تلوار کی طرح تیز کی اور تلخ باتوں کے تیروں کا نشانہ لیا ہے تاکہ اُنکو خفیہ مقاموں میں کامل آدمی پر چلائیں۔‏“‏ (‏زبور ۶۴:‏۱-‏۴‏)‏ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ داؤد نے کس وجہ سے یہ الفاظ تحریر کئے تھے۔‏ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ آجکل مخالفین اسی طرح اپنی ’‏زبان تیز‘‏ کرکے اپنی باتوں کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‏ وہ زبانی یا تحریری غلط معلومات پھیلانے سے بےگُناہ مسیحیوں پر ’‏تیر چلاتے ہیں۔‏‘‏ اگر ہم یہوواہ پر کامل بھروسا رکھیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟‏

۱۳ داؤد مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏لیکن خدا اُن پر تیر چلائیگا۔‏ وہ ناگہان تیر سے زخمی ہو جائینگے۔‏ اور اُن ہی کی زبان اُنکو تباہ کریگی۔‏ .‏ .‏ .‏ صادق [‏یہوواہ]‏ میں شادمان ہوگا اور اُس پر توکل کریگا۔‏“‏ (‏زبور ۶۴:‏۷-‏۱۰‏)‏ اگرچہ دُشمن ہمارے خلاف اپنی زبان تیز کرتے ہیں توبھی ’‏اُنکی زبان اُنہی کو تباہ کرتی ہے۔‏‘‏ یہوواہ بالآخر تمام معاملات کے مثبت انجام کا مؤجب بنتا ہے تاکہ اُس پر توکل کرنے والے اُس میں شادمان رہیں۔‏

حزقیاہ کا توکل بااجر ثابت ہوا

۱۴.‏ (‏ا)‏ کس سنگین صورتحال میں حزقیاہ نے یہوواہ پر توکل کِیا؟‏ (‏ب)‏ حزقیاہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُسے اسوریوں کی باطل باتوں کا یقین نہیں ہے؟‏

۱۴ بادشاہ حزقیاہ کو بھی یہوواہ پر توکل کرنے کا اجر ملا تھا۔‏ حزقیاہ کے دورِحکومت میں طاقتور اسوری فوج نے یروشلیم کو گھیر لیا۔‏ اس فوج نے بہت سی اقوام کو شکست دی تھی۔‏ اس نے یہوداہ کے شہر بھی فتح کر لئے تھے صرف یروشلیم رہ گیا تھا اور سنحیرب شیخی بگھار رہا تھا کہ وہ اِسے بھی فتح کر لیگا۔‏ ربشاقی کی معرفت اُس نے بجا طور پر کہا کہ مصر پر بھروسا کرنا بیفائدہ ہوگا۔‏ لیکن اُس نے یہ بھی کہا:‏ ”‏تیرا خدا جس پر تیرا بھروسا ہے تجھے یہ کہہ کر فریب نہ دے کہ یرؔوشلیم شاہِ‌اؔسُور کے قبضہ میں نہ کِیا جائیگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۷:‏۱۰‏)‏ تاہم،‏ حزقیاہ جانتا تھا کہ یہوواہ اُسے دھوکا نہیں دیگا۔‏ لہٰذا اُس نے یہ دُعا کی:‏ ”‏سو اب اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارے خدا!‏ تو ہم کو اُسکے ہاتھ سے بچا لے تاکہ زمین کی سب سلطنتیں جان لیں کہ تو ہی اکیلا خداوند ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۷:‏۲۰‏)‏ یہوواہ نے حزقیاہ کی دُعا سنی۔‏ ایک ہی رات میں ایک فرشتے نے ۰۰۰،‏۸۵،‏۱ اسوری فوجی ہلاک کر دئے۔‏ یروشلیم بچ گیا اور سنحیرب یہوداہ کی سرزمین سے چلا گیا۔‏ اس واقعہ کی خبر سننے والا ہر شخص یہوواہ کی عظمت کا قائل ہو گیا تھا۔‏

۱۵.‏ اس غیرمستحکم دُنیا میں کسی بھی مشکل حالت کا سامنا کرنے کے لئے کونسی چیز ہمیں تیار کریگی؟‏

۱۵ آجکل ہمیں بھی حزقیاہ کی طرح جنگ کا سامنا ہے۔‏ لیکن ہماری جنگ روحانی ہے۔‏ اسکے باوجود،‏ ہمیں روحانی فوجیوں کے طور پر اپنا دفاع کرنے کی مہارتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں حملوں کو بھانپ کر اُنہیں پسپا کرنے کے قابل بننے کیلئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱،‏ ۱۲،‏ ۱۷‏)‏ اس غیرمستحکم دُنیا میں حالتیں فوراً بدل جاتی ہیں۔‏ اچانک خانہ‌جنگی شروع ہو جاتی ہے۔‏ مذہبی آزادی کے قائل ممالک اسکے خلاف ہو سکتے ہیں۔‏ حزقیاہ کی طرح اگر ہم یہوواہ پر مستحکم توکل رکھنے سے تیاری کریں تو ہم کسی بھی صورتحال کیلئے بالکل کمربستہ ہو سکیں گے۔‏

یہوواہ پر توکل کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ ہم یہوواہ پر توکل کا مظاہرہ کیسے کرتے ہیں؟‏

۱۶ یہوواہ پر توکل محض زبانی جمع‌خرچ کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔‏ یہ دلی معاملہ ہے جو ہمارے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔‏ اگر ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں تو ہم اُسکے کلام،‏ بائبل پر بھی بھروسا کرینگے۔‏ ہم اسے روز پڑھیں گے،‏ اس پر غوروخوض کرینگے اور اسے اپنی زندگی کی راہنمائی کرنے دینگے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۵‏)‏ یہوواہ پر توکل کرنے کا مطلب اُسکی روح‌القدس کی طاقت پر توکل کرنا بھی ہے۔‏ روح‌القدس کی مدد سے ہم یہوواہ کو خوش کرنے والے پھل پیدا کر سکتے ہیں حتیٰ‌کہ اپنی پُختہ بُری عادات کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۱؛‏ گلتیوں ۵:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ پس،‏ روح‌القدس کی مدد سے بہتیرے سگریٹ‌نوشی یا منشیات ترک کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ دیگر نے بداخلاق طرزِزندگی کو ترک کر دیا ہے۔‏ واقعی،‏ یہوواہ پر توکل کرنے سے ہم اپنی نہیں بلکہ یہوواہ کی طاقت سے کام کرتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۳:‏۱۴-‏۱۸‏۔‏

۱۷ علاوہ‌ازیں،‏ یہوواہ پر توکل کرنے کا مطلب اُن لوگوں پر توکل  کرنا ہے جن پر وہ خود بھروسا کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ نے دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کو زمین پر بادشاہتی مفادات کی دیکھ‌بھال کیلئے مقرر کِیا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ ہم خودمختار بننے کی کوشش نہیں کرتے اور دیانتدار اور عقلمند نوکر کو بھی نظرانداز نہیں کرتے کیونکہ ہم یہوواہ کے انتظام پر توکل کرتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ مسیحی کلیسیا میں بزرگ خدمت کرتے ہیں اور پولس رسول کے مطابق روح‌القدس کی مدد سے مقرر کئے جاتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ کلیسیا میں بزرگوں کے انتظام سے تعاون کرکے ہم یہوواہ پر اپنے توکل کا اظہار کرتے ہیں۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۷‏۔‏

پولس کے نمونے کی نقل کریں

۱۸.‏ آجکل مسیحی پولس کی نقل کیسے کرتے ہیں لیکن وہ کس پر توکل نہیں کرتے؟‏

۱۸ پولس کو اپنی خدمتگزاری میں ہماری طرح بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا تھا۔‏ اُسکے زمانے میں حاکموں کو مسیحیت کی بابت بہت غلط باتیں بتائی گئی تھیں اسلئے اُسے بعض‌اوقات ایسے غلط تاثرات کو درست یا منادی کے کام کا قانونی دفاع کرنا پڑتا تھا۔‏ (‏اعمال ۲۸:‏۱۹-‏۲۲؛‏ فلپیوں ۱:‏۷‏)‏ آجکل مسیحی اُسی کی نقل کرتے ہیں۔‏ جب کبھی ممکن ہو تو ہم تمام دستیاب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو اپنے کام سے واقف کرانے میں مدد کرتے ہیں۔‏ نیز ہم خوشخبری کی قانونی طور پر حمایت اور دفاع بھی کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ہمارا توکل ایسی کاوشوں پر نہیں ہوتا کیونکہ ہم یہ نہیں مانتے کہ ہماری کامیابی یا ناکامی کا انحصار عدالتی مقدمات جیتنے یا عوام کی مقبولیت حاصل کرنے پر ہے۔‏ اِسکے برعکس،‏ ہم یہوواہ پر توکل کرتے ہیں۔‏ ہمیں قدیم اسرائیل کو دی جانے والی اُس کی یہ حوصلہ‌افزائی یاد ہے:‏ ”‏خاموشی اور توکل میں تمہاری قوت  ہے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۰:‏۱۵‏۔‏

۱۹.‏ ہمارے بھائیوں کا اذیت کے تحت یہوواہ پر توکل کیسے بااجر ثابت ہوا ہے؟‏

۱۹ ہماری جدید تاریخ میں بعض‌اوقات،‏ مشرقی اور مغربی یورپ،‏  ایشیا،‏ افریقہ،‏ جنوبی اور شمالی امریکہ کے بعض ممالک میں ہمارے کام پر پابندی لگا دی گئی ہے۔‏ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ یہوواہ پر ہمارا توکل بیفائدہ تھا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اگرچہ اُس نے بعض‌اوقات کسی معقول وجہ کی بِنا پر اذیت کی اجازت دی ہے توبھی یہوواہ نے بڑی محبت سے اس اذیت کا نشانہ بننے والوں کو برداشت کی قوت عطا کی ہے۔‏ اذیت کے تحت بہتیرے مسیحیوں نے ایمان اور خدا پر توکل کا شاندار ریکارڈ قائم کِیا ہے۔‏

۲۰.‏ اگرچہ ہم قانونی آزادی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں توبھی ہم کن معاملات میں کبھی مصالحت نہیں کرینگے؟‏

۲۰ اس کے برعکس،‏ بعض ممالک میں ہمارے کام کو قانونی منظوری حاصل ہے اور کبھی‌کبھار ذرائع‌ابلاع ہمارے متعلق اچھی خبر بھی دیتا ہے۔‏ ہم اس کیلئے شکرگزار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے بھی یہوواہ کا مقصد پورا ہوتا ہے۔‏ اُسکی برکت سے ہم اپنے ذاتی معیارِزندگی کو بہتر بنانے کی بجائے یہوواہ کی علانیہ اور بھرپور خدمت کیلئے اپنی آزادی کو استعمال کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ محض حکام کی نظر میں مقبول ہونے کی خاطر ہم اپنی غیرجانبداری کے سلسلے میں کبھی بھی مصالحت نہیں کرینگے اور نہ ہی اپنی منادی بند کرینگے یا پھر کسی اَور طریقے سے یہوواہ کی خدمت کو ماند پڑنے دیں گے۔‏ ہم مسیحائی بادشاہت کی رعایا ہیں اور یہوواہ کی حاکمیت کے حمایتی ہیں۔‏ ہماری اُمید اس دُنیا پر نہیں بلکہ نئی دُنیا پر لگی ہوئی ہے جس میں صرف آسمانی مسیحائی بادشاہت ہی اس زمین پر حکمرانی کریگی۔‏ کوئی بم،‏ میزائل یا نیوکلیئر حملے اس حکومت کو ہلا نہیں سکیں گے اور نہ ہی اِسے آسمان سے گِرا سکیں گے۔‏ یہ ناقابلِ‌تسخیر ہے اور یہوواہ کے مقاصد کو پورا کریگی۔‏—‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴؛‏ عبرانیوں ۱۲:‏۲۸؛‏ مکاشفہ ۶:‏۲‏۔‏

۲۱.‏ ہم کس روش پر چلنے کیلئے پُرعزم ہیں؟‏

۲۱ پولس بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہم ہٹنے والے نہیں کہ ہلاک ہوں بلکہ ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۹‏)‏ پس،‏ دُعا ہے کہ ہم سب آخر تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کریں۔‏ ہمارے پاس اب سے ابد تک یہوواہ پر پورا توکل رکھنے کی ہر معقول وجہ موجود ہے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۳؛‏ ۱۲۵:‏۱‏۔‏

آپ نے کیا سیکھا؟‏

‏• یشوع اور کالب نے واپس آکر اچھی معلومات کیوں دی تھیں؟‏

‏• کن وجوہات کی بِنا پر ہمیں یہوواہ پر پورا بھروسا رکھنا چاہئے؟‏

‏• یہوواہ پر توکل کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہوئے ہم کونسا مؤقف اختیار کرنے کیلئے پُرعزم ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یشوع اور کالب نے اچھی معلومات کیوں دی تھیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

تخلیق یہوواہ پر توکل کرنے کی ٹھوس وجہ فراہم کرتی ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

All three images: Courtesy of Anglo-Australian Observatory, photograph by David Malin

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یہوواہ پر توکل کرنے کا مطلب اُن لوگوں پر توکل کرنا ہے جن پر وہ بھروسا رکھتا ہے