مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ!‏‘‏

‏’‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ!‏‘‏

‏’‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ!‏‘‏

‏”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیا پر غالب آیا ہوں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۶:‏۳۳‏۔‏

۱.‏ اسرائیلیوں کو کنعان میں کن آزمائشوں کے پیشِ‌نظر کیا حوصلہ‌افزائی دی گئی؟‏

جب اسرائیلی دریائےیردن پار کرکے ملکِ‌موعود میں داخل ہونے والے تھے تو موسیٰ نے اُن سے کہا:‏ ”‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ۔‏ مت ڈر اور نہ اُن سے خوف کھا کیونکہ [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا خود ہی تیرے ساتھ جاتا ہے۔‏“‏ اِسکے بعد موسیٰ نے ذاتی طور پر یشوع کو بلایا جسے کنعان میں اسرائیلیوں کی راہنمائی کرنے کیلئے منتخب کِیا گیا تھا اور اُسے مضبوط ہونے کی دوبارہ نصیحت کی۔‏ (‏استثنا ۳۱:‏۶،‏ ۷‏)‏ بعدازاں،‏ یہوواہ نے بذاتِ‌خود یشوع کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ .‏ .‏ .‏ تو فقط مضبوط اور نہایت دلیر ہو جا۔‏“‏ (‏یشوع ۱:‏۶،‏ ۷،‏ ۹‏)‏ ایسے الفاظ بروقت تھے۔‏ اسرائیلیوں کو یردن کے پار اُنکا انتظار کرنے والے طاقتور دُشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دلیری کی ضرورت تھی۔‏

۲.‏ ہم خود کو کس صورتحال میں پاتے ہیں اور ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟‏

۲ آجکل،‏ سچے مسیحی بہت جلد موعودہ نئی دُنیا میں قدم رکھنے والے ہیں اور یشوع کی طرح اُنہیں بھی دلیری کی ضرورت ہے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳؛‏ مکاشفہ ۷:‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ ہماری صورتحال یشوع سے مختلف ہے۔‏ یشوع نے تلواروں اور نیزوں سے لڑائی کی۔‏ ہم اپنی روحانی جنگ میں حقیقی ہتھیار کبھی نہیں اُٹھاتے۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴؛‏ افسیوں ۶:‏۱۱-‏۱۷‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ یشوع نے ملکِ‌موعود میں داخل ہونے کے بعد بہت سی خطرناک جنگیں لڑیں۔‏ لیکن ہم اپنی سب سے خطرناک لڑائی کا تجربہ اس وقت—‏نئی دُنیا میں داخل ہونے سے پہلے—‏کر رہے ہیں۔‏ آئیے دلیری کا تقاضا کرنے والے بعض حالات کا جائزہ لیں۔‏

ہمیں لڑنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۳.‏ بائبل ہمارے سب سے بڑے مخالف کی بابت کیا آشکارا کرتی ہے؟‏

۳ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا سے ہیں اور ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یہ الفاظ اپنے ایمان پر قائم رہنے کیلئے مسیحیوں کی لڑائی کی بنیادی وجہ مہیا کرتے ہیں۔‏ جب ایک مسیحی اپنی راستی برقرار رکھتا ہے تو یہ کسی حد تک شیطان ابلیس کے لئے ایک شکست ہوتی ہے۔‏ لہٰذا شیطان ”‏گرجنے والے شیرببر“‏ کی طرح وفادار مسیحیوں کو ڈرانے اور پھاڑ کھانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ واقعی،‏ اُسکی جنگ ممسوح مسیحیوں اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷‏)‏ اس جنگ میں وہ انسانوں کو استعمال کرتا ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر اُسکے مقاصد کو پورے کرتے ہیں۔‏ شیطان اور اُسکے تمام کارندوں کی مزاحمت کرنے کیلئے دلیری ضروری ہے۔‏

۴.‏ یسوع نے کیا آگاہی دی اور سچے مسیحیوں نے کون سی خوبی ظاہر کی ہے؟‏

۴ یسوع جانتا تھا کہ شیطان اور اُس کے کارندے خوشخبری کی  مزاحمت کرنے کی حتی‌المقدور کوشش کریں گے اس لئے اُس نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا:‏ ”‏لوگ تمکو ایذا دینے کے لئے پکڑوائیں گے اور تمکو قتل کریں گے اور میرے نام کی خاطر سب قومیں تم سے عداوت رکھینگی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۹‏)‏  یہ الفاظ پہلی صدی میں سچ ثابت ہوئے تھے اور آجکل بھی سچ ثابت ہوتے ہیں۔‏ واقعی،‏ زمانۂ‌جدید میں یہوواہ کے بعض گواہوں نے اتنی ہی شدید اذیت کا تجربہ کِیا ہے جتنا کہ تاریخ میں کسی نے کِیا ہوگا۔‏ اس کے باوجود،‏ مسیحی ایسے  دباؤ کا سامنا کرتے وقت مضبوط رہتے ہیں۔‏ وہ جانتے ہیں کہ ”‏انسان کا  ڈر پھندا ہے“‏ اور وہ اس پھندے میں نہیں پھنسنا چاہتے۔‏—‏امثال ۲۹:‏۲۵‏۔‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ کونسے حالات ہماری طرف سے دلیری کا تقاضا کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ جب وفادار مسیحیوں کی دلیری آزمائی جاتی ہے تو وہ کیسا جوابی‌عمل ظاہر کرتے ہیں؟‏

۵ اذیت کے علاوہ دیگر آزمائشیں بھی ہیں جو دلیری کا تقاضا کرتی ہیں۔‏ بعض لوگوں کیلئے اجنبیوں کو خوشخبری سنانا ایک چیلنج ہے۔‏ سکول جانے والے بچوں کی دلیری اُس وقت آزمائی جاتی ہے جب اُنہیں مُلک یا جھنڈے کیلئے وفاداری کا حلف اُٹھانے کیلئے کہا جاتا ہے۔‏ چونکہ ایسا حلف درحقیقت ایک مذہبی اظہار ہے لہٰذا مسیحی بچوں نے ایسا کرنے کی بجائے دلیری سے خدا کو خوش کرنے والی روش اختیار کرنے کا عزم کِیا ہے اور اُنکا عمدہ ریکارڈ دل کو گرما دیتا ہے۔‏

۶ ہمیں اُس وقت بھی دلیری کی ضرورت پڑتی ہے جب مخالفین خدا کے خادموں کی بابت غلط خبریں پھیلانے کے لئے ذرائع‌ابلاغ کو استعمال کرتے ہیں یا ”‏قانون کی آڑ“‏ میں سچی پرستش کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۹۴:‏۲۰‏)‏ مثال کے طور پر جب اخبار،‏ ریڈیو یا ٹیلیویژن یہوواہ کے گواہوں کی بابت غلط یا جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں تو ہمیں کیسا محسوس کرنا چاہئے؟‏ کیا ہمیں حیران ہونا چاہئے؟‏ جی‌نہیں۔‏ ہم ایسی باتوں کی توقع کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۰۹:‏۲‏)‏ نیز جب بعض لوگ شائع ہونے والی جھوٹی اور غلط خبروں کا یقین کر لیتے ہیں تو ہم حیران بھی ہوتے ہیں کیونکہ ”‏نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۴:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ وفادار مسیحی اپنے بھائیوں کی بابت کہی گئی ہر بات کا یقین نہیں کرتے اور نہ ہی جھوٹی خبروں کو مسیحی اجلاسوں سے غیرحاضر رہنے،‏ میدانی خدمتگزاری میں سُست پڑنے یا اپنے ایمان کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‏ اس کے برعکس،‏ وہ ”‏خدا کے خادموں کی طرح ہر بات سے اپنی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ عزت اور بیعزتی کے وسیلہ سے۔‏ بدنامی اور نیکنامی کے وسیلہ سے گو [‏مخالفین کے مطابق]‏ گمراہ کرنے والے معلوم ہوتے ہیں پھر بھی [‏حقیقت میں]‏ سچے ہیں۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۴،‏ ۸‏۔‏

۷.‏ ہم ذاتی جائزے کیلئے خود سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟‏

۷ پولس نے تیمتھیس کے نام اپنے خط میں بیان کِیا:‏ ”‏خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت .‏ .‏ .‏ کی روح دی ہے۔‏ پس ہمارے خداوند کی گواہی دینے سے .‏ .‏ .‏ شرم نہ کر۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۷،‏ ۸؛‏ مرقس ۸:‏۳۸‏)‏ ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ’‏کیا مَیں اپنے ایمان سے شرماتا ہوں یا کیا مَیں دلیری دکھاتا ہوں؟‏ کیا مَیں اپنے کام (‏یا سکول)‏ کی جگہ پر اپنے اردگرد کے لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مَیں یہوواہ کا گواہ ہوں یا کیا مَیں حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں دوسروں سے مختلف نظر آنے سے شرماتا ہوں یا کیا مَیں یہوواہ کیساتھ اپنے رشتے کی وجہ سے منفرد ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں؟‏‘‏ اگر کوئی خوشخبری کی منادی یا لوگوں کی نظر میں ایک نامقبول مؤقف اختیار کرنے کی بابت منفی احساسات رکھتا ہے تو اُسے یشوع کیلئے یہوواہ کی نصیحت کو یاد کرنا چاہئے:‏ ”‏مضبوط ہو جا اور حوصلہ رکھ۔‏“‏ کبھی نہ بھولیں کہ ہمارے ساتھی کارکنوں یا ہم‌جماعتوں کی رائے کی بجائے یہوواہ اور یسوع مسیح کا نقطۂ‌نظر اہمیت کا حامل ہے۔‏—‏گلتیوں ۱:‏۱۰‏۔‏

ہم دلیر کیسے بن سکتے ہیں

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ ایک موقع پر ابتدائی مسیحیوں کی دلیری کی آزمائش کیسے ہوئی؟‏ (‏ب)‏ پطرس اور یوحنا نے دھمکیوں کا سامنا کرتے وقت کیسا جوابی‌عمل دکھایا اور اُنہوں نے اور اُنکے بھائیوں نے کیا تجربہ کِیا؟‏

۸ ہم ایسی دلیری کیسے پیدا کر سکتے ہیں جو مشکل وقت میں ہمیں اپنی راستی پر قائم رہنے میں مدد دیگی؟‏ ابتدائی مسیحیوں نے دلیری کیسے پیدا کی؟‏ غور کریں کہ جب یروشلیم کے سردار کاہنوں اور بزرگوں نے پطرس اور یوحنا کو یسوع کے نام سے منادی کرنے سے روکا تو کیا ہوا۔‏ شاگردوں نے ایسا کرنے سے انکار کِیا اور انہیں دھمکی دیکر آزاد کر دیا گیا۔‏ اسکے بعد وہ اپنے بھائیوں سے جا ملے اور ان سب نے دُعا کی:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اُنکی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔‏“‏ (‏اعمال ۴:‏۱۳-‏۲۹‏)‏ اس کے جواب میں یہوواہ نے روح‌القدس کے ذریعے انہیں مضبوط کِیا اور بعدازاں یہودی راہنماؤں نے اس بات کی تصدیق کی کہ شاگردوں نے اپنی تعلیم پورے ”‏یرؔوشلیم میں .‏ .‏ .‏ پھیلا دی۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۲۸‏۔‏

۹ آئیے غور کریں کہ اُس موقع پر کیا واقع ہوا۔‏ شاگرد یہودی راہنماؤں کے ڈرانےدھمکانے سے مغلوب نہیں ہوئے تھے۔‏ اس کی بجائے منادی جاری رکھنے کیلئے شاگردوں نے دلیری کیلئے دُعا کی۔‏ اسکے بعد اُنہوں نے اپنی دُعا کی مطابقت میں عمل کِیا اور یہوواہ نے اپنی روح سے انہیں طاقت بخشی۔‏ اُنکا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ سال بعد پولس نے ایک مختلف سیاق‌وسباق کے حوالے سے جوکچھ لکھا اس کا اطلاق اذیت کا سامنا کرنے والے مسیحیوں پر ہوتا ہے۔‏ پولس نے بیان کِیا:‏ ”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۱۳‏۔‏

۱۰.‏ یرمیاہ کا تجربہ فطرتاً شرمیلے اشخاص کی مدد کیسے کرتا ہے؟‏

۱۰ تاہم،‏ فرض کریں کہ ایک شخص فطری طور پر شرمیلا ہے؟‏ اسکے باوجود کیا وہ مخالفت کے وقت دلیری سے یہوواہ کی خدمت کر سکتا ہے؟‏ یقیناً!‏ جب یہوواہ نے یرمیاہ کو ایک نبی کے طور پر مقرر کِیا تو اُسکا جوابی‌عمل یاد کریں۔‏ اس نوجوان شخص نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں تو بچہ ہوں۔‏“‏ واضح طور پر وہ نااہل محسوس کرتا تھا۔‏ اسکے باوجود یہوواہ نے ان الفاظ کیساتھ اُسکی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏یوں نہ کہہ کہ مَیں بچہ ہوں کیونکہ جس کسی کے پاس مَیں تجھے بھیجوں گا تُو جائیگا اور جوکچھ مَیں تجھے فرماؤنگا تُو کہیگا۔‏ تُو اُنکے چہروں کو دیکھ کر نہ ڈر کیونکہ .‏ .‏ .‏ مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۶-‏۱۰‏)‏ یرمیاہ کا بھروسا یہوواہ پر تھا اور نتیجتاً یہوواہ کی طاقت سے اُسکی ہچکچاہٹ دُور ہوئی اور وہ نمایاں طور پر اسرائیل کا ایک بہادر گواہ بنا۔‏

۱۱.‏ کون سی بات مسیحیوں کو یرمیاہ کی طرح بننے میں مدد کرتی ہے؟‏

۱۱ آجکل ممسوح مسیحیوں کی تفویض یرمیاہ جیسی ہے اور ’‏دوسری  بھیڑوں‘‏ کی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کی مدد سے وہ بےحسی،‏ تمسخر اور اذیت کا سامنا کرنے کے باوجود یہوواہ کے مقاصد کا اعلان کرنا جاری رکھتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹‏؛‏ یوحنا  ۱۰:‏۱۶)‏ وہ یرمیاہ سے کہے گئے یہوواہ کے الفاظ سے تقویت پاتے ہیں:‏ ”‏تُو .‏ .‏ .‏ نہ ڈر۔‏“‏ وہ اس بات کو کبھی نہیں بھولتے کہ اُن کی تفویض خدا کی طرف سے  ہے اور وہ اُس کے پیغام کی منادی کر رہے ہیں۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۷‏۔‏

دلیری کی قابلِ‌تقلید مثالیں

۱۲.‏ یسوع نے دلیری کی کونسی عمدہ مثال فراہم کی اور اُس نے اپنے شاگردوں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏

۱۲ اگر ہم ایسے لوگوں کی مثالوں پر غور کریں جنہوں نے یرمیاہ  کی  طرح دلیری ظاہر کی تو ہم دلیری پیدا کرنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۷:‏۱۲‏)‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع کی خدمتگزاری کا جائزہ لیتے وقت،‏ شیطان سے آزمائے جاتے اور بعدازاں یہودی راہنماؤں کی سخت مخالفت کا سامنا کرتے وقت اُسکی دلیری ہمیں متاثر کرتی ہے۔‏ (‏لوقا ۴:‏۱-‏۱۳؛‏ ۲۰:‏۱۹-‏۴۷‏)‏ یہوواہ کی طاقت سے یسوع ثابت‌قدم رہا اور اپنی موت سے کچھ دیر پہلے اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏دُنیا میں مصیبت اُٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دُنیا پر غالب آیا ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۳۳؛‏ ۱۷:‏۱۶‏)‏ اگر یسوع کے شاگرد اُسکے نمونے پر چلیں تو وہ بھی دُنیا پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۶؛‏ مکاشفہ ۲:‏۷،‏ ۱۱،‏ ۱۷،‏ ۲۶‏)‏ تاہم اس کیلئے اُنہیں ”‏خاطر جمع“‏ رکھنا ہوگا۔‏

۱۳.‏ پولس نے فلپیوں کو کونسی حوصلہ‌افزائی دی؟‏

۱۳ یسوع کی موت کے کچھ سال بعد پولس اور سیلاس کو فلپی کے قیدخانہ میں بند کر دیا گیا۔‏ بعدازاں،‏ پولس نے فلپی کی کلیسیا کو ’‏ایک روح میں قائم ہونے اور انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہوکر جانفشانی کرنے اور کسی بات میں مخالفوں سے دہشت نہ کھانے‘‏ کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ اس کام کیلئے انہیں مضبوط کرنے کی خاطر پولس نے بیان کِیا:‏ ”‏یہ [‏مسیحیوں کو اذیت دینا]‏ اُن [‏ایذا رسانوں]‏ کیلئے ہلاکت کا صاف نشان ہے لیکن تمہاری نجات کا اور یہ خدا کی طرف سے ہے۔‏ کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر یہ فضل ہوا کہ نہ فقط اُس پر ایمان لاؤ بلکہ اُس کی خاطر دُکھ بھی سہو۔‏“‏—‏فلپیوں ۱:‏۲۷-‏۲۹‏۔‏

۱۴.‏ روم میں پولس کی دلیری کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۱۴ جب پولس نے فلپی کی کلیسیا کو خط لکھا تو اُس وقت وہ پھر روم میں قید تھا۔‏ اسکے باوجود وہ دلیری سے دوسروں کو منادی کرتا رہا۔‏ اس کا کیا نتیجہ رہا؟‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏قیصری سپاہیوں کی ساری پلٹن اور باقی سب لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ مَیں مسیح کے واسطے قید ہوں۔‏ اور جو خداوند میں بھائی ہیں ان میں سے اکثر میرے قید ہونے کے سبب سے دلیر ہوکر بےخوف خدا کا کلام سنانے کی زیادہ جرأت کرتے ہیں۔‏“‏—‏فلپیوں ۱:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۱۵.‏ ہم دلیر بننے کیلئے اپنے عزم کو مضبوط کرنے والی ایمان کی عمدہ مثالیں کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ پولس کی مثال ہماری حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ اسی طرح ہمارے پاس زمانۂ‌جدید کے اُن ممالک میں اذیت برداشت کرنے والے مسیحیوں کی بھی عمدہ مثالیں ہیں جہاں کی حکومت آمرانہ یا مذہبی ہے۔‏ ان میں سے بہتیرے لوگوں کی کہانیاں مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالوں اور ائیربُک آف جیہوواز وٹنسز میں شائع ہو چکی ہیں۔‏ ان بیانات کو پڑھتے وقت یاد رکھیں کہ جن اشخاص کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں وہ ہماری طرح کے عام انسان ہیں لیکن یہوواہ نے انہیں نہایت کٹھن حالات کو برداشت کرنے کے لئے حد سے زیادہ قدرت عطا کی تھی۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر حالات تقاضا کریں گے تو وہ ہمارے لئے بھی ایسا ہی کریگا۔‏

ہمارا دلیرانہ مؤقف یہوواہ کو خوشی اور عزت بخشتا ہے

۱۶،‏ ۱۷.‏ آجکل ہم ایک دلیرانہ رُجحان کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟‏

۱۶ سچائی اور راستی کے لئے پُرعزم رہنے والا شخص دلیر کہلاتا ہے۔‏ اگر  خوفزدہ ہونے کے باوجود وہ ایسا کرتا ہے تو وہ اَور بھی زیادہ بہادر ہے۔‏ واقعی،‏ اگر ایک مسیحی حقیقت میں یہوواہ کی مرضی پورا کرنا اور وفادار رہنا چاہتا ہے،‏ اگر وہ ہمیشہ یہوواہ پر توکل کرتا ہے اور یہ یاد رکھتا ہے کہ یہوواہ نے ماضی میں لاتعداد لوگوں کو طاقت بخشی ہے تو وہ دلیر بن سکتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دلیرانہ مؤقف یہوواہ کو خوشی اور عزت بخشتا ہے تو ہم کمزور نہ پڑنے کیلئے اَور بھی پُرعزم ہو جاتے ہیں۔‏ ہم تمسخر یا اس سے بھی بُرا سلوک برداشت کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اسلئےکہ ہم اس سے گہری محبت کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۵؛‏ ۴:‏۱۸‏۔‏

۱۷ کبھی نہ بھولیں کہ جب ہم اپنے ایمان کیلئے مصیبت برداشت کرتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم نے کوئی گناہ کِیا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۷‏)‏ ہم یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے،‏ نیکی کرنے اور دُنیا کا حصہ نہ ہونے کیلئے تکلیف برداشت کرتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں پطرس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏اگر نیکی کرکے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔‏“‏ پطرس نے یہ بھی کہا تھا:‏ ”‏جو خدا کی مرضی کے موافق دُکھ پاتے ہیں وہ نیکی کرکے اپنی جانوں کو وفادار خالق کے سپرد کریں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۰؛‏ ۴:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمارا ایمان ہمارے شفیق باپ یہوواہ کیلئے خوشی اور عزت کا باعث بنتا ہے۔‏ یہ دلیر بننے کی کیا ہی پُرزور وجہ ہے!‏

حکام سے بات‌چیت کرنا

۱۸،‏ ۱۹.‏ جب ہم جج کے سامنے دلیرانہ مؤقف اختیار کرتے ہیں تو درحقیقت ہم کونسا پیغام دیتے ہیں؟‏

۱۸ جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اُنہیں اذیت کا سامنا کرنا پڑیگا تو اُس نے ان سے یہ بھی کہا تھا:‏ ”‏[‏آدمی]‏ تمکو عدالتوں کے حوالہ کرینگے اور اپنے عبادتخانوں میں تمکو کوڑے مارینگے۔‏ اور تم .‏ .‏ .‏ حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے تاکہ اُنکے اور غیرقوموں کیلئے گواہی ہو۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ جھوٹے الزامات کیلئے ایک جج یا حاکم کے سامنے پیش ہونا دلیری کا تقاضا کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ جب ہم ایسے مواقع پر دلیری سے لوگوں کو گواہی دیتے ہیں تو ہم درحقیقت ایک اہم کام انجام دینے کیلئے ایک مشکل صورتحال کو ایک موقع میں بدل دیتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ ہم ہمارا فیصلہ کرنے والے لوگوں کو دوسرے زبور میں قلمبند یہوواہ کے الفاظ سے آگاہ کرتے ہیں:‏ ”‏اب اَے بادشاہو!‏ دانشمند بنو۔‏ اَے زمین کے عدالت کرنے والو تربیت پاؤ۔‏ ڈرتے ہوئے [‏یہوواہ]‏ کی عبادت کرو۔‏“‏ (‏زبور ۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اکثر جب یہوواہ کے گواہوں پر عدالت میں جھوٹے الزام لگائے گئے تو ججوں نے پرستش کی آزادی کی حمایت کی ہے جسکی ہم قدر کرتے ہیں۔‏ تاہم بعض جج مخالفین کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔‏ ایسے اشخاص کیلئے صحائف بیان کرتے ہیں:‏ ”‏تربیت پاؤ۔‏“‏

۱۹ ججوں کو اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ یہوواہ کا قانون سب سے بڑا ہے۔‏ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جج سمیت تمام انسان یہوواہ اور یسوع مسیح کے حضور جوابدہ ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۰‏)‏ انسانی جج سے انصاف یا بےانصافی پانے سے قطع‌نظر ہمارے پاس دلیر بننے کی ہر وجہ موجود ہے اسلئےکہ یہوواہ ہماری مدد کرتا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏مبارک ہیں وہ سب جنکا توکل اُس پر ہے۔‏“‏—‏زبور ۲:‏۱۲‏۔‏

۲۰.‏ اذیت اور تہمت برداشت کرنے کے باوجود ہم کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟‏

۲۰ پہاڑی وعظ میں یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏جب میرے سبب سے لوگ تمکو لعن‌طعن کرینگے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تم مبارک ہوگے۔‏ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اَجر بڑا ہے اِسلئےکہ لوگوں نے اُن نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اِسی طرح ستایا تھا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ واقعی،‏ اذیت بذاتِ‌خود خوشی کا باعث نہیں لیکن ذرائع‌ابلاغ کی تہمت‌آمیز خبروں سمیت اذیت کے باوجود قائم رہنا خوشی کی بات ہے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہم یہوواہ کو خوش کر رہے ہیں اور ہمیں اسکا اَجر ملیگا۔‏ ہمارا دلیرانہ مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ایمان حقیقی ہے اور ہمیں خدا کی مقبولیت کی یقین‌دہانی حاصل ہے۔‏ واقعی،‏ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم یہوواہ پر مکمل بھروسا رکھتے ہیں۔‏ ایسا بھروسا ایک مسیحی کیلئے لازمی ہے جیساکہ اگلا مضمون ظاہر کرتا ہے۔‏

آپ نے کیا سیکھا؟‏

‏• آجکل کونسے حالات دلیری کا تقاضا کرتے ہیں؟‏

‏• ہم دلیری کی خوبی کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟‏

‏• دلیری کی بعض عمدہ مثالیں کونسی ہیں؟‏

‏• ہم دلیری کیساتھ عمل کرنے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویریں]‏

جرمنی سے سیمون لیبسٹر،‏ ملاوی سے ویداس میڈونا اور لیڈیا اور یوکرائن سے اولسکی کردس نے دلیری ظاہر کی اور شریر کا مقابلہ کِیا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

ہم خوشخبری سے شرماتے نہیں

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

قید میں پولس کی دلیری نے خوشخبری پر کافی مثبت اثر ڈالا

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

اگر ہم بہادری سے جج کیلئے اپنے صحیفائی مؤقف کی وضاحت کریں تو ہم ایک اہم پیغام کی تشہیر کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کی عبارت]‏