مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وہ اذیت پر غالب آئے

وہ اذیت پر غالب آئے

وہ اذیت پر غالب آئے

فریڈا یس سن ۱۹۱۱ میں ڈنمارک میں پیدا ہوئی۔‏ وہاں سے وہ اپنے والدین کے ساتھ جرمنی کے شہر ہوسُم میں منتقل ہو گئی۔‏ کئی سالوں کے بعد اُس نے میگڈیبرگ کے شہر میں ملازمت کرنا شروع کر دی۔‏ سن ۱۹۳۰ میں،‏ فریڈا نے بپتسمہ لیا اور بائبل سٹوڈنٹ یعنی یہوواہ کی گواہ بن گئی۔‏ سن ۱۹۳۳ میں،‏ ہٹلر جرمنی کا حکمران بن گیا اور پھر ۲۳ سال تک نہ صرف ایک حکومت نے بلکہ دو جابرانہ حکومتوں نے فریڈا کو اذیت پہنچائی۔‏

مارچ ۱۹۳۳ میں،‏ جرمن کی حکومت نے عام انتخابات کرائے۔‏ ڈاکٹر  ڈیٹ‌لیف گاربے ایک ایسے عجائب‌گھر کا سربراہ ہے جو ہٹلر کے زمانے میں نازیوں کا ایک جیل کیمپ ہوا کرتا تھا۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی چاہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہٹلر کو اپنا حکمران اور سربراہ بنانے کیلئے ووٹ دیں۔‏“‏ مگر یہوواہ کے گواہوں نے ووٹ نہ ڈالا کیونکہ وہ یسوع کے حکم کے مطابق سیاسی معاملات میں غیرجانبدار رہنا اور ”‏دُنیا کے نہیں“‏ بننا چاہتے تھے۔‏ اِس کے نتیجے میں گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی تھی۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۶‏۔‏

فریڈا نے پابندی کے باوجود اپنی مسیحی کارگزاریوں کو خفیتہً جاری رکھا یہاں تک کہ اُس نے مینا رِنگہبانی رسالہ شائع کرنے میں بھی مدد کی۔‏ وہ بتاتی ہے کہ ”‏اِن رسالوں میں سے کچھ خفیہ طریقوں سے ہمارے بھائیوں کیلئے قیدی کیمپوں میں پہنچائے جاتے تھے۔‏“‏ سن ۱۹۴۰ میں،‏ گسٹاپو (‏نازی خفیہ پولیس)‏ نے فریڈا کو گرفتار کر لیا۔‏ بہت دیر پوچھ‌گچھ کرنے کے بعد اُنہوں نے اُسے کئی مہینوں تک قیدِتنہائی میں رکھا۔‏ وہ اِس حالت کو برداشت کرنے کے قابل کیسے ہوئی؟‏ فریڈا خود بتاتی ہے کہ ”‏مَیں نے دُعا کا سہارا لیا۔‏ مَیں صبح‌سویرے اُٹھ کر اور دن میں کئی مرتبہ دُعا کِیا کرتی تھی۔‏ دُعا کرنے سے مجھے طاقت ملتی تھی اور اسطرح مَیں حد سے زیادہ فکر نہ کرنے میں بھی کامیاب رہی۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

کچھ عرصے کے بعد فریڈا کو رِہا کر دیا گیا لیکن ۱۹۴۴ میں گسٹاپو نے اُسے دوبارہ گرفتار کر لیا۔‏ اِس مرتبہ فریڈا کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی اور اُسے شہر والڈہائیم کے جیل میں بھیج دیا گیا۔‏ فریڈا مزید بیان کرتی ہے کہ ”‏سپاہیوں نے مجھے کچھ اَور عورتوں کے ساتھ غسل‌خانوں میں کام کرنے کا حکم دیا۔‏ مَیں اکثر ایک لڑکی کیساتھ مل کر کام کِیا کرتی تھی جو چیکوسلواکیہ کی تھی۔‏ جب بھی مجھے موقع ملتا مَیں اُسے یہوواہ خدا اور اپنے ایمان کے بارے میں بتایا کرتی تھی۔‏ ایسی بات‌چیت سے میرا ایمان مضبوط رہا۔‏“‏

عارضی آزادی

جب روسی فوجیں جرمنی پہنچیں تو اُنہوں نے مئی ۱۹۴۵ میں والڈہائیم جیل کے قیدیوں کو رِہا کر دیا۔‏ اب فریڈا بھی آزاد تھی اور وہ واپس میگڈیبرگ چلی گئی جہاں اُس نے اپنے منادی کے کام کو جاری رکھا۔‏ مگر یہ آزادی محض عارضی تھی۔‏ گواہوں کو پھر سے بدسلوکیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اِس مرتبہ نازیوں کی بجائے سوویت یونین کے تحت مشرقی جرمنی کی حکومت نے ایسا کِیا تھا۔‏ ظالم حکومتوں کے بارے میں تحقیق کرنے والے گیرالڈ ہاکے نے لکھا:‏ ”‏جرمنی کے چند ایسے معاشرتی گروپوں میں یہوواہ کے گواہ بھی شامل تھے جنہیں دو ظالم حکومتوں نے لگاتار اذیت پہنچائی۔‏“‏

اِس مرتبہ گواہوں کے ساتھ بُرا سلوک کیوں کِیا گیا تھا؟‏ ایک بار پھر اُنکی مسیحی غیرجانبداری کی وجہ سے ایسا ہوا۔‏ مشرقی جرمنی میں ۱۹۴۸ میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے کہا گیا۔‏ ہاکے وضاحت کرتا ہے کہ ”‏گواہوں نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا اور اسی بنیادی وجہ سے اُنہیں حکومت کی طرف سے اذیت اُٹھانی پڑی۔‏“‏ مشرقی جرمنی میں اگست ۱۹۵۰ میں،‏ گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی اور اُن میں سے بہت سے گواہوں کو گرفتار کر لیا گیا۔‏ اِن میں فریڈا بھی شامل تھی۔‏

ایک مرتبہ پھر فریڈا کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑا اور اُسے چھ سال کی سزا سنائی گئی۔‏ ”‏لیکن اِس مرتبہ مَیں اپنے بہن بھائیوں کیساتھ قیدخانے میں تھی جس سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔‏“‏ جب اُسکو ۱۹۵۶ میں رِہا کِیا گیا تو فریڈا مغربی جرمنی میں جا کر رہنے لگی۔‏ اب وہ ہوسُم کے شہر میں رہتی ہے اور ۹۰ سال کی عمر میں بھی سچے خدا یہوواہ کی خدمت کر رہی ہے۔‏

فریڈا نے ۲۳ سال تک دو مختلف ظالم حکومتوں کے ہاتھوں اذیت اُٹھائی۔‏ ”‏نازی حکومت نے مجھے جسمانی طور پر اذیت پہنچانے سے مار ڈالنے کی کوشش کی اور کمیونسٹ حکومت نے میری ہمت توڑنے کی کوشش کی۔‏ مجھے ایسی صورتحال میں مضبوطی سے قائم رہنے کی طاقت کہاں سے ملی؟‏ جب مَیں آزاد تھی تو مَیں باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کِیا کرتی تھی۔‏ جب مَیں قیدِتنہائی میں تھی تو مَیں لگاتار دُعا کِیا کرتی تھی۔‏ اِس کے علاوہ،‏ قیدخانہ میں جہاں تک ممکن ہوتا بہن بھائیوں کے ساتھ رفاقت رکھتی اور دوسروں کو اپنے ایمان کی بابت بتانے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتی تھی۔‏“‏

ہنگری میں ظالم حکومت

ہنگری ایک اَور مُلک تھا جہاں یہوواہ کے گواہوں کو بہت سالوں تک بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اِس مُلک میں کئی مسیحیوں نے دو کی بجائے تین ظالم حکومتوں سے اذیت اُٹھائی۔‏ اِن میں سے ایک بھائی آدم سِن‌گر ہے۔‏ آدم ۱۹۲۲ میں ہنگری کے شہر پکس میں پیدا ہوا۔‏ اُس نے پروٹسٹنٹ خاندان میں پرورش پائی۔‏ سن ۱۹۳۷ میں کچھ بائبل سٹوڈنٹس آدم کے گھر آئے تو اُس نے فوراً اُنکے پیغام میں دلچسپی لی۔‏ آدم نے بائبل سے جوکچھ سیکھا اُس سے اُسے معلوم ہوا کہ اُسکے چرچ کی تعلیمات بائبل پر مبنی نہیں ہیں۔‏ چنانچہ اُس نے پروٹسٹنٹ چرچ کو چھوڑ کر بائبل سٹوڈنٹس کیساتھ منادی کے کام میں حصہ لینا شروع کر دیا۔‏

اس اثنا میں ہنگری کی ظالم حکومت کا اثرورسوخ بڑھتا گیا۔‏ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ پولیس آدم کو گھر با گھر منادی کرتے وقت پکڑ لیتی اور اُسے تھانے لے جاکر پوچھ‌گچھ کرتی۔‏ گواہوں کی کارگزاریوں پر دباؤ بڑھتا گیا اور ۱۹۳۹ میں اُن کے کام پر پابندی لگ گئی۔‏ سن ۱۹۴۲ میں،‏ آدم کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا جہاں  اُس کو سخت ماراپیٹا گیا۔‏ اُس کی عمر اس وقت ۱۹ سال ہی تھی۔‏ اِس چھوٹی سی عمر میں کس چیز نے آدم کو قید میں شدید تکلیف اُٹھانے کے قابل بنایا؟‏ ”‏جب مَیں آزاد تھا تو مَیں نے بڑے غور سے بائبل کا مطالعہ کِیا جسکی وجہ سے مَیں یہوواہ کے مقاصد کو  اچھی طرح سے سمجھ گیا تھا۔‏“‏ کچھ مہینے قید میں گزارنے کے بعد آدم کو رِہا کر دیا گیا اور پھر اُس نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏ اگست ۱۹۴۲ کی ایک اندھیری رات میں اُس کا بپتسمہ ایک دریا میں ہوا جو اُس کے گھر کے پاس تھا۔‏

ہنگری کے قیدخانے اور سربیا کے لیبرکیمپ میں

دوسری عالمگیر جنگ کے دوران ہنگری نے جرمنی کے ساتھ مل کر سوویت یونین کا مقابلہ کِیا۔‏ آدم کو ۱۹۴۲ کے موسمِ‌خزاں میں فوج میں بھرتی ہونے کا حکم ملا۔‏ وہ بتاتا ہے:‏ ”‏مَیں نے کہا کہ جوکچھ مَیں نے بائبل سے سیکھا ہے اُس کی وجہ سے مَیں فوج میں بھرتی نہیں ہو سکتا۔‏ پھر مَیں نے اپنی غیرجانبداری کی وجوہات بیان کیں۔‏“‏ آدم کو ۱۱ سال قید کی سزا سنائی گئی۔‏ مگر اُسے یہ سزا صرف ہنگری میں ہی نہیں گزارنی تھی۔‏

سن ۱۹۴۳ میں،‏ تقریباً ۱۶۰ یہوواہ کے گواہوں کو اِکٹھا کر کے کشتیوں کے ذریعے سربیا پہنچا دیا گیا۔‏ آدم بھی اُن میں شامل تھا۔‏ سربیا میں ہٹلر کی حکومت تھی۔‏ اِسلئے جب یہ قیدی وہاں پہنچے تو اُنکو بور کے شہر کے لیبر کیمپ میں قید کرکے پیتل کی کان پر کام کرنے کیلئے مجبور کِیا گیا۔‏ تقریباً ایک سال کے بعد اُنکو واپس ہنگری لے جایا گیا۔‏ پھر ۱۹۴۵ کے موسمِ‌بہار میں روسی فوج نے آدم کو آزاد کر دیا۔‏

ہنگری میں کمیونسٹ حکومت

مگر یہ آزادی جلد ختم ہو گئی۔‏ کمیونسٹ حکومت نے ۱۹۴۸ سے یہوواہ کے گواہوں کی کارگزاریوں پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں جسطرح جنگ سے پہلے ہنگری کی پہلی ظالم حکومت نے بھی کِیا تھا۔‏ سن ۱۹۵۲ میں،‏ آدم ۲۹ سال کا تھا اور شادی‌شُدہ اور دو بچوں کا باپ بھی تھا۔‏ اِسی سال اُس نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کِیا اور اُسکو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔‏ آدم نے عدالت کو بتایا:‏ ”‏مَیں نے فوج میں بھرتی ہونے سے کوئی پہلی مرتبہ انکار نہیں کِیا ہے۔‏ جنگ کے دوران مجھے اِسی بہانے قید کِیا گیا اور بعد میں سربیا لے جایا گیا تھا۔‏ مَیں اپنے ضمیر کی خاطر فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتا ہوں کیونکہ مَیں یہوواہ کا ایک گواہ ہوں۔‏ اسلئے مَیں سیاسی معاملات میں غیرجانبدار رہونگا۔‏“‏ آدم کو آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن بعد میں اِسے چار سال میں تبدیل کر دیا گیا۔‏

جس دن بائبل سٹوڈنٹس پہلی بار اُس کے گھر آئے اُس دن سے لیکر تقریباً ۱۹۷۵ تک یعنی ۳۵ سال تک آدم کو حکومت کی طرف سے بدسلوکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اِس وقت کے دوران آدم کو چھ عدالتوں کے سامنے حاضر ہونا پڑا اور ہر عدالت نے اُسے قید کی سزا سنائی جو کُل ۲۳ سال بنتے ہیں۔‏ وہ کم‌ازکم ۱۰ مختلف جیلوں اور قیدی کیمپوں میں بند رہا۔‏ جی‌ہاں،‏ تین ظالم حکومتوں—‏ہنگری کی دو ظالم حکومتوں اور جرمنی کی نازی حکومت—‏نے آدم کو لگاتار اذیت پہنچائی۔‏

آدم آج بھی اپنے آبائی شہر پکس میں رہ کر وفاداری سے خدا کی خدمت کر رہا ہے۔‏ کیا وہ خاص صلاحیتوں کا مالک ہے جسکی وجہ سے وہ تمام اذیتوں پر غالب آنے کے قابل ہوا تھا؟‏ نہیں۔‏ آدم وضاحت کرتا ہے:‏

‏”‏بائبل کا مطالعہ،‏ دُعا اور بھائیوں کیساتھ رفاقت،‏ بہت اہم چیزیں تھیں۔‏ لیکن اِس سلسلے میں مَیں دو اَور باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔‏ سب سے پہلے تو یہ کہ یہوواہ قوت کا سرچشمہ ہے۔‏ اُسکے ساتھ ایک قریبی رشتہ رکھنا میرے لئے اِتنا ہی ضروری تھا جتنا زندہ رہنے کیلئے سانس لینا ضروری ہوتا ہے۔‏ دوسری بات یہ ہے کہ مَیں نے ہمیشہ رومیوں ۱۲ باب کو یاد رکھا جہاں لکھا ہے کہ ’‏اپنا انتقام نہ لو۔‏‘‏ اِس وجہ سے مَیں نے کبھی کسی کی بات کا بُرا مان کر اُسے دل میں نہیں رکھا تھا۔‏ اکثراوقات مجھے اپنے اذیت پہنچانے والوں سے بدلہ لینے کا موقع ملتا لیکن مَیں کبھی ایسا نہیں کرتا تھا۔‏ ہمیں یہوواہ کی طرف سے ملنے والی قوت کو کبھی بدی کے عوض بدی کرنے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔‏“‏

ہر طرح کی اذیت کا خاتمہ

آج فریڈا اور آدم رکاوٹوں کے بغیر یہوواہ کی پرستش کر رہے ہیں۔‏ لیکن ہم اُنکے تجربوں سے مذہبی اذیت کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہم سیکھتے ہیں کہ اِس قسم کی اذیت کامیاب نہیں ہو سکتی،‏ خاص طور پر اُس وقت جب سچے مسیحیوں کو اسکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‏ مختلف حکومتوں نے یہوواہ کے گواہوں کو اذیت دینے میں بہت وقت اور کوشش صرف کی لیکن پھر بھی وہ کامیاب نہ ہوئیں۔‏ یورپ میں جہاں کچھ عرصہ پہلے دو ظالم حکومتوں کا راج تھا آج وہاں یہوواہ کے گواہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔‏

یہوواہ کے گواہوں نے اذیت کا سامنا کسطرح کِیا؟‏ فریڈا اور آدم کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے بائبل کی اِس نصیحت پر عمل کِیا:‏ ”‏بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۲۱‏)‏ کیا نیکی واقعی بدی پر غالب آ سکتی ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ جب ایک شخص خدا پر پورے دل سے توکل رکھنے کی وجہ سے نیکی کرتا ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔‏ یورپ میں اذیت پر یہوواہ کے گواہوں کی فتح دراصل خدا کی روح کی فتح تھی۔‏ خدا کی روح نے اِن حلیم مسیحیوں میں ایمان پیدا کِیا اور اِس ایمان کی وجہ سے وہ نیکی کرنے میں کامیاب ہوئے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اِس پُرتشدد دُنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کو اِس اہم سبق کو دلنشین کرنا چاہئے۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویریں]‏

فریڈا یس (‏اب تھائلی)‏ اپنی گرفتاری کے وقت اور آج

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

آدم سِن‌گر اپنی قید کے دوران اور آج