پہلے بادشاہت کی تلاش کرنا—ایک خوشحال اور بےفکر زندگی
میری کہانی میری زبانی
پہلے بادشاہت کی تلاش کرنا—ایک خوشحال اور بےفکر زندگی
از جیتھا سونال
ہم چار لڑکیاں اپنے ۲۰ کے دہے میں تھیں اور ۱۹۵۰ میں ڈومینیکن ریپبلک میں یہوواہ کے گواہوں کے مشنریوں کے طور پر خدمت کر رہی تھیں۔ ہم یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگنے سے ایک سال پہلے ہی وہاں پہنچی تھیں۔
مشنری خدمت ہمیشہ سے میری زندگی کا مقصد نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ مَیں بچپن سے چرچ جایا کرتی تھی۔ میرے والد نے پہلی عالمی جنگ کے دوران چرچ جانا چھوڑ دیا تھا۔ سن ۱۹۳۳ میں، جس دن مَیں ایپیسکوپل چرچ کی ممبر بنی تو بشپ نے بائبل میں سے صرف ایک آیت پڑھی اور اِسکے بعد وہ سیاست پر بات کرنے لگا۔ میری والدہ اُس دن اتنی مایوس ہوئی کہ اُس نے پھر کبھی چرچ کا رُخ نہ کِیا۔
ہماری زندگی بدل گئی
میرے باپ کا نام ولیم کارل ایڈمز اور والدہ کا نام میری ایڈمز ہے۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ میرے تین بھائی ڈون، جوئیل اور کارل ہیں اور جوئے میری سب سے چھوٹی بہن ہے جبکہ مَیں سب سے بڑی ہوں۔ اُس وقت مَیں ۱۳ سال کی تھی جب مَیں ایک دن سکول سے واپس آئی تو مَیں نے اپنی والدہ کو یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ ایک کتابچہ پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اُسکا عنوان دی کنگڈم، دی ہوپ آف دی ورلڈ (بادشاہت—دُنیا کی اُمید) تھا۔ ماں نے مجھ سے کہا، ”یہ سچائی ہے۔“
میری ماں بائبل میں سے جوکچھ سیکھتی وہ ہم سب کو بتاتی اور اُس پر خود بھی عمل کرتی تاکہ ہم یسوع کی دی گئی اس مشورت کی اہمیت کو سمجھ سکیں: ”پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو۔“—متی ۶:۳۳۔
مَیں ہر وقت ماں کی باتیں سننا نہیں چاہتی تھی۔ ایک دن مَیں نے اُن سے کہا: ”اگر آپ نے میرے ساتھ بائبل پر بات کرنا بند نہ کی تو مَیں برتن صاف نہیں کرونگی۔“ لیکن اُس نے موقعشناسی سے ہمارے ساتھ باتچیت جاری
رکھی۔ وہ ہم سب بچوں کو باقاعدگی سے اجلاسوں پر لیجایا کرتی تھی۔ یہ اجلاس ایک بہن کلارہ رائن کے گھر میں منعقد ہوتے تھے۔ اُس کا گھر ایلمہرسٹ، الینوس، یو.ایس.اے. میں ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔کلارہ پیانو بجانا بھی سکھاتی تھی۔ سال میں ایک دفعہ اُسکے شاگرد لوگوں کے سامنے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کلارہ اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو خدا کی بادشاہت اور قیامت کی اُمید کے بارے میں بتاتی تھی۔ مجھے موسیقی سے بہت لگاؤ تھا اسلئے مَیں نے سات سال کی عمر ہی سے وائلن سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا کلارہ مجھے بائبل کے بارے میں جوکچھ بتاتی مَیں اُسے بہت دھیان سے سنتی تھی۔
جلد ہی ہم اپنی والدہ کیساتھ شکاگو کے مغربی حصے میں کلیسیائی اجلاسوں پر جانے لگے۔ بس کے ذریعے یہ سفر بہت لمبا تھا۔ باقاعدگی کیساتھ یہ سفر کرنے سے ہم نے یہ سیکھا کہ بادشاہت کی پہلے تلاش کرنے کا مطلب کیا ہے۔ مَیں ماں کے بپتسمے کے تین سال بعد اُنکے ساتھ ۱۹۳۸ میں یہوواہ کے گواہوں کے کنونشن پر شکاگو گئی۔ یہ اُن ۵۰ شہروں میں سے ایک تھا جنہیں کنونشن پروگرام سے مستفید ہونے کیلئے وائرلیس کے ذریعے مربوط کِیا گیا تھا۔ جوکچھ مَیں نے وہاں سنا اس نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی میرے دل میں سمائی رہی۔ مَیں نے ۱۹۳۸ میں، ہائی سکول سے گریجویشن کی اور میرے والد نے شکاگو میں میرے لئے موسیقی کے ایک خاص سکول میں تعلیم حاصل کرنے کا بندوبست کِیا۔ اگلے دو سالوں کے دوران مَیں نے موسیقی کی تعلیم حاصل کی، دو مختلف آرکسٹرا میں کام کِیا اور موسیقی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
میرا وائلن ٹیچر، ہربٹ بٹلر یورپ سے ریاستہائےمتحدہ میں آ گیا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے مَیں نے اُسے ایک کتابچہ رفیوجی * (پناہگزین) دیا کہ شاید وہ اِسے پڑھے گا۔ اُسکو پڑھنے کے بعد ہربٹ نے کہا: ”جےتھا تم وائلن بہت اچھا بجاتی ہو۔ اگر تم اپنی تعلیم کو جاری رکھو گی تو تمہیں ریڈیو آرکسٹرا میں یا پھر ایک اُستاد کے طور پر اچھی نوکری مل سکتی ہے۔“ پھر اُس نے اُسی کتابچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”میرے خیال میں تمہارا دل اس پیغام کی طرف مائل ہے۔ تم اِسے اپنی زندگی کا خاص مقصد کیوں نہیں بنا لیتی؟“
مَیں نے اِس سوال کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا۔ اپنی موسیقی کی تعلیم جاری رکھنے کی بجائے مَیں جولائی ۱۹۴۰ میں اپنی ماں کیساتھ یہوواہ کے گواہوں کی کنونشن پر ڈیٹرویٹ، مچیگن چلی گئی۔ وہاں ہم بہت سے دوسرے بہن بھائیوں کیساتھ خیموں
میں رہے۔ مَیں اپنا وائلن اپنے ساتھ لیکر گئی اور کنونشن کے آرکسٹرا میں اِسکو بجایا۔ خیموں میں رہتے ہوئے مَیں بہت سے کُلوقتی مُنادوں سے ملی۔ وہ سب بہت خوش تھے۔ اِس خوشی کو حاصل کرنے کیلئے مَیں نے بپتسمہ لیا اور خود بھی پائینر خدمت کرنے کیلئے درخواست دے دی۔ مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ میری مدد کرے تاکہ مَیں اپنی پوری زندگی کُلوقتی خدمت میں گزار سکوں۔مَیں نے اپنے آبائی شہر میں پائنیر خدمت شروع کر دی۔ اسکے بعد مَیں نے شکاگو میں بھی خدمت کی اور ۱۹۴۳ میں کینٹکی چلی گئی۔ ڈسٹرکٹ کنونشن سے پہلے مجھے گلئیڈ کی دوسری کلاس میں شریک ہونے کی دعوت ملی جہاں مجھے مشنری کام کی تربیت دی جانی تھی۔ یہ کلاس ستمبر ۱۹۴۳ میں شروع ہونی تھی۔
کنونشن کے دوران مَیں ایک گواہ بہن کے گھر ٹھہری جس نے مجھے کہا کہ مَیں اُس کی بیٹی کی الماری میں سے جو بھی چاہوں لے سکتی ہوں۔ اُس کی بیٹی فوج میں بھرتی ہوگئی تھی اور جانے سے پہلے اُس نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ اُس کی تمام چیزیں کسی اَور کو دے سکتی ہے۔ مجھے اِن چیزوں کی ضرورت تھی سو میرے لئے یہ یسوع کے اِس وعدے کی تکمیل تھی: ”تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائینگی۔“ (متی ۶:۳۳) اس کے بعد مَیں گلئیڈ سکول میں تعلیم حاصل کرنے چلی گئی اور یہ پانچ مہینے بہت جلد گزر گئے۔ مَیں جنوری ۳۱، ۱۹۴۴ میں، گلئیڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مشنری خدمت شروع کرنے کے لئے بےچینی سے انتظار کرنے لگی۔
اُنہوں نے بھی کُلوقتی خدمت کا انتخاب کِیا
میری ماں نے ۱۹۴۲ میں پائینر خدمت شروع کی۔ میرے تین بھائی اور میری بہن اُس وقت سکول جاتے تھے۔ والدہ اکثر سکول کے بعد اُنکو اپنے ساتھ منادی پر لے جاتی اور اُنہیں گھر کے کام میں حصہ لینا بھی سکھاتی تھی۔ وہ رات کو اکثر دیر تک جاگ کر کپڑے استری کرتی اور گھر کے دوسرے ضروری کام کرتی تھی تاکہ وہ دن کے دوران منادی پر جا سکے۔
جب مَیں کینٹکی میں پائینر خدمت کر رہی تھی تو میرے بھائی ڈوننےبھی ۱۹۴۳ میں پائنیر خدمت شروع کر دی۔ اس سے میرے والد بہت مایوس ہوئے۔ میرے والدین نے کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اِس لئے میرے والد چاہتے تھےکہہم سب بچے بھی کالج سے تعلیم حاصل کریں۔ تقریباً دو سال کی پائینرخدمت کے بعد ڈون کو نیو یارک بیتایل میں آنے کی دعوت ملی۔
جوئیل نے جون ۱۹۴۳ میں ہمارے آبائی شہر میں پائینر خدمت شروع کی۔ اُس نے والد کو کنونشن پر لیجانے کی کوشش کی مگر وہ اُنہیں قائل نہ کر سکا۔ جوئیل نے اپنے علاقے میں بھی کسی کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اُسے کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخرکار والد نے جوئیل پر ترس کھا کر اُسکو اجازت دے دی کہ وہ اُنکے ساتھ کتاب ”دی ٹروتھ شیل میک یو فری“ (”سچائی تم کو آزاد کریگی“) سے مطالعہ شروع کرے۔ میرے والد آسانی سے تمام سوالوں کے جواب دے سکتے تھے لیکن اُنہوں نے جوئیل سے کہا کہ کتاب میں جوکچھ لکھا ہے اسکا ثبوت وہ بائبل سے دے۔ اس سے جوئیل خود بائبل سچائیوں کو بہتر طور پر سمجھ سکا اور اُسکا ایمان بھی مضبوط ہوا۔
دوسری عالمگیر جنگ کے دوران تمام نوجوان آدمیوں کو فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور کِیا گیا۔ اگر کوئی آدمی یہ ثابت کر سکتا کہ وہ ایک مذہبی خادم ہے تو اُسے فوجمیں بھرتی ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ گورنمنٹ نے ڈون کو ایک مذہبی خادم کے طور پر فوجی خدمت سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ لیکن جب بورڈ نے یہ دیکھا کہ جوئیل بہت جوان ہے تو اُنہیں یقین نہ آیا کہ وہ ایک مذہبی خادم ہے۔ اُنہوں نے اُسے فوج میں فوراً بھرتی ہونے کا حکم دیا لیکن جوئیل نے ایسا نہ کِیا۔ اِس لئے ایفبیآئی پولیس نے اُسے گرفتار کر لیا اور اُسے تین دن جیل میں گزارنے پڑے۔
والد نے جوئیل کی ضمانت کیلئے گھر کے کاغذات کو استعمال کِیا تاکہ وہ جیل سے رِہا ہو سکے۔ بعد میں اُنہوں نے دوسرے جوان گواہوں کیلئے بھی ایسا ہی کِیا جن کو اِسی صورتحال کا سامنا تھا۔ میرے والد جوئیل کیساتھ حکومتی سلوک کی وجہ سے بہت غصے میں تھے۔ سو وہ اِس ناانصافی کے خلاف اپیل کرنے کے لئے جوئیل
کیساتھ واشنگٹن ڈی. سی. گئے۔ آخرکار حکومت نے جوئیل کو ایک مذہبی خادم کے طور پر قبول کر لیا اور اُسکا مقدمہ خارج ہو گیا۔ میری مشنری تفویض پر والد نے مجھے یوں لکھا، ”میرے خیال میں ہمیں اس کامیابی کیلئے یہوواہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے!“ اگست ۱۹۴۶ میں، جوئیل کو بھی نیو یارک بیتایل کے ایک ممبر کے طور پر خدمت کرنے کی دعوت ملی۔کارل نے ہائی سکول ختم کرنے سے پہلے کئی دفعہ سکول کی چھٹیوں میں پائینر خدمت کی تھی۔ پھر ۱۹۴۷ میں اُس نے ریگولر پائینر خدمت شروع کر دی۔ والد کی صحت زیادہ اچھی نہیں تھی اِسلئے کارل نے کچھ دیر کیلئے کاروبار میں اُنکی مدد کی لیکن اپنی پائینر خدمت کو جاری رکھا۔ اِس کے بعد اُس نے ایک نئے علاقے میں پائینر خدمت شروع کی اور ۱۹۴۷ میں کارل بھی ڈون اور جوئیل کیساتھ نیو یارک بیتایل میں خدمت کرنے لگا۔
جب جوئے نے ہائی سکول ختم کِیا تو وہ بھی پائینر بن گئی۔ پھر ۱۹۵۱ میں، اُس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ بیتایل میں کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ بیتایل میں صفائی کے علاوہ رسالوں کے سالانہ چندوں کی ترسیل کے شعبے میں کام کِیا کرتی تھی۔ پھر ۱۹۵۵ میں اُس نے بیتایل کے ایک بھائی روجر مورگن سے شادی کر لی۔ اُنہوں نے سات سال کے بعد اپنا خاندان بنانے کی خواہش سے بیتایل چھوڑ دیا۔ آجکل اُن کے دونوں بچے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔
جب تمام بچے کُلوقتی خدمت میں تھے تو ماں نے والد کی حوصلہافزائی کی جسکی وجہ سے اُنہوں نے بھی ۱۹۵۲ میں یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کرکے بپتسمہ لے لیا۔ میرے والد بیمار تھے مگر پھر بھی اُنہوں نے اپنی زندگی کے باقی ۱۵ سال بادشاہت کی خوشخبری کو مختلف طریقوں سے دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔
والد کی بیماری کی وجہ سے والدہ نے کچھ عرصے کیلئے پائینر خدمت چھوڑ دی مگر بعد میں پھر اِسے اپنی موت تک جاری رکھا۔ اُنکے پاس کوئی کار یا سائیکل نہیں تھی۔ اُنکا قد بہت چھوٹا تھا اِسکے باوجود وہ ہر جگہ پیدل جایا کرتی اور اکثر بہت دُور دیہاتی علاقوں میں بھی بائبل مطالعے کراتی تھی۔
مشنری خدمت میں
گلئیڈ سکول سے گریجویشن کرنے کے بعد جب تک ہمارے سفر کے کاغذات تیار نہ ہو گئے ہم میں سے کچھ پائنیروں نے ایک سال تک نیو یارک شہر کے شمالی حصے میں پائنیر خدمت کی۔ آخرکار ہم ۱۹۴۵ میں، اپنی تفویض پر کیوبا روانہ ہوئے وہاں ہمیں ماحول کے عادی ہونے میں کچھ وقت لگا۔ لوگ ہمارے بادشاہتی پیغام کو سننا چاہتے تھے اور جلد ہی ہم سب بہت زیادہ بائبل مطالعے کرانے لگے۔ ہم نے وہاں تقریباً چار سال خدمت کی۔ اسکے بعد ہمیں دوبارہ ڈومینیکن ریپبلک بھیج دیا گیا۔ ایک دن مَیں ایک عورت سے ملی جس نے مجھ سے ایک فرانسیسی عورت سے ملنے کو کہا۔ وہ دونوں ایک ساتھ کاروبار کرتی تھیں۔ فرانسیسی عورت کا نام سوزین اونفا تھا اور وہ بائبل کو سمجھنے کیلئے مدد چاہتی تھی۔
سوزین ایک یہودی تھی۔ جب ہٹلر فرانس پر قابض ہوا تو اُسکے شوہر نے اُسے اور دو بچوں کو ڈومینیکن ریپبلک بھیج دیا۔ وہ بائبل مطالعے کے دوران جوکچھ سیکھتی اُسے دوسروں کو بھی بتایا کرتی تھی۔ سوزین نے اُس عورت سے بات کی جس نے مجھے اُس سے ملنے کیلئے کہا تھا۔ اب وہ عورت بھی میرے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا چاہتی تھی۔ اِس کے بعد سوزین نے اپنی دوست بلانش سے بھی بات کی جو فرانس کی رہنے والی تھی۔ جن دو عورتوں سے سوزین نے بات کی تھی اُنہوں نے ترقی کرکے بپتسمہ لے لیا۔
مینارِنگہبانی اور جاگو! رسالوں کے چندے بھیجا کرتی تھی جسکے نتیجے میں اُسکا بیٹا، بہو اور بہو کی جڑواں بہن سب گواہ بن گئے۔ ڈومینیکن ریپبلک کی گورنمنٹ نے ہمارے کام پر پابندی لگا دی تھی اِسلئے سوزین کا شوہر لوئی اپنی بیوی کے یہوواہ کے گواہوں میں دلچسپی دکھانے سے ڈرتا تھا۔ لیکن جب سارا خاندان ریاستہائےمتحدہ منتقل ہو گیا تو لوئی بھی گواہ بن گیا۔
سوزین نے مجھ سے پوچھا: ”مَیں اپنے بچوں کی مدد کرنے کیلئے کیا کر سکتی ہوں؟“ اُسکا بیٹا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور اُسکی بیٹی بیلٹ ڈانس کرنا سیکھ رہی تھی اور اُسکی خواہش تھی کہ وہ ایک دن نیو یارک کے ریڈیو سٹی میوزک ہال میں ڈانس کر سکے۔ سوزین باقاعدگی کے ساتھ اپنے بیٹے اور بیٹی کوپابندی کے باوجود خدمت کرنا
ڈومینیکن ریپبلک میں ۱۹۴۹ میں، یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی مگر پھر بھی ہمارا عزم یہ تھا کہ ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔ (اعمال ۵:۲۹) یسوع کے حکم کے مطابق ہم نے پہلے بادشاہی کی تلاش کرنے کے لئے خوشخبری کی منادی کو جاری رکھا۔ (متی ۲۴:۱۴) ہم نے منادی کرتے وقت ’سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بےآزار بننے‘ کی اہمیت کو سیکھا۔ (متی ۱۰:۱۶) مثال کے طور پر، مَیں بائبل مطالعوں پر اپنا وائلن ساتھ لے کر جاتی تھی تاکہ حکومت مجھ پر شک نہ کرے۔ میرے بائبل مطالعے میوزک بجانے میں تو ماہر نہ بنے لیکن کچھ یہوواہ کے گواہ ضرور بن گئے!
ہم چار لڑکیاں تھیں جو سان فرانسسکو ڈیماکوریس کے مشنری ہوم میں رہا کرتی تھیں۔ میری تین ساتھیوں کے نام میری اَنیول، صوفیا سوویک اور ایڈتھ مورگن تھے۔ جب ہمارے کام پر پابندی عائد کی گئی تو ہم برانچ آفس کے نزدیک ایک مشنری ہوم میں رہنے لگیں جو سینٹو ڈومینگو کے شہر میں تھا۔ لیکن مہینے میں ایک بار مَیں کسی کو وائلن سکھانے کیلئے واپس سان فرانسسکو ڈیماکوریس جایا کرتی تھی۔ اس طریقے سے مَیں اپنے وائلن کیس میں اپنے مسیحی بھائیوں کیلئے لڑیچر چھپا کر لے جاتی اور واپسی میں اُنکی منادی کی کارگزاری کی رپورٹ لے کر آتی تھی۔
جب سان فرانسسکو ڈیماکوریس کے بھائی اپنی مسیحی غیرجانبداری کی وجہ سے گرفتار ہو کر سانٹیاگو میں قید کئے گئے تو مجھ سے کہا گیا کہ مَیں اُن کیلئے کچھ پیسے اور اگر ممکن ہو تو کچھ بائبلیں لے کر جاؤں اور واپسی پر اُنکے خاندانوں کیلئے اُن کے متعلق کچھ خبر لے کر آؤں۔ جب سپاہیوں نے میری بغل میں وائلن کیس دیکھا تو پوچھا، ”یہ کس لئے ہے؟“ مَیں نے جواب دیا ”اُنکو خوش کرنے کیلئے۔“
مَیں نے قیدی بھائیوں کیلئے وائلن پر کچھ گیتوں کی دُھن بجائی۔ اُن گیتوں میں سے ایک کا عنوان ”آگے بڑھو اَے گواہو!“ تھا۔ جسکا آجکل یہوواہ کے گواہوں کی گیتوں کی کتاب میں نمبر ۲۹ ہے۔ یہ گیت ایک بھائی نے لکھا تھا جو نازی قیدیوں کے کیمپ میں بند تھا۔ مَیں نے وائلن پر یہ دُھن اسلئے بجائی تاکہ بھائی اِس گیت کو زبانی یاد کرکے گا سکیں۔
مجھے یہ بتایا گیا کہ بہت سے گواہوں کو پریزیڈنٹ کے فارم پر بھیج دیا گیا ہے۔ یہ فارم اُس سڑک کے نزدیک تھا جہاں سے بس گزرا کرتی تھی۔ تقریباً دوپہر کے وقت مَیں بس سے اُتری اور ایک چھوٹی سی دُکان کے مالک سے پوچھا کہ اُدھر کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ پہاڑوں کی دوسری طرف ہے اور اُس نے مجھے اپنے گھوڑے کی پیشکش کی اور ایک لڑکے کو میری مدد کیلئے میرے ساتھ بھیجا اور مجھ سے کہا کہ مَیں اپنا وائلن ضمانت کے طور پر اُسکے پاس چھوڑ جاؤں۔
پہاڑوں کو پار کرنے کے بعد ہمیں ایک دریا بھی پار کرنا تھا۔ ہم دونوں گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ گھوڑے نے تیرتے ہوئے دریا پار کِیا۔ وہاں ہم نے ہرے اور نیلے رنگ کے طوطے دیکھے جنکے پَر سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ وہ بہت ہی خوبصورت نظارہ تھا! مَیں نے دُعا کی: ”یہوواہ انہیں خوبصورت بنانے کیلئے بہت شکریہ۔“ آخرکار، ہم دوپہر کے چار بجے فارم پر پہنچ گئے۔ نگران فوجی نے مجھے بھائیوں سے بات کرنے اور ایک چھوٹی سی بائبل سمیت وہ تمام چیزیں بھی اُنہیں دینے کی اجازت دی جو مَیں اپنے ساتھ لائی تھی۔
وہاں سے واپسی پر مَیں سارے راستے دُعا کرتی رہی کیونکہ اندھیرا ہو چکا تھا اور بارش بھی ہو رہی تھی۔ ہم دُکان پر واپس پہنچنے تک بارش سے بالکل بھیگ چکے تھے۔ آخری بس بھی جا چکی تھی اِسلئے مَیں نے دُکان کے مالک سے پوچھا کہ وہ ایک ٹرک کو میرے لئے روکے۔ جس ٹرک کو دُکاندار نے روکا اُس میں دو آدمی تھے۔ مَیں نے خود سے پوچھا: آیا اِن کیساتھ جانا دانشمندی کی بات ہے؟ اُن میں سے ایک آدمی نے مجھ سے پوچھا: ”کیا آپ صوفیا کو جانتی ہیں؟ اُس نے میری بہن کیساتھ مطالعہ کِیا تھا۔“ مَیں نے یہ سُن کر فیصلہ کِیا کہ یہوواہ نے میری دُعا کا جواب دے دیا ہے اور ٹرک میں سوار ہو گئی! اُنہوں نے مجھے بحفاظت سینٹوڈومینگو پہنچا دیا۔
مَیں ۱۹۵۳ میں، یہوواہ کے گواہوں کے بینالاقوامی کنونشن پر گئی جو یانکی سٹیڈیم نیو یارک میں منعقد ہوا تھا۔ والد سمیت میرا سارا خاندان وہاں موجود تھا۔ کنونشن پر ڈومینیکن ریپبلک میں منادی کے کام کی ترقی کی رپورٹ دی گئی۔ اِسکے بعد میری اَینول اور مَیں نے پروگرام پر مظاہرہ پیش کِیا کہ ہم نے پابندی کے تحت منادی کا کام کیسے انجام دیا۔
سفری خدمت میں خاص خوشی
اِسی سال مَیں روڈولف سونال سے ملی اور اگلے سال ہم نے شادی کر لی۔ اُسکا خاندان ایلیگنی، پینسلوانیا میں پہلی عالمگیر جنگ کے کچھ دیر بعد ہی سچائی میں آیا تھا۔ ایک مسیحی کے طور پر اُسے دوسری عالمگیر جنگ کے دوران غیرجانبدار رہنے کی وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا تھا۔ جب وہ رِہا ہوا تو وہ نیو یارک بیتایل میں کام کرنے لگا۔ ابھی ہماری شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ اُسے کلیسیاؤں میں سفری نگہبان کے طور پر دورہ کرنے کی دعوت ملی۔ ہم نے سرکٹ کے کام میں ۱۸ سال صرف کئے۔
سرکٹ کے کام میں ہماری خدمت ہمیں ریاستہائےمتحدہ میں مختلف جگہوں پر لے کر گئی۔ ہم عام طور پر اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے گھر ٹھہرتے تھے اور اس سے ہمیں ایک خاص قسم کی خوشی ملتی تھی۔ اِسطرح ہم اپنے بھائیوں کو بہتر طور پر جان سکتے اور اُن کے ساتھ ملکر یہوواہ کی خدمت کر سکتے تھے۔ ہمارے لئے ہمیشہ دلی محبت اور مہماننوازی دکھائی گئی۔ جوئیل نے میری اَنیول سے شادی کی جس نے مشنری خدمت میں میرے ساتھ ملکر کام کِیا تھا۔ اِن دونوں نے تین سال تک سفری کام کرتے ہوئے پینسلوانیا اور مچیگن میں کلیسیاؤں کا دورہ کِیا۔ سن ۱۹۵۸ میں، ایک دفعہ پھر جوئیل کو بیتایل خاندان کے ممبر کے طور پر کام کرنے کی دعوت ملی لیکن اِس مرتبہ اُس کی بیوی میری اُس کے ساتھ تھی۔
کارل کو بیتایل میں خدمت کرتے سات سال ہو گئے تھے۔ پھر کچھ
مہینوں کیلئے اُسے سرکٹ کام پر تفویض کِیا گیا تاکہ وہ مزید تجربہ حاصل کر سکے۔ اِس کے بعد وہ گلئیڈ سکول میں ایک اُستاد کے طور پر خدمت کرنے لگا۔ سن ۱۹۶۳ میں، کارل نے ایک لڑکی بوبی سے شادی کی جو اکتوبر ۲۰۰۲ میں اپنی موت تک بیتایل میں وفاداری سے خدمت کرتی رہی۔بیتایل میں بہت سال خدمت کرنے کے دوران ڈون کو وقتاًفوقتاً زون اوورسیئر کے طور پر دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا تاکہ وہاں کے برانچ دفاتر میں کام کرنے والوں اور مشنریوں کی حوصلہافزائی کر سکے۔ وہ اپنی تفویض کیلئے ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے کئی حصوں میں گیا۔ ڈون کی بیوی ڈولورس اکثر اُسکے ساتھ جایا کرتی ہے۔
ہمارے حالات بدل گئے
میرے والد بہت عرصہ بیمار رہنے کے بعد وفات پا گئے۔ مرنے سے پہلے اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ہم بچوں نے خدا کی خدمت کرنے کا انتخاب کِیا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم کالج چلے جاتے جیسے وہ چاہتے تھے تو ہمیں وہ تمام برکات نہ ملتیں جو آج ہمیں ملی ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد مَیں نے اپنی والدہ کی مدد کہ وہ میری بہن جوئے کے گھر کے قریب منتقل ہو جائے۔ میری ساس کو بھی ہماری مدد کی ضرورت تھی سو ہم نے نیو انگلینڈ میں پائینر خدمت شروع کر دی تاکہ ہم اُسکے نزدیک رہ سکیں۔ جب میری ساس وفات پاگئی تو میری ماں ۱۳ سال تک ہمارے ساتھ رہی۔ پھر جنوری ۱۸، ۱۹۸۷ میں ۹۳ سال کی عمر میں اُس کی زمینی تفویض ختم ہو گئی۔
اکثراوقات جب ماں کے دوست اُس کی تعریف کرتے کہ اُس نے سب بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے کیونکہ وہ سب یہوواہ سے محبت کرتے اور اُس کی خدمت کر رہے ہیں تو وہ بڑی فروتنی سے جواب دیتی: ’دراصل مجھے اچھی زمین پر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔‘ (متی ۱۳:۲۳) ایسے والدین کا ہونا ہمارے لئے کیا ہی برکت تھی جو خدا سے ڈرتے اور ہمارے لئے سرگرمی اور فروتنی کا عمدہ نمونہ تھے!
آج بھی بادشاہت مقدم ہے
ہم نے ہمیشہ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے کی کوشش کی اور دوسروں کو دینے کے سلسلے میں یسوع کی مشورت کا اطلاق کِیا۔ (لوقا ۶:۳۸؛ ۱۴:۱۲-۱۴) نتیجتاً، یہوواہ نے فیاضی کیساتھ ہماری تمام ضروریات پوری کی ہیں اور ہماری زندگی خوشحال اور فکروں سے آزاد رہی ہے۔
میرا شوہر روڈولف اور مَیں موسیقی کیلئے ابھی بھی بہت محبت رکھتے ہیں۔ اُس وقت تو اَور بھی مزا آتا ہے جب دوسرے ہمارے گھر آتے ہیں اور ہم ملکر ساز بجاتے ہیں۔ موسیقی نے میری زندگی کو پُرلطف تو بنا دیا لیکن یہ میری زندگی میں سب سے خاص چیز نہیں ہے۔ اِسکے برعکس، ہماری کُلوقتی خدمت کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ ہم نے بہت سے لوگوں کی سچائی میں آنے میں مدد کی ہے جس سے ہم بہت خوش ہیں۔
اَب ہمیں صحت کے کچھ مسائل درپیش ہیں۔ لیکن مَیں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ۶۰ سال کُلوقتی خدمت میں ہماری زندگی خوشحال اور فکروں سے آزاد رہی ہے۔ ہر صبح جب مَیں سو کر اُٹھتی ہوں تو یہوواہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اُس نے میری اُس دُعا کا جواب دیا جو مَیں نے کُلوقتی خدمت شروع کرتے وقت مانگی تھی۔ مَیں اب بھی یہ سوچتی ہوں کہ ’آجکل مَیں پہلے بادشاہت کی تلاش کیسے کر سکتی ہوں؟‘
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ لیکن اب دستیاب نہیں۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
ہمارا خاندان ۱۹۴۸ میں (بائیں سے دائیں): جوئے، ڈون، والدہ، جوئیل، کارل، مَیں اور والد
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
والدہ نے خدمتگزاری میں سرگرمی کا عمدہ نمونہ قائم کِیا
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
کوئی ۵۰ سے زائد سالوں کے بعد کارل، ڈون، جوئیل، جوئے اور مَیں
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
بائیں سے دائیں: مَیں، میری اَنیول، صوفیا سوویک اور ایڈتھ مورگن ڈومینیکن ریپبلک میں مشنری کے طور پر
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
یانکی سٹیڈیم میں میری (بائیں طرف) کیساتھ ۱۹۵۳
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
سرکٹ کے کام میں اپنے شوہر کیساتھ