مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں

دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں

دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں

‏”‏خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ الیاب کی بابت یہوواہ کا نظریہ سموئیل سے کیسے فرق تھا اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

یہوواہ نے ۱۱ویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ اپنے نبی سموئیل کو ایک خفیہ کام کیلئے بھیجا۔‏ اُس نے نبی کو یسی نامی شخص کے گھر میں جاکر اُسکے بیٹوں میں سے ایک کو اسرائیل کا آئندہ بادشاہ بننے کیلئے مسح کرنے کا حکم دیا۔‏ سموئیل کو یسی کے پہلوٹھے بیٹے الیاب کو دیکھکر یقین ہو گیا کہ اُسے خدا کا چُنا ہوا شخص مِل گیا ہے۔‏ لیکن یہوواہ نے کہا:‏ ”‏اُسکے چہرہ اور اُسکے قد کی بلندی کو نہ دیکھ اِسلئےکہ مَیں نے اُسے ناپسند کِیا ہے کیونکہ خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِسلئےکہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [‏یہوواہ]‏ دل پر نظر کرتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۶،‏ ۷‏)‏ سموئیل واقعی الیاب کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنے میں ناکام ہو گیا تھا۔‏ *

۲ انسانوں کیلئے دوسروں کی بابت غلط اندازہ لگانا بہت آسان ہے!‏ ہم بظاہر اچھے مگر باطن میں اخلاقی اصولوں سے عاری لوگوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں۔‏ اسکے برعکس،‏ ہم ایسے اشخاص کی بابت بےلوچ اور درشت رائے رکھ سکتے ہیں جنکے شخصیتی خصائل ہمیں دِق کرتے ہیں۔‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ اگر دو مسیحیوں کے درمیان مسئلہ کھڑا ہو جائے تو دونوں کو کیا کرنے کا عزم کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ جب کسی ساتھی مسیحی کے ساتھ سنگین نااتفاقی ہو جائے تو ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۳ جب ہم جلدبازی میں دوسروں—‏حتیٰ‌کہ کئی سالوں سے اپنے واقف‌کاروں—‏کی بابت کوئی بھی رائے قائم کرتے ہیں تو اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‏ شاید آپکا کسی قریبی مسیحی دوست کیساتھ جھگڑا ہو گیا ہے۔‏ کیا آپ اِس دراڑ کو ختم کرنا چاہینگے؟‏ ایسا کرنے کیلئے کیا چیز آپکی مدد کریگی؟‏

۴ اپنے اسی مسیحی بھائی یا بہن کی بابت کیوں نہ ایک اچھا،‏ وسیع اور مثبت نظریہ قائم کِیا جائے؟‏ ایسا یسوع کے ان الفاظ کی روشنی میں کِیا جانا چاہئے:‏ ”‏کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۴۴‏)‏ پھر خود سے پوچھیں:‏ ’‏یہوواہ اس شخص کو اپنے بیٹے کے پاس کیوں لایا ہے؟‏ اس شخص میں کونسی خوبیاں ہیں؟‏ کیا مَیں نے ان خوبیوں کو نظرانداز کِیا ہے یاپھر انہیں کم‌قدر سمجھا ہے؟‏ ہم پہلے دوست کیوں بنے تھے؟‏ کس چیز نے مجھے اس شخص کی طرف راغب کِیا تھا؟‏‘‏ اگر کچھ دیر سے آپ کے دل میں کسی کیلئے رنجش ہے تو آپ کیلئے پہلے اچھے نکات پر غور کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ یہ آپ دونوں کے درمیان پیدا ہونے والی دراڑ کو ختم کرنے کیلئے ایک اہم قدم ہے۔‏ آئیے مثال سے واضح کرنے کیلئے دو ایسے اشخاص میں مثبت خصوصیات ڈھونڈنے کی کوشش کریں جنہیں اکثر منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔‏ یہ یوناہ نبی اور پطرس رسول ہیں۔‏

یوناہ کا مخلصانہ جائزہ

۵.‏ یوناہ کو کیا کام سونپا گیا تھا،‏ مگر اُسکا ردِعمل کیا تھا؟‏

۵ یوناہ نے یوآس کے بیٹے بادشاہ یربعام دوم کے زمانے میں اسرائیل کی شمالی سلطنت میں بطور نبی خدمت انجام دی۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۴:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ ایک دن،‏ یہوواہ نے یوناہ کو اسرائیل چھوڑ کر اسوری مملکت کے دارالحکومت،‏ نینوہ جانے کا حکم دیا۔‏ اُس نے وہاں جاکر کیا کام کرنا تھا؟‏ اُس نے وہاں کے باشندوں کو آگاہ کرنا تھا کہ اُنکا شہر تباہ ہونے والا ہے۔‏ (‏یوناہ ۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ خدا کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے یوناہ بھاگ گیا!‏ وہ ترسیس جانے والے جہاز میں سوار ہو گیا جو نینوہ سے بہت دُور تھا۔‏—‏یوناہ ۱:‏۳‏۔‏

۶.‏ یہوواہ نے یوناہ کو نینوہ بھیجنے کا انتخاب کیوں کِیا؟‏

۶ جب آپ یوناہ کا ذکر سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟‏ کیا آپ اُسے ایک نافرمان نبی سمجھتے ہیں؟‏ سطحی جائزہ شاید اُسکی بابت ایسا نتیجہ اخذ کرنے کا باعث بنے۔‏ لیکن کیا یہوواہ نے یوناہ کو نافرمان ہونے کی وجہ سے ہی نبی مقرر کِیا تھا؟‏ ہرگز نہیں!‏ یوناہ میں یقیناً اچھی صفات ہونگی۔‏ نبی کے طور پر اُسکے ریکارڈ پر غور کریں۔‏

۷.‏ یوناہ اسرائیل میں کن حالات کے تحت خدمت کر رہا تھا اور اس بات سے واقفیت اُسکی بابت آپکے نظریے پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟‏

۷ یوناہ نے اسرائیل جیسے بےحس علاقے میں بہت محنت سے  خدمت کی تھی۔‏ یوناہ کے ہمعصر نبی عاموس نے بیان کِیا کہ اُس کے زمانے کے اسرائیلی مادہ‌پرست اور عیش‌پرست تھے۔‏ * مُلک میں بہت سے بُرے کام ہو رہے تھے لیکن اسرائیلیوں کو ان کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔‏ (‏عاموس ۳:‏۱۳-‏۱۵؛‏ ۴:‏۴؛‏ ۶:‏۴-‏۶‏)‏ تاہم،‏ یوناہ ہر روز وفاداری سے انہیں منادی کرتا رہا۔‏ اگر آپ بھی خوشخبری کے مُناد ہیں تو آپ یہ ضرور جانتے ہیں کہ بےحس اور اپنی ذات میں مگن لوگوں سے بات کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‏ پس،‏ یوناہ کی کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں بےایمان اسرائیلیوں کو منادی کے سلسلے میں اُس کی وفاداری اور برداشت جیسی خوبیوں کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔‏

۸.‏ اسرائیلی نبی کو نینوہ میں کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا تھا؟‏

۸ نینوہ جانے کی تفویض میں ایک اَور مشکل بھی تھی۔‏ اس شہر تک پہنچنے کیلئے یوناہ کو تقریباً ایک ماہ کے لئے کوئی ۸۰۰ کلومیٹر پیدل سفر کرنا تھا۔‏ پھر وہاں نبی کو اسوریوں میں منادی کرنی تھی جو اپنی سفاکی کیلئے مشہور تھے۔‏ سادیانہ اذیت اُنکی جنگوں کا خاصہ تھی۔‏ اُنہیں اپنے وحشی‌پن پر بہت ناز تھا۔‏ پس اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ نینوہ کو ”‏خونریز شہر“‏ کہا گیا ہے!‏—‏ناحوم ۳:‏۱،‏ ۷‏۔‏

۹.‏ جب سمندری طوفان کی وجہ سے مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی تو یوناہ نے کن خوبیوں کا مظاہرہ کِیا؟‏

۹ یہوواہ کے حکم کی تعمیل میں متذبذب یوناہ ایک ایسے جہاز میں سوار ہو گیا جو اُسے اُسکی تفویض سے بہت دُور لے گیا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ نے اپنے اس نبی پر اعتماد کھو دینے کے باعث کسی دوسرے کو اُسکی جگہ بھیجنے کی بابت نہ سوچا۔‏ اِسکی بجائے،‏ یہوواہ نے اُسکی سوچ کو درست کِیا۔‏ خدا نے سمندر میں طوفان برپا کِیا۔‏ جہاز طوفانی لہروں میں ہچکولے کھانے لگا۔‏ یوناہ کی وجہ سے بیگناہ لوگ مرنے والے تھے!‏ (‏یوناہ ۱:‏۴‏)‏ یوناہ کا ردِعمل کیسا تھا؟‏ یوناہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ سارے مسافر اُسکی وجہ سے ہلاک ہو جائیں اسلئے یوناہ نے اُن سے کہا:‏ ”‏مجھ کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو تمہارے لئے سمندر ساکن ہو جائیگا۔‏“‏ (‏یوناہ ۱:‏۱۲‏)‏ جب ملاحوں نے اُسے واقعی جہاز سے پھینک دیا تو وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہوواہ اُسے سمندری طوفان سے بچالیگا۔‏ (‏یوناہ ۱:‏۱۵‏)‏ تاہم،‏ یوناہ ملاحوں کو بچانے کیلئے خود مرنے کیلئے تیار تھا۔‏ کیا ہم یہاں یوناہ میں دلیری،‏ فروتنی اور محبت کی خوبیاں نہیں دیکھتے؟‏

۱۰.‏ جب یہوواہ نے یوناہ کی تفویض بحال کر دی تو پھر کیا واقع ہوا؟‏

۱۰ بالآخر،‏ یہوواہ نے یوناہ کو بچا لیا۔‏ کیا یوناہ کے ان کاموں کی وجہ سے وہ خدا کے نبی کی حیثیت سے اُسکی خدمت کرنے کے نااہل ہو گیا تھا؟‏ ہرگز نہیں،‏ یہوواہ نے رحم اور محبت سے نبی کو پھر وہی تفویض سونپی کہ جاکر نینوہ کے لوگوں میں منادی کرے۔‏ جب یوناہ نینوہ پہنچا تو اُس نے وہاں کے باشندوں کو بڑی دلیری سے بتایا کہ اُنکی بڑی بدکاری خدا کی نظر میں آ گئی ہے جسکی وجہ سے اُن کا شہر ۴۰ دن میں تباہ ہو جائیگا۔‏ (‏یوناہ ۱:‏۲؛‏ ۳:‏۴‏)‏ یوناہ کا واضح پیغام سن کر نینوہ کے لوگوں نے توبہ کر لی اور اُنکا شہر تباہی سے بچ گیا۔‏

۱۱.‏ کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یوناہ نے ایک اہم سبق سیکھ لیا تھا؟‏

۱۱ یوناہ کا رُجحان ابھی بھی درست نہیں تھا۔‏ یہوواہ نے ایک عملی سبق کے ذریعے بڑے صبر سے یوناہ کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ وہ ظاہری وضع‌قطع کی بجائے دل کو جانچتا ہے۔‏ (‏یوناہ ۴:‏۵-‏۱۱‏)‏ یوناہ نے یہ اہم سبق سیکھ لیا تھا جسکا ثبوت اُس کی دیانتدارانہ سرگزشت سے ملتا ہے جو اُس نے خود تحریر کی تھی۔‏ اُس نے تذلیل‌کُن تفصیلات کیساتھ اپنی غلطیوں کو بھی بڑی رضامندی سے لکھا جس سے اُسکی فروتنی ظاہر ہوتی ہے۔‏ نیز،‏ غلطی تسلیم کرنے کیلئے دلیری کی بھی ضرورت ہے!‏

۱۲.‏ (‏ا)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع بھی انسانوں کی بابت یہوواہ جیسا نظریہ رکھتا ہے؟‏ (‏ب)‏ جن لوگوں کو ہم منادی کرتے ہیں اُن کی بابت کیسا نظریہ رکھنے کے سلسلے میں ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے؟‏ (‏صفحہ ۱۸ پر بکس دیکھیں۔‏)‏

۱۲ کئی صدیوں بعد،‏ یسوع مسیح نے یوناہ کی زندگی کے ایک واقعہ کی بابت مثبت بیان پیش کِیا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جیسے یوؔناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابنِ‌آدؔم تین رات دن زمین کے اندر رہیگا۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۴۰‏)‏ جب قیامت میں یوناہ کو زندہ کِیا جائیگا تو اُسے معلوم ہوگا کہ یسوع نے قبر میں اپنے وقت کو اِس نبی کی زندگی کے بےعملی کے دَور سے تشبِیہ دی تھی۔‏ کیا ہم ایسے خدا کی خدمت کرنے سے خوش نہیں جو اپنے خادموں کو غلطیاں سرزد ہونے کے باوجود ترک نہیں کرتا؟‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی [‏یہوواہ]‏ اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔‏ کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔‏ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ یقیناً،‏ یہ ”‏خاک“‏—‏بشمول موجودہ ناکامل انسان—‏خدا کی پاک روح کی مدد سے بہت کچھ انجام دے سکتی ہے!‏

پطرس کی بابت متوازن نظریہ

۱۳.‏ پطرس کے کونسے خصائل ہمارے ذہن میں آ سکتے ہیں لیکن یسوع نے اُسے ایک رسول کے طور پر کیوں منتخب کِیا؟‏

۱۳ اب آئیے مختصراً دوسری مثال پر غور کریں جو پطرس رسول کی ہے۔‏ اگر آپ سے پطرس کی بابت پوچھا جائے تو کیا آپکے ذہن میں فوراً جلدبازی،‏ تُندمزاجی اور بےباکی جیسے خصائل نہیں آئیں گے؟‏ پطرس نے بعض‌اوقات ایسے خصائل کا مظاہرہ ضرور کِیا تھا۔‏ لیکن اگر پطرس واقعی جلدباز،‏ تُندمزاج اور بےباک ہوتا تو کیا یسوع اُسے اپنے ۱۲ رسولوں میں سے ایک کے طور پر منتخب کرتا؟‏ (‏لوقا ۶:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ ہرگز نہیں!‏ یسوع نے ان خامیوں کو نظرانداز کرکے پطرس کی خوبیوں پر نگاہ کی تھی۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ پطرس کی بےباکی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں پطرس کے اکثر سوال پوچھنے کیلئے کیوں شکرگزار ہونا چاہئے؟‏

۱۴ پطرس نے بعض‌اوقات دیگر رسولوں کے نمائندے کی حیثیت سے بھی کام کِیا تھا۔‏ بعض شاید اُسے انکساری کی کمی کی علامت سمجھیں۔‏ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟‏ بعض کا خیال ہے کہ پطرس دیگر رسولوں اور غالباً یسوع سے بھی عمر میں بڑا تھا۔‏ اگر یہ بات درست ہے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اکثر پطرس ہی پہلے کیوں بولتا تھا۔‏ (‏متی ۱۶:‏۲۲‏)‏ تاہم،‏ ایک اَور پہلو بھی قابلِ‌غور ہے۔‏ پطرس ایک روحانی شخص تھا۔‏ وہ علم حاصل کرنے کی غرض سے بہت سے سوال پوچھتا تھا۔‏ اسکا فائدہ تو درحقیقت ہمیں ہی ہوا ہے۔‏ یسوع نے پطرس کے سوالوں کے جواب میں بہت سی اہم باتیں بتائیں جنہیں بائبل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ پطرس کے سوال کے جواب میں ہی یسوع نے ”‏دیانتدار اور عقلمند داروغہ“‏ کا ذکر کِیا تھا۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۴۱-‏۴۴‏)‏ پطرس کے اس سوال پر بھی غور کریں:‏ ”‏ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔‏ پس ہم کو کیا ملیگا؟‏“‏ اس کے جواب میں یسوع نے یہ تقویت‌بخش وعدہ کِیا:‏ ”‏جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اُسکو سو گُنا ملیگا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔‏“‏—‏متی ۱۵:‏۱۵؛‏ ۱۸:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ ۱۹:‏۲۷-‏۲۹‏۔‏

۱۵.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ پطرس وفادار تھا؟‏

۱۵ پطرس میں وفاداری کی عمدہ خوبی بھی تھی۔‏ جب یسوع کے بہتیرے شاگرد اُسکی تعلیمات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اُسے چھوڑ کر چلے گئے تو پطرس ہی نے ۱۲ رسولوں کی طرف سے یہ کہا تھا:‏ ”‏اَے خداوند!‏ ہم کس کے پاس جائیں؟‏ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۶۶-‏۶۸‏)‏ یہ بات سن کر یسوع کو کتنی خوشی ہوئی ہوگی!‏ بعدازاں،‏ جب ایک ہجوم یسوع کو گرفتار کرنے کے لئے آیا تو بیشتر رسول بھاگ گئے۔‏ تاہم،‏ پطرس ہجوم کے پیچھے پیچھے سردار کاہن کے صحن میں داخل ہو گیا۔‏ وہ بزدلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی دلیری کی وجہ سے وہاں گیا تھا۔‏ جب یسوع سے پوچھ‌گچھ ہو رہی تھی تو پطرس اُن یہودیوں کے ساتھ کھڑا تھا جو آگ تاپ رہے تھے۔‏ سردار کاہن کے ایک ملازم نے اُسے پہچان لیا اور اُس پر یسوع کا ساتھی ہونے کا الزام لگایا۔‏ یہ درست ہے کہ یسوع نے اپنے آقا کا انکار کر دیا تھا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یسوع کے لئے وفاداری اور فکرمندی ہی نے پطرس کو ایسے خطرے میں ڈال دیا تھا جسکا بیشتر رسول سامنا کرنے سے ڈرتے تھے۔‏—‏یوحنا ۱۸:‏۱۵-‏۲۷‏۔‏

۱۶.‏ ہم نے کس عملی وجہ سے یوناہ اور پطرس کی مثبت خوبیوں پر غور کِیا ہے؟‏

۱۶ پطرس کی مثبت خوبیاں اُسکی خطاؤں پر سبقت رکھتی تھیں۔‏ یوناہ کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے۔‏ جس طرح ہم نے یوناہ اور پطرس کی بابت پہلے سے زیادہ مثبت نظریہ اپنایا ہے اُسی طرح ہمیں اپنے موجودہ روحانی بھائیوں اور بہنوں کا تجزیہ کرنے میں زیادہ مثبت بننے کیلئے اپنی تربیت کرنی چاہئے۔‏ اس سے اُن کیساتھ ہمارے تعلقات مزید بہتر ہو جائینگے۔‏ اسکی حقیقی ضرورت کیوں ہے؟‏

آجکل سبق کا اطلاق کرنا

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ مسیحیوں میں اختلاف کیوں پیدا ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم‌ایمانوں کیساتھ اختلافات نپٹانے میں کونسی بائبل مشورت ہماری مدد کرتی ہے؟‏

۱۷ تمام معاشی طبقات،‏ تعلیمی اور نسلی پس‌منظر کے مردوزن اور بچے آجکل متحد ہوکر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ مسیحی کلیسیا میں کتنی مختلف طرح کی شخصیات ہیں!‏ جب ہم سب قریبی رفاقت میں خدا کی خدمت کرتے ہیں تو بعض‌اوقات اختلافات پیدا ہو جانا یقینی ہے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۰؛‏ فلپیوں ۲:‏۳‏۔‏

۱۸ اگرچہ ہمیں اپنے بہن‌بھائیوں کی غلطیاں نظر آتی ہیں توبھی ہم ان پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔‏ ہم یہوواہ کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسکی بابت زبورنویس نے کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ کون قائم رہ سکے گا؟‏“‏ (‏زبور ۱۳۰:‏۳‏)‏ جُدائی ڈالنے والے شخصیتی خصائل پر توجہ کرنے کی بجائے ہمیں ”‏اُن باتوں کے طالب“‏ رہنا چاہئے ”‏جن سے میل‌ملاپ اور باہمی ترقی ہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۹‏)‏ ہم اپنے بہن‌بھائیوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھتے ہوئے خامیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور خوبیوں پر توجہ کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ”‏ایک دوسرے کی برداشت“‏ کرنے میں ہماری مدد ہوتی ہے۔‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۹.‏ ایک مسیحی سنگین نااتفاقیاں نپٹانے کیلئے کونسے عملی اقدام اُٹھا سکتا ہے؟‏

۱۹ اگر ہمارے دل کو پریشان کرنے والی کوئی ایسی نااتفاقی پیدا ہو جائے جسے ہم حل نہ کر سکیں توپھر کیا کرنا چاہئے؟‏ (‏زبور ۴:‏۴‏)‏ کیا آپ اور کسی ہم‌ایمان کے درمیان ایسا ہوا ہے؟‏ کیوں نہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں؟‏ (‏پیدایش ۳۲:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ سب سے پہلے تو دُعا میں یہوواہ سے اُسکی راہنمائی کے طالب ہوں۔‏ پھر اُس شخص کی عمدہ خوبیوں کو ذہن میں رکھ کر ”‏اُس حلم کے ساتھ“‏ اُسکے پاس جائیں ”‏جو حکمت سے پیدا ہوتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۳:‏۱۳‏)‏ اُسے بتائیں کہ آپ صلح کرنا چاہتے ہیں۔‏ اس الہامی مشورت کو یاد رکھیں:‏ ”‏سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما“‏ ہوں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۹‏)‏ ”‏قہر میں دھیما“‏ ہونے کی مشورت یہ ظاہر کرتی ہے کہ دوسرا شخص آپکو غصہ دلانے والا کوئی کام کر سکتا یا کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے۔‏ اگر ایسا ہو جائے تو ضبطِ‌نفس قائم رکھنے کیلئے یہوواہ سے دُعا کریں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اپنے بھائی کو کھل کر بات کرنے دیں اور غور سے اُسکی بات سنیں۔‏ اگر آپ اُسکی بات سے متفق نہ بھی ہوں تو اُسکی بات نہ کاٹیں۔‏ اُسکا نظریہ شاید غلط ہو توبھی یہ اُسکا نظریہ ہے۔‏ اُسکے نقطۂ‌نظر سے مسئلے کو دیکھنے کی کوشش کریں۔‏ اس میں خود کو اپنے بھائی کے نقطۂ‌نظر سے دیکھنا بھی شامل ہے۔‏—‏امثال ۱۸:‏۱۷‏۔‏

۲۰.‏ اختلافات حل کرتے وقت جواب دینے سے پہلے دوسرے شخص کی بات کو غور سے سننا کیوں ضروری ہے؟‏

۲۰ جب آپکی باری آئے تو مشفقانہ انداز میں بات کریں۔‏ (‏کلسیوں ۴:‏۶‏)‏ اپنے بھائی کو بتائیں کہ آپکو اُسکی کونسی بات پسند ہے۔‏ غلط‌فہمی پیدا ہونے میں جس حد تک آپ ذمہ‌دار ہیں اُس کے لئے معذرت چاہیں۔‏ اگر آپ کی انکسارانہ کوششوں سے صلح ہو جاتی ہے تو یہوواہ کا شکر ادا کریں۔‏ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہوواہ کی راہنمائی کے لئے درخواست کے  ساتھ  صلح کرنے کے مزید مواقع کی تلاش میں رہیں۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۸‏۔‏

۲۱.‏ اس گفتگو سے دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنے میں آپکی مدد کیسے ہوئی ہے؟‏

۲۱ یہوواہ اپنے تمام خادموں سے پیار کرتا ہے۔‏ وہ ہماری ناکاملیتوں کے باوجود ہم سب کو خوشی سے اپنی خدمت کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏ ہم دوسروں کی بابت اُسکے نظریے سے جتنا زیادہ واقف ہوتے ہیں بہن‌بھائیوں کیلئے ہماری محبت بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔‏ اگر کسی ساتھی مسیحی کیلئے ہماری محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے تو اس میں دوبارہ شدت پیدا کی جا سکتی ہے۔‏ اگر ہم دوسروں کی بابت مثبت نظریہ رکھنے کی کوشش کریں یعنی اُنہیں یہوواہ کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں بڑی برکت ملے گی!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 1 بعدازاں یہ واضح ہو گیا تھا کہ الیاب میں اسرائیل کا بادشاہ بننے کیلئے ضروری صفات نہیں تھیں۔‏ جب فلسطینی دیوہیکل جولیت نے اسرائیل کو للکارا تو دیگر اسرائیلی مردوں کیساتھ الیاب بھی خوفزدہ ہو گیا تھا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۱۱،‏ ۲۸-‏۳۰‏۔‏

^ پیراگراف 7 یربعام دوم نے بعض بڑی فتوحات،‏ سابقہ علاقے کی بحالی اور اس سے جمع ہونے والے خراج کی بدولت بدیہی طور پر شمالی سلطنت کی دولت میں بہت زیادہ اضافہ کر لیا تھا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۸:‏۶؛‏ ۲-‏سلاطین ۱۴:‏۲۳-‏۲۸؛‏ ۲-‏تواریخ ۸:‏۳،‏ ۴؛‏ عاموس ۶:‏۲‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• یہوواہ اپنے وفادار خادموں کی غلطیوں کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟‏

‏• آپ یوناہ اور پطرس کی کونسی مثبت صفات بیان کر سکتے ہیں؟‏

‏• آپ اپنے مسیحی بھائیوں کی بابت کیسا نظریہ اپنانے کا عزم رکھتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر بکس]‏

دوسروں کی بابت خدا کی طرح سوچیں

جب آپ یوناہ کی بابت بائبل سرگزشت پر غور کرتے ہیں تو کیا آپ کو اُن لوگوں کی بابت اپنے نظریے کی تجدید کرنے کی تحریک ملتی ہے جنہیں آپ باقاعدگی سے منادی کرتے ہیں؟‏ وہ شاید آپکو اسرائیلیوں کی طرح بےحس،‏ اپنی ذات میں مگن یا خدا کے پیغام کے مخالف دکھائی دیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا اُنہیں کیسا خیال کرتا ہے؟‏ جس طرح یوناہ کی منادی کے نتیجے میں نینوہ کے بادشاہ نے توبہ کر لی تھی اُسی طرح اس نظام کی بعض معروف ہستیاں بھی یہوواہ کی طرف رجوع کر سکتی ہیں۔‏—‏یوناہ ۳:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

کیا آپ دوسروں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

یسوع نے یوناہ کے تجربے کی بابت مثبت بیان پیش کِیا