مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا میرے بچے کو سکول جانا چاہئے؟‏

کیا میرے بچے کو سکول جانا چاہئے؟‏

کیا میرے بچے کو سکول جانا چاہئے؟‏

کیا آپ اس صفحے کے الفاظ کو پڑھنے کے قابل نہ ہونے کے احساس کا تصور کر سکتے ہیں؟‏ اگر آپ اپنے مُلک کی سرکاری زبان نہیں بول سکتے تو پھر کیا ہو؟‏ فرض کریں کہ آپ دُنیا کے نقشے پر اپنے آبائی وطن کی نشاندہی نہیں کر سکتے؟‏ لاتعداد بچے اسی صورتحال میں پرورش پاتے ہیں۔‏ آپکے بچے کی بابت کیا ہے؟‏

کیا آپکے بچے کو سکول جانا چاہئے؟‏ بہتیرے ممالک میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم لازمی اور اکثر مُفت دی جاتی ہے۔‏ بچوں کے حقوق کے کنونشن کے مطابق باضابطہ تعلیم بچے کا بنیادی حق ہے۔‏ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ بھی یہی بیان کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ بعض ممالک میں تعلیم شاید مُفت نہ ہونے کی وجہ سے والدین پر مالی بوجھ ڈال سکتی ہے۔‏ آئیے مسیحی والدین کے نقطۂ‌نظر سے اس معاملے پر غور کریں جو اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں یا دیگر ذرائع سے تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔‏

خواندگی کی بائبل مثالیں

بائبل میں متذکرہ خدا کے بہتیرے خادم پڑھ‌لکھ سکتے تھے۔‏ اگرچہ یسوع کے رسول پطرس اور یوحنا یہودی مچھیرے تھے توبھی اُنہوں نے اپنی گلیلی زبان کی بجائے یونانی میں بائبل کی کتابیں لکھیں۔‏ * بدیہی طور پر اُنکے والدین نے اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دلوانے کا یقین کر لیا تھا۔‏ دیگر بائبل نویس مثلاً چرواہا داؤد،‏ کسان عاموس اور یسوع کا سوتیلا بھائی یہوداہ جو شاید ایک بڑھئی تھا سب ایسے ہی تھے۔‏

ایوب پڑھنا لکھنا جانتا تھا اور اُسکے نام کی حامل بائبل کی کتاب ظاہر کرتی ہے کہ وہ سائنسی علوم کی بھی سمجھ رکھتا تھا۔‏ وہ شاید ادبی صلاحیت کا مالک بھی تھا اسلئےکہ ایوب کی کتاب میں اُسکے بیانات شاعری کی صورت میں ہیں۔‏ نیز ہم جانتے ہیں کہ ابتدائی مسیحی پڑھےلکھے لوگ تھے اسلئےکہ مٹی کے برتنوں اور ٹوٹے ہوئے ظروف پر صحائف پر مبنی اُنکے نوٹس دریافت کئے گئے ہیں۔‏

مسیحیوں کیلئے تعلیم ضروری ہے

خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تمام مسیحیوں کو بائبل علم میں ترقی کرنی چاہئے۔‏ (‏فلپیوں ۱:‏۹-‏۱۱؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱‏)‏ صحائف اور بائبل مطالعے کی امدادی کتابوں کا مستعد استعمال روحانی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔‏ چونکہ خدا نے اپنا کلام تحریری شکل میں فراہم کِیا ہے لہٰذا وہ اپنے پرستاروں سے تعلیم حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی توقع کرتا ہے۔‏ اُسکے کلام بائبل کی سمجھ کیساتھ پڑھائی اسکی نصیحت کا اطلاق کرنا آسان بنا دیتی ہے۔‏ بِلاشُبہ بعض نکات کو سمجھنے اور ان پر غوروخوض کرنے کے قابل ہونے کیلئے ہمیں شاید اسکے کچھ حصوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنا پڑے۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۴؛‏ ۱۴۳:‏۵؛‏ امثال ۴:‏۷‏۔‏

ہر سال یہوواہ کے لوگ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی راہنمائی میں تیارکردہ مددگار تحریری مواد حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ ایسا لٹریچر خاندانی زندگی،‏ رسومات،‏ مذہب،‏ سائنس اور دیگر موضوعات پر مبنی ہوتا ہے۔‏ سب سے اہم بات  یہ ہے کہ اس میں روحانی معاملات پر صحیفائی مشورت شامل ہوتی ہے۔‏ اگر آپ کے بچے پڑھنے کے قابل نہیں ہیں تو وہ بہت سی اہم معلومات سے محروم  رہیں گے۔‏

نسلِ‌انسانی کی تاریخ کی بابت سیکھنا اہم ہے اسلئےکہ ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ خدا کی بادشاہت کی ضرورت کیوں ہے۔‏ بنیادی جغرافیائی علم بھی مفید ہے۔‏ بائبل اسرائیل،‏ مصر اور یونان جیسی بہت سی جگہوں کا ذکر کرتی ہے۔‏ کیا آپکا بچہ دُنیا کے نقشے پر اُن جگہوں کی شناخت کر سکتا ہے؟‏ کیا وہ اپنے مُلک کی شناخت کر سکتا ہے؟‏ نقشے کو پڑھنے میں ناکامی کسی تفویض‌کردہ علاقہ میں اپنی خدمتگزاری کو پورا کرنے میں ایک شخص کی صلاحیت کو محدود کر سکتی ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۵‏۔‏

کلیسیا میں استحقاقات

مسیحی بزرگوں اور خدمتگزار خادموں کی بہتیری ذمہ‌داریاں پڑھائی سے تعلق رکھتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ کلیسیائی اجلاسوں کیلئے حصے تیار کرنے ہوتے ہیں۔‏ لٹریچر کی رسد اور عطیات کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ بنیادی تعلیم کے بغیر کسی شخص کیلئے ان ذمہ‌داریوں کو مؤثر طور پر انجام دینا بہت مشکل  ہوتا ہے۔‏

دُنیابھر کے بیت‌ایل ہومز میں رضاکار کارکُن خدمت کرتے ہیں۔‏ ان رضاکاروں کیلئے اچھا رابطہ رکھنے اور لٹریچر کے ترجمے اور مشینوں کی مرمت جیسی ذمہ‌داریاں پوری کرنے کیلئے اپنے مُلک کی سرکاری زبان پڑھنےلکھنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔‏ اگر آپکے بچے ان استحقاقات سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں عموماً بنیادی تعلیم ضروری ہے۔‏ آپکے بچے کیلئے سکول جانے کی اَور کونسی عملی وجوہات ہیں؟‏

غربت اور توہم‌پرستی

غربت کا شکار لوگ بعض حالات میں بالکل لاچار ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم دیگر معاملات میں تعلیم غیرضروری تکلیف سے بچنے میں ہماری اور ہمارے بچوں کی مدد کر سکتی ہے۔‏ بہت کم اَن‌پڑھ لوگ اپنی ضروریاتِ‌زندگی کو پورا کر پاتے ہیں۔‏ بعض‌اوقات،‏ کم آمدنی کی وجہ سے طبّی امداد نہ ملنے کے باعث بچے اور والدین بھی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ غذا کی کمی اور گھٹیا رہائشی معیار اکثر کم پڑھےلکھے یا ناخواندہ لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔‏ تعلیم یا کم‌ازکم پڑھنےلکھنے کی صلاحیت بعض لوگوں کو ان حلقوں میں مدد دے سکتی ہے۔‏

خواندگی توہم‌پرستی کی طرف مائل ہونے کے امکان کو بھی کم کرتی ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ پڑھےلکھے اور اَن‌پڑھ دونوں طرح کے لوگ توہم‌پرستی کا شکار ہیں۔‏ تاہم دوسروں کی نسبت غیرتعلیم‌یافتہ لوگوں کو زیادہ آسانی سے فریب اور ان سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اسلئےکہ وہ ایسے فریب کو بےنقاب کرنے والے مواد کو پڑھ نہیں سکتے۔‏ پس،‏ وہ توہم‌پرستی سے متاثر ہوتے ہوئے یہ یقین کر لیتے ہیں کہ ارواحی معالج معجزاتی شفائیں دے سکتا ہے۔‏—‏استثنا ۱۸:‏۱۰-‏۱۲؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸‏۔‏

تعلیم محض ملازمت کیلئے نہیں ہے

بہتیرے لوگوں کے خیال میں تعلیم کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہے۔‏ تاہم،‏ بعض تعلیم‌یافتہ لوگ بیروزگار ہوتے ہیں یا اُنکی آمدنی اُنکی بنیادی ضروریات کو مشکل سے پورا کرتی ہے۔‏ لہٰذا بعض والدین سوچ سکتے ہیں کہ اپنے بچے کو سکول بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‏ لیکن تعلیم ایک شخص کو پیسہ کمانے کے علاوہ عام زندگی کیلئے بھی تیار کرتی ہے۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۲‏)‏ اگر ایک شخص اپنے مُلک کی سرکاری زبان بولنے،‏ پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہے تو طبّی عملے،‏ سرکاری اہلکاروں یا بینک ملازمین سے بات‌چیت کرنا خوفزدہ کرنے کی بجائے آسان بلکہ معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔‏

بعض علاقوں میں غیرتعلیم‌یافتہ بچوں کو اینٹیں ڈالنے،‏ سلائی،‏ ماہی‌گیری یا کسی اَور پیشے کا علم حاصل کرنے کیلئے کسی شخص کے سپرد کِیا جا سکتا ہے۔‏ کوئی کام سیکھنا فائدہ‌مند ہے لیکن اگر یہ بچے سکول نہیں جاتے تو وہ صحیح طور پر پڑھنالکھنا نہیں سیکھینگے۔‏ بِلاشُبہ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی ہنر سیکھنے سے وہ دوسروں کے فریب میں آنے سے محفوظ اور تسکین‌بخش زندگی بسر کر سکتے ہیں۔‏

یسوع ناصری ایک بڑھئی تھا اور بدیہی طور پر اُس نے یہ ہنر اپنے رضاعی باپ یوسف سے سیکھا تھا۔‏ (‏متی ۱۳:‏۵۵؛‏ مرقس ۶:‏۳‏)‏ یسوع پڑھالکھا بھی تھا کیونکہ ۱۲ سال کی عمر میں بھی وہ ہیکل میں تعلیم‌یافتہ لوگوں کے ساتھ بامقصد بات‌چیت کرنے کے قابل تھا۔‏ (‏لوقا ۲:‏۴۶،‏ ۴۷‏)‏ یسوع کے معاملے میں ایک پیشہ سیکھنا تعلیم حاصل کرنے کے دیگر طریقوں پر اثرانداز نہیں ہوا تھا۔‏

کیا بیٹیوں کو بھی تعلیم دلانی چاہئے؟‏

بعض‌اوقات والدین اپنے بیٹوں کو سکول بھیجتے ہیں لیکن بیٹیوں کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے۔‏ بعض والدین غالباً یہ سوچتے ہیں کہ بیٹیوں کی تعلیم زیادہ مہنگی ہے اور اُن کے خیال میں لڑکیاں دن‌بھر گھر میں رہ کر اپنی ماں کا ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔‏ تاہم ناخواندگی ایک لڑکی کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔‏ یونی‌سیف (‏بچوں کی امداد کیلئے اقوامِ‌متحدہ کا اِدارہ)‏ کی ایک اشاعت بیان کرتی ہے:‏ ”‏تحقیق نے بارہا ظاہر کِیا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانا غربت کی غلامی سے آزاد ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔‏“‏ (‏پاورٹی اینڈ چلڈرن:‏ لیسنز آف دی نائنٹیز فار لیسٹ ڈیویلپٹ کنٹریز‏)‏ تعلیم‌یافتہ لڑکیاں بہتر طور پر زندگی کے مسائل سے نپٹنے اور دانشمند فیصلے کرنے کے قابل ہوتی ہیں اور یوں پورے خاندان کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔‏

جنوبی افریقہ،‏ بینن میں بچوں کی شرحِ‌اموات سے تعلق رکھنے والے ایک مطالعے نے ظاہر کِیا کہ اجتماعی طور پر غیرتعلیم‌یافتہ ماؤں کے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہر ۰۰۰،‏۱ میں سے ۱۶۷ کی موت واقع ہوتی ہے جبکہ ثانوی تعلیم حاصل کرنے والی ماؤں کے بچوں میں یہ شرحِ‌اموات ۳۸ ہے۔‏ یونی‌سیف یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے:‏ ”‏ دُنیابھر کی طرح بینن میں بھی بچوں کی شرحِ‌اموات میں تعلیمی معیار ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏“‏ پس اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے سے متعدد فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔‏

کیا خواندگی کی جماعتیں منعقد کرنا کافی ہے؟‏

یہوواہ کے گواہ حسبِ‌ضرورت کلیسیا کے ناخواندہ ارکان کے لئے خواندگی کی جماعتیں منعقد کرتے ہیں۔‏ * یہ کارآمد فراہمی عموماً مقامی زبان پڑھنے کے قابل بناتی ہے۔‏ کیا یہ بنیادی تعلیم کا موزوں متبادل ہے؟‏ کیا سکولوں کی موجودگی کے باوجود کلیسیا سے یہ توقع کرنی چاہئے کہ وہ آپکے بچوں کے لئے تعلیم فراہم کرے؟‏

اگرچہ خواندگی کی جماعتوں کا انتظام یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں کا ایک مہربانہ بندوبست ہے توبھی یہ ان بالغ اشخاص کیلئے ہے جو بچپن میں سکول سے محروم رہے تھے۔‏ ممکن ہے کہ اُنکے والدین خواندگی کی اہمیت سے واقف نہیں تھے یا اُس وقت کوئی سکول دستیاب نہیں تھے۔‏ ایسے اشخاص کی کلیسیاؤں میں منعقدکردہ خواندگی کی جماعتوں میں حاضر ہونے کیلئے مدد کی جا سکتی ہے۔‏ تاہم یہ جماعتیں باقاعدہ تعلیم کا متبادل نہیں اور نہ ہی پرائمری تعلیم مہیا کرنے کیلئے ترتیب دی گئی ہیں۔‏ سائنس،‏ ریاضی اور تاریخ جیسے مضامین خواندگی کی جماعتوں میں نہیں پڑھائے جاتے۔‏ تاہم،‏ یہ سکول کے باقاعدہ نصاب کا حصہ ہو سکتے ہیں۔‏

افریقہ میں خواندگی کی جماعتیں مُلک کی سرکاری زبان میں بہت کم اور زیادہ‌تر علاقائی زبانوں میں منعقد کی جاتی ہیں۔‏ تاہم،‏ باضابطہ تعلیم عموماً سرکاری زبان میں دی جاتی ہے۔‏ یہ بچوں کے لئے مزید فائدہ‌مند ہوتا ہے اس لئے کہ زیادہ کتابیں اور پڑھائی کا مختلف مواد سرکاری زبان میں دستیاب ہوتا ہے۔‏ اگرچہ کلیسیا کی طرف سے منعقد کی جانے والی خواندگی کی جماعتیں ایک بچے کی بنیادی تعلیم میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں توبھی یہ اُن کا متبادل نہیں ہیں۔‏ اگر ممکن ہو تو کیا بچوں کو باضابطہ تعلیم نہیں دلانی چاہئے؟‏

والدین کی ذمہ‌داری

کلیسیا میں روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں پیشوائی کرنے والے اشخاص کو قابلِ‌تقلید مسیحی ہونا چاہئے۔‏ اُنہیں اپنے گھرانوں اور بچوں کی ”‏بخوبی“‏ نگہبانی کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۴،‏ ۱۲‏)‏ ”‏بخوبی“‏ نگہبانی کرنے میں مستقبل کی تمام‌تر رکاوٹوں کو دُور کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا شامل ہے۔‏

خدا نے مسیحی والدین کو بڑی ذمہ‌داری سونپی ہے۔‏ اُنہیں کلام کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کرنے اور ’‏علم کو دوست رکھنے والے‘‏ بننے میں مدد کرنی چاہئے۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱؛‏ ۲۲:‏۶؛‏ افسیوں ۶:‏۴‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۸‏)‏ ہمیں اپنے بچوں کیلئے بھی موزوں تعلیم کا بندوبست کرنا چاہئے۔‏

بعض‌اوقات بہت زیادہ بچے،‏ مالی وسائل کی کمی یا شاید غیرمطمئن اور کم تنخواہ حاصل کرنے والے اساتذہ کی وجہ سے سکول کا نظام تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔‏ پس،‏ والدین کا اس سلسلے میں براہِ‌راست دلچسپی لینا نہایت اہم ہے کہ اُنکے بچے سکول میں کیا سیکھ رہے ہیں۔‏ بالخصوص ہر سیمسٹر کے شروع میں ٹیچرز سے جان‌پہچان بڑھانا اور یہ دریافت کرنا بھی دانشمندی کی بات ہے کہ بچے بہتر طالبعلم کیسے بن سکتے ہیں۔‏ اس طرح اساتذہ عزت‌افزائی کے احساس کیساتھ بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی زیادہ کوشش کرنے کی تحریک پا سکتے ہیں۔‏

تعلیم ایک بچے کی نشوونما کا اہم حصہ  ہے۔‏ امثال ۱۰:‏۱۴ بیان کرتی ہے،‏ ”‏دانا آدمی علم جمع کرتے ہیں۔‏“‏ یہ بات بالخصوص بائبل علم کی بابت سچ ہے۔‏ یہوواہ کے لوگوں—‏پیروجوان—‏کو زیادہ سے زیادہ علم‌وفہم حاصل کرنا چاہئے تاکہ دوسروں کو روحانی طور پر مدد کرنے اور ’‏خود کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کے قابل ہوں جنکو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتے ہوں۔‏‘‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۵‏)‏ پس کیا آپکے بچوں کو سکول جانا چاہئے؟‏ بِلاشُبہ آپ یہ نتیجہ اخذ کرینگے کہ اُنہیں سکول جانا چاہئے اگرچہ اسکا انحصار اس بات پر ہے کہ آپکے مُلک میں صورتحال کیسی ہے۔‏ تاہم مسیحی والدین کو اس اہم سوال کا جواب دینے کے قابل ہونا چاہئے،‏ ’‏کیا میرے بچے کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے؟‏‘‏ خواہ آپ کہیں بھی رہیں کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ آپکا جواب ہاں ہونا چاہئے؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 اُنکی مادری زبان گلیل کی مقامی بولی ارامی یا شاید مقامی عبرانی تھی۔‏ یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز،‏ جِلد ۱،‏ صفحہ ۱۴۴-‏۱۴۶ کا مطالعہ کریں۔‏

^ پیراگراف 25 دسمبر ۲۲،‏ ۲۰۰۰ کے جاگو!‏ کے صفحہ ۸ اور ۹ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳‏،‏۱۲ پر بکس/‏تصویر]‏

اگر سکول جانا ممکن نہیں

بعض حالات میں سکول جانا ناممکن ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ریفیوجیز رسالے نے بیان کِیا کہ پناہ‌گزین کیمپوں میں ۵ بچوں میں سے صرف ایک مستحق بچہ سکول جاتا ہے۔‏ بعض حالات میں ہڑتال کی وجہ سے سکول لمبے عرصے تک بند رہتے ہیں۔‏ شاید ایک مخصوص علاقے میں سکول موجود نہ ہو یا بہت دُور ہو۔‏ اذیت کی وجہ سے بھی مسیحی بچوں کو سکول سے خارج کر دیا جاتا ہے۔‏

آپ ایسے حالات میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اگر آپ کے کئی بچے ہیں اور آپ ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں اخراجات کی وجہ سے تمام بچوں کو سکول میں داخل کرانا مشکل ہے تو پھر کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏ کیا آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ آپ ایک یا دو بچوں کو روحانی خطرے میں ڈالے بغیر سکول بھیج سکیں؟‏ اگر ایسا ہے تو یہ بچے سکول سے سیکھ کر اپنے دیگر بہن‌بھائیوں کو سکھا سکتے  ہیں۔‏

بعض ممالک میں گھروں پر تعلیم‌وتدریس کا نظام نافذ کِیا گیا ہے۔‏ * اس بندوبست میں والدین میں سے ایک عام طور روزانہ کچھ گھنٹوں کیلئے بچے کو تعلیم دیتا ہے۔‏ سرقبائلی دَور میں والدین اپنے بچوں کو کامیابی سے تعلیم دیتے تھے۔‏ بدیہی طور پر،‏ والدین کی اچھی تربیت کی وجہ سے یعقوب کا بیٹا یوسف کم‌عمری ہی سے نگرانی کرنے کے قابل تھا۔‏

پناہ‌گزین کیمپ جیسی جگہوں پر ایک باضابطہ نصاب یا تعلیمی پروگرام سے فائدہ اُٹھانا مشکل ہو سکتا ہے لیکن والدین یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ مطبوعات کو ہدایت کی بنیاد کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ بائبل کہانیوں کی میری کتاب نوجوان بچوں کی تعلیم میں مددگار ہو سکتی ہے۔‏ جاگو!‏ رسالے میں مختلف موضوعات پر مضامین شامل ہوتے ہیں۔‏ کتاب لائف—‏ہاؤ ڈِڈ اِٹ گٹ ہیئر؟‏ بائے ایولوشن اور بائے کریئیشن؟‏ کو سائنسی مضامین کی تعلیم میں استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ ایئربُک آف جیہوواز وٹنسز میں دُنیا کا ایک چھوٹا سا نقشہ دیا گیا ہے اور مختلف علاقوں کی طرزِزندگی اور منادی کی کارگزاریوں کی بابت بتایا جاتا ہے۔‏

بچے کی سمجھنے کی لیاقت کے مطابق اور اچھی تیاری پر مبنی تدریسی طریقۂ‌کار بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اگر وہ پڑھنا اور سیکھنا جاری رکھیں تو باقاعدہ سکول دستیاب ہونے پر وہ زیادہ آسانی سے اس کیساتھ مطابقت پیدا کر سکتے ہیں۔‏ آپ ابتدائی اقدام اُٹھانے اور کوشش سے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دے سکتے ہیں۔‏ یہ کسقدر بااَجر ثابت ہو سکتا ہے!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 40 اپریل ۸،‏ ۱۹۹۳ کے اویک!‏ صفحہ ۹-‏۱۲ پر شائع ہونے والا مضمون ”‏گھر میں تدریس—‏کیا یہ آپ کیلئے ہے؟‏“‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏تصویر]‏

اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں آپکے بچوں کا سکول جانا ممکن نہیں تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏