حلم—ایک اہم مسیحی خوبی
حلم—ایک اہم مسیحی خوبی
”حلم . . . کا لباس پہنو۔“—کلسیوں ۳:۱۲۔
۱. کیا چیز حلم کو ایک حیرتانگیز خوبی بناتی ہے؟
حلیم شخص کی رفاقت بہت خوشگوار لگتی ہے۔ لہٰذا، سلیمان بادشاہ نے بیان کِیا، ”نرم زبان ہڈی کو بھی توڑ ڈالتی ہے۔“ (امثال ۲۵:۱۵) حلم ایک ایسی حیرتانگیز خوبی ہے جوکہ خوشمزاجی اور طاقت کا امتزاج ہے۔
۲، ۳. حلم اور رُوحاُلقدس کے مابین کیا تعلق ہے اور اس مضمون میں ہم کس پر غور کرینگے؟
۲ پولس نے گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳ میں متذکرہ ’روح کے پھلوں‘ کی فہرست میں حلم کو بھی شامل کِیا۔ جس یونانی لفظ کا ۲۳ آیت میں ترجمہ ”حلم“ کِیا گیا ہے اُس کے مترادف ”نرممزاجی“ یا ”بُردباری“ جیسے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زیادہتر زبانوں میں اس یونانی لفظ کا صحیح مترادف ملنا مشکل ہے کیونکہ اصلی لفظ ظاہری بُردباری یا نرمی کی بجائے باطنی نرمی اور شفقت، نیز کسی کے طرزِعمل کی بجائے دلودماغ کی حالتکو بیان کرتا ہے۔
۳ حلم کے معنی اور اہمیت کو پوری طرح سمجھنے میں مدد کے لئے آئیے بائبل سے چار مثالوں پر غور کریں۔ (رومیوں ۱۵:۴) اس طرح ہم نہ صرف یہ سیکھیں گے کہ یہ خوبی کیا ہے بلکہ یہ بھی کہ اسے کیسے پیدا کِیا جا سکتا اور اپنے تمام کاموں سے کیسے اس کا اظہار کِیا جا سکتا ہے۔
”خدا کے نزدیک اِسکی بڑی قدر ہے“
۴. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ حلم کی قدر کرتا ہے؟
۴ حلم چونکہ خدا کی روح کا پھل ہے اسلئے منطقی طور پر اس کا خدا کی حیرانکُن شخصیت سے گہرا تعلق ہونا چاہئے۔ پطرس رسول نے لکھا کہ ”حلم اور مزاج کی غربت کی . . . خدا کے نزدیک . . . بڑی قدر ہے۔“ (۱-پطرس ۳:۴) واقعی، حلم خدائی صفت ہے جسے یہوواہ نہایت بیشقیمت خیال کرتا ہے۔ خدا کے تمام خادموں کیلئے اپنے اندر حلم کی خوبی پیدا کرنے کی تحریک محسوس کرنے کے لئے یہی وجہ کافی ہے۔ تاہم، کائنات میں سب سے اعلیٰوبالا اختیار کا مالک، قادرِمطلق خدا کیسے حلم کا مظاہرہ کرتا ہے؟
۵. یہوواہ کے حلم کی بدولت ہمارے پاس کیا امکان ہے؟
۵ پہلے انسانی جوڑے، آدم اور حوا نے نیکوبد کی پہچان کے درخت سے پھل نہ کھانے کے سلسلے میں خدا کے واضح حکم کو جانبوجھ کر توڑا تھا۔ (پیدایش ۲:۱۶، ۱۷) یہ دانستہ نافرمانی اُن کے علاوہ اُن کی آئندہ اولاد کیلئے بھی گناہ، موت اور خدا کے جلال سے محروم ہو جانے کا سبب بنی تھی۔ (رومیوں ۵:۱۲) اگرچہ یہوواہ اُنہیں سزا دینے میں پوری طرح حقبجانب تھا توبھی اُس نے بیرحمی سے انسانی خاندان کو بالکل ناقابلِاصلاح اور ناقابلِمعافی خیال کرتے ہوئے ترک نہیں کِیا تھا۔ (زبور ۱۳۰:۳) اس کے برعکس، اپنی شفقت کے پیشنظر متقاضی اور سختگیر نہ بنتے ہوئے جو دراصل حلم کے اظہار ہیں، یہوواہ نے ایسا ذریعہ فراہم کِیا جس سے گنہگار انسان اُس تک رسائی کر سکتے اور اُس کی مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ واقعی، یہوواہ اپنے بیٹے، یسوع مسیح کی قربانی کی بخشش کی بدولت ہمارے لئے یہ ممکن بناتا ہے کہ ہم بِلاخوف اُسکے بلندوبالا تخت کے پاس جا سکیں۔—رومیوں ۶:۲۳؛ عبرانیوں ۴:۱۴-۱۶؛ ۱-یوحنا ۴:۹، ۱۰، ۱۸۔
۶. قائن کے سلسلے میں یہوواہ کے ردِعمل سے حلم کی خوبی کیسے عیاں ہوتی ہے؟
۶ یسوع کے زمین پر آنے سے بہت عرصہ پہلے، جب آدم کے بیٹوں، قائن اور ہابل نے خدا کے حضور قربانیاں گذرانی تو اُس وقت یہوواہ نے اپنا حلم ظاہر کِیا تھا۔ اُن کی دلی حالت کو سمجھتے ہوئے یہوواہ نے قائن کی قربانی کو رد کر دیا اور ہابل اور اُس کی قربانی کو ”منظور“ کِیا۔ خدا کے وفادار ہابل اور اُس کی قربانی کو قبول کرنے سے قائن بہت غضبناک ہوا۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”قاؔئن پیدایش ۴:۳-۷) واقعی، یہوواہ میں حلم کی خوبی بدرجۂاُتم ہے۔—خروج ۳۴:۶۔
نہایت غضبناک ہوا اور اُس کا مُنہ بگڑا۔“ یہوواہ کا ردِعمل کیسا تھا؟ کیا وہ بھی قائن کے بُرے رویے سے غضبناک ہو گیا تھا؟ ہرگز نہیں۔ اِس کی بجائے اُس نے بڑی نرمی کے ساتھ قائن سے پوچھا کہ وہ غصے میں کیوں ہے۔ یہوواہ نے یہ بھی واضح کِیا کہ قائن ”مقبول“ ہونے کے لئے کیا کر سکتا ہے۔ (حلم پُرکشش اور تازگیبخش ہے
۷، ۸. (ا) ہم یہوواہ کے حلم کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ (ب) متی ۱۱:۲۷-۲۹ کے الفاظ یہوواہ اور یسوع کی بابت کیا آشکارا کرتے ہیں؟
۷ یسوع مسیح کی زندگی اور خدمتگزاری کا مطالعہ کرنا یہوواہ کی لاثانی صفات کو سمجھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ (یوحنا ۱:۱۸؛ ۱۴:۶-۹) اپنی منادی کے دوسرے سال کے دوران گلیل میں یسوع نے خرازین، بیتصیدا، کفرنحوم اور گِردونواح کے علاقوں میں بہت سے معجزے دکھائے۔ تاہم، زیادہتر لوگ متکبر اور بےحس ہونے کی وجہ سے ایمان نہ لائے۔ یسوع کا ردِعمل کیسا تھا؟ اگرچہ یسوع نے اُنہیں اُن کی بیوفائی اور بےایمانی کے نتائج کی بابت آگاہ کِیا توبھی اُسے اُن کے درمیان اَمہاآرِتس یعنی ادنیٰ، عام لوگوں کی خراب روحانی حالت پر ترس آتا تھا۔—متی ۹:۳۵، ۳۶؛ ۱۱:۲۰-۲۴۔
۸ بعدازاں یسوع نے جوکچھ کِیا اُس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ ”باپ کو جانتا“ اور اُس کی نقل کرتا تھا۔ یسوع نے عام لوگوں کو یہ دعوت دی: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دُونگا۔ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔“ مصیبتزدہ اور ستمرسیدہ لوگوں کے لئے یہ بات کتنی تسلیبخش اور تازگیبخش تھی! یہ آج ہمارے لئے بھی تسلیبخش اور تازگیبخش ہے۔ اگر ہم حلم کا لباس پہنتے ہیں تو ہمارا شمار ایسے لوگوں میں ہوگا جن پر ’بیٹا باپ کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔‘—متی ۱۱:۲۷-۲۹۔
۹. کس خوبی کا حلم سے گہرا تعلق ہے اور اس سلسلے میں یسوع ایک عمدہ نمونہ کیسے ہے؟
۹ حلم سے وابستہ ایک خوبی فروتنی ہے۔ تکبّر اپنی بڑائی کرنے کی طرف مائل کرتا ہے جو اکثر دوسروں کے ساتھ بدسلوکی اور سختی کرنے پر منتج ہوتا ہے۔ (امثال ۱۶:۱۸، ۱۹) یسوع نے اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران فروتنی کا مظاہرہ کِیا۔ جب یسوع اپنی موت سے کوئی ۶ دن پہلے یروشلیم میں داخل ہوا اور یہودیوں کے بادشاہ کے طور پر اُس کا استقبال کِیا گیا تو وہ دُنیاوی حکمرانوں سے بالکل فرق نظر آیا۔ اُس نے مسیحا کی بابت زکریاہ کی اِس پیشینگوئی کو پورا کِیا: ”دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے۔ بلکہ لادُو کے بچے پر۔“ (متی ۲۱:۵؛ زکریاہ ۹:۹) وفادار نبی دانیایل نے رویا میں دیکھا کہ یہوواہ نے سارا اختیار اپنے بیٹے کو سونپا ہے۔ اس سے پہلے کی پیشینگوئی میں اُس نے یسوع کو ”آدمیوں میں سے ادنیٰ آدمی“ کے طور پر بیان کِیا۔ واقعی حلم اور فروتنی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔—دانیایل ۴:۱۷؛ ۷:۱۳، ۱۴۔
۱۰. مسیحی حلم کمزوری کی علامت کیوں نہیں ہے؟
۱۰ یہوواہ اور یسوع نے جس خوشگوار حلم کا مظاہرہ کِیا اُس سے ہمیں اُن کے قریب جانے میں مدد ملتی ہے۔ (یعقوب ۴:۸) بِلاشُبہ، حلم کسی بھی طرح کمزوری کی علامت نہیں ہے! یہوواہ طاقتوتوانائی کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ بدکاری سے نہایت غضبناک ہوتا ہے۔ (یسعیاہ ۳۰:۲۷؛ ۴۰:۲۶) اسی طرح یسوع نے بھی شیطان ابلیس کے حملے کا نشانہ بننے کے باوجود بڑی ثابتقدمی سے مصالحت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس نے اپنے زمانے کے مذہبی پیشواؤں کی ناجائز تجارتی سرگرمیوں کو بھی برداشت نہیں کِیا تھا۔ (متی ۴:۱-۱۱؛ ۲۱:۱۲، ۱۳؛ یوحنا ۲:۱۳-۱۷) تاہم، اُس نے اپنے شاگردوں کی کوتاہیوں کا سامنا کرتے وقت حلم سے کام لیا اور بڑے صبر سے اُنکی کمزوریوں کو برداشت کِیا۔ (متی ۲۰:۲۰-۲۸) لہٰذا، ایک بائبل عالم حلم کو موزوں طور پر یوں بیان کرتا ہے: ”نرمی کے پیچھے فولادی قوت پنہاں ہے۔“ دُعا ہے کہ ہم بھی مسیح جیسی اس خوبی—حلم—کا مظاہرہ کریں۔
اپنے زمانے کا حلیمترین شخص
۱۱، ۱۲. موسیٰ کی پرورش کے پیشِنظر کس چیز نے اُس کی حلیمی کو غیرمعمولی بنا دیا تھا؟
۱۱ تیسری مثال موسیٰ کی ہے جس پر ہم غور کرینگے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ وہ ”رویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔“ (گنتی ۱۲:۳) یہ بیان الہام سے قلمبند کِیا گیا تھا۔ موسیٰ کی حلیمی نے اُسے یہوواہ کی راہنمائی قبول کرنے کے قابل بنایا۔
۱۲ موسیٰ کی پرورش نہایت عجیب طریقے سے ہوئی تھی۔ یہوواہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دھوکادہی اور خونریزی کے دَور میں وفادار عبرانی والدین کا یہ بیٹا محفوظ رہے۔ موسیٰ نے اپنا بچپن اپنی ماں کے ساتھ گزارا جس نے اُسے سچے خدا یہوواہ کی بابت تعلیم دی تھی۔ بعدازاں، موسیٰ کو اُس کے گھر سے دُور ایک بالکل مختلف ماحول میں لیجایا گیا۔ اپنے ایمان کی خاطر قتل ہونے والے پہلی صدی کے ایک مسیحی نے بیان کِیا: موسیٰؔ نے مصرؔیوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کلام اور کام میں قوت والا تھا۔“ (اعمال ۷:۲۲) اُس کا ایمان اُس وقت ظاہر ہوا جب اُس نے فرعون کی طرف سے غلاموں پر مقرر نگرانوں کو اپنے بھائیوں پر ظلم اور ناانصافی کرتے دیکھا۔ ایک عبرانی پر ظلم کرنے والے مصری کو مار ڈالنے کی وجہ سے موسیٰ کو مصر سے بھاگ کر مدیان جانا پڑا۔—خروج ۱:۱۵، ۱۶؛ ۲:۱-۱۵؛ عبرانیوں ۱۱:۲۴، ۲۵۔
۱۳. مدیان میں موسیٰ کے ۴۰ سالہ قیام نے اُس پر کیا اثر ڈالا؟
۱۳ موسیٰ کو ۴۰ سال کی عمر میں بیابان میں بودوباش اختیار کرنی پڑی۔ مدیان میں اُس کی ملاقات رعوایل کی سات بیٹیوں سے ہوئی جن کی اُس خروج ۲:۱۶-۲۲؛ اعمال ۷:۲۹، ۳۰۔
نے کنوئیں سے پانی بھرنے میں مدد کی تاکہ وہ اپنے باپ کے ریوڑ کو پانی پلا سکیں۔ گھر واپس آکر اِن لڑکیوں نے رعوایل کو بتایا کہ ”ایک مصری“ نے ہمیں چرواہوں سے بچایا جو ہمیں تنگ کر رہے تھے۔ رعوایل کی درخواست پر موسیٰ اُس خاندان کیساتھ رہنے لگا۔ موسیٰ نے جن مشکلات کا سامنا کِیا وہ نہ تو اُس کیلئے تلخمزاج بننے اور نہ ہی نئے ماحول کے مطابق اپنے طرزِزندگی کو ڈھالنے میں رکاوٹ بنیں۔ یہوواہ کی مرضی بجا لانے کے سلسلے میں اُس کی خواہش کبھی بھی ماند نہ پڑی۔ چالیس سال تک رعوایل کے ریوڑ چرانے، صفورہ سے شادی کرنے اور اپنے بیٹوں کی پرورش کرنے کے علاوہ موسیٰ نے ایک ایسی خوبی کو فروغ دیا جو اُس کی شخصیت کا خاصہ بن گئی۔ واقعی، مصیبت کے ایّام میں موسیٰ نے حلیمی سیکھی۔—۱۴. اسرائیل کے لئے موسیٰ کی پیشوائی کے دوران اُس کی حلیمی کو ظاہر کرنے والا کوئی واقعہ بیان کریں۔
۱۴ جب یہوواہ نے موسیٰ کو اسرائیل کا پیشوا مقرر کِیا تو اُس وقت بھی اُس کی حلم کی خوبی نمایاں تھی۔ کسی نوجوان نے موسیٰ کو آکر خبر دی کہ اِلداد اور میداد لشکرگاہ میں نبوّت کر رہے ہیں حالانکہ جب یہوواہ نے موسیٰ کی مدد کے لئے مقرر ہونے والے ۷۰ بزرگوں پر اپنی روح نازل کی تو وہ وہاں پر حاضر نہیں تھے۔ یشوع نے کہا: ”اَے میرے مالک موسیٰؔ! تُو اُن کو روک دے۔“ موسیٰ نے بڑی نرمی سے جواب دیا: ”کیا تجھے میری خاطر رشک آتا ہے؟ کاش [یہوواہ] کے سب لوگ نبی ہوتے اور [یہوواہ] اپنی رُوح اُن سب میں ڈالتا۔“ (گنتی ۱۱:۲۶-۲۹) حلم کی بدولت اس اشتعالانگیز صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔
۱۵. اگرچہ موسیٰ ناکامل تھا توبھی وہ قابلِتقلید کیوں ہے؟
۱۵ موسیٰ اپنی زندگی میں ایک موقع پر حلیمی دکھانے میں ناکام ہو گیا۔ قادِس کے قریب مریبہ کے مقام پر وہ عظیم معجزے کرنے والے خدا یہوواہ کو جلال دینے سے قاصر رہا۔ (گنتی ۲۰:۱، ۹-۱۳) تاہم، ناکامل ہونے کے باوجود موسیٰ کا غیرمتزلزل ایمان ساری زندگی اُس کی مدد کرتا رہا اور اُس کی نمایاں خوبی حلم آجکل بھی ہمارے دلوں میں تحریک پیدا کرتی ہے۔—عبرانیوں ۱۱:۲۳-۲۸۔
درشتی بمقابلہ حلیمی
۱۶، ۱۷. ہمیں نابال اور ابیجیل کی سرگزشت سے کونسی آگاہی ملتی ہے؟
۱۶ خدا کے نبی سموئیل کی وفات کے فوراً بعد داؤد کے زمانے سے بھی ہمیں ایک انتباہی مثال ملتی ہے۔ یہ مثال ایک بیاہتا جوڑے نابال اور اُسکی بیوی ابیجیل کی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت فرق تھے! ابیجیل ”بڑی سمجھدار“ تھی جبکہ اُسکا شوہر ”بڑا بےادب اور بدکار“ تھا۔ داؤد نے نابال کے گلّوں کو چوروں سے بچایا تھا جس کے عوض داؤد نے کچھ اشیائےخوردونوش لینے کیلئے اپنے جوان نابال کے پاس بھیجے مگر اُس نے اُنکی درخواست مسترد کر دی۔ داؤد کو اُس پر غصہ آیا جو بالکل جائز تھا لہٰذا داؤد اور اُسکے جوان اپنیتلواریں حمائل کرکے نابال سے لڑنے کو چل پڑے۔—۱-سموئیل ۲۵:۲-۱۳۔
۱۷ جب ابیجیل تک یہ خبر پہنچی تو وہ جلدی سے روٹی، مے، گوشت اور کشمش اور انجیر کے خوشے لیکر داؤد کو ملنے کے لئے روانہ ہوئی۔ اُس نے داؤد سے التجا کی: ”مجھ پر اَے میرے مالک! مجھی پر یہ گُناہ ہو اور ذرا اپنی لونڈی کو اجازت دے کہ تیرے کان میں کچھ کہے اور تُو اپنی لونڈی کی عرض سُن۔“ ابیجیل کی عاجزانہ التجا سن کر داؤد کا دل بھی نرم ہو گیا۔ ابیجیل کی وضاحت سننے کے بعد داؤد نے کہا: ”[یہوواہ] اِؔسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے تجھے آج کے دن مجھ سے ملنے کو بھیجا۔ اور تیری عقلمندی مبارک۔ تُو خود بھی مبارک ہو جس نے مجھ کو آج کے دن خونریزی اور اپنے ہاتھوں اپنا انتقام لینے سے باز رکھا۔“ (۱-سموئیل ۲۵:۱۸، ۲۴، ۳۲، ۳۳) نابال کی درشتی بالآخر اُس کی موت کا سبب بنی۔ ابیجیل کی عمدہ صفات آخرکار اُس کے لئے داؤد کی بیوی بننے کا شرف حاصل کرنے پر منتج ہوئیں۔ اُس کی حلیمی آجکل یہوواہ کے تمام خادموں کے لئے ایک نمونہ ہے۔—۱-سموئیل ۲۵:۳۶-۴۲۔
حلم کے طالب ہوں
۱۸، ۱۹. (ا) جب ہم حلم کا لباس پہن لیتے ہیں تو کونسی تبدیلیاں نمایاں ہو جاتی ہیں؟ (ب) کونسی چیز مؤثر ذاتی تجزیہ کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۱۸ پس حلم ایک لازمی خوبی ہے۔ یہ محض انداز میں نرمی سے بڑھکر ہے؛ یہ مزاج کی ایسی دلکش خوبی ہے جو دوسروں کو تازگی بخشتی ہے۔ ماضی میں شاید ہم تلخکلامی اور بیرحمی کے عادی ہوں۔ تاہم، بائبل سچائی سیکھنے سے، ہم تبدیلی لائے ہیں اور زیادہ مرغوب اور دلپسند بن گئے ہیں۔ پولس نے ساتھی مسیحیوں کو تاکید کرتے ہوئے اسی تبدیلی کا ذکر کِیا: ”پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔“ (کلسیوں ۳:۱۲) بائبل ایسی تبدیلی کو کسی جنگلی جانور—بھیڑیے، چیتے، شیر، ریچھ اور سانپ—کے ایک پالتو جانور—برّے، بکری کے بچے، بچھڑے اور گائے—میں تبدیل ہو جانے سے تشبِیہ دیتی ہے۔ (یسعیاہ ۱۱:۶-۹؛ ۶۵:۲۵) یہ شخصیتی تبدیلیاں اتنی نمایاں ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تبدیلی کے پیچھے خدا کی روح ہے کیونکہ اس میں حلم کا شاندار پھل بھی شامل ہے۔
۱۹ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ہم ضروری تبدیلیاں کرکے خود کو یہوواہ کے لئے مخصوص کر لیتے ہیں تو ہمیں حلممزاجی پر کام کرنے کی ضرورت نہیں رہتی؟ ایسا نہیں ہے۔ جس طرح نئے کپڑوں کو صافستھرا نظر آنے کے لئے مسلسل دیکھبھال کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح خدا کے کلام کا مطالعہ اور اس میں پائی جانے والی مثالوں پر غوروخوض ہمیں اپنی ذات کی بابت نیا اور حقیقی نظریہ اپنانے میں مدد دیتا ہے۔ خدا کے الہامی کلام کا آئینہ آپ کی بابت کیا ظاہر کرتا ہے؟—یعقوب ۱:۲۳-۲۵۔
۲۰. ہم حلم کا مظاہرہ کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
۲۰ فطرتاً، ہر ایک کا مزاج فرق ہوتا ہے۔ خدا کے بعض خادم حلم کا مظاہرہ کرنا آسان پاتے ہیں جبکہ دیگر کو یہ مشکل لگتا ہے۔ تاہم، تمام مسیحیوں کو ۱-تیمتھیس ۶:۱۱) لفظ ”طالب“ کوشش کرنے کی ضرورت کو نمایاں کرتا ہے۔ بائبل کا ایک ترجمہ اس نصیحت کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ ’دل لگا۔‘ (نیو ٹسٹامنٹ اِن ماڈرن انگلش از جے. بی. فلپس) اگر آپ خدا کے کلام کی عمدہ مثالوں پر غوروخوض کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ آپکے ذہن میں نقش ہوکر آپکی ذات کا حصہ بن جائینگی۔ وہ آپ میں تبدیلی پیدا کرکے آپکی راہنمائی کرینگی۔—یعقوب ۱:۲۱۔
حلم سمیت خدا کی روح کے پھل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پولس نے محبت کیساتھ تیمتھیس کو تلقین کی: ”راستبازی۔ دینداری۔ ایمان۔ محبت۔ صبر اور حلم کا طالب ہو۔“ (۲۱. (ا) ہمیں حلم کے طالب کیوں ہونا چاہئے؟ (ب) ہمارے اگلے مضمون میں کونسا موضوع زیرِبحث آئیگا؟
۲۱ دوسروں کے ساتھ ہمارا برتاؤ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کتنے حلیم ہیں۔ شاگرد یعقوب نے پوچھا: ”تم میں دانا اور فہیم کون ہے؟“ پھر اُس نے بیان کِیا: ”جو ایسا ہو وہ اپنے کاموں کو نیک چالچلن کے وسیلہ سے اُس حلم کے ساتھ ظاہر کرے جو حکمت سے پیدا ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۳) ہم گھر، مسیحی خدمتگزاری اور کلیسیا میں اس مسیحی خوبی کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اگلا مضمون مفید راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اعادے کیلئے
• آپ نے اِن ہستیوں کی مثالوں سے حلم کی بابت کیا سیکھا
• یہوواہ؟
• یسوع؟
• موسیٰ؟
• ابیجیل؟
• ہمیں حلم کے طالب کیوں ہونا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
یہوواہ نے ہابل کی قربانی کو کیوں منظور کِیا تھا؟
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
حلم اور فروتنی کا آپس میں گہرا تعلق ہے
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
موسیٰ نے حلم کی عمدہ مثال قائم کی