”سب آدمیوں کیساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں“
”سب آدمیوں کیساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں“
”اُن کو یاد دِلا کہ . . . سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“ —ططس ۳:۱، ۲۔
۱. حلم کا مظاہرہ کرنا ہمیشہ آسان کیوں نہیں ہوتا؟
پولس رسول نے لکھا کہ ”تم میری مانند بنو جیسا مَیں مسیح کی مانند بنتا ہوں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۱) آجکل خدا کے تمام خادم اس مشورت پر عمل کرنے کے لئے سخت کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ ہم نے اپنے پہلے انسانی والدین سے خودغرضانہ خواہشات اور مزاج کا ورثہ پایا ہے جو مسیح کے نمونے سے ہمآہنگ نہیں ہیں۔ (رومیوں ۳:۲۳؛ ۷:۲۱-۲۵) تاہم، جب حلم کا مظاہرہ کرنے کی بات آتی ہے تو کوشش کرنے سے ہم سب کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن محض قوتِارادی پر بھروسا کرنا کافی نہیں ہے۔ مزید کس چیز کی ضرورت ہے؟
۲. ہم ”سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی“ سے کیسے پیش آ سکتے ہیں؟
۲ خداپرستانہ حلم رُوحاُلقدس کے پھلوں کا حصہ ہے۔ ہم جتنا زیادہ خدا کی سرگرم قوت کی راہنمائی کے مطابق چلتے ہیں اُتنا ہی زیادہ اُس کے پھل ہم میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی صورت میں ہم سب کے ساتھ ”کمال حلیمی“ سے پیش آ سکتے ہیں۔ (ططس ۳:۲) آئیے دیکھیں کہ ہم کیسے یسوع کے نمونے کی نقل کرتے ہوئے اپنے ساتھ رفاقت رکھنے والوں کو ”تازگی“ حاصل کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔—متی ۱۱:۲۹؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳۔
خاندان میں
۳. کونسی خاندانی حالت دُنیا کی روح کو منعکس کرتی ہے؟
۳ ایک حلقہ خاندان ہے جس میں حلم سے کام لینا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق ٹریفک کے حادثات اور ملیریا دونوں ملکر عورتوں کی صحت کے لئے اتنے خطرناک ثابت نہیں ہوئے جتنا کہ خانگی تشدد ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، لندن، انگلینڈ میں تشدد کے جتنے جرائم رپورٹ کئے جاتے ہیں اُن میں ایک چوتھائی خانگی تشدد ہوتے ہیں۔ پولیس کا سامنا اکثر ’غصے اور فحشکلامی‘ سے اپنے جذبات کا اظہار کرنے والے لوگوں سے ہوتا ہے۔ اس سے بھی بدتر صورتحال یہ ہے کہ بعض بیاہتا جوڑوں نے ”تلخمزاجی“ کو اپنے رشتے پر اثرانداز ہونے دیا ہے۔ یہ ساری باتیں ”دُنیا کی روح“ کا افسوسناک عکس پیش کرتی ہیں جن کے لئے مسیحی خاندانوں میں کوئی جگہ نہیں۔—افسیوں ۴:۳۱؛ ۱-کرنتھیوں ۲:۱۲۔
۴. حلم خاندان پر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟
۴ دُنیا کے رُجحانات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں خدا کی روح کی ضرورت ہے۔ ”جہاں کہیں [یہوواہ] کا روح ہے وہاں آزادی ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۷) محبت، مہربانی، ضبطِنفس اور تحمل ناکامل شوہروں اور بیویوں کے اتحاد کو مضبوط کرتا ہے۔ (افسیوں ۵:۳۳) حلممزاجی گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے علاوہ بہتیرے خاندانوں کو تباہ کرنے والی نوکجھوک اور جھگڑےفساد کے برعکس امن کو فروغ دیتی ہے۔ کسی شخص کا کوئی بات بیان کرنا اہم ہوتا ہے مگر بات کرنے کا انداز درحقیقت اُس کے اصل مفہوم اور مقصد کو واضح کرتا ہے۔ حلم کے ساتھ تفکرات اور پریشانیوں کو بیان کرنے سے ذہنی تناؤ اور کشیدگی کم ہو جاتی ہے۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضبانگیز ہیں۔“—امثال ۱۵:۱۔
۵. مذہبی طور پر منقسم گھرانے میں حلم کیسے مدد دے سکتا ہے؟
۵ مذہبی اعتبار سے منقسم گھرانے میں حلم کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔ مشفقانہ کاموں کے ساتھ حلم مخالفوں کو یہوواہ کی طرف راغب کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ پطرس نے مسیحی بیویوں کو نصیحت کی: ”تم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابع رہو۔ اِس لئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں توبھی تمہارے پاکیزہ چالچلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔ اور تمہارا سنگار ظاہری نہ ہو یعنی سر گوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح طرح کے کپڑے پہننا۔ بلکہ تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حلم اور مزاج کی غربت کی غیرفانی آرایش سے آراستہ رہے کیونکہ خدا کے نزدیک اِس کی بڑی قدر ہے۔“—۱-پطرس ۳:۱-۴۔
۶. حلم کا مظاہرہ کرنا والدین اور بچوں کے مابین رشتے کو کیسے مضبوط کرتا ہے؟
۶ یہوواہ کے لئے محبت کی کمی والدین اور بچوں کے مابین رشتے میں کشیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن تمام مسیحی گھرانوں میں حلم ظاہر کرنا بہت ضروری ہے۔ پولس نے والدوں کو نصیحت کی: ”تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ [یہوواہ] کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اُن کی پرورش کرو۔“ (افسیوں ۶:۴) جب خاندان میں حلم کا مظاہرہ کِیا جاتا ہے تو والدین اور بچوں کے درمیان رشتہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ پانچ بچوں میں سے ایک ڈین اپنے والد کی بابت یاد کرتا ہے: ”ہمارے والد بہت حلیم تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جب مَیں نوجوان تھا تو اُس وقت بھی کبھی میری اُن کے ساتھ تلخکلامی ہوئی ہو۔ وہ پریشانی کے عالم میں بھی ہمیشہ حلیمی سے پیش آتے تھے۔ بعضاوقات وہ مجھے عارضی طور پر میرے کمرے میں بھیج دیتے یا کبھیکبھار کچھ وقت کے لئے مجھے بعض مراعات سے محروم رکھتے لیکن ہمارے درمیان کبھی بحثوتکرار نہیں ہوتی تھی۔ وہ ہمارے والد ہی نہیں بلکہ دوست بھی تھے اور ہم کبھی اُنہیں مایوس کرنا نہیں چاہتے تھے۔“ حلم واقعی والدین اور بچوں کے مابین بندھن کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
خدمتگزاری میں
۷، ۸. میدانی خدمتگزاری میں حلم کا مظاہرہ کرنا کیوں ضروری ہے؟
۷ میدانی خدمتگزاری ایک اَور اہم حلقہ ہے جس میں ہمیں حلم کی ضرورت ہے۔ بادشاہتی خوشخبری کی منادی کے دوران ہماری ملاقات مختلف سوچ اور مزاج کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ بعض ہمارے پیغامِاُمید کو بڑی خوشی سے سنتے ہیں۔ دیگر کئی وجوہات کی بِنا پر اِسے بالکل سننا پسند نہیں کرتے۔ اسی صورتحال میں حلم دراصل زمین کی انتہا تک گواہ ہونے کی ہماری تفویض کو پورا کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔—اعمال ۱:۸؛ ۲-تیمتھیس ۴:۵۔
۸ پطرس رسول نے لکھا: ”مسیح کو خداوند جان کر اپنے دلوں میں مُقدس سمجھو اور جو کوئی تم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اُس کو جواب دینے کے لئے ہر وقت مستعد رہو مگر حلم اور خوف کے ساتھ۔“ (۱-پطرس ۳:۱۵) ہم دل سے مسیح کے نمونہ پر چلنا چاہتے ہیں اسی لئے ہم تلخکلامی کرنے والوں کو بھی گواہی دیتے ہوئے حلم اور احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ روش اکثر حیرانکُن نتائج پیدا کرتی ہے۔
۹، ۱۰. میدانی خدمتگزاری میں حلم کی قدروقیمت ظاہر کرنے والا تجربہ بیان کریں۔
۹ جب کیتھ کے دروازے پر دستک ہوئی تو اُس نے اپنی بیوی کو دروازہ کھولنے کے لئے بھیجا اور خود اندر ہی رہا۔ کیتھ کی بیوی کو جب یہ پتہ چلا کہ اُن کے دروازے پر دستک دینے والا شخص یہوواہ کا گواہ ہے تو اُس نے بڑے غصے سے گواہوں پر بچوں پر ظلم کرنے کا الزام لگایا۔ بھائی بڑے سکون سے اُس کی بات سنتا رہا۔ پھر تحمل کے ساتھ بیان کِیا: ”مجھے افسوس ہے کہ آپ ایسا محسوس کرتی ہے۔ کیا مَیں آپ کو یہوواہ کے گواہوں کے ایمان کی بابت کچھ بتا سکتا ہوں؟“ کیتھ جو اندر ہی اس ساری گفتگو کو سن رہا تھا دروازے پر آیا اور اُس گواہ کو چلے جانے کے لئے کہا۔
۱۰ بعدازاں، اس جوڑے کو اپنے مہمان کے ساتھ بُرا سلوک
کرنے کی وجہ سے پشیمانی ہوئی۔ اُس کے حلم نے اُنہیں بہت زیادہ متاثر کِیا۔ ایک ہفتے کے بعد اُنہیں یہ دیکھ کر بڑی حیرات ہوئی کہ وہی گواہ پھر اُن کے پاس آیا لیکن اس مرتبہ کیتھ اور اُس کی بیوی نے اُسے اپنے ایمان کی صحیفائی بنیاد کی وضاحت کرنے کا موقع دیا۔ اُنہوں نے بعدازاں بیان کِیا کہ ”اگلے دو سال تک ہمارے پاس دیگر گواہ بھی آتے رہے اور ہم نے اُن کی بات سنی۔“ اُنہوں نے بائبل مطالعہ کرنے کی دعوت کو قبول کِیا اور بالآخر دونوں نے یہوواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں بپتسمہ لے لیا۔ یہ اُس گواہ کے لئے خوشی اور اَجر کا باعث تھا جو پہلے کیتھ اور اُس کی بیوی کے پاس آیا تھا! کئی سال بعد جب یہی گواہ اس جوڑے سے ملا تو اُسے معلوم ہوا کہ اب وہ اُس کے روحانی بھائی اور بہن ہیں۔ حلم واقعی کامیابی کی کُنجی ہے۔۱۱. حلم کس طرح کسی کے لئے مسیحی سچائی قبول کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے؟
۱۱ ہیرلڈ ایک فوجی تھا۔ اُس کو ایسی باتوں کا تجربہ ہوا جن سے وہ نہایت چڑچڑا ہو گیا اور خدا کے وجود کا منکر ہو گیا۔ نشے میں گاڑی چلانے کے باعث اُس کے ساتھ حادثہ پیش آیا اور وہ بالکل معذور ہو گیا جس سے اُس کے مسائل میں اَور بھی اضافہ ہو گیا۔ جب یہوواہ کے گواہ اُس کے گھر آئے تو ہیرلڈ نے کہا کہ وہ اُس کے پاس نہ آیا کریں۔ لیکن ایک دن، بِل نامی ایک گواہ نے ہیرلڈ کے گھر سے کچھ ہی دُور رہائشپذیر دلچسپی رکھنے والے ایک شخص سے ملنے کا ارادہ کِیا۔ بِل نے غلطی سے ہیرلڈ کے دروازے پر دستک دے دی۔ جب دو بیساکھیوں کے سہارے چل کر ہیرلڈ نے دروازہ کھولا تو بِل نے فوراً معذرت چاہی اور بتایا کہ وہ دراصل کسی اَور گھر میں جانا چاہتا تھا۔ ہیرلڈ کا ردِعمل کیسا تھا؟ بِل کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ ہیرلڈ نے ٹیلیویژن پر ایک پروگرام دیکھا ہے جس میں بہت ہی کم وقت میں ایک نیا کنگڈم ہال تعمیر کرنے کے لئے گواہوں کو متحد ہوکر کام کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اتنے سارے لوگوں کو متحد ہوکر کام کرتے دیکھ کر متاثر ہونے سے گواہوں کی بابت اُس کا رویہ بدل گیا تھا۔ بِل کی عاجزانہ معذرت اور خوشکُن حلممزاجی سے متاثر ہوکر ہیرلڈ گواہوں سے ملنے پر راضی ہو گیا۔ اُس نے بائبل کا مطالعہ کِیا، ترقی کی اور یہوواہ کا بپتسمہیافتہ خادم بن گیا۔
کلیسیا میں
۱۲. مسیحی کلیسیا کے ارکان کو کن دُنیاوی خصائل کی مزاحمت کرنی چاہئے؟
۱۲ مسیحی کلیسیا تیسرا حلقہ ہے جس میں حلم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ آج کی دُنیا میں نااتفاقیاں روزمرّہ کا معمول ہیں۔ زندگی کی بابت دُنیاوی نقطۂنظر رکھنے والے لوگوں میں اکثر بحثوتکرار اور چپقلش ہوتی رہتی ہے۔ کبھیکبھار، ایسے دُنیاوی خصائل کلیسیا میں بھی آ جاتے ہیں اور لڑائیجھگڑے اور لفظی تکرار کا باعث بنتے ہیں۔ ذمہدار بھائیوں کو جب ایسے معاملات سے نپٹنا پڑتا ہے تو اُنہیں بہت افسوس ہوتا ہے۔ تاہم، یہوواہ اور بھائیوں کی محبت اُنہیں گلتیوں ۵:۲۵، ۲۶۔
خطاکاروں کو توبہ کرنے اور رجوع لانے کی تحریک دیتی ہے۔—۱۳، ۱۴. ”مخالفوں کو حلیمی سے تادیب“ کرنے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
۱۳ پہلی صدی میں، پولس اور اُس کے ساتھی تیمتھیس کو کلیسیا کے بعض ارکان کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہوا تھا۔ پولس نے تیمتھیس کو ایسے بھائیوں سے خبردار رہنے کے لئے آگاہ کِیا جو ”ذلت“ کے برتنوں کے مشابہ تھے۔ پولس استدلال کرتا ہے کہ ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے اور تعلیم دینے کے لائق اور بُردبار ہو۔ اور مخالفوں کو حلیمی سے تادیب کرے۔“ اگر ہم اشتعالانگیز حالت میں بھی حلممزاجی سے کام لیتے ہیں تو مخالفین اکثر اپنی تنقید پر دوبارہ غور کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ نتیجتاً، پولس کی اس بات کے مطابق یہوواہ ”شاید اُنہیں توبہ کی توفیق بخشے تاکہ وہ حق کو پہچانیں۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۲۰، ۲۱، ۲۴، ۲۵) غور کریں کہ پولس نرمی اور بُردباری کو حلم سے منسلک کرتا ہے۔
۱۴ پولس نے اپنی تعلیم کے مطابق عمل بھی کِیا تھا۔ جب کرنتھس کی کلیسیا میں پولس کا ”افضل رسولوں“ کے ساتھ سامنا ہوا تو اُس نے بھائیوں سے استدعا کی: ”مَیں پولسؔ جو تمہارے روبرو عاجز اور پیٹھ پیچھے تم پر دلیر ہوں مسیح کا حلم اور نرمی یاد دلا کر خود تم سے التماس کرتا ہوں۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۱؛ ۱۱:۵) پولس نے واقعی مسیح کی نقل کی تھی۔ غور کریں کہ اُس نے مسیح کا ’حلم یاد دلا کر‘ بھائیوں سے استدعا کی تھی۔ لہٰذا، اُس نے تحکمانہ اور سخت رویے سے گریز کِیا۔ بِلاشُبہ کلیسیا کے خلوصدل لوگوں کو اُس کی استدعا ضرور بھلی معلوم ہوئی ہوگی۔ اُس نے رشتوں میں کشیدگی کو ختم کِیا اور کلیسیا میں امن اور اتحاد کی بنیاد ڈالی۔ کیا ہم سب کو بھی ایسی ہی روش اختیار نہیں کرنی چاہئے؟ بزرگوں کو خاص طور پر مسیح اور پولس کی نقل کرنی چاہئے۔
۱۵. مشورت دیتے وقت حلم سے کام لینا کیوں ضروری ہوتا ہے؟
۱۵ دوسروں کی مدد کرنے کی ذمہداری صرف اُسی وقت پوری کرنا ضروری نہیں ہوتا جب کلیسیا کا امن اور اتحاد خطرے میں ہو۔ رشتوں میں دراڑ پڑنے سے پہلے ہی بھائیوں کو مشفقانہ راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولس نے تاکید کی: ”اَے بھائیو! اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا . . . جائے . . . تم جو روحانی ہو اُس کو . . . بحال کرو۔“ لیکن کیسے؟ ”حلممزاجی سے بحال کرو اور اپنا بھی خیال رکھ۔ کہیں تُو بھی آزمایش میں نہ پڑ جائے۔“ (گلتیوں ۶:۱) ”حلممزاجی“ سے کام لینا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا بالخصوص اسلئے کہ بشمول ممسوح اشخاص کے تمام مسیحی گنہگارانہ رُجحانات کے تابع ہیں۔ تاہم، حلم خطاکاروں کے لئے تبدیلی پیدا کرنا آسان بناتا ہے۔
۱۶، ۱۷. مشورت کا اطلاق کرنے کیلئے غیرآمادگی پر قابو پانے میں کونسی چیز مدد کریگی؟
۱۶ جس اصلی یونانی لفظ کا ترجمہ ”بحال“ کِیا گیا ہے وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے یا بٹھانے کا مفہوم پیش کرتا ہے جو یقیناً نہایت تکلیفدہ عمل ہوتا ہے۔ ہڈی بٹھانے والا ڈاکٹر اس عمل کے فوائد کو بڑے امثال ۲۵:۱۵۔
مثبت انداز میں بیان کرتا ہے۔ اُس کا پُراطمینان انداز بہت تسلیبخش ہوتا ہے۔ اس عمل سے پہلے کہے گئے چند الفاظ درد اور تکلیف کے احساس کو کم کرتے ہیں۔ اسی طرح، روحانی اصلاح بھی تکلیفدہ ہو سکتی ہے۔ لیکن حلم اسے قبول کرنے میں مدد کرے گا اور خوشگوار رشتہ بحال کرنے کے علاوہ خطاکار کو اپنی روش بدلنے کے قابل بنائے گا۔ اگرچہ شروع میں مشورت کو قبول نہیں کِیا جاتا توبھی مشورت دینے والے کی حلممزاجی پُختہ صحیفائی مشورت پر عمل کرنے کیلئے غیرآمادگی پر قابو پانے میں مدد دے گی۔—۱۷ اپنی اصلاح کرنے میں دوسروں کی مدد کرتے وقت ہمیشہ مشورت کو تنقید خیال کئے جانے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔ ایک مصنف اس بات کو یوں بیان کرتا ہے: ”دوسروں کو تنبیہ کرتے وقت تحکمانہ انداز اختیار کرنے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے حلیمی بہت ضروری ہے۔“ اپنے اندر فروتنی سے صادر ہونے والی حلیمی پیدا کرنا مشورہ دینے والے مسیحی کو اس خطرے سے بچنے میں مدد دیگی۔
”سب آدمیوں کیساتھ“
۱۸، ۱۹. (ا) سرکاری حکام کے ساتھ تعلقات میں مسیحی حلم سے پیش آنا کیوں مشکل پا سکتے ہیں؟ (ب) حکام کیساتھ حلم سے پیش آنے میں کونسی چیز مسیحیوں کی مدد کرےگی اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
۱۸ سرکاری حکام کے ساتھ تعلقات ایک ایسا حلقہ ہے جس میں بہتیرے حلم سے پیش آنا مشکل پاتے ہیں۔ یہ بات تسلیمشُدہ ہے کہ بعض حکام ہمدردی سے عاری ہونے کی وجہ سے سختی کرتے ہیں۔ (واعظ ۴:۱؛ ۸:۹) تاہم، یہوواہ کے لئے ہماری محبت اُس کے اعلیٰ اختیار کو تسلیم کرنے اور حکومتوں کی واجب تابعداری کرنے میں ہماری مدد کریگی۔ (رومیوں ۱۳:۱، ۴؛ ۱-تیمتھیس ۲:۱، ۲) جب اعلیٰ حکام یہوواہ کی پرستش کرنے کے ہمارے عوامی اظہار پر پابندی بھی لگا دیں تو ہم خوشی کے ساتھ اپنی حمد کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے دستیاب دیگر طریقوں کی تلاش کرتے ہیں۔—عبرانیوں ۱۳:۱۵۔
۱۹ کسی بھی حالت میں ہم سرکشی نہیں کرتے۔ ہم راست اُصولوں پر مصالحت کئے بغیر معقولیت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح، ہمارے بھائی دُنیا کے ۲۳۴ ممالک میں اپنی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہمیں پولس کی اس مشورت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے: ”حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں اور اُن کا حکم مانیں اور ہر نیک کام کے لئے مستعد رہیں۔ کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“—ططس ۳:۱، ۲۔
۲۰. حلم کا مظاہرہ کرنے والوں کو کیا اَجر ملیگا؟
۲۰ حلم کا مظاہرہ کرنے والوں کو بکثرت برکات حاصل ہونگی۔ یسوع نے کہا کہ ”مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہونگے۔“ (متی ۵:۵) روح سے مسحشُدہ مسیح کے بھائیوں کے لئے اپنی حلم کی خوبی کو قائم رکھنا خوشی اور زمین پر حکمرانی کے شرف کو یقینی بناتا ہے۔ ’دوسری بھیڑوں‘ کی ”بڑی بِھیڑ“ بھی مسلسل حلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمینی فردوس میں ابدی زندگی کی آس رکھتی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹؛ یوحنا ۱۰:۱۶؛ زبور ۳۷:۱۱) مستقبل کتنا تابناک ہے! پس، پولس کی اِس یاددہانی کو کبھی فراموش نہ کریں جو اُس نے افسس کے مسیحیوں کو دی تھی: ”پس مَیں جو خداوند میں قیدی ہوں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے تھے اُس کے لائق چال چلو۔ یعنی کمال فروتنی اور حلم کے ساتھ۔“—افسیوں ۴:۱، ۲۔
اعادے کیلئے
• مندرجہذیل حلقوں میں حلم کا مظاہرہ کرنے سے کونسی برکات حاصل ہوتی ہیں؟
• خاندان میں؟
• میدانی خدمت میں؟
• کلیسیا میں؟
• حلیم اشخاص کو کونسے اَجر دینے کا وعدہ کِیا گیا ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
مذہبی طور پر منقسم گھرانوں میں حلم کی خاص ضرورت ہوتی ہے
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
حلم خاندانی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
حلم اور احترام کیساتھ جواب دیں
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
اصلاح کرنے والے کا حلم خطاکار کی مدد کر سکتا ہے