بوعز اور روت کی غیرمعمولی شادی
بوعز اور روت کی غیرمعمولی شادی
بیتلحم کے قریب گندم کی کٹائی کا کام زوروں پر ہے۔ دن کافی طویل تھا۔ بھنی ہوئی گندم کی تازہ بالیوں کی خوشبو کام کرنے والوں کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔ ہر ایک اپنے ہاتھوں کی محنت سے آسودہ ہوگا۔
ایک امیر جاگیردار بوعز، کھانے پینے کے بعد اناج کے ایک بڑے ڈھیر کے پاس آرام کرنے کی غرض سے لیٹ جاتا ہے۔ بعدازاں، کٹائی کا کام ختم کرکے سب لوگ آرام کیلئے مناسب جگہ لیٹ جاتے ہیں۔ بوعز، کچھ ہی دیر بعد چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔
ایک خفیہ ملاقات
آدھی رات کو بوعز کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ڈر جاتا ہے۔ کیونکہ اُسکے پاؤں پر سے چادر ہٹا دی گئی ہے اور کوئی وہاں لیٹا ہوا ہے! اندھیرے میں پہچاننے سے قاصر رہتے ہوئے اُس نے پوچھا: ”تُو کون ہے؟“ عورت کی آواز میں جواب آتا ہے: ”مَیں تیری لونڈی رؔوت ہوں۔ سو تُو اپنی لونڈی پر اپنا دامن پھیلا دے کیونکہ تُو نزدیک کا قرابتی ہے۔“—روت ۳:۱-۹۔
وہ اندھیرے میں تنہا باتچیت کرتے ہیں۔ عورتیں کھلیہان میں اسطرح نہیں نکلتی تھیں۔ (روت ۳:۱۴) لہٰذا بوعز کی دعوت پر روت وہیں لیٹی رہتی ہے اور پَو پھٹنے سے پہلے وہاں سے چلی جاتی ہے تاکہ اُس پر کسی قسم کا شکوشُبہ نہ کِیا جائے۔
کیا یہ ایک رومانوی ملاقات تھی؟ کیا یہ امیر اور معمر شخص ایک پردیسی غریب، نوجوان بیوہ روت کی باتوں میں آ گیا تھا؟ یا کیا بوعز روت کے حالات اور اُس رات اُس کے تنہا ہونے سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہا تھا؟ ان سوالات کے جواب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ یہ سب خدا کے لئے وفاداری اور محبت کا نتیجہ تھا۔ نیز حقائق بھی نہایت دلگداز تھے۔
تاہم روت کون تھی؟ اُسکا محرک کیا تھا؟ یہ امیر آدمی بوعز کون ہے؟
”پاکدامن عورت“
اس واقعہ سے سالوں پہلے، یہوداہ کے مُلک میں کال پڑا تھا۔ چار اشخاص—الیملک، اُسکی بیوی نعومی اور اُنکے دو بیٹوں محلون اور کلیون—پر مشتمل ایک اسرائیلی گھرانہ موآب کی طرف ہجرت کر گیا۔ بیٹوں نے دو موآبی عورتوں روت اور عرفہ سے شادی کر لی۔ موآب میں تینوں مردوں کی وفات کے بعد، تینوں عورتوں کو خبر ملی کہ اسرائیل میں حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ پس نعومی نے اپنے وطن واپس لوٹنے کا فیصلہ کِیا جوکہ اب بیوہ تھی اور بچوں اور پوتےپوتیوں کے بغیر نہایت تلخ زندگی گزار رہی تھی۔—روت ۱:۱-۱۴۔
اسرائیل لوٹتے وقت، نعومی نے اپنی بہو عرفہ کو واپس اپنے لوگوں میں لوٹ جانے کے لئے قائل کر لیا۔ پھر نعومی نے روت سے کہا: ”دیکھ تیری جٹھانی اپنے کُنبے اور اپنے دیوتا کے پاس لوٹ گئی۔ تُو بھی اپنی جٹھانی کے پیچھے چلی جا۔“ مگر روت نے کہا: ”تُو منت نہ کر کہ مَیں تجھے چھوڑوں اور روت ۱:۱۵-۱۷) لہٰذا دونوں خستہحال بیوائیں واپس بیتلحم لوٹ آئیں۔ یہیں پر اپنی ساس کے لئے محبت اور فکرمندی نے اُس کے پڑوسیوں کو اتنا زیادہ متاثر کِیا کہ وہ اُسے نعومی کے لئے ”سات بیٹوں سے بھی بڑھ کر“ خیال کرنے لگے۔ دیگر نے اُسے ”پاکدامن عورت“ کے طور پر بیان کِیا۔—روت ۳:۱۱؛ ۴:۱۵۔
تیرے پیچھے سے لوٹ جاؤں کیونکہ جہاں تُو جائے گی مَیں جاؤں گی. . . تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔ جہاں تُو مرے گی مَیں مُروں گی اور وہیں دفن بھی ہوں گی۔“ (بیتلحم میں جَو کی فصل کی کٹائی کے وقت روت نے نعومی سے کہا: ”مجھے اجازت دے تو مَیں کھیت میں جاؤں اور جو کوئی کرم کی نظر مجھ پر کرے اُسکے پیچھے پیچھے بالیں چنوں۔“—روت ۲:۲۔
اچانک ہی وہ اپنے سُسر الیملک کے رشتہدار بوعز کے کھیتوں میں پہنچ جاتی ہے۔ وہ نگران سے بالیں چننے کی اجازت مانگتی ہے۔ بالیں چننے میں اُسکی مستعدی غیرمعمولی تھی لہٰذا نگران بوعز کے سامنے اُسکے کام کی تعریف کرتا ہے۔—روت ۱:۲۲–۲:۷۔
ایک محافظ اور محسن
بوعز یہوواہ کا ایک مخلص پرستار ہے۔ ہر صبح بوعز اپنے کارندوں کو اِن الفاظ میں سلام کہتا: ”[یہوواہ] تمہارے ساتھ ہو“ اور وہ اُسے جواب دیتے: ”[یہوواہ] تجھے برکت دے۔“ (روت ۲:۴) کام میں اُسکی مستعدی اور نعومی کیلئے اُسکی وفاداری کی بابت جاننے کے بعد بوعز روت کیلئے بالیں چننے کا خاص بندوبست بنا دیتا ہے۔ باالفاظِدیگر اُس نے کہا: ’تُو دوسرے کھیت میں بالیں چننے کو نہ جانا بلکہ یہیں رہنا۔ میری چھوکریوں کے ساتھ ساتھ رہنا کیونکہ یوں تُو محفوظ رہیگی۔ مَیں نے اِن جوانوں کو حکم دیا ہے کہ تجھے نہ چھوئیں۔ جب تجھے پیاس لگے تو یہ تازہ پانی لا دینگے۔‘—روت ۲:۸، ۹۔
تب روت اَوندھے مُنہ گِری اور زمین پر سرنگوں ہو کر کہنے لگی: ’تُو مجھ پر کرم کی نظر کرکے میری خبر کیوں لیتا ہے حالانکہ مَیں پردیسن ہوں؟‘ بوعز نے جواب دیا: ’جوکچھ تُو نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد اپنی ساس کے ساتھ کِیا ہے وہ سب مجھے پورے طور پر بتایا گیا ہے کہ تُو نے کیسے اپنے ماں باپ اور زادبُوم کو چھوڑا اور اُن لوگوں میں جنکو تُو اِس سے پیشتر نہ جانتی تھی آئی۔ یہوواہ تجھے تیرے کام کا بدلہ دے بلکہ تجھ کو پورا اَجر ملے۔‘—روت ۲:۱۰-۱۲۔
بوعز کا مقصد اُس کا دل جیتنا نہیں ہے۔ جو بھی تعریف وہ کرتا ہے وہ پُرخلوص ہے۔ روت انکساری کے ساتھ اُس کی تمام ہمدردی کیلئے شکریہ ادا کرتی ہے۔ وہ اسے بہت بڑی مہربانی خیال کرتی اور محنت سے کام کرتی رہتی ہے۔ بعدازاں، کھانے کے وقت، بوعز روت کو بلاتا ہے: ’یہاں آ اور روٹی کھا اور اپنا نوالہ سرکہ میں بھگو۔‘ پس اُس نے کھایا اور سیر ہوئی اور کچھ کھانا بچا کر نعومی کیلئے رکھ لیا۔—روت ۲:۱۴۔
دن کے اختتام تک، روت نے تقریباً ایک ایفہ جَو چن لی تھی۔ وہ یہ جَو اور نعومی کیلئے بچا کر رکھا ہوا کھانا لیکر گھر واپس آ جاتی ہے۔ (روت ۲:۱۵-۱۸) اتنا زیادہ اناج دیکھ کر نعومی پوچھتی ہے: ”تُو نے آج کہاں بالیں چنیں اور کہاں کام کِیا؟ مبارک ہو وہ جس نے تیری خبر لی۔“ یہ جاننے کے بعد کہ یہ مہربانی بوعز نے کی ہے۔ نعومی نے کہا ”وہ [یہوواہ] کی طرف سے برکت پائے جس نے زندوں اور مُردوں سے اپنی مہربانی باز نہ رکھی . . . یہ شخص ہمارے قریبی رشتہ کا ہے اور ہمارے نزدیک کے قرابتیوں میں سے ایک ہے۔“—روت ۲:۱۹، ۲۰۔
” آرام کی طالب“ ہونا
اپنی بہو کے لئے ”آرام کی طالب“ ہوتے ہوئے یا گھر تلاش کرتے ہوئے نعومی خدا کی شریعت کی عین مطابقت میں قرابتی کے حق سے استفادہ کرنے کا بندوبست کرتی ہے۔ (احبار ۲۵:۲۵؛ استثنا ۲۵:۵، ۶) اب نعومی روت کو ایک ڈرامائی اور انتہائی مؤثر منصوبے سے آگاہ کرتی ہے جس سے وہ بوعز کی توجہ حاصل کر سکتی تھی۔ روت ہدایت پا کر اور اچھی تیاری کیساتھ، رات کی تاریکی میں بوعز کے کھلیہان میں گئی۔ اُس نے اُسے سوتے پایا۔ وہ اُسکے پاؤں پر سے چادر ہٹا کر وہاں لیٹ گئی اور اُسکے جاگنے کا انتظار کرنے لگی۔—روت ۳:۱-۷۔
جب بوعز جاگا تو بِلاشُبہ روت کو وہاں دیکھ کر سب کچھ سمجھ گیا اور اُسکی اس درخواست کی قدر کی کہ وہ ’اپنا دامن اُس پر پھیلا دے۔‘ روت کے اس فعل نے اُس عمررسیدہ یہودی کو اُسکی اس ذمہداری سے آگاہ کِیا کہ اُسے قرابتی کا حق ادا کرنا ہے کیونکہ وہ روت کے شوہر محلون کا رشتہدار تھا۔—روت ۳:۹۔
تاریکی میں واقع ہونے والی روت کی اس کارروائی کو کسی نے نہ دیکھا۔ تاہم، بوعز کا ردِعمل ظاہر کرتا ہے کہ روت کے قرابتی کا حق ادا کرنے کا دعویٰ غیرمتوقع نہیں تھا۔ بوعز روت کی درخواست کے مطابق کام کرنے کیلئے آمادہ تھا۔
روت کی آواز سے یقیناً پریشانی ظاہر ہو رہی تھی اسی لئے بوعز نے اُسے یقیندہانی کرائی: ”اب اَے میری بیٹی مت ڈر۔ مَیں سب کچھ جو تُو کہتی ہے تجھ سے کرونگا کیونکہ میری قوم کا تمام شہر جانتا ہے کہ تُو پاکدامن عورت ہے۔“—روت ۳:۱۱۔
بوعز روت کو مکمل طور پر نیکذات خیال کرتا تھا اسکا اظہار اُسکے ان الفاظ سے ہوتا ہے: ”تُو [یہوواہ] کی طرف سے مبارک ہو اَے میری بیٹی کیونکہ تُو نے شروع کی نسبت آخر میں زیادہ مہربانی کر دکھائی اِسلئےکہ تُو نے جوانوں کا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب پیچھا نہ کِیا۔“ (روت ۳:۱۰) پہلی بات تو یہ کہ روت نے نعومی کیلئے مہربانی یا سچی محبت ظاہر کی تھی۔ آخری بات یہ کہ اُس نے بغیر کسی لالچ کے خود کو بوعز پر ظاہر کِیا کیونکہ وہ اُسکا قرابتی تھا اگرچہ وہ عمر میں اُس سے کافی بڑا تھا۔ وہ نعومی اور اپنے متوفّی شوہر محلون کے نام سے اولاد پیدا کرنے کو تیار تھی۔
ایک قرابتی دستبردار ہو جاتا ہے
اگلی ہی صبح بوعز نے ایک نزدیک کے قرابتی کو بلایا جو بوعز کی نسبت نعومی کا زیادہ قریبی رشتہدار ہے۔ شہر کے رہنے والوں اور بزرگوں کے سامنے بوعز کہتا ہے: ’نعوؔمی جو موآؔب کے مُلک سے لوٹ آئی ہے زمین کے اُس ٹکڑے کو جو ہمارے بھائی الیملکؔ کا مال تھا بیچتی ہے۔ سو مَیں نے سوچا کہ تجھ پر اِس بات کو ظاہر کر کے کہونگا کہ تُو اُسے مول لے۔ ۱گر تُو اُسے چھڑاتا ہے تُو چھڑا اور اگر نہیں چھڑاتا تو مجھے بتا دے۔‘ اس پر اُس نے کہا مَیں چھڑاؤنگا۔—روت ۴:۱-۴۔
مگر وہ شخص یہ سُن کر حیران رہ جاتا ہے جب بوعز تمام گواہوں کے سامنے بیان کرتا ہے: ”جس دن تُو وہ زمین نعوؔمی کے ہاتھ سے مول لے تو تجھے اُس کو موآبی رؔوت کے ہاتھ سے بھی جو مُردہ کی بیوی ہے مول لینا ہوگا تاکہ اُس روت ۴:۵، ۶۔
مُردہ کا نام اُس کی میراث پر قائم کرے۔“ تب اُس کا نزدیک کا قرابتی اپنی میراث خراب ہونے کے ڈر سے کہتا ہے کہ اُس کے چھڑانے کا جو میرا حق ہے اُسے تُو لے لے: ”کیونکہ مَیں اُسے چھڑا نہیں سکتا۔“—دستور کے مطابق، قرابتی کا حق ادا کرنے سے انکار کرنے والے شخص کو اپنی جوتی اُتار کر اپنے پڑوسی کو دینی پڑتی تھی۔ پس جب قرابتی بوعز سے کہتا ہے، ”تُو آپ ہی اُسے مول لے لے۔“ تو وہ اپنی جوتی اُتار ڈالتا ہے۔ تب بوعز نے بزرگوں اور سب لوگوں سے کہا: ”تم آج کے دن گواہ ہو کہ مَیں نے الیملکؔ اور کلیوؔن اور محلوؔن کا سب کچھ نعوؔمی کے ہاتھ سے مول لے لیا ہے۔ ماسوا اِسکے مَیں نے محلوؔن کی بیوی موآبی رؔوت کو بھی اپنی بیوی بنانے کے لئے خرید لیا ہے تاکہ اُس مُردہ کے نام کو اُسکی میراث میں قائم کروں . . . تم آج کے دن گواہ ہو۔“—روت ۴:۷-۱۰۔
تب پھاٹک پر موجود تمام لوگ بوعز سے کہتے ہیں: ”[یہوواہ] اُس عورت کو جو تیرے گھر میں آئی ہے راخلؔ اور لیاؔہ کی مانند کرے جن دونوں نے اؔسرائیل کا گھر آباد کِیا اور تُو اؔفراتہ میں تحسینوآفرین کا کام کرے اور بیتؔلحم میں تیرا نام ہو!“—روت ۴:۱۱، ۱۲۔
لوگوں کی دُعاؤں کیساتھ بوعز روت کو اپنی بیوی بنا لیتا ہے۔ اُس سے اُسکا بیٹا ہوتا ہے جسکا نام عوبید رکھتے ہیں اور یوں روت اور بوعز داؤد بادشاہ اور انجامکار یسوع مسیح کے اسلاف بن جاتے ہیں۔—روت ۴:۱۳-۱۷؛ متی ۱:۵، ۶، ۱۶۔
” ایک کامل اَجر“
پوری سرگزشت میں، کارندوں کو اُسکے پہلے سلام سے لیکر الیملک کے نام کو زندہ رکھنے کی ذمہداری قبول کرنے تک، بوعز خود کو ایک بیمثال—جیہاں ایک سرگرمِعمل اور بااختیار شخص ثابت کرتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ ضبطِنفس، ایمان اور راستی سے ملبّس تھا۔ بوعز فیاض، مہربان، اخلاقی طور پر پاکصاف اور کُلی طور پر یہوواہ کے حکموں کی فرمانبرداری کرتا تھا۔
روت یہوواہ کے لئے اپنی محبت، نعومی کے لئے اپنی وفادارانہ محبت اور محنتی اور فروتن ہونے میں اپنی مثال آپ تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اُسے کیوں ”پاکدامن عورت“ سمجھتے تھے۔ وہ ”کاہلی کی روٹی“ نہیں کھاتی تھی اور اس کی سخت محنت کی بدولت اپنی ساس کی احتیاجیں رفع کرنے کے قابل تھی۔ (امثال ۳۱:۲۷، ۳۱) نعومی کی ذمہداری قبول کرنے سے روت نے یقیناً اُس خوشی کا تجربہ کِیا ہوگا جو دینے سے حاصل ہوتی ہے۔—اعمال ۲۰:۳۵؛ ۱-تیمتھیس ۵:۴، ۸۔
روت کی کتاب میں ہمیں کیا ہی شاندار مثالیں ملتی ہیں! نعومی کو یہوواہ نے یاد رکھا۔ روت کو یسوع مسیح کی اُمالاسلاف کے طور پر ”کامل اَجر“ حاصل ہوا۔ بوعز کو ”پاکدامن عورت“ سے نوازا گیا۔ جہانتک ہمارا تعلق ہے، ہم ہر کردار میں ایمان کی ایک عمدہ مثال پاتے ہیں۔
[صفحہ ۲۶ پر بکس]
اُمید کی کرن
اگر آپ کبھی بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ناخوشگوار ایّام میں رہ رہے ہیں تو روت کی کہانی آپکے اندر اُمید کی کرن پیدا کر سکتی ہے۔ یہ قضاۃ کی کتاب کیلئے اہم اختتام فراہم کرتی ہے۔ روت کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے یہوواہ نے اپنے لوگوں کیلئے بادشاہ مہیا کرنے کیلئے موآب کے مُلک کی ادنیٰ بیوہ کو استعمال کِیا۔ قضاۃ کی کتاب کے پسمنظر کے برعکس، روت کا ایمان اُن ایّام میں روشنی کی ایک کرن کی طرح چمکتا ہے۔ روت کی کہانی پڑھنے سے آپ یہ یقیندہانی حاصل کر سکتے ہیں کہ حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں، خدا ہمیشہ اپنے لوگوں کی فکر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔