بعض کو جواب کیسے ملا
بعض کو جواب کیسے ملا
لاکھوں لوگ دُعا کرتے ہیں۔ بعض کو یقین ہے کہ اُن کی دُعاؤں کا جواب ملتا ہے۔ دیگر یہ سوچتے ہیں کہ آیا اُنکی دُعائیں سنی بھی جاتی ہیں کہ نہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اپنے سوالوں کے جواب تو چاہتے ہیں مگر دُعا میں اپنی درخواست خدا کے حضور پیش کرنے کی بابت نہیں سوچتے۔
بائبل سچے خدا کی شناخت ”دُعا کے سننے والے“ کے طور پر کراتی ہے۔ (زبور ۶۵:۲) اگر آپ دُعا کرتے ہیں تو کیا آپکو یقین ہے کہ آپ سچے خدا ہی سے دُعا کر رہے ہیں؟ کیا آپ کی دُعائیں ایسی ہیں کہ جنہیں وہ سنیگا؟
دُنیا کے تمام ممالک کے لوگوں سے اسکا جواب ہاں ہی ملا ہے! اُنہیں اپنی دُعاؤں کے جواب کیسے ملے ہیں؟ اُنہوں نے کیا سیکھا؟
خدا کون ہے؟
پُرتگال کی ایک سکول ٹیچر نے پادریوں اور راہباؤں کے زیرِنگرانی تعلیم پائی تھی۔ وہ خلوصدلی سے اپنے ایمان کی پابندی بھی کرتی تھی۔ جب چرچ نے اپنی اُن تمام عبادات کو بدل دیں تو وہ بہت پریشان ہوئی کیونکہ اُسے سکھایا گیا تھا کہ یہ بہت اہم عبادات ہیں۔ جب وہ دوسرے مُلک میں منتقل ہوئی تو مشرقی طرزِعبادت کو دیکھ کر وہ سوچنے لگی کہ کیا کوئی واحد سچا خدا موجود ہے؟ اُسے کیسے پرستش کرنی چاہئے؟ جب اُس نے اپنے پادری سے بائبل کی کچھ باتیں پوچھیں تو اُس کے سوالات کو نظرانداز کر دیا گیا جس سے وہ بہت مایوس ہوئی۔
اس سکول ٹیچر کے علاقے میں کیتھولک چرچ نے ایک پمفلٹ تسلیم کِیا جس میں چرچ کے تمام ارکان کو یہوواہ کے گواہوں سے گفتگو نہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن اُسکے سوال اپنی جگہ قائم رہے۔ ایک دن جب گواہ اُسکے گھر آئے تو اُس نے اُنکی بات بڑے غور اور دلچسپی سے سنی۔ یہ گواہوں سے اُسکی پہلی گفتگو تھی۔
اپنے کئی سوالوں کے جواب حاصل کرنے کیلئے اس خاتون نے گواہوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ہر ہفتے سوالوں کی ایک لمبی فہرست یوحنا ۴:۲۳۔
گواہوں کی منتظر ہوتی تھی۔ وہ خدا کا نام، اُسکی وحدانیت، پرستش میں بُتوں کے استعمال اور مزید کئی باتیں جاننا چاہتی تھی۔ اُس نے یہ بات دیکھی کہ اُسکے ہر سوال کا جواب ذاتی رائے کی بجائے بائبل سے دیا جاتا ہے اسلئے وہ سیکھی ہوئی باتوں سے نہ صرف حیران بلکہ خوش بھی تھی۔ بتدریج، اُسکے کئی سوالوں کے جواب اُسے مِل گئے۔ آج وہ روح اور سچائی سے یہوواہ کی پرستش کرتی ہے جسکی بابت یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”سچے پرستار“ ایسے ہی پرستش کرتے ہیں۔—سری لنکا میں، ایک خاندان باقاعدگی سے ملکر بائبل پڑھا کرتا تھا لیکن اُنہیں اپنے کئی اہم سوالوں کے جواب نہیں مِل رہے تھے۔ اُنہیں مدد کی ضرورت تھی جو اُنہیں اپنے پادری سے نہ مِل سکی۔ تاہم، یہوواہ کے گواہ اُنکے پاس آئے اور اُنہیں بائبل پر مبنی مفید لٹریچر دیا۔ بعدازاں، جب یہوواہ کے گواہوں نے خاندان کو بائبل پر مبنی سوالوں کے تسلیبخش جواب دئے تو وہ بائبل مطالعہ کرنے کو تیار ہو گئے۔ بائبل مطالعے سے اُنہوں نے بہت دلچسپ باتیں سیکھیں۔
تاہم، چرچ سے بچپن میں سیکھے ہوئے عقائد کی وجہ سے بیوی کو یہ سمجھنے میں مشکل ہو رہی تھی کہ یسوع مسیح کا باپ ”خدایِواحد اور برحق“ ہے جیساکہ یسوع نے خود بھی کہا تھا۔ (یوحنا ۱۷:۱، ۳) اُسے سکھایا گیا تھا کہ یسوع اپنے باپ کے برابر ہے اور اس ”بھید“ پر کبھی کوئی شُبہ نہیں کِیا جانا چاہئے۔ اُس نے اُلجھن کے عالم میں خلوصدلی کیساتھ یہوواہ کا نام لیکر دُعا کی کہ وہ اُس پر یسوع کی حقیقت کو واضح کرے۔ پھر اُس نے متعلقہ صحائف کا دوبارہ جائزہ لیا۔ (یوحنا ۱۴:۲۸؛ ۱۷:۲۱؛ ۱-کرنتھیوں ۸:۵، ۶) جب اُسکی آنکھوں سے پردہ اُٹھ گیا تو وہ آسمانوزمین کے خالق اور یسوع مسیح کے باپ، یہوواہ کو برحق خدا کے طور پر دیکھنے کے قابل ہو گئی۔—یسعیاہ ۴۲:۸؛ یرمیاہ ۱۰:۱۰-۱۲۔
دُکھدرد کی وجہ؟
ایوب کو بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُس کے تمام بچے ایک تیز آندھی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے اور وہ نہایت نادار بھی ہو گیا۔ وہ تکلیفدہ بیماری میں مبتلا ہو گیا اور اُسکے جھوٹے دوستوں نے بھی اُس پر کافی دباؤ ڈالا۔ اس تکلیف کے عالم میں ایوب نے کچھ تلخ باتیں بھی کہیں۔ (ایوب ۶:۳) لیکن خدا نے حالات کو مدِنظر رکھا۔ (ایوب ۳۵:۱۵) وہ ایوب کے دل کو جانتا تھا اسلئے اُس نے ایوب کو درکار مشورت فراہم کی۔ وہ آجکل بھی لوگوں کیلئے ایسا ہی کرتا ہے۔
موزمبیق کے کاسٹرو کی عمر صرف دس سال کی تھی جب اُسکی ماں وفات پا گئی۔ وہ بہت غمگین تھا۔ اُس نے پوچھا: ”وہ کیوں مر گئی اور ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے؟“ اگرچہ اُس نے خداترس والدین سے پرورش پائی تھی توبھی اُسکی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ کونسی بات اُسکے دلودماغ کو سکون پہنچا سکتی تھی؟ اُسے چیچوآ زبان میں چھوٹی سی بائبل پڑھنے اور اپنے بڑے بھائی سے اُسکی بابت کچھ گفتگو کرنے سے تسلی حاصل ہوئی۔
بتدریج، کاسٹرو یہ سمجھنے لگا کہ اُس کی ماں خدا کی ناانصافی کی وجہ سے نہیں بلکہ موروثی ناکاملیت کی وجہ سے مری ہے۔ (رومیوں ۵:۱۲؛ ۶:۲۳) قیامت کی بابت بائبل کا وعدہ اُس کیلئے باعثِتسلی ہوا کیونکہ اس میں اُسے اپنی ماں سے دوبارہ ملنے کی اُمید نظر آئی۔ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ اعمال ۲۴:۱۵) افسوس کی بات ہے کہ چار سال بعد اُسکا باپ بھی وفات پا گیا۔ لیکن اس مرتبہ کاسٹرو غم پر قابو پانے کے لائق تھا۔ آجکل، وہ یہوواہ سے پیار کرتا ہے اور خدا کی خدمت میں وفاداری سے اپنی زندگی استعمال کرتا ہے۔ اُسے حاصل ہونے والی خوشی سب کی نظر میں عیاں ہے۔
بائبل کی جن سچائیوں سے کاسٹرو کو تسلی ملی اُنہی سے اپنے عزیزوں کو موت کے باعث کھو دینے والے بہتیرے لوگ تسلی حاصل کرتے ہیں۔ بدکاروں کے اعمال کی وجہ سے مشکل کا تجربہ کرنے والے لوگ بھی ایوب ہی کی طرح یہ سوال کرتے ہیں: ”شریر کیوں جیتے رہتے . . . ہیں؟“ (ایوب ۲۱:۷) جب لوگ خدا کے کلام سے ملنے والے جواب پر واقعی دھیان دیتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہمیشہ اُنکے فائدہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے معاملات کو نپٹاتا ہے۔—۲-پطرس ۳:۹۔
ریاستہائےمتحدہ میں پرورش پانے والی باربرا کو جنگ کی تباہکاریوں کا ذاتی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن اُس نے جنگ میں اُلجھی ہوئی دُنیا میں ضرور پرورش پائی تھی۔ جنگی سفاکیاں روزانہ کی خبریں تھیں۔ سکول میں وہ ناقابلِبیان طریقوں سے رُونما ہونے والے تاریخی واقعات کی بابت سیکھ کر حیران تھی۔ یہ
واقعات کس وجہ سے رُونما ہوئے تھے؟ کیا خدا کو انکی فکر تھی؟ وہ ایمان رکھتی تھی کہ خدا موجود ہے لیکن وہ اسکی بابت پُراعتماد نہیں تھی۔تاہم، یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ رفاقت کی وجہ سے زندگی کی بابت باربرا کا نظریہ بدل گیا۔ اُس نے اُنکی بات سنی اور اُن کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے لگی۔ وہ کنگڈم ہال میں اجلاسوں پر حاضر ہوئی۔ وہ اُنکے بڑے کنونشنوں پر بھی حاضر ہوئی۔ مزیدبرآں، جب وہ سوال پوچھتی تو یہ دیکھتی کہ مختلف گواہ مختلف جواب نہیں دیتے۔ اِسکی بجائے، گواہ ایک ہی بات کہتے تھے کیونکہ اُنکی سوچ بائبل پر مبنی تھی۔
گواہوں نے بائبل سے یہ شہادت پیش کی کہ دُنیا شیطان ابلیس کے قبضے میں ہے جو اسکا حکمران ہے اسی لئے دُنیا اُسکے رُجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ (یوحنا ۱۴:۳۰؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ افسیوں ۲:۱-۳؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹) اُنہوں نے واضح کِیا کہ باربرا کو حیرت میں ڈالنے والے واقعات کی بائبل میں پیشینگوئی کی گئی تھی۔ (دانیایل، ۲، ۷ اور ۸ ابواب) خدا نے انکی پیشینگوئی کی کیونکہ وہ مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بعض واقعات کا ذمہدار خدا ہی تھا۔ جبکہ دیگر کی اُس نے محض اجازت دی تھی۔ گواہوں نے باربرا کو بتایا کہ بائبل ہمارے زمانے کے اچھے اور بُرے واقعات کی بابت پیشینگوئی کرنے کے علاوہ انکے مفہوم کو بھی واضح کرتی ہے۔ (متی ۲۴:۳-۱۴) اُنہوں نے اُسے بائبل کا وعدہ بیان کِیا کہ نئی دُنیا میں راستبازی بسی رہیگی اور ہر طرح کی تکلیف ختم ہو جائیگی۔—۲-پطرس ۳:۱۳؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
باربرا بتدریج سمجھ گئی کہ یہوواہ خدا انسانی دُکھتکلیف کا ذمہدار نہیں تاہم وہ نافرمانی کی طرف مائل انسانوں کو اپنے حکم ماننے پر مجبور نہیں کرتا۔ (استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰) خدا نے ایسے انتظامات کئے ہیں جن سے ہم خوشی کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں لیکن اب ہمیں وہ یہ ظاہر کرنے کا موقع دے رہا ہے کہ آیا ہم اُس کے راست طریقوں کے مطابق زندگی گزاریں گے یا نہیں۔ (مکاشفہ ۱۴:۶، ۷) باربرا نے خدا کے تقاضوں کو سیکھنے اور اُن کے مطابق زندہ رہنے کا عزم کِیا۔ اُس نے یہوواہ کے گواہوں میں ایسی محبت دیکھی جو یسوع کے مطابق سچے پیروکاروں کی شناخت ہے۔—یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵۔
آپ بھی ایسے انتظامات سے مستفید ہو سکتے ہیں جن سے اُس کی مدد ہوئی تھی۔
ایک بامقصد زندگی
بظاہر مطمئن زندگی گزارنے والے لوگ بھی اکثر اُن سوالوں کے جواب چاہتے ہیں جو اُنہیں پریشان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، برطانیہ کا ایک نوجوان میتھیو ہمیشہ ہی سے سچے خدا اور بامقصد زندگی کی تلاش کرنے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ میتھیو کی عمر ۱۷ سال تھی جب اُس کا والد وفات پا گیا۔ اس کے بعد میتھیو نے موسیقی کی تعلیم میں ڈگری حاصل کی۔ پھر اُسے اپنے لاحاصل مادہپرستانہ طرزِزندگی کا احساس ہوا۔ وہ اپنا گھربار چھوڑ کر لندن رہنے کے لئے چلا گیا اور اطمینانبخش طرزِزندگی کی تلاش میں منشیات، نائٹ کلب، علمِنجوم، ارواحپرستی اور زین بدھمت کے علاوہ دیگر فیلسوفیوں کا شکار ہو گیا۔ اُس نے مایوسی میں خدا سے فریاد کی کہ وہ اُسے اور سچائی کو ڈھونڈنے میں اُس کی مدد کرے۔
دو دن بعد میتھیو کی ملاقات ایک پُرانے دوست سے ہوئی اور اُس نے اُسے اپنی تکلیفدہ حالت سے آگاہ کِیا۔ یہ آدمی یہوواہ کے گواہوں سے بائبل مطالعہ کر چکا تھا۔ جب میتھیو کو ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵ کا صحیفہ پڑھ کر سنایا گیا تو وہ حیران ہو گیا کہ بائبل ہماری دُنیا کی حالتوں کو کتنی درستی سے بیان کرتی ہے۔ جب اُس نے پہاڑی وعظ پڑھا تو اسکا اُسکے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ (متی ۵-۷ ابواب) شروع میں تو اُسے کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوئی کیونکہ اُس نے یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں تنقیدی مواد پڑھا تھا لیکن بالآخر اُس نے قریبی کنگڈم ہال میں اجلاس پر جانے کا فیصلہ کِیا۔
میتھیو کو وہاں بیان کی جانے والی باتیں بہت پسند آئیں اور اُس نے کلیسیا کے ایک بزرگ کے ساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔ جلد ہی اُسے محسوس ہوا کہ جس علم کی اُسے تلاش تھی وہی اُسے سکھایا جا رہا ہے جو دراصل اُسکی دُعاؤں کا جواب تھا۔ یہوواہ کی نظر میں ناپسندیدہ عادات کو ترک کرنے سے بھی اُسے بہت فائدہ حاصل ہوا۔ خدا کا خوشگوار خوف پیدا کرنے سے اُس نے اپنی زندگی خدا کے احکام کے مطابق ڈھال لی۔ میتھیو نے سیکھ لیا کہ ایسی ہی زندگی بامقصد ہے۔—واعظ ۱۲:۱۳۔
میتھیو اور اس مضمون میں متذکرہ دیگر اشخاص کے مقدر میں یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ وہ اطمینانبخش طرزِزندگی تلاش کر لینگے۔ پھربھی، اُنہوں نے یہ سیکھا کہ یہوواہ خدا اُن تمام لوگوں کیلئے ایک مشفقانہ مقصد رکھتا ہے جو خوشی سے اُسکے احکام کی تعمیل کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) اس مقصد میں جنگ، بھوک، بیماری اور موت سے آزادی اور پاک زمین پر ابدی زندگی شامل ہے۔ (یسعیاہ ۲:۴؛ ۲۵:۶-۸؛ ۳۳:۲۴؛ یوحنا ۳:۱۶) کیا آپ بھی اسی چیز کے خواہاں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ بھی یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہال میں بائبل پر مبنی اجلاسوں پر حاضر ہونے سے اطمینانبخش زندگی کی کُنجی حاصل کرنے کی بابت زیادہ سیکھ سکتے ہیں۔ آپکو ایسا کرنے کی پُرتپاک دعوت دی جاتی ہے۔
[صفحہ ۷ پر تصویر]
خدا کا ذاتی نام استعمال کرتے ہوئے خلوصدلی سے دُعا کریں
[صفحہ ۷ پر تصویر]
بائبل کی سچی تعلیم دینے والوں کیساتھ مطالعہ کریں
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
کنگڈم ہال میں اجلاسوں پر حاضر ہوں
[صفحہ ۴ پر تصویر کا حوالہ]
yhpargotohP kcotS xednI/srelhE dahC :rekiH