مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا یہوواہ آپ کی کوششوں میں دلچسپی لیتا ہے؟‏

کیا یہوواہ آپ کی کوششوں میں دلچسپی لیتا ہے؟‏

کیا یہوواہ آپ کی کوششوں میں دلچسپی لیتا ہے؟‏

آپ اِس سوال کا کیا جواب دیں گے؟‏ اکثر لوگ کہتے ہیں:‏ ’‏مَیں جانتا ہوں کہ خدا نے موسیٰ،‏ جدعون اور داؤد جیسے آدمیوں کی کارگزاریوں میں دلچسپی لی تھی۔‏ لیکن مَیں نہ تو موسیٰ ہوں،‏ نہ جدعون اور نہ ہی داؤد۔‏ بھلا خدا میری کوششوں کی طرف کیونکر متوجہ ہوگا؟‏‘‏

یہ بات درست ہے کہ قدیم زمانے میں خدا کے وفادار خادموں نے اکثر بڑا ایمان ظاہر کرنے والے کام کئے تھے۔‏ اپنے ایمان کے سبب سے ’‏انہوں نے سلطنتوں کو مغلوب کِیا،‏ شیروں کے مُنہ بند کئے،‏ آگ کی تیزی کو بجھایا اور تلوار کی دھار سے بچ نکلے۔‏‘‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۳،‏ ۳۴‏)‏ لیکن بائبل ہمیں ایسے لوگوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے جنہوں نے اتنے بڑے کام نہیں کئے تھے۔‏ وہ بھی خدا کے وفادار خادم تھے اور اُس نے اُنکی کوششوں کو بھی نگاہ میں رکھا۔‏ اِس بات کو واضح کرنے کیلئے صحائف میں ایک چرواہے،‏ ایک نبی اور ایک بیوہ کا ذکر ہوا ہے جنہوں نے ایمان کے سبب سے بڑے بڑے کام تو نہیں کئے مگر پھر بھی خدا نے اُن میں دلچسپی لی۔‏ آئیے ہم انکی مثال پر غور کرتے ہیں۔‏

ایک چرواہے کی قربانی

ہابل آدم اور حوا کا دوسرا بیٹا تھا۔‏ کیا آپکو اُسکی زندگی کی کوئی خاص بات یاد ہے؟‏ شاید آپ جانتے ہوں کہ ہابل خدا کی راہ میں مرا تھا۔‏ آج کم ہی لوگ ایسی موت کا تجربہ کرتے ہیں۔‏ لیکن خدا کی نظر ہابل پر ایک اَور وجہ سے پڑی تھی۔‏ وہ کونسی وجہ تھی؟‏

ہابل نے ایک دن اپنے گلّہ کے کچھ بہترین جانور خدا کیلئے قربان کئے۔‏ شاید آج اِس قسم کی قربانی کو اتنا قیمتی نہ سمجھا جائے۔‏ لیکن یہوواہ ہابل کی قربانی سے اتنا خوش ہوا کہ اُس نے ۴۰۰۰ سال بعد پولس رسول کو عبرانیوں کے نام اپنے خط میں اسکا ذکر کرنے کا الہام دیا۔‏ خدا اتنے عرصے کے بعد بھی اُس معمولی سی قربانی کو نہیں بھولا تھا!‏—‏عبرانیوں ۶:‏۱۰؛‏ ۱۱:‏۴‏۔‏

ہابل نے قربانی کیلئے جانور کیوں دئے؟‏ بائبل اس بات کی وضاحت تو نہیں کرتی لیکن ہابل نے اِسکے بارے میں ضرور سوچا ہوگا کہ خدا کس قسم کی قربانی سے خوش ہوگا۔‏ وہ چروہا تھا،‏ اِسلئے اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُس نے اپنے گلّے سے کچھ جانور قربان کئے۔‏ مگر ذرا اِس بات پر غور کیجئے کہ اُس نے اِن جانوروں کی ’‏چربی‘‏ یعنی اُنکے جسم کے بہترین حصے کو نذر کِیا۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۴‏)‏ شاید ہابل نے اُس بات کے بارے میں بھی سوچا ہو جو یہوواہ خدا نے باغِ‌عدن میں سانپ سے کہی تھی:‏ ”‏مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔‏ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۵؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ ہابل کو یہ تو معلوم نہیں تھا کہ ”‏عورت“‏ اور اُسکی ”‏نسل“‏ کون ہیں۔‏ لیکن شاید اُسکو یہ پتہ تھا کہ جب سانپ عورت کی نسل کی ”‏ایڑی پر کاٹیگا“‏ تو خون بہے گا۔‏ پھر بھی اُسکو اس بات کا علم ضرور تھا کہ ایک جاندار شے سے زیادہ قیمتی اَور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔‏ اِس وجہ سے خدا نے اُسکی قربانی کو خوشی سے قبول کِیا۔‏

آجکل مسیحی بھی ہابل کی طرح خدا کیلئے قربانیاں دیتے ہیں۔‏ وہ جانور کے پہلوٹھوں کو تو قربان نہیں کرتے،‏ البتہ وہ ’‏حمد کی قربانی یعنی اپنے ہونٹوں کا پھل جو اُسکے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کیلئے ہر وقت چڑھایا کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۵‏)‏ اِسکا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ہم دوسروں کیساتھ خدا کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم اپنے ہونٹوں سے اُسکے نام کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔‏ اِسطرح ہم خدا کیلئے قربانی دے سکتے ہیں۔‏

کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا آپکی قربانیوں سے خوش ہو؟‏ قربانی دینے سے پہلے ہابل نے اِس بات پر غور کِیا تھا کہ خدا کس قسم کی قربانی سے خوش ہوگا۔‏ اِسطرح آپکو بھی اُن لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جن سے آپ منادی کے کام میں بات کرتے ہیں۔‏ اُنکو کونسے مسائل کا سامنا ہے؟‏ وہ کن موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں؟‏ وہ بائبل کے پیغام کے کن پہلوؤں کو سننا پسند کرینگے؟‏ لوگوں کو بائبل کا پیغام سنانے کے بعد آپکو اپنی گفتگو کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ آپ اُنکے دلوں تک پہنچنے میں ترقی کر سکیں۔‏ اِسکے علاوہ آپکو یہوواہ کے بارے میں دل سے بات کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ آپ خود بھی ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔‏ اِسطرح آپ اپنی قربانی کو واقعی ”‏حمد کی قربانی“‏ بنانے میں کامیاب ہونگے۔‏

ایک نبی کی ہٹ‌دھرم لوگوں کو منادی

اب حنوک نبی کی مثال پر غور کیجئے۔‏ ممکن ہے کہ اُس زمانے میں حنوک کے علاوہ زمین پر کوئی اَور یہوواہ خدا کا گواہ موجود نہ ہو۔‏ حنوک کی طرح،‏ کیا صرف آپ ہی اپنے خاندان میں وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں؟‏ کیا اپنی جماعت میں یا اپنی ملازمت پر صرف آپ ہی بائبل کے اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو شاید آپکو مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔‏ آپکے دوست،‏ رشتہ‌دار،‏ ہم‌جماعت یا ہم‌پیشہ آپکو یہ کہہ کر خدا کے قوانین توڑنے کیلئے ورغلانے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ ’‏کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ تم نے کیا کِیا ہے اور ہم بھی کسی کو نہیں بتائینگے۔‏‘‏ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’‏خدا تو کسی کی پرواہ ہی نہیں کرتا۔‏ پھر تم اُسکے معیاروں پر پورا اترنے کی کوشش کیوں کر رہے ہو؟‏ یہ بالکل فضول ہے۔‏‘‏ اُنکو یہ بات پسند نہیں کہ آپ انکی بُری سوچ اور حرکتوں میں شامل نہیں ہوتے،‏ اِسلئے وہ آپکو خدا کی مرضی پر چلنے سے روکنا چاہتے ہیں۔‏

بےشک ایسے دباؤ کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن ایسا کرنا ناممکن بھی نہیں ہے۔‏ ذرا حنوک کی مثال پر غور کریں جو آدم کی ساتویں پُشت میں تھا۔‏ (‏یہوداہ ۱۴‏)‏ جب حنوک پیدا ہوا تو زیادہ‌تر لوگ اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا بھول چکے تھے۔‏ انکی بات‌چیت اور حرکتیں بہت بُری تھیں۔‏ وہ سخت ’‏گنہگار اور بیدین‘‏ تھے۔‏ (‏یہوداہ ۱۵‏)‏ حنوک کے زمانے کے لوگوں کا رویہ بالکل آجکل کے لوگوں کے رویے جیسا تھا۔‏

حنوک لوگوں کے بُرے رویے کے باوجود بھی خدا کا وفادار خادم رہنے میں کسطرح کامیاب ہوا؟‏ اِس سوال کا جواب ہمارے لئے بھی اہم ہے۔‏ حالانکہ حنوک پوری دُنیا میں ایسا واحد آدمی تھا جو اُس زمانے میں یہوواہ کی پرستش کر رہا تھا پھر بھی وہ اکیلا نہ تھا۔‏ حنوک خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔‏—‏پیدایش ۵:‏۲۲‏۔‏

حنوک کی زندگی کا مقصد خدا کو خوش کرنا تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ ایسا کرنے کیلئے محض نیک انسان ہونا کافی نہیں ہے۔‏ یہوواہ حنوک سے مُنادی کرنے کی توقع رکھتا تھا۔‏ (‏یہوداہ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ حنوک نے لوگوں کو اِس بات سے آگاہ کِیا کہ خدا اُنکے بُرے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‏ وہ تقریباً ۳۰۰ سال یعنی اپنی موت تک خدا کیساتھ چلتا رہا اور اپنی خدمت میں ثابت‌قدم رہا۔‏ بھلا ہم میں سے کس نے اتنی دیر تک دباؤ اور مسائل کا سامنا کِیا ہے؟‏—‏پیدایش ۵:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

حنوک کی طرح ہمیں بھی مُنادی کرنے کی ذمہ‌داری سونپی گئی ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ہم صرف گھربہ‌گھر جا کر مُنادی نہیں کرتے بلکہ اپنے رشتہ‌داروں،‏ ہم‌جماعتوں اور ہم‌پیشہ لوگوں کو بھی بادشاہی کی خوشخبری سنانا چاہتے ہیں۔‏ مگر کبھی‌کبھار ہم ایسے لوگوں سے بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔‏ اگر آپ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں تو ہمت نہ ہاریں۔‏ قدیم زمانے کے مسیحیوں کی طرح آپ بھی دلیر بننے کیلئے دُعا کر سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۴:‏۲۹‏)‏ اِسکے علاوہ یہ نہ بھولیں کہ جبتک آپ خدا کیساتھ چلینگے وہ آپکو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیگا۔‏

ایک بیوہ کھانا تیار کرتی ہے

ایک بیوہ نے سادہ سا کھانا تیار کِیا جسکی وجہ سے خدا نے اُسکو دو معجزوں کے ذریعے برکت دی۔‏ بائبل میں اِس بیوہ کے نام کا ذِکر تو نہیں ملتا البتہ یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی قوم سے تعلق نہیں رکھتی تھی اور آج سے تقریباً ۲۸۰۰ سال پہلے صارپت کے شہر میں رہتی تھی۔‏ بارش نہ ہونے کی وجہ سے اُس وقت ملک میں قحط تھا۔‏ بیوہ کے پاس کھانے کیلئے مٹھی بھر آٹا اور تھورا سا تیل باقی رہ گیا تھا۔‏ اب وہ اپنے اور اپنے بیٹے کیلئے آخری مرتبہ کھانا پکانا چاہتی تھی جسکے بعد وہ دونوں بھوک کی وجہ سے مرنے پر مجبور تھے۔‏

اتنے میں بیوہ کے گھر ایک مہمان آیا۔‏ یہ خدا کا نبی ایلیاہ تھا۔‏ اُس نے بیوہ سے روٹی کا ایک ٹکڑا مانگا۔‏ لیکن اُس بیچاری کے پاس تو اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ بھرنے کیلئے کافی خوراک نہیں تھی،‏ بھلا وہ ایلیاہ کو روٹی کہاں سے دیتی؟‏ ایلیاہ نے بیوہ کو تسلی دی کہ اگر وہ اُسے روٹی کی ایک ٹکیا دیگی تو یہوواہ اُسکو اور اُسکے بیٹے کو ہرگز بھوک سے مرنے نہیں دیگا۔‏ مگر وہ ایک بیوہ تھی جو اسرائیل کی قوم سے بھی نہیں تھی۔‏ کیا اسرائیل کا خدا اُسکی مدد کرنے کو تیار تھا؟‏ بیوہ نے ایلیاہ کی باتوں پر یقین کِیا اور اُسے کھانے کو کچھ دیا۔‏ اسکی وجہ سے اُسے یہ انعام ملا کہ ”‏خدا کے کلام کے مطابق جو اُس نے ایلیاہ کی معرفت فرمایا تھا نہ تو آٹے کا مٹکا خالی ہوا اور نہ تیل کی کپی میں کمی ہوئی۔‏“‏—‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۸-‏۱۶‏۔‏

لیکن خدا نے بیوہ کو ایک اَور انعام بھی دیا۔‏ پہلے معجزے کے کچھ عرصے بعد اُسکا پیارا بیٹا بیمار ہوا اور مر گیا۔‏ ایلیاہ کو اِس بیچاری پر اتنا ترس آیا کہ اُس نے یہوواہ سے لڑکے کو دوبارہ زندہ کرنے کی فریاد کی۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۱۷-‏۲۴‏)‏ دراصل ایلیاہ خدا سے ایک ایسا کام کرنے کو کہہ رہا تھا جو اُس نے انسانوں کیلئے پہلے کبھی نہیں کِیا تھا۔‏ کیا یہوواہ ایک مرتبہ پھر سے اِس بیوہ پر رحم کریگا؟‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے ایلیاہ کو طاقت دی جسکی بدولت اُس نے لڑکے کو زندہ کِیا۔‏ اِس عورت کو کتنا بڑا شرف حاصل تھا۔‏ صدیوں بعد یسوع نے اِس بات کو واضح کرنے کیلئے کہا:‏ ”‏بہت سی بیوائیں اسرائیل میں تھیں۔‏ لیکن ایلیاہ اُن میں سے کسی کے پاس نہ بھیجا گیا مگر ملکِ‌صیدا کے شہر صارپت میں ایک بیوہ کے پاس۔‏“‏—‏لوقا ۴:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

اس واقعہ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ آج پوری دنیا کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔‏ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے پُرانے سے پُرانے ملازموں کو بھی کام سے نکال رہی ہیں۔‏ ایک مسیحی بھی اِس ڈر سے کہ کہیں وہ کام سے نکال نہ دیا جائے شاید روزانہ دیر تک کام کرتا رہے۔‏ لیکن اگر وہ ایسا کریگا تو اُسکے پاس مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے،‏ مُنادی کے کام میں حصہ لینے،‏ اپنے خاندان کیساتھ وقت گزارنے اور اُنکی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کم وقت باقی رہیگا۔‏ تاہم،‏ وہ ان تمام باتوں کے باوجود ملازمت جاری رکھنے کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہے۔‏

جب ایک مسیحی کو اسطرح کی صورتحال کا سامنا ہو تو وہ فکر میں پڑ سکتا ہے اور فکر کرنا غلط بھی نہیں ہے۔‏ آجکل ملازمت تلاش کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔‏ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم امیر ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہے لیکن اُس بیوہ کی طرح صرف اپنی روزمرّہ ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔‏ پھر بھی پولس رسول ہمیں خدا کے اِس وعدے کو یاد دلاتا ہے کہ ”‏مَیں تجھ سے ہرگز دست‌بردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔‏“‏ اس وجہ سے ہم دلیری کیساتھ کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏خداوند میرا مددگار ہے۔‏ مَیں خوف نہ کرونگا۔‏ انسان میرا کیا کریگا؟‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ پولس کو معلوم تھا کہ خدا اپنا یہ وعدہ ضرور پورا کریگا۔‏ اُسکی زندگی اِس بات کی ضمانت تھی کہ یہوواہ نے اُسے کبھی مایوس نہیں کِیا۔‏ اِسی طرح اگر ہم خدا کو نہیں چھوڑینگے تو وہ ہماری بھی دیکھ‌بھال کریگا۔‏

شاید ہم سوچتے ہیں کہ ہم موسیٰ،‏ جدعون یا داؤد جیسے کام نہیں کر سکتے۔‏ البتہ ہم اُن جیسے ایمان‌دار ضرور بن سکتے ہیں۔‏ ہم یہ بھی یاد رکھ سکتے ہیں کہ ہابل،‏ حنوک اور اُس بیوہ نے کوئی بڑے کام سرانجام نہیں دئیے۔‏ لیکن اگر ہم اُنکی طرح ایمان کی بنیاد پر کوئی معمولی سا کام بھی کرتے ہیں تو یہ یہوواہ کے علم میں ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب ضعیف بہن‌بھائی کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کرنے کے باوجود باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں یا جب ایک نوجوان منشیات لینے سے انکار کرتا ہے یا پھر جب ایک مسیحی اپنی ملازمت پر ورغلائے جانے کے باوجود بھی زناکاری نہیں کرتا تو یہوواہ ایسے کاموں سے بہت خوش ہوتا ہے۔‏—‏امثال  ۲۷:‏۱۱۔‏

کیا آپ دوسروں کی کوششوں میں دلچسپی لیتے ہیں؟‏

جی‌ہاں،‏ یہوواہ ہمارے کاموں میں دلچسپی لیتا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ہمیں خدا کی مانند بننا چاہئے۔‏ اِسلئے ہمیں بھی دوسروں کی کوششوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱‏)‏ ہم انکے بارے میں غور کر سکتے ہیں کہ وہ اجلاسوں پر حاضر ہونے،‏ مُنادی کے کام میں حصہ لینے یا پھر روزمرّہ زندگی گزارنے میں کن کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔‏

پھر ہمیں اپنے بہن بھائیوں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ہم اُنکی کوششوں کی قدر کرتے ہیں۔‏ وہ یہ سن کر بہت خوش ہونگے۔‏ اِسطرح اُنکو یہ احساس ہوگا کہ اگر آپ نے انکی کوششوں میں دلچسپی لی ہے تو یہوواہ بھی ضرور ایسا کریگا۔‏