طاطیان—موئید یا بدعتی؟
طاطیان—موئید یا بدعتی؟
اپنے تیسرے مشنری دورے کے اختتام پر، پولس رسول نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کا اجلاس بلایا۔ اُس نے اُنہیں بتایا: ”مَیں یہ جانتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد پھاڑنے والے بھیڑئے تم میں آئینگے جنہیں گلّہ پر کچھ ترس نہ آئیگا۔ اور خود تم میں سے ایسے آدمی اُٹھینگے جو الٹی الٹی باتیں کہینگے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔“—اعمال ۲۰:۲۹، ۳۰۔
پولس کے الفاظ کی مطابقت میں، دوسری صدی تبدیلی اور پہلے سے بتائی گئی برگشتگی کا وقت ثابت ہوا۔ غناسطیت ایک وسیع مذہب اور فلسفی تحریک تھی جو بعض ایمانداروں کے ایمان کو آلودہ کرتے ہوئے بہت زور پکڑ گئی۔ غناسطی یہ ایمان رکھتے تھے کہ صرف روحانی چیزیں ہی اچھی ہیں باقی سب کچھ بدی ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جسم بدی ہے وہ شادی اور اولاد پیدا کرنے سے منع کرتے تھے اور اُنکا دعویٰ تھا کہ یہ سب چیزیں شیطان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن میں سے بعض کا خیال تھا کہ صرف روحانی چیزیں ہی اچھی ہونے کی وجہ سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اپنے بدن سے کیا کرتے ہیں۔ ایسے نظریات تنپروری یا رہبانیت جیسے انتہاپسند طرزِزندگی پر منتج ہوئے۔ غناسطیوں کا دعویٰ ہے کہ نجات صرف پُراسرار غناسطیت یا خودعلمی سے حاصل ہوتی ہے اور یوں خدا کے کلام کی سچائی کیلئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اقبالی مسیحیوں نے غناسطیت کے خطرے کیلئے کیسا جوابیعمل دکھایا؟ بعض صاحبِعلم اشخاص خطا کے عقیدے کے خلاف تھے جبکہ دیگر اسکے اثر سے مغلوب تھے۔ مثال کے طور پر ایرینیس زندگیبھر بدعتی تعلیمات کے خلاف لڑتا رہا۔ اُس نے پولیکارپ سے تعلیم پائی تھی جسکا رسولوں سے براہِراست تعلق تھا۔ پولیکارپ نے یسوع مسیح اور اُس کے رسولوں کی تعلیمات پر سختی سے عمل کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم، ایک ہی سرپرست کے زیرِہدایت تعلیم پانے کے باوجود، ایرینیس کا دوست فلورینس غناسطی تحریک کے اہم پیشوا ویلنٹینس کی تعلیمات کا پیرو ہو گیا۔ یہ واقعی بحرانی وقت تھا۔
دوسری صدی کے مشہور مصنف طاطیان کی تحریریں اُس وقت کے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ طاطیان کس قسم کا شخص تھا؟ وہ کیسے اقبالی مسیحی بن گیا؟ نیز طاطیان نے غناسطی بدعت کے اثر کا مقابلہ کیسے کِیا؟ اُسکے سازشی ساتھی اور اُسکا اپنا نمونہ آجکل سچائی کے متلاشیوں کیلئے قیمتی اسباق فراہم کرتے ہیں۔
”چند بربری تحریروں“ کا سامنا کرنا
طاطیان شام کا باشندہ تھا۔ بہت زیادہ سفر اور مطالعے نے اُسے اپنے زمانے کی یونانی اور رومی تہذیب کی بابت کافی علم بخشا تھا۔ طاطیان فنِخطابت میں ماہر سیاح کے طور پر روم آیا تھا۔ تاہم، جب وہ روم میں ہی تھا تو اُسکی توجہ مسیحیت کی طرف مبذول ہو گئی تھی۔ اُس نے جسٹن مارٹر کے ساتھ رفاقت رکھنا شروع کر دی اور شاید اُسکا شاگرد بن گیا۔
نامنہاد مسیحیت میں اپنی بتدیلی کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے، طاطیان بیان کرتا ہے: ”مَیں سخت کوشاں تھا کہ شاید سچائی دریافت کر لوں۔“ جب اُسے صحائف کا علم حاصل ہوا تو اپنے ذاتی تجربے پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ”مجھے چند بربری تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا، جنکا موازنہ یونانی اعتقادات کیساتھ کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ بہت اعلیٰ اور خطا سے پاک تھیں، لہٰذا مَیں نے سلیس زبان، مصنفوں کے سچے کرداروں، مستقبل کے واقعات کی بابت علم، واضح سمجھ اور ایک ہی ہستی کو کائنات کا حکمران قرار دینے کی وجہ سے ان پر ایمان لانے میں کوئی تاخیر نہ کی۔“
طاطیان نے اپنے ہمعصروں کو اپنے زمانے کی مسیحیت کا جائزہ لینے اور بُتپرستی کی تاریکی کے برعکس اسکی سادگی اور فصاحت کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتے وقت کسی قسم کی جھجھک محسوس نہ کی۔ اُسکی تحریروں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
اُسکی تحریریں کیا آشکاراکرتی ہیں؟
طاطیان کی تحریریں اُسے ایک موئید کے طور پر پیش کرتی ہیں، ایک ایسا مصنف جو اپنے ایمان کے دفاع میں کلام کرتا ہے۔ وہ مُلحدانہ فیلسوفی کی بابت سخت اور حریفانہ میلان رکھتا تھا۔ اپنی کتاب ایڈریس ٹو دی گریکس میں طاطیان بتپرستی کی بطالت اور نامنہاد مسیحیت کی نامعقولیت کو نمایاں کرتا ہے۔ یونانی طورطریقوں کی تحقیر کرتے وقت اُسکا انداز بڑا سخت ہے۔ مثال کے طور پر، فلاسفر ہیراکلاتس کے حوالے سے وہ بیان کرتا ہے: ”تاہم، موت نے اس شخص کی حماقت کو ظاہر کر دیا؛ کیونکہ طب اور فلسفے کا مطالعہ کرنے کے باوجود جلندھر کے مرض میں اُس نے گائے کے گوبر کا پلستر لگا لیا اور جوں جوں وہ سخت ہوتا گیا اُسکے پورے جسم کا گوشت سکڑتا گیا اور بالآخر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مر گیا۔“
طاطیان سب چیزوں کے خالق واحد خدا پر ایمان کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ (عبرانیوں ۳:۴) اپنی کتاب ایڈریس ٹو دی گریکس میں وہ خدا کا ذکر ”ایک روح“ کے طور پر کرتے ہوئے کہتا ہے: ”صرف وہی ازل سے ہے اور وہی تمام چیزوں کا شروع ہے۔“ (یوحنا ۴:۲۴؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۷) عبادت میں بتوں کی پرستش کو غلط قرار دیتے ہوئے طاطیان نے لکھا: ”مَیں کیسے کسی درخت کی لکڑی اور پتھروں کو خدا کہہ سکتا ہوں؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۴) اُسکا ایمان تھا کہ کلام یا لوگوس آسمانی باپ کی کاریگری کا پہلا یا پہلوٹھا وجود تھا اور اسکے بعد اُسے مادی کائنات کی تخلیق میں استعمال کِیا گیا تھا۔ (یوحنا ۱:۱-۳؛ کلسیوں ۱:۱۳-۱۷) مقررہ وقت پر قیامت کی بابت طاطیان نے بیان کِیا: ”ہمارا ایمان ہے کہ سب چیزوں کے ختم ہو جانے کے بعد ہمارے جسم زندہ کئے جائینگے۔“ ہم کیوں مرتے ہیں اسکی بابت طاطیان لکھتا ہے: ”ہمیں مرنے کیلئے خلق نہیں کِیا گیا تھا لیکن ہم اپنی کی غلطی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ ہماری آزاد مرضی نے ہمیں تباہوبرباد کِیا ہے؛ کیونکہ ہم گُناہ کے غلام ہو گئے ہیں۔“
جان کی بابت طاطیان جو وضاحت پیش کرتا ہے وہ قدرے پریشانکُن ہے۔ وہ کہتا ہے: ”اَے یونانیو، جان بذاتِخود غیرفانی نہیں بلکہ فانی ہے۔ تاہم اس کیلئے کبھی نہ مرنا ممکن ہے۔ لیکن اگر یہ مر جاتی ہے تو یہ نہیں جانتی کہ مر گئی ہے اور بدن کیساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے مگر یہ دُنیا کے آخر پر پھر بدن کیساتھ زندہ ہو جاتی اور غیرفانیت کی صورت میں سزا کے طور پر موت پاتی ہے۔“ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ طاطیان کا ان الفاظ سے کیا مطلب تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بائبل کی بعض تعلیمات کیساتھ موافقت رکھتے ہوئے اُس نے اپنے ہمعصروں کو خوش کرنے کیلئے صحیفائی سچائیوں کو مُلحدانہ فلسفے کیساتھ خلطملط کر دیا ہو؟
طاطیان کی ایک اَور مشہور کتاب ڈایاٹسرون یا ہارمونی آف دی فور گاسپلز ہے۔ طاطیان پہلا شخص تھا جس نے شام کی کلیسیاؤں کو اُنکی زبان میں اناجیل فراہم کیں۔ چاروں اناجیل کو ایک ہی راوی کے ذریعے بیان کرنا واقعی ایک بڑا کام تھا۔ اسے شام کے چرچ نے استعمال کِیا۔
ایک مسیحی یا ایک بدعتی؟
طاطیان کی تحریروں کے بغور مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صحائف سے بخوبی واقف تھا اور اُنکا بہت احترام کرتا تھا۔ وہ اپنی ذات پر صحائف کے اثرورُسوخ کی بابت لکھتا ہے: ”مَیں دولتمند بننے کا خواہاں نہیں؛ مَیں فوجی حکم ماننے سے انکار کرتا ہوں؛ مَیں حرامکاری سے نفرت کرتا ہوں؛ مَیں مادی حاصلات کیلئے سات سمندر پار جانے کو تیار نہیں؛ . . . مجھے شہرت کی طلب نہیں؛ . . . سب کیلئے ایک ہی سورج اور ایک ہی موت ہے خواہ وہ دولتمند ہیں یا نادار۔“ طاطیان تاکید کرتا ہے: دُنیا کے پاگلپن کی نفی کرتے ہوئے جان دے دو۔ خدا کیلئے زندہ رہو اور اُس کی فرمانبرداری میں پُرانی انسانیت کو اُتار ڈالو۔“—متی ۵:۴۵؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۱۸؛ ۱-تیمتھیس ۶:۱۰۔
تاہم طاطیان کی کتاب بعنوان آن پرفیکشن ایکورڈنگ ٹو دی ڈاکٹرین آف دی سیوئر پر غور کریں۔ اس کتاب میں وہ شادی کو اِبلیس سے منسوب کرتا ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لوگ شادی کے ذریعے اپنے آپکو فانی دُنیا سے جوڑ رہے ہونگے لہٰذا طاطیان اسکی شدید مذمت کرتا ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ۱۶۶ س.ع. میں جسٹن مارٹر کی وفات کے بعد، طاطیان نے یا تو اینکراٹائٹس نامی تارکاُلدنیا فرقے کی بنیاد رکھی یا اس سے الحاق کر لیا۔ اس کے پیرو سخت ضبطِنفس اور اپنے بدن پر قابو رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ وہ شراب، شادی اور مادی حاصلات سے پرہیز کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔
ایک اہم سبق
طاطیان صحائف سے اتنا دُور کیسے چلا گیا؟ کیا وہ ’سُن کر بھولنے والا بن‘ گیا تھا؟ (یعقوب ۱:۲۳-۲۵) کیا طاطیان جھوٹی کہانیوں کو رد کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے انسانی فیلسوفی کا شکار ہو گیا تھا؟ (کلسیوں ۲:۸؛ ۱-تیمتھیس ۴:۷) جن غلطیوں کا اُس نے ذکر کِیا چونکہ وہ اتنی زیادہ تھیں تو کیا کسی ذہنی اختلال کا اندیشہ ہو سکتا ہے؟
صورتحال خواہ کچھ بھی ہو، طاطیان کی تحریریں اور نمونہ اُسکے زمانے کے مذہب کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی فیلسوفی کا اثر کتنا تباہکُن ثابت ہو سکتا ہے۔ دُعا ہے کہ ہم پولس رسول کی اِس آگاہی پر دھیان دیں کہ ”جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے اس کی بیہودہ بکواس اور مخالفت پر توجہ نہ کر۔“—۱-تیمتھیس ۶:۲۰۔