مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیح کلیسیاؤں سے ہمکلام ہوتا ہے

مسیح کلیسیاؤں سے ہمکلام ہوتا ہے

مسیح کلیسیاؤں سے ہمکلام ہوتا ہے

‏”‏جو اپنے دہنے ہاتھ میں ستارے لئے ہوئے ہے .‏ .‏ .‏ وہ یہ فرماتا ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲:‏۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہمیں ایشیائےکوچک کی سات کلیسیاؤں کیلئے مسیح کے پیغام میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟‏

یہوواہ کا اکلوتا بیٹا یسوع مسیح مسیحی کلیسیا کا سردار ہے۔‏ اپنے ممسوح پیروکاروں کی کلیسیا کو پاک رکھنے کیلئے مسیح اُنکی تعریف اور اصلاح کرنے سے اپنی سرداری کو عمل میں لاتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۱-‏۲۷‏)‏ اسکی مثالیں مکاشفہ ۲ اور ۳ ابواب میں ملتی ہیں جہاں ہمیں ایشیائےکوچک کی سات کلیسیاؤں کے نام یسوع کے پُرزور اور مشفقانہ پیغامات ملتے ہیں۔‏

۲ سات کلیسیاؤں کے نام یسوع کے پیغامات سننے سے پہلے یوحنا رسول کو ”‏خداوند کے دن“‏ کی رویا دی گئی تھی۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۰‏)‏ وہ ”‏دن“‏ مسیحائی بادشاہت کے قیام کے ساتھ ۱۹۱۴ میں شروع ہوا تھا۔‏ لہٰذا کلیسیاؤں کے لئے یسوع کا پیغام ان آخری ایّام کے لئے گرانقدر ہے۔‏ اُسکی حوصلہ‌افزائی اور نصیحت ان بُرے دنوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏۔‏

۳.‏ یوحنا رسول کو دکھائی دینے والے ’‏ستاروں،‏‘‏ ’‏فرشتوں‘‏ اور ’‏سونے کے چراغدانوں‘‏ کے علامتی مفہوم کِیا ہیں؟‏

۳ یوحنا نے جلالی یسوع مسیح کو ”‏اپنے دہنے ہاتھ میں ستارے لئے ہوئے“‏ اور ”‏سونے کے ساتوں چراغدانوں“‏ یعنی کلیسیاؤں میں پھرتے ہوئے دیکھا۔‏ ”‏ستارے“‏ درحقیقت ”‏سات کلیسیاؤں کے فرشتے ہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۲۰؛‏ ۲:‏۱‏)‏ ستارے بعض‌اوقات روحانی مخلوق،‏ فرشتوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن مسیح روحانی مخلوقات کے نام پیغامات درج کرنے کیلئے کسی انسان کو استعمال نہیں کریگا۔‏ لہٰذا یہ ”‏ستارے“‏ منطقی طور پر روح سے مسح‌شُدہ نگہبانوں یا بزرگوں کی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ اصطلاح ”‏فرشتے“‏ بطور پیامبر اُنکے کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔‏ خدا کی تنظیم کی ترقی کی وجہ سے ’‏دیانتدار داروغہ‘‏ نے یسوع کی ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ میں سے بھی لائق اشخاص کو نگہبانوں کے طور پر مقرر کِیا ہے۔‏—‏لوقا ۱۲:‏۴۲-‏۴۴؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏۔‏

۴.‏ بزرگ کلیسیاؤں کے نام مسیح کے پیغام پر دھیان دینے سے کیا فائدہ حاصل کرتے ہیں؟‏

۴ ‏”‏ستارے“‏ یسوع کے دہنے ہاتھ میں ہیں جو دراصل اُسکے اختیار،‏ مقبولیت اور تحفظ میں ہونے کی علامت ہے۔‏ لہٰذا یہ اُسکے حضور جوابدہ ہیں۔‏ ساتوں کلیسیاؤں کے نام اُسکے پیغام پر دھیان دینے سے زمانۂ‌جدید کے بزرگ ویسے ہی حالات سے نپٹنا سیکھ سکتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ تمام مسیحیوں کو خدا کے بیٹے کی بات سننے کی ضرورت ہے۔‏ (‏مرقس ۹:‏۷‏)‏ لہٰذا جب مسیح کلیسیاؤں سے ہمکلام ہوتا ہے تو اس پر دھیان دینے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

افسس کے فرشتے کے نام

۵.‏ افسس کیسا شہر تھا؟‏

۵ یسوع نے افسس کی کلیسیا کو شاباش دینے کے علاوہ اسے تنبیہ بھی  کی۔‏ (‏پڑھیں مکاشفہ ۲:‏۱-‏۷‏)‏ ایشیائےکوچک کے مغربی ساحل پر واقع اس دولتمند تجارتی اور مذہبی مرکز میں ارتمس دیوی کا عالیشان مندر تھا۔‏ اگرچہ افسس بداخلاقی،‏ جھوٹے مذہب اور جادوگری سے پُر تھا توبھی خدا نے اس شہر میں پولس رسول اور دیگر اشخاص کی خدمتگزاری کو برکت دی تھی۔‏—‏اعمال ۱۹ باب۔‏

۶.‏ آجکل کے وفادار مسیحی قدیم افسس کے مسیحیوں کی طرح کیسے ہیں؟‏

۶ مسیح نے افسس کی کلیسیا کو شاباش دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں تیرے کام اور تیری مشقت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تُو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا اور جو اپنے آپ کو رسول کہتے ہیں اور ہیں نہیں تُو نے اُنکو آزما کر جھوٹا پایا۔‏“‏ آجکل،‏ یسوع کے سچے شاگردوں کی کلیسیائیں نیک کاموں،‏ محنت اور برداشت کا ایسا ہی ریکارڈ رکھتی ہیں۔‏ وہ برگشتہ بھائیوں کے فریب میں نہیں آتیں جنکی خواہش ہے کہ دوسرے اُنہیں رسول خیال کریں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱۳،‏ ۲۶‏)‏ افسس کے لوگوں کی طرح،‏ آجکل کے وفادار مسیحی بھی ”‏بدوں کو دیکھ نہیں“‏ سکتے۔‏ لہٰذا یہوواہ کی پرستش کی پاکیزگی کو برقرار اور کلیسیا کو محفوظ رکھنے کیلئے وہ غیرتائب برگشتہ لوگوں کیساتھ رفاقت نہیں رکھتے۔‏—‏گلتیوں ۲:‏۴،‏ ۵؛‏ ۲-‏یوحنا ۸-‏۱۱‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ افسس کی کلیسیا میں کونسا سنگین مسئلہ موجود تھا اور ہم ایسی صورتحال کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۷ تاہم،‏ افسس کے مسیحیوں کو ایک سنگین مسئلہ درپیش تھا۔‏ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏مجھ کو تجھ سے یہ شکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی محبت چھوڑ دی۔‏“‏ کلیسیا کے ارکان کو یہوواہ کیلئے اپنی پہلی سی محبت کو دوبارہ بیدار کرنا تھا۔‏ (‏مرقس ۱۲:‏۲۸-‏۳۰؛‏ افسیوں ۲:‏۴؛‏ ۵:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہمیں بھی خدا کیلئے اپنی پہلی سی محبت کھونے کی بابت خبردار رہنا چاہئے۔‏ (‏۳-‏یوحنا ۳‏)‏ تاہم،‏ اگر مادی دولت یا تفریح کی جستجو جیسی خواہشات ہماری زندگیوں کا مرکز بننے لگیں تو پھر کیا ہو؟‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸؛‏ ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ ایسی صورتحال میں ہمیں ایسے رُجحانات کی جگہ یہوواہ کیلئے گہری محبت اور ہمارے لئے اُس کے اور اُس کے بیٹے کے تمام کاموں کے لئے شکرگزاری پیدا کرنے میں خدا سے مدد کیلئے خلوصدلی سے دُعا کرنی چاہئے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۴:‏۱۰،‏ ۱۶‏۔‏

۸ مسیح نے افسس کے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏خیال کر کہ تُو کہاں سے گرا ہے اور توبہ کرکے پہلے کی طرح کام کر۔‏“‏ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر کیا ہوتا؟‏ ”‏اگر تُو تَوبہ نہ کریگا،‏“‏ یسوع نے بیان کِیا،‏ ”‏تو مَیں تیرے پاس آکر تیرے چراغدان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دونگا۔‏“‏ اگر تمام بھیڑیں اپنی پہلی سی محبت کھو دیتیں تو ”‏چراغدان“‏ یا کلیسیا کا وجود مٹ جاتا۔‏ سرگرم مسیحیوں کے طور پر دُعا ہے کہ ہم کلیسیا کو روحانی طور پر روشن رکھنے کیلئے سخت محنت کریں۔‏—‏متی ۵:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

۹.‏ فرقہ‌واریت کو کیسا خیال کِیا جانا چاہئے؟‏

۹ قابلِ‌تعریف بات ہے کہ افسس کے لوگ ”‏نیکلیوں کے کاموں سے نفرت“‏ رکھتے تھے۔‏ مکاشفہ کے بیان کے علاوہ اس فرقے کی ابتدا،‏ تعلیمات اور رسومات کی بابت کوئی ٹھوس بیان نہیں ملتا۔‏ چونکہ یسوع نے انسانوں کی پیروی کرنے کی ملامت کی لہٰذا ہمیں بھی افسس کے مسیحیوں کی طرح فرقہ‌واریت سے نفرت کرتے رہنا چاہئے۔‏—‏متی ۲۳:‏۱۰‏۔‏

۱۰.‏ روح کی بات پر دھیان دینے والے کس بات کا تجربہ کرینگے؟‏

۱۰ مسیح نے بیان کِیا،‏ ”‏جسکے کان ہوں وہ سنے کہ روح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔‏“‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے خدا کی روح کے زیرِاثر کلام کِیا۔‏ (‏یسعیاہ ۶۱:‏۱؛‏ لوقا ۴:‏۱۶-‏۲۱‏)‏ لہٰذا ہمیں خدا کی باتوں پر دھیان دینا چاہئے جو وہ روح‌القدس کے ذریعے اپنے بیٹے کی معرفت آجکل بیان کرتا ہے۔‏ روح کی راہنمائی کے تحت یسوع نے وعدہ کِیا تھا:‏ ”‏جو غالب آئے مَیں اُسے اُس زندگی کے درخت میں سے جو خدا کے فردوس میں ہے پھل کھانے کو دُونگا۔‏“‏ روح کی بات پر دھیان دینے والے ممسوح مسیحیوں کیلئے اسکا مطلب آسمان پر ”‏خدا کے فردوس“‏ یا یہوواہ کی موجودگی میں غیرفانی زندگی ہے۔‏ ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے لوگ بھی جو روح کی بات سنتے ہیں زمینی فردوس سے مستفید ہونگے جہاں وہ ’‏آبِ‌حیات کے ایک دریا‘‏ میں سے پئیں گے اور اسکے کنارے لگے ”‏درخت کے پتوں“‏ سے شفا حاصل کرینگے۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ ۲۲:‏۱،‏ ۲؛‏ لوقا ۲۳:‏۴۳‏۔‏

۱۱.‏ ہم یہوواہ کیلئے محبت کو کیسے ترقی دے سکتے ہیں؟‏

۱۱ افسس کے لوگ اپنی پہلی سی محبت کھو چکے تھے اور اگر آجکل کی کلیسیا میں بھی صورتحال ایسی ہی ہو تو پھر کیا ہو؟‏ آئیے انفرادی طور پر یہوواہ کی پُرمحبت راہوں کی بابت بات‌چیت کرنے سے اُس کیلئے اپنی محبت کو بڑھائیں۔‏ خدا نے اپنے پیارے بیٹے کے ذریعے فدیے کی فراہمی سے جو محبت ظاہر کی ہے ہم اُس کیلئے شکرگزاری ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ رومیوں ۵:‏۸‏)‏ جب بھی مناسب ہو تو ہم اپنے تبصروں اور اجلاسوں کے حصوں میں خدا کی محبت کا ذکر کر سکتے ہیں۔‏ ہم مسیحی خدمتگزاری میں یہوواہ کے نام کی ستائش کرنے سے اُس کیلئے اپنی محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمارے اقوال‌وافعال کلیسیا کی پہلی جیسی محبت کو دوبارہ بیدار کرنے یا مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‏

سمرنہ کے فرشتے کے نام

۱۲.‏ سمرنہ اور اسکی مذہبی رسومات کی بابت تاریخ کیا ظاہر کرتی ہے؟‏

۱۲ مسیح ”‏اوّل‌وآخر .‏ .‏ .‏ جو مر گیا تھا“‏ اور قیامت کے ذریعے ”‏زندہ ہوا“‏ سمرنہ کی کلیسیا کو شاباش دیتا ہے۔‏ (‏پڑھیں مکاشفہ ۲:‏۸-‏۱۱‏)‏ سمرنہ (‏موجودہ ازمر،‏ ترکی)‏ ایشیائےکوچک کے مغربی ساحل پر واقع تھا۔‏ یونانیوں نے اس شہر کو آباد کِیا لیکن لدیہ کے لوگوں نے تقریباً ۵۸۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں اسے تباہ کر دیا تھا۔‏ سکندرِاعظم کے جانشینوں نے ایک نئے مقام پر سمرنہ کو دوبارہ تعمیر کِیا۔‏ یہ آسیہ کے رومی صوبے کا حصہ اور عالیشان عوامی عمارتوں پر مشتمل ایک مشہور تجارتی شہر بن گیا تھا۔‏ یہاں پر واقع تبریس قیصر کے مندر نے اسے بادشاہ کی پرستش کا مرکز بنا دیا تھا۔‏ پرستاروں کو ایک چٹکی بخور جلا کر کہنا پڑتا تھا کہ ”‏قیصر خداوند ہے۔‏“‏ مسیحی اس حکم کی اطاعت نہیں کر سکتے تھے اسلئےکہ اُن کیلئے ’‏یسوع خداوند‘‏ ہے۔‏ لہٰذا اُنہیں اذیت برداشت کرنی پڑی۔‏—‏رومیوں ۱۰:‏۹‏۔‏

۱۳.‏ مادی لحاظ سے غریب ہونے کے باوجود سمرنہ کے مسیحی کس لحاظ سے دولتمند تھے؟‏

۱۳ اذیت کے علاوہ سمرنہ کے مسیحیوں کو بادشاہ کی پرستش میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ممکنہ طور پر معاشی پابندیوں اور غربت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔‏ زمانۂ‌جدید کے یہوواہ کے خادم ایسی آزمائشوں سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ مادی لحاظ سے غریب ہونے کے باوجود سمرنہ کے مسیحیوں کی طرح کے لوگ روحانی طور پر دولتمند ہیں اور یہی بات اہمیت کی حامل ہے!‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲؛‏ ۳-‏یوحنا ۲‏۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ ممسوح مسیحی مکاشفہ ۲:‏۱۰ سے کیا تسلی حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ سمرنہ کے بہتیرے یہودی ”‏شیطان کی جماعت“‏ کا حصہ تھے کیونکہ وہ غیرصحیفائی رسومات کی پیروی کرتے تھے،‏ اُنہوں نے خدا کے بیٹے کو رد کِیا تھا اور اُسکے ممسوح شاگردوں کی بےحرمتی کی تھی۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ تاہم،‏ ممسوح اشخاص مسیح کے اگلے الفاظ سے کیا تسلی حاصل کر سکتے ہیں!‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏جو دُکھ تجھے سہنے ہونگے اُن سے خوف نہ کر۔‏ دیکھو ابلیس تم میں سے بعض کو قید میں ڈالنے کو ہے تاکہ تمہاری آزمایش ہو اور دس دن تک مصیبت اُٹھاؤ گے۔‏ جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تجھے زندگی کا تاج دونگا۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲:‏۱۰‏۔‏

۱۵ یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے کیلئے یسوع موت کا سامنا کرنے سے بھی نہیں ڈرا تھا۔‏ (‏فلپیوں ۲:‏۵-‏۸‏)‏ اگرچہ شیطان اس وقت ممسوح بقیے کیساتھ جنگ کر رہا ہے توبھی وہ اجتماعی طور پر آزمائش،‏ قید یا پُرتشدد موت جیسے حالات کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷‏)‏ وہ دُنیا پر غالب آئینگے۔‏ نیز بُت‌پرستانہ کھیلوں میں فاتح کے تاج کے طور پر پہنے جانے والے پھولوں کے ہار کی بجائے جوکہ مُرجھا جاتا ہے،‏ مسیح قیامت‌یافتہ ممسوحوں کو آسمان میں غیرفانی مخلوقات کے طور پر ”‏زندگی کا تاج“‏ دینے کا وعدہ کرتا ہے۔‏ کیا ہی انمول بخشش!‏

۱۶.‏ اگر ہم قدیم سمرنہ جیسی کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھتے ہیں تو ہماری توجہ کس معاملے پر مرکوز رہنی چاہئے؟‏

۱۶ خواہ ہماری اُمید آسمانی ہو یا زمینی،‏ اگر ہم قدیم سمرنہ جیسی کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں تو پھر کیا ہو؟‏ ایسی صورتحال میں آئیے اس اہم وجہ پر توجہ مرکوز رکھنے میں ساتھی ایمانداروں کی مدد کریں کہ خدا اذیت کی اجازت کیوں دیتا ہے۔‏ اسکی وجہ عالمگیر حاکمیت کا مسئلہ ہے۔‏ یہوواہ کا راستی برقرار رکھنے والا ہر گواہ شیطان کو جھوٹا ثابت کرکے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اذیت برداشت کرنے والا انسان بھی حاکمِ‌علیٰ کے طور پر خدا کی حکمرانی کے صحیح ہونے کا پُرعزم حمایتی ہو سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ آئیے اذیت برداشت کرنے میں دیگر مسیحیوں کی بھی حوصلہ‌افزائی کریں تاکہ وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے حضور پاکیزگی اور راستبازی سے عمربھر بےخوف ہو کر اس کی عبادت“‏ کرتے رہیں۔‏—‏لوقا ۱:‏۶۸،‏ ۶۹،‏ ۷۴،‏ ۷۵‏۔‏

پرگمن کے فرشتے کے نام

۱۷،‏ ۱۸.‏ پرگمن کیسی پرستش کا مرکز تھا اور ایسی بُت‌پرستی میں حصہ لینے سے انکار کس چیز پر منتج ہو سکتا تھا؟‏

۱۷ پرگمن کی کلیسیا کو شاباش بھی دی گئی اور اس کی اصلاح بھی کی گئی۔‏ (‏پڑھیں مکاشفہ ۲:‏۱۲-‏۱۷‏۔‏)‏ سمرنہ کے شمال میں تقریباً ۵۰ میل پر واقع پرگمن بُت‌پرستی کا گڑھ تھا۔‏ کسدی مجوسی (‏نجومی)‏ غالباً بابل سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔‏ بہت سے بیمار لوگ شفا حاصل کرنے کیلئے پرگمن میں ایس‌کلےپس دیوتا کے مشہور مندر پر آیا کرتے تھے۔‏ قیصر اگوستُس کی پرستش کیلئے مخصوص مندروں کے شہر پرگمن کو ”‏ابتدائی شہنشاہیت میں بادشاہوں کی پرستش کا بنیادی مرکز“‏ کہا جاتا تھا۔‏—‏انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا،‏ ۱۹۵۹،‏ جِلد ۱۷،‏ صفحہ ۵۰۷۔‏

۱۸ پرگمن میں ایک قربانگاہ زیوس کیلئے بھی مخصوص تھی۔‏ یہ شہر انسانوں کی پرستش کرانے والی شیاطینی رسم کا بھی مرکز تھا۔‏ پس حیرانی کی بات نہیں کہ وہاں کی کلیسیا کے مقام کو ”‏شیطان کی تخت‌گاہ“‏ کہا گیا تھا!‏ شہنشاہ کی پرستش سے انکار یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے والے ایک شخص کیلئے موت پر منتج ہو سکتا تھا۔‏ دُنیا اب بھی ابلیس کے اختیار میں ہے اور اس وقت قومی علامات کی تعظیم کی جاتی ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ پہلی صدی سے لیکر موجودہ زمانے تک بہتیرے ایماندار مسیحیوں کو اُس شخص کی طرح شہید کِیا جا چکا ہے جسکی بابت مسیح نے بیان کِیا تھا کہ ”‏میرا وفادار شہید اِنتپاس تم میں .‏ .‏ .‏ قتل ہوا تھا۔‏“‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح یقیناً ایسے وفادار خادموں کو یاد رکھتے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۲۱‏۔‏

۱۹.‏ بلعام نے کیا کِیا اور تمام مسیحیوں کو کس چیز سے خبردار رہنا چاہئے؟‏

۱۹ مسیح نے ”‏بلعام کی تعلیم“‏ کا بھی ذکر کِیا تھا۔‏ جھوٹے نبی بلعام نے مادی حاصلات کے لالچ کی وجہ سے اسرائیل پر لعنت کرنے کی کوشش کی تھی۔‏ جب خدا نے اُسکی برکت کو لعنت میں بدل دیا تو بلعام نے موآبی بادشاہ بلق کیساتھ ملکر بہتیرے اسرائیلیوں کو بُت‌پرستی اور جنسی بداخلاقی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔‏ مسیحی بزرگوں کو بھی فینحاس کی طرح راستی کیلئے ثابت‌قدم رہنے کی ضرورت ہے جس نے بلعام کے منصوبوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔‏ (‏گنتی ۲۲:‏۱–‏۲۵:‏۱۵؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ یہوداہ ۱۱‏)‏ درحقیقت تمام مسیحیوں کو بُت‌پرستی اور کلیسیا میں جنسی بداخلاقی کے سرایت کرنے کی بابت محتاط رہنا چاہئے۔‏—‏یہوداہ ۳،‏ ۴‏۔‏

۲۰.‏ اگر کوئی مسیحی برگشتہ خیالات کو قبول کرنے لگے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟‏

۲۰ پرگمن کی کلیسیا سنگین خطرے میں تھی کیونکہ اس نے ایسے لوگوں کو اپنے درمیان رہنے کی اجازت دے رکھی تھی جو ”‏نیکلیوں کی تعلیم کے ماننے والے“‏ تھے۔‏ مسیح نے کلیسیا سے کہا:‏ ”‏توبہ کر۔‏ نہیں تو مَیں تیرے پاس جلد آکر اپنے مُنہ کی تلوار سے اُنکے ساتھ لڑونگا۔‏“‏ فرقہ‌واریت کے حمایتی مسیحیوں کو روحانی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور نااتفاقیاں اور تفرقے پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے خدا کی بادشاہت کے وارث نہ ہونگے۔‏ (‏رومیوں ۱۶:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱۰؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ اگر کوئی مسیحی برگشتہ خیالات کو قبول کرنے اور انہیں پھیلانے لگتا ہے تو اُسے مسیح کی آگاہی پر دھیان دینا چاہئے!‏ اپنے آپ کو تباہی سے بچانے کیلئے اُسے تائب ہونا اور کلیسیا کے بزرگوں سے روحانی مدد طلب کرنا چاہئے۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۳-‏۱۸‏)‏ فوری کارروائی لازم ہے اسلئےکہ یسوع بہت جلد عدالتی کارروائی کرنے کیلئے آ رہا ہے۔‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ کون ”‏پوشیدہ من“‏ کھاتے ہیں اور یہ کس بات کی علامت ہے؟‏

۲۱ وفادار ممسوح مسیحیوں اور اُنکے وفادار ساتھیوں کو آنے والی عدالت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔‏ خدا کی روح‌القدس کی راہنمائی میں دی جانے والی یسوع کی نصیحت پر دھیان دینے والے برکات کے منتظر رہ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر دُنیا پر غالب آنے والے ممسوح مسیحیوں کو ”‏پوشیدہ من“‏ کھانے کی دعوت دی جائیگی اور اُنہیں وہ ”‏سفید پتھر“‏ دیا جائیگا جس پر ”‏ایک نیا نام“‏ لکھا ہوگا۔‏

۲۲ خدا نے بیابان میں اسرائیلیوں کے ۴۰ سالہ سفر کے دوران ان کی خوراک کیلئے من فراہم کِیا۔‏ وہ ”‏روٹی“‏ ایک سونے کے برتن میں ڈالکر عہد کے صندوق میں رکھی گئی اور یوں خیمۂ‌اجتماع کے پاک‌ترین مقام میں پوشیدہ رہی جہاں معجزانہ روشنی یہوواہ کی موجودگی کی علامت تھی۔‏ (‏خروج ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۵،‏ ۲۳،‏ ۲۶،‏ ۳۳؛‏ ۲۶:‏۳۴؛‏ عبرانیوں ۹:‏۳،‏ ۴‏)‏ کسی کو بھی پوشیدہ من کو کھانے کی اجازت نہیں تھی۔‏ تاہم یسوع کے ممسوح شاگرد قیامت کے بعد غیرفانیت حاصل کرتے ہیں جسکی نمائندگی ”‏پوشیدہ من“‏ کھانے سے ہوتی ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۳-‏۵۷‏۔‏

۲۳.‏ ”‏سفید پتھر“‏ اور ”‏نیا نام“‏ کیا مفہوم رکھتے ہیں؟‏

۲۳ رومی عدالتوں میں کالا پتھر سزا کی اور سفید پتھر آزادی کی علامت تھا۔‏ یسوع کا غالب آنے والے ممسوح مسیحیوں کو ”‏سفید پتھر“‏ دینا ظاہر کرتا ہے کہ وہ انہیں پاک اور بیگناہ خیال کرتا ہے۔‏ چونکہ رومی اہم مواقع پر داخلے کیلئے بھی پتھروں کا استعمال کِیا کرتے تھے لہٰذا ”‏سفید پتھر“‏ آسمانی مقام میں بّرہ کی شادی میں شرکت کی اجازت کی بھی علامت ہو سکتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۹:‏۷-‏۹‏)‏ بدیہی طور پر ”‏نیا نام“‏ آسمانی بادشاہت میں ہم‌میراثوں کے طور پر یسوع کیساتھ متحد ہونے کے شرف کی نمائندگی کرتا ہے۔‏ یقیناً یہ سب استحقاق یہوواہ کی خدمت میں ممسوح اشخاص اور اُنکے ساتھیوں کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں جو فردوسی زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں!‏

۲۴.‏ ہمیں برگشتگی کے سلسلے میں کونسا مؤقف اختیار کرنا چاہئے؟‏

۲۴ یہ یاد رکھنا دانشمندی کی بات ہے کہ برگشتہ لوگ پرگمن کی کلیسیا کیلئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔‏ اگر ایسی ہی صورتحال اُس کلیسیا کی روحانی خوشحالی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے جس کے ساتھ ہم رفاقت رکھتے ہیں تو پھر ہمیں برگشتگی کو مکمل طور پر رد کرنا اور سچائی پر چلتے رہنا چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲،‏ ۴۴؛‏ ۳-‏یوحنا ۴‏)‏ چونکہ جھوٹے اُستاد یا برگشتگی کی طرف مائل اشخاص پوری کلیسیا کو آلودہ کر سکتے ہیں لہٰذا ہمیں برگشتگی کے خلاف ٹھوس مؤقف اختیار کرتے ہوئے غلط ترغیبات کو اپنے لئے سچائی پر قائم رہنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۷-‏۱۲؛‏ ۲-‏یوحنا ۸-‏۱۱‏۔‏

۲۵.‏ اگلے مضمون میں کن کلیسیاؤں کے نام مسیح کے پیغامات پر بات‌چیت کی جائیگی؟‏

۲۵ جلالی یسوع مسیح نے ایشیائےکوچک کی سات کلیسیاؤں میں سے تین کی تعریف اور نصیحت کیلئے کتنے خیال‌آفرین الفاظ استعمال کئے جن پر ہم غور کر چکے ہیں!‏ تاہم،‏ روح‌القدس کی راہنمائی میں وہ باقی چار کلیسیاؤں سے بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہے۔‏ تھواتیرہ،‏ سردیس،‏ فلدلفیہ اور لودیکیہ کے نام ان پیغامات پر اگلے مضمون میں بات‌چیت کی جائیگی۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• ہمیں کلیسیا کیلئے یسوع کے پیغام پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏

‏• کلیسیا کی پہلی سی محبت دوبارہ بیدار کرنے میں ہم کیسے مدد کر سکتے ہیں؟‏

‏• یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ قدیم سمرنہ کے مادی لحاظ سے غریب مسیحی درحقیقت دولتمند تھے؟‏

‏• پرگمن کی کلیسیا کی صورتحال پر غور کرتے ہوئے ہمیں برگشتہ سوچ کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

یونان

ایـشـیـائےکـوچـک

افسس

سمرنہ

پرگمن

تھواتیرہ

سردیس

فلدلفیہ

لودیکیہ

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

‏”‏بڑی بِھیڑ“‏ زمینی فردوس سے لطف اُٹھائیگی

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویریں]‏

اذیت کا سامنا کرنے والے مسیحی دُنیا پر غالب آتے ہیں