کشتیِنوح کا روزنامچہ—کیا یہ ہمارے لئے کوئی اہمیت رکھتا ہے؟
کشتیِنوح کا روزنامچہ—کیا یہ ہمارے لئے کوئی اہمیت رکھتا ہے؟
اپنی موجودگی اور اس نظاماُلعمل کے خاتمے کے نشان کی پیشینگوئی کرتے ہوئے یسوع نے بیان کِیا: ”جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدم کے آنے کے وقت ہوگا۔“ (متی ۲۴:۳، ۳۷) واضح طور پر، یسوع نے پیشینگوئی کی کہ ہمارے زمانہ کے واقعات نوح کے زمانہ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ پس نوح کے زمانہ کے واقعات کی قابلِبھروسا اور درست سرگزشت گرانقدر خزانہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کیا کشتیِنوح کا روزنامچہ واقعی ایسا خزانہ ہے؟ کیا اس میں ایک مستند تاریخی دستاویز کی خصوصیات موجود ہیں؟ کیا ہم واقعی طوفان کے وقت کا تعیّن کر سکتے ہیں؟
طوفان کب آیا تھا؟
بائبل میں فراہمکردہ تاریخی معلومات کی مدد سے احتیاط کیساتھ انسانی تاریخ کے ابتدائی وقت کا تعیّن کِیا جا سکتا ہے۔ پیدایش ۵:۱-۲۹ میں ہمیں پہلے انسان آدم کی تخلیق سے نوح کی پیدائش تک کا نسبنامہ ملتا ہے۔ طوفان ’نوح کی عمر کے چھ سویں سال‘ میں آیا تھا۔—پیدایش ۷:۱۱۔
طوفان کے وقت کا تعیّن کرنے کے لئے ہمیں ایک اہم تاریخ سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک ایسی تاریخ سے شروع کرنا چاہئے جو دُنیاوی لحاظ سے قابلِقبول ہونے کے علاوہ بائبل میں درج کسی خاص واقعہ سے بھی مطابقت رکھتی ہو۔ ایسی مخصوص تاریخ سے حساب لگاتے ہوئے ہم اس وقت عام طور پر استعمال ہونے والے گریگورین کیلنڈر کے مطابق طوفان کے آنے کی تاریخ کا تعیّن کر سکتے ہیں۔
ایک اہم تاریخ ۵۳۹ ق.س.ع. ہے جب فارس کے بادشاہ خورس نے بابل کو شکست دی تھی۔ اُسکی حکمرانی کے وقت کی تصدیق کرنے والے دُنیاوی دستاویز میں بابلی تختیاں اور دیودورس، افریکانس، یوسیبیس اور بطلیموس کی دستاویز شامل ہیں۔ خورس کے فرمان کے مطابق ایک یہودی بقیہ بابل چھوڑ کر ۵۳۷ ق.س.ع. میں اپنے وطن واپس پہنچا۔ اس نے یہوداہ کی ۷۰سالہ تباہی کے اختتام کی نشاندہی کی جو بائبل ریکارڈ کے مطابق ۶۰۷ ق.س.ع. میں شروع ہوئی تھی۔ قاضیوں کے زمانے اور اسرائیلی بادشاہوں کےدورِحکومت کا شمار کرنے سے ہم اس بات کا تعیّن کر سکتے ہیں کہ مصر سے اسرائیلیوں کا خروج ۱۵۱۳ ق.س.ع. میں ہوا تھا۔ بائبل پر مبنی تواریخ ہمیں ماضی میں مزید ۴۳۰ سال پیچھے لیجاتی ہے جب ۱۹۴۳ ق.س.ع. میں ابرہامی عہد باندھا گیا تھا۔ اسکے بعد ہمیں تارح، نحور، سروج، رعو، فلج، عبر اور سلح کے علاوہ ار فکسد کی پیدائش اور عمر کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا جو ”طوفان کے دو برس بعد“ پیدا ہوا تھا۔ (پیدایش ۱۱:۱۰-۳۲) یوں ہم ۲۳۷۰ ق.س.ع. کو طوفان کے آنے کا سال ٹھہرا سکتے ہیں۔
طوفانی بارش شروع ہوتی ہے
نوح کے زمانے کے واقعات کا جائزہ لینے سے پہلے آپ شاید پیدایش ۷ باب کی ۱۱ آیت سے ۸ باب کی ۴ آیت تک پڑھنا چاہیں۔ موسلادھار بارش کی بابت ہمیں بتایا گیا ہے: ”نوح کی عمر کا چھ سواں سال [۲۳۷۰ ق.س.ع.] تھا کہ اُس کے دوسرے مہینے کی ٹھیک سترھویں تاریخ کو بڑے سمندر کے سب سوتے پھوٹ نکلے اور آسمان کی کھڑکیاں کُھل گئیں۔“—پیدایش ۷:۱۱۔
نوح نے سال کو ۳۰ دنوں کے ۱۲ مہینوں میں تقسیم کِیا۔ قدیم وقتوں میں پہلا مہینہ ہمارے کیلنڈر کے مطابق ستمبر کے مہینے کے وسط سے شروع ہوتا تھا۔ طوفانی بارش ”دوسرے مہینے کی ٹھیک سترھویں تاریخ“ کو شروع ہوئی اور نومبر اور دسمبر ۲۳۷۰ ق.س.ع. کے دوران ۴۰ دن اور ۴۰ رات تک جاری رہی۔
ہمیں طوفان کی بابت یہ بھی بتایا گیا ہے: ”پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک چڑھتا رہا۔ . . . اور پانی زمین پر سے گھٹتے گھٹتے ایک سو پچاس دن کے بعد کم ہوا۔ اور ساتویں مہینے کی سترھویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر ٹک گئی۔“ (پیدایش ۷:۲۴–۸:۴) لہٰذا زمین کے پانی میں ڈوب جانے اور پھر پانی کے کم ہونے کا عرصہ ۱۵۰ دن یعنی ۵ مہینے تھا۔ لہٰذا کشتی اپریل ۲۳۶۹ ق.س.ع. میں اراراط کے پہاڑوں پر ٹھہر گئی۔
اب آپ شاید پیدایش ۸:۵-۱۷ پڑھنا چاہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیاں تقریباً ڈھائی مہینے (۷۳ دن) بعد، ”دسویں مہینے [جون] کی پہلی تاریخ کو“ نظر آئیں۔ (پیدایش ۸:۵) تین مہینے (۹۰ دن) بعد—نوح کے ”چھ سو پہلے برس کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ“ یا ستمبر کے وسط، ۲۳۶۹ ق.س.ع. میں—نوح نے کشتی کی چھت کھولی۔ اب وہ دیکھ سکتا تھا کہ ”زمین کی سطح سُوکھ گئی ہے۔“ (پیدایش ۸:۱۳) ایک مہینے اور ۲۷ دن (۵۷ دن) بعد، ”دوسرے مہینے کی ستائیسویں تاریخ [نومبر کے وسط، ۲۳۶۹ ق.س.ع.] کو زمین بالکل سُوکھ گئی۔“ اس کے بعد نوح اور اُس کا خاندان کشتی سے باہر آ گیا۔ لہٰذا نوح اور دیگر اشخاص نے ایک قمری سال اور دس دن (۳۷۰ دن) کشتی میں گزارے۔—پیدایش ۸:۱۴۔
واقعات، تفصیلات اور وقت کے یہ درست ریکارڈ کیا ثابت کرتے ہیں؟ محض یہ بات کہ عبرانی نبی موسیٰ، جس نے بدیہی طور پر حاصلکردہ ریکارڈ کی مدد سے پیدایش کی کتاب لکھی، کسی منگھڑت کہانی کی بجائے
حقائق پیش کر رہا تھا۔ لہٰذا طوفان کی تفصیلات آجکل ہمارے لئے نہایت اہم ہیں۔طوفان کی بابت دیگر بائبلنویسوں کا نقطۂنظر؟
پیدایش کے بیان کے علاوہ بائبل میں نوح یا طوفان کی بابت بہت سے حوالے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر:
(ا) محقق عزرا نے نوح اور اُسکے بیٹوں (سم، حام اور یافت) کو اسرائیل قوم کے نسبنامے میں شامل کِیا۔—۱-تواریخ ۱:۴-۱۷۔
(۲) طبیب اور انجیلنویس لوقا یسوع مسیح کے آباؤاجداد کی فہرست میں نوح کو شامل کرتا ہے۔—لوقا ۳:۳۶۔
(۳) پطرس رسول ساتھی مسیحیوں کو لکھتے وقت طوفان کی سرگزشت کا کئی بار حوالہ دیتا ہے۔—۲-پطرس ۲:۵؛ ۳:۵، ۶۔
(۴) پولس رسول اُس عظیم ایمان کا ذکر کرتا ہے جو نوح نے اپنے گھرانے کی بقا کیلئے کشتی کی تعمیر سے ظاہر کِیا تھا۔—عبرانیوں ۱۱:۷۔
کیا ان الہامیافتہ بائبل نویسوں نے طوفان کی بابت بائبل کی سرگزشت کو قبول کرنے میں کبھی شک کا اظہار کِیا تھا؟ وہ بِلاشُبہ اسے ایک سچا واقعہ خیال کرتے تھے۔
یسوع اور طوفان
یسوع مسیح انسان بننے سے پہلے وجود رکھتا تھا۔ (امثال ۸:۳۰، ۳۱) طوفان کے دوران وہ آسمان پر ایک روحانی مخلوق تھا۔ لہٰذا ایک چشمدید گواہ کے طور پر یسوع نے ہمارے لئے نوح اور طوفان کی بابت سب سے بڑی صحیفائی تصدیق فراہم کی ہے۔ یسوع نے بیان کِیا: ”جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدم کے آنے کے وقت ہوگا۔ کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتےپیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوا۔ اور جب تک طوفان آکر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُن کو خبر نہ ہوئی اُسی طرح ابنِآدم کا آنا ہوگا۔“—متی ۲۴:۳۷-۳۹۔
کیا یسوع اس نظاماُلعمل کے قریبی خاتمے کی بابت ہمیں آگاہی دینے کیلئے ایک افسانوی قصے کا استعمال کر سکتا تھا؟ وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا تھا! ہم پورا اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ اُس نے شریروں پر خدا کی عدالتی سزا کی مثال کیلئے حقیقی واقعہ استعمال کِیا تھا۔ جیہاں، بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیاں کھو دی تھیں لیکن یہ جاننا ہمارے لئے باعثِتسلی ہے کہ نوح اور اُسکا خاندان طوفان سے بچ گیا تھا۔
یسوع مسیح ’ابنِآدم کی موجودگی‘ کے دوران رہنے والے لوگوں کے لئے ’نوح کے دن‘ نہایت اہم ہیں۔ نوح کے ریکارڈ میں محفوظ عالمگیر طوفان کا مفصل بیان پڑھتے وقت ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہ ایک مستند تاریخی دستاویز ہے۔ نیز طوفان کی بابت پیدایش کا الہامی بیان ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس طرح نوح، اُس کے بیٹے اور اُنکی بیویوں نے نجات کے لئے خدا کے بندوبست پر ایمان رکھا تھا آجکل ہم بھی یسوع کے فدیے کی قربانی پر اپنے ایمان کی بنیاد پر یہوواہ کے تحفظ کا تجربہ کرتے ہیں۔ (متی ۲۰:۲۸) علاوہازیں، ہم اس بدکار نظاماُلعمل کے خاتمے سے بچنے والوں میں شامل ہونے کی اُمید رکھ سکتے ہیں جس طرح نوح کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اور اُس کا خاندان اُس وقت کی بیدین دُنیا کا خاتمے کرنے والے طوفان سے بچ نکلے تھے۔
[فٹنوٹ]
طوفان کی تاریخ کا تعیّن کرنے والی تفصیلات کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز، جِلد ۱، صفحہ ۴۵۸-۴۶۰ کا مطالعہ کریں۔
کائل ڈیلیٹش کامنٹری آن دی اولڈ ٹیسٹامنٹ، جِلد ۱، صفحہ ۱۴۸ پر بیان کرتی ہے: ”غالباً پہاڑوں کی چوٹیاں یعنی کشتی کے گردونواح میں موجود ارمینیا کے کوہستانی علاقوں کی چوٹیاں کشتی کے ٹھہرنے کے تقریباً ۷۳ دن بعد نظر آئیں۔“
[صفحہ ۵ پر بکس]
کیا واقعی اُنکی زندگی اتنی طویل تھی؟
بائبل بیان کرتی ہے کہ ”نوح کی کُل عمر ساڑھے نو سو برس کی ہوئی۔ تب اُس نے وفات پائی۔“ (پیدایش ۹:۲۹) نوح کے دادا متوسلح کی کُل عمر نو سو اُنہتر برس تھی—جو انسانی تاریخ میں ریکارڈشدہ طویلترین عرصۂحیات ہے۔ آدم سے لیکر نوح تک کی دس پُشتوں کا اوسط عرصۂحیات ۸۵۰ سال سے زائد تھا۔ (پیدایش ۵:۵-۳۱) اُس زمانہ کے لوگوں کی عمریں اتنی طویل کیوں تھیں؟
خدا کا ابتدائی مقصد تھا کہ انسان ابد تک زندہ رہے۔ اگر پہلا انسان آدم خدا کا فرمانبردار رہتا تو اُسے ہمیشہ تک زندہ رہنے کے امکان کیساتھ خلق کِیا گیا تھا۔ (پیدایش ۲:۱۵-۱۷) تاہم آدم نے نافرمانی کرکے یہ امکان گنوا دیا۔ موت کی جانب بڑھتے ہوئے ۹۳۰ سال زندہ رہنے کے بعد، آدم اُسی مٹی میں مل گیا جس سے اُسے بنایا گیا تھا۔ (پیدایش ۳:۱۹؛ ۵:۵) پہلے آدمی نے اپنی اولاد کو گناہ اور موت کا ورثہ دیا۔—رومیوں ۵:۱۲۔
تاہم، اُس زمانہ میں رہنے والے لوگ آدم کی ابتدائی کاملیت کے دور میں رہنے کی وجہ سے بعدازاں پیدا ہونے والے لوگوں کی نسبت زیادہ عرصہ زندہ رہے۔ لہٰذا انسانی عرصۂحیات طوفان سے پہلے ایک ہزار سال تک محیط تھا لیکن بعدازاں یہ تیزی سے کم ہوتا گیا۔ مثال کے طور پر، ابرہام صرف ۱۷۵ سال زندہ رہا۔ (پیدایش ۲۵:۷) نیز اس وفادار آبائی بزرگ کی موت کے تقریباً ۴۰۰ سال بعد، موسیٰ نبی نے لکھا: ”ہماری عمر کی میعاد ستر برس ہے۔ یا قوت ہو تو اَسی برس۔ تو بھی اُنکی رونق محض مشقت اور غم ہے۔“ (زبور ۹۰:۱۰) آجکل بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔
[صفحہ ۷ ،۶ پر چارٹ/تصویر]
یہودیوں کو غلامی سے واپسی کی اجازت دینے والے خورس کے فرمان سے نوح کے زمانہ تک کا حساب لگانا
۵۳۷ خورس کا فرمان
۵۳۹ شاہِفارس خورس کے
ہاتھوں بابل کا زوال
۶۸ سال
۶۰۷ یہوداہ کی ۷۰ سالہ ویرانی
شروع ہوتی ہے
راہنماؤں، قاضیوں اور
اسرائیل کے بادشاہوں کی
۹۰۶سالہ نگہبانی
۱۵۱۳ مصر سے خروج
۴۳۰ سال ۴۳۰ سال کا عرصہ جب بنیاسرائیل
مصر اور کنعان کے علاقہ میں آباد
ہوئے تھے (خروج ۱۲:۴۰، ۴۱)
۱۹۴۳ ابرہامی عہد کی توثیق
۲۰۵ سال
۲۱۴۸ تارح کی پیدائش
۲۲۲ سال
۲۳۷۰ طوفان کی ابتدا