”خوف نہ کرو اور ہراسان نہ ہو۔“
”خوف نہ کرو اور ہراسان نہ ہو۔“
”خوف نہ کرو اور ہراسان نہ ہو . . . [یہوواہ] تمہارے ساتھ ہے۔“ —۲-تواریخ ۲۰:۱۷۔
۱. دہشتگردی لوگوں کو کیسے متاثر کرتی ہے اور اُنکا خوف قابلِفہم کیوں ہے؟
دہشتگردی! یہ لفظ لوگوں کے دلوں میں خوف، غیرمحفوظ اور بےبسی کا احساس پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ ڈر، غم اور غصے کے ملےجلے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اِسکے علاوہ یہ لفظ ایسی حالت کی توضیح کرتا ہے جسکی بابت لوگوں کو اندیشہ ہے کہ یہ مستقبل میں کئی سالوں تک نوعِانسان کو پریشان رکھے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چند ممالک کئی دہوں سے دہشتگردی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اُنہیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جو واقعی ایسے خوف کی ٹھوس بنیاد ہے۔
۲. یہوواہ کے گواہ دہشتگردی کے مسئلے کی بابت کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں اور اس سے کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں؟
۲ تاہم، اُمید کی حقیقی وجہ بھی موجود ہے۔ یہوواہ کے گواہ دُنیا کے ۲۳۴ ممالک میں سرگرمی سے منادی کر رہے ہیں اور حیرانکُن حد تک پُراُمید ہیں۔ اس بات سے ڈرنے کی بجائے کہ دہشتگردی کبھی ختم نہیں ہوگی وہ پُراعتماد
ہیں کہ یہ بہت جلد ختم ہو جائیگی۔ کیا دوسروں کو بھی ایسی اُمید دینا حقیقتپسندی ہے؟ کون دُنیا کو اس لعنت سے چھٹکارا دیگا اور یہ کیسے ہوگا؟ ہم سب کو یقیناً تشدد کا تجربہ ہوا ہے اسلئے ایسی اُمید کی بنیاد پر غور کرنا اچھا ہوگا۔۳. خوف کی کونسی وجوہات موجود ہیں اور ہمارے زمانے کی بابت کیا پیشینگوئی کی گئی ہے؟
۳ آجکل، لوگ مختلف وجوہات کی بِنا پر خوف محسوس کرتے ہیں۔ ایسے بیشتر لوگوں کی بابت سوچیں جو بڑھاپے، بیماری، کمزوری اور معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے خاندانوں کی وجہ سے اپنی دیکھبھال کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ دراصل، زندگی کی بےثباتی پر ہی غور کیجئے! حادثے یا تباہی کی وجہ سے موت اچانک کبھی بھی آ سکتی ہے جس سے ہم اپنی ہر پیاری چیز سے محروم ہو سکتے ہیں۔ ایسے خوف اور فکر کے علاوہ کئی ذاتی اختلافات اور مایوسیوں نے ہمارے زمانے کو ایک ایسا وقت بنا دیا ہے جس پر پولس رسول کا یہ بیان صادق آتا ہے: ”یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں بُرے دن آئینگے۔ کیونکہ آدمی خودغرض۔ . . . طبعی محبت سے خالی۔ سنگدل۔ تہمت لگانے والے۔ بےضبط۔ تُندمزاج۔ نیکی کے دُشمن“ ہوں گے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۳۔
۴. دوسرا تیمتھیس ۳:۱-۳ میں بیانکردہ بدترین واقعات کے باوجود کونسا مثبت امکان موجود ہے؟
۴ یہ صحیفہ بدترین صورتحال کی عکاسی کرنے کے علاوہ اُمید کی کرن بھی دیتا ہے۔ غور کیجئے کہ شیطان کے بدکار نظام کے ”اخیر زمانہ میں“ بُرے دن آئینگے۔ اسکا مطلب ہے کہ تکلیف سے چھٹکارا ملنے ہی والا ہے اور بدکار نظام جلد ہی ختم ہو جائیگا جسکے بعد خدا کی کامل بادشاہت حکمرانی کریگی جس کیلئے یسوع نے اپنے پیروکاروں کو دُعا کرنا سکھایا تھا۔ (متی ۶:۹، ۱۰) یہ بادشاہت خدا کی آسمانی حکومت ہے جو ”تاابد نیست نہ ہوگی“ بلکہ دانیایل کے بیان کے مطابق، ”اِن تمام [انسانی] مملکتوں کو ٹکڑےٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابد تک قائم رہیگی۔“—دانیایل ۲:۴۴۔
مسیحی غیرجانبداری بمقابلہ دہشتگردی
۵. حال ہی میں اقوام نے دہشتگردی کے خطرے کیلئے کیسا ردِعمل دکھایا ہے؟
۵ کئی دہوں سے دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ نیو یارک سٹی اور واشنگٹن ڈی.سی. پر ستمبر ۱۱، ۲۰۰۱ کے حملوں کے بعد پوری دُنیا اس خطرے سے بیدار ہو گئی ہے۔ دہشتگردی کی عالمی وسعت کے پیشِنظر دُنیا کی اقوام نے اسکا مقابلہ کرنے کیلئے بہت جلد الحاق کر لیا۔ مثال کے طور پر، ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، دسمبر ۴، ۲۰۰۱ کو ”۵۵ یورپی، شمالی امریکی اور وسطی ایشیائی ممالک کے وزراءخارجہ نے متفقہ طور پر اپنی کاوشوں کو منظم کرنے کا ایک منصوبہ بنایا۔“ ایک اعلیٰ امریکی افسر نے بیان کِیا کہ اس قدم سے دہشتگردی کے خلاف کوشش کو ”مزید تقویت“ ملیگی۔ اچانک، لاکھوں لوگ ایک ایسی جنگ میں شریک ہو گئے جسے دی نیو یارک ٹائمز نے ”تاریخ کی سب سے بڑی جنگ“ کہا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہونگی۔ تاہم، دہشتگردی کے خلاف ایسی جنگ کے مابعدی اثرات نے بہتوں کے اندر خوف اور پریشانی کا احساس پیدا کر دیا ہے لیکن یہوواہ پر توکل کرنے والوں کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہوا۔
۶. (ا) بعض لوگ یہوواہ کے گواہوں جیسی مسیحی غیرجانبداری اختیار کرنا کیوں مشکل پاتے ہیں؟ (ب) یسوع نے سیاسی کارگزاری کے سلسلے میں اپنے پیروکاروں کیلئے کونسی مثال قائم کی؟
۶ یہوواہ کے گواہ اپنی سیاسی غیرجانبداری کیلئے بھی مشہور ہیں۔ بہتیرے لوگ امن کی حالت میں تو ایسی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن مشکل یوحنا ۱۵:۱۹؛ ۱۷:۱۴-۱۶؛ ۱۸:۳۶؛ یعقوب ۴:۴) یہ سیاسی یا سماجی معاملات میں غیرجانبداری برقرار رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یسوع نے خود بھی موزوں نمونہ قائم کِیا تھا۔ اپنی کامل حکمت اور غیرمعمولی مہارتوں کی وجہ سے وہ اپنے زمانے کے انسانی امور میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ لیکن، وہ سیاست میں ملوث نہیں ہوا تھا۔ اپنی خدمتگزاری کے آغاز پر، اُس نے دُنیاوی حکومتوں پر اختیار کے سلسلے میں شیطان کی پیشکش کو رد کر دیا تھا۔ بعدازاں، اُس نے سیاسی مرتبے کی پیشکش کو بھی فیصلہکُن انداز میں مسترد کر دیا تھا۔—متی ۴:۸-۱۰؛ یوحنا ۶:۱۴، ۱۵۔
حالات کے تحت آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اکثر، جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف اور تذبذب سے قومپرستی پھوٹ نکلتی ہے۔ یہ بات کسی کیلئے یہ سمجھنا مشکل بنا سکتی ہے کہ کوئی ایسی مقبولِعام قومی تحریکوں کی حمایت کیوں نہیں کر سکتا۔ تاہم، سچے مسیحی جانتے ہیں کہ اُنہیں یسوع کے اس حکم کو ماننا ہے کہ وہ ”دُنیا کے نہیں۔“ (۷، ۸. (ا) یہوواہ کے گواہوں کی سیاسی غیرجانبداری کا مطلب کیا نہیں ہے اور کیوں؟ (ب) رومیوں ۱۳:۱، ۲ حکومتوں کے خلاف پُرتشدد کارگزاریوں میں شرکت کرنے سے کیسے منع کرتی ہے؟
۷ یہوواہ کے گواہوں کے غیرجانبدارانہ مؤقف کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تشدد کی حمایت کرتے یا پھر اِسے نظرانداز کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ اُنکے اِس دعوے کو جھوٹا ثابت کریگا کہ وہ ”محبت اور میلملاپ“ کے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۳:۱۱) اُنہوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ یہوواہ تشدد کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے۔ زبورنویس نے لکھا: ”[یہوواہ] صادق کو پرکھتا ہے پر شریر اور ظلمدوست سے اُسکی رُوح کو نفرت ہے۔“ (زبور ۱۱:۵) وہ پطرس رسول سے کہی گئی یسوع کی اس بات کو بھی جانتے ہیں: ”اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائینگے۔“—متی ۲۶:۵۲۔
۸ تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ نقلی مسیحیوں نے اکثر ”تلوار“ کا سہارا لیا ہے لیکن یہوواہ کے گواہوں نے ایسا نہیں کِیا ہے۔ وہ ایسے تمام معاملات سے دُور رہتے ہیں۔ گواہ رومیوں ۱۳:۱، ۲ کے اس حکم کی تعمیل بھی کرتے ہیں: ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں وہ سزا پائینگے۔“
۹. یہوواہ کے گواہ کن دو طریقوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کرتے ہیں؟
۹ جبکہ دہشتگردی اسقدر خطرناک ہے توپھر کیا یہوواہ کے گواہوں کو اسکے خلاف جنگ میں مدد نہیں کرنی چاہئے؟ اُنہیں ایسا کرنا چاہئے اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اوّل، وہ خود ایسے کاموں سے دُور رہتے ہیں۔ دوم، وہ لوگوں کو ایسے مسیحی اُصول سکھاتے ہیں کہ اگر وہ اُن پر عمل کریں تو ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ ممکن ہے۔ * گزشتہ سال، ایسی مسیحی راہ پر چلنے میں لوگوں کی مدد کرنے میں گواہوں نے ۳۰۲،۸۱،۲۳،۲۰،۱ گھنٹے صرف کئے تھے۔ یہ وقت کا ضیاع نہیں تھا کیونکہ اس کام کے نتیجے میں ۴۶۹،۶۵،۲ لوگوں نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لیا اور یوں تشدد کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا علانیہ اظہار کِیا۔
۱۰. آج کی دُنیا میں تشدد ختم کرنے کے امکانات کیا ہیں؟
۱۰ علاوہازیں، یہوواہ کے گواہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دُنیا کو بُرائی سے تنہا پاک نہیں کر سکتے۔ اسی لئے وہ اپنا پورا بھروسا یہوواہ خدا پر رکھتے ہیں۔ (زبور ۸۳:۱۸) مخلصانہ کاوشوں کے باوجود انسان تشدد کو ختم نہیں کر سکتے۔ بائبل کے مُلہَم مصنّفین میں سے ایک ہمیں اپنے زمانہ یعنی ”اخیر زمانہ“ کی بابت آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ”بُرے اور دھوکاباز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائیں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱، ۱۳) اس نقطۂنظر کے مطابق، انسان بُرائی کے خلاف جنگ کبھی نہیں جیت سکتے۔ اس کے برعکس، ہم تشدد کو مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے یہوواہ پر توکل کر سکتے ہیں۔—زبور ۳۷:۱، ۲، ۹-۱۱؛ امثال ۲۴:۱۹، ۲۰؛ یسعیاہ ۶۰:۱۸۔
قریبی حملے کے پیشِنظر نڈر
۱۱. یہوواہ نے تشدد ختم کرنے کیلئے پہلے ہی سے کونسے اقدام اُٹھائے ہیں؟
۱۱ چونکہ امنپسند خدا تشدد سے نفرت کرتا ہے اسلئے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اُس نے اِسکی بنیادی وجہ شیطان ابلیس کو ختم کرنے کا بندوبست کیوں کِیا مکاشفہ ۱۲:۷-۹۔
ہے۔ دراصل، اُس نے مقرب فرشتے—خدا کے نئے تختنشین بادشاہ، یسوع مسیح—کے وسیلے پہلے ہی سے اُس کو تذلیلکُن شکست دے دی ہے۔ بائبل اسے یوں بیان کرتی ہے: ”آسمان پر لڑائی ہوئی۔ میکاؔئیل اور اُسکے فرشتے اژدہا سے لڑنے کو نکلے اور اژدہا اور اُس کے فرشتے اُن سے لڑے۔ لیکن غالب نہ آئے اور اِسکے بعد آسمان پر اُنکے لئے جگہ نہ رہی۔ اور وہ بڑا اژدہا یعنی وہی پرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے زمین پر گرا دیا گیا اور اُسکے فرشتے بھی اُسکے ساتھ گرا دئے گئے۔“—۱۲، ۱۳. (ا) سن ۱۹۱۴ کی اہمیت کیا ہے؟ (ب) حزقیایل کی پیشینگوئی خدا کی بادشاہت کی حمایت کرنے والوں کی بابت کیا بیان کرتی ہے؟
۱۲ بائبل تاریخ اور واقعات متفقہ طور پر سن ۱۹۱۴ کی نشاندہی کرتے ہیں جب یہ جنگ آسمان میں شروع ہوئی تھی۔ اُس وقت سے لیکر دُنیا کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ مکاشفہ ۱۲:۱۲ اسکی وجہ کو یوں بیان کرتی ہے: ”پس اَے آسمانو اور اُنکے رہنے والو خوشی مناؤ! اَے خشکی اور تری تم پر افسوس! کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔ اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“
۱۳ یہ بات قابلِفہم ہے کہ ابلیس خاص طور پر خدا کے ممسوح پرستاروں اور اُنکی ساتھی ”دوسری بھیڑوں“ پر اپنا غصہ نکال رہا ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶ اینڈبلیو؛ مکاشفہ ۱۲:۱۷) یہ مخالفت اُس وقت اپنے عروج کو پہنچ جائیگی جب ابلیس خدا کی بادشاہت کی حمایت اور اس پر بھروسا کرنے والوں پر زبردست حملہ کریگا۔ اس بھرپور حملے کو حزقیایل ۳۸ باب میں ”جوج کی طرف“ سے حملہ کہا گیا ہے ”جو ماجوج کی سرزمین کا ہے۔“
۱۴. ماضی میں یہوواہ کے گواہوں کو کیسے تحفظ کا تجربہ ہوا تھا لیکن کیا ہمیشہ ایسا ہوگا؟
۱۴ شیطان کے آسمان سے نکالے جانے کے بعد سے، بعضاوقات سیاسی عناصر کی کوششوں سے خدا کے لوگوں کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھا گیا ہے جسکا ذکر علامتی زبان میں مکاشفہ ۱۲:۱۵، ۱۶ میں ملتا ہے۔ اسکے برعکس، بائبل ظاہر کرتی ہے کہ شیطان کے آخری حملے کے دوران کوئی بھی انسانی ادارہ یہوواہ پر توکل کرنے والوں کا دفاع نہیں کریگا۔ کیا اس سے مسیحیوں کو خائف ہو جانا چاہئے؟ ہرگز نہیں!
۱۵، ۱۶. (ا) یہوسفط کے زمانے میں اپنی قوم کے لئے یہوواہ کی تسلیبخش باتیں آجکل مسیحیوں کیلئے کونسی اُمید پیش کرتی ہیں؟ (ب) یہوسفط اور لوگوں نے آجکل خدا کے خادموں کیلئے کونسا نمونہ قائم کِیا؟
۱۵ خدا اپنے لوگوں کی ایسے ہی مدد کریگا جیسے اُس نے بادشاہ یہوسفط کے زمانے میں اپنی قوم کی مدد کی تھی۔ ہم پڑھتے ہیں: ”اَے تمام یہوؔداہ اور یرؔوشلیم کے باشندو اور اَے بادشاہ یہوؔسفط تم سب سنو۔ [یہوواہ] تم کو یوں فرماتا ہے کہ تم اس بڑے انبوہ کی وجہ سے نہ تو ڈرو اور نہ گھبراؤ کیونکہ یہ جنگ تمہاری نہیں بلکہ خدا کی ہے۔ . . . تم کو اس جگہ میں لڑنا نہیں پڑیگا۔ اَے یہوؔداہ اور یرؔوشلیم! تم قطار باندھکر چپچاپ کھڑے رہنا اور [یہوواہ] کی نجات جو تمہارے ساتھ ہے دیکھنا۔ خوف نہ کرو اور ہراسان نہ ہو۔ کل اُنکے مقابلہ کو نکلنا کیونکہ [یہوواہ] تمہارے ساتھ ہے۔“—۲-تواریخ ۲۰:۱۵-۱۷۔
۲-تواریخ ۲۰:۱۸-۲۱) واقعی، دُشمن کے حملے کے باوجود لوگ سرگرمی سے یہوواہ کی حمد کرتے رہے۔ جب جوج حملہ کرتا ہے تو یہوواہ کے گواہ بھی ایسا ہی کرینگے۔
۱۶ یہوداہ کے لوگوں کو یقین دلایا گیا کہ اُنہیں لڑنا نہیں پڑیگا۔ اسی طرح، جب ماجوج کا جوج خدا کے لوگوں پر حملہ کریگا تو وہ ذاتی دفاع کیلئے ہتھیار نہیں اُٹھائینگے۔ بلکہ، وہ ’چپچاپ کھڑے رہینگے اور یہوواہ کی نجات دیکھینگے۔‘ بِلاشُبہ، چپچاپ کھڑے رہنے کا مطلب مکمل بےعملی کی حالت نہیں ہے کیونکہ یہوسفط کے زمانے میں بھی خدا کے لوگ بالکل بےعمل نہیں رہے تھے۔ ہم پڑھتے ہیں: ”یہوؔسفط سرنگون ہو کر زمین تک جھکا اور تمام یہوؔداہ اور یرؔوشلیم کے رہنے والوں نے [یہوواہ] کے آگے گِر کر اُسکو سجدہ کِیا۔ . . . اور جب [یہوسفط] نے قوم سے مشورہ کر لیا تو اُن لوگوں کو مقرر کِیا جو لشکر کے آگے آگے چلتے ہوئے [یہوواہ] کے لئے گائیں اور حسنتقدس کے ساتھ اُس کی حمد کریں اور کہیں کہ [یہوواہ] کی شکرگذاری کرو کیونکہ اُسکی رحمت ابد تک ہے۔“ (۱۷، ۱۸. (ا) جوج کے حملے کے سلسلے میں آجکل یہوواہ کے گواہ کونسا مثبت رُجحان رکھتے ہیں؟ (ب) حال ہی میں مسیحی نوجوانوں کو کونسی یاددہانی کرائی گئی تھی؟
۱۷ اُس وقت تک—اور جوج کا حملہ شروع ہو جانے کے بعد بھی—یہوواہ کے گواہ خدا کی بادشاہت کی حمایت کرتے رہینگے۔ وہ پوری دُنیا کی ۶۰۰،۹۴ کلیسیاؤں کی رفاقت سے قوت اور تحفظ حاصل کرتے رہینگے۔ (یسعیاہ ۲۶:۲۰) دلیری کیساتھ یہوواہ کی حمد کرنے کا کیا ہی موزوں وقت! واقعی، جوج کے قریبی حملے کی توقع میں وہ ڈر کر پیچھے نہیں ہٹ جاتے۔ بلکہ، اس سے اُنہیں معقول حد تک اپنی حمد کی قربانی میں اضافہ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔—زبور ۱۴۶:۲۔
۱۸ پوری دُنیا میں کُلوقتی خدمت اختیار کرنے والے ہزاروں نوجوانوں نے ایسے مثبت اور دلیرانہ رُجحان کا مظاہرہ کِیا ہے۔ ایسے طرزِزندگی کے انتخاب کی فضیلت کو نمایاں کرنے کیلئے ۲۰۰۲ کے ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر ایک اشتہار ریلیز کِیا گیا جسکا عنوان تھا نوجوانو!—آپ اپنی زندگی کیساتھ کیا کرینگے؟ جوان اور عمررسیدہ مسیحی ایسی بروقت یاددہانیوں کیلئے شکرگزار ہیں۔—زبور ۱۱۹:۱۴، ۲۴، ۹۹، ۱۱۹، ۱۲۹، ۱۴۶۔
۱۹، ۲۰. (ا) مسیحیوں کو ڈرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟ (ب) اگلا مضمون کیا کرے گا؟
۱۹ دُنیاوی حالات کے باوجود، مسیحیوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ کی بادشاہت ہر طرح کے تشدد کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیگی۔ وہ اس بات سے بھی تسلی پاتے ہیں کہ تشدد کے باعث ہلاک ہو جانے والے بہتیرے لوگوں کو قیامت کے ذریعے زندہ کِیا جائیگا۔ اگرچہ اس سے اعمال ۲۴:۱۵۔
بعض کو یہوواہ کی بابت سیکھنے کا پہلا موقع ملتا ہے لیکن یہ دیگر کو یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت اور خدمت میں قائم رہنے کے قابل بھی بناتی ہے۔—۲۰ سچے مسیحیوں کے طور پر، ہم مسیحی غیرجانبداری قائم رکھنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ ہم یہ شاندار امکان ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے کہ ہم ’چپچاپ کھڑے رہ کر یہوواہ کی نجات دیکھنے‘ کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگلا مضمون بائبل پیشینگوئی کی تکمیل کی بابت بتدریج سمجھ فراہم کرنے والے حالیہ واقعات سے آگاہ کرتے ہوئے ہمارے ایمان کو مضبوط کریگا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 9 ایسے لوگوں کی مثال پر غور کرنے کیلئے جنہوں نے گواہ بننے کیلئے پُرتشدد زندگیاں ترک کر دیں اویک! کے اِن شماروں کو دیکھیں: مارچ ۲۲، ۱۹۹۰، صفحہ ۲۱؛ اگست ۸، ۱۹۹۱، صفحہ ۱۸؛ نیز واچٹاور کے یہ شمارے دیکھیں: جنوری ۱، ۱۹۹۶، صفحہ ۵؛ اگست ۱، ۱۹۹۸، صفحہ ۵۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• آجکل لوگ اسقدر نااُمید کیوں ہیں؟
• یہوواہ کے گواہ مستقبل کی بابت پُراُمید کیوں ہیں؟
• تشدد کے بنیادی سبب کی بابت یہوواہ پہلے ہی سے کیا کر چکا ہے؟
• ہمیں جوج کے حملے سے ڈرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
یسوع نے مسیحی غیرجانبداری کا عمدہ نمونہ قائم کِیا
[صفحہ ۱۶ پر تصویریں]
ہزاروں نوجوانوں نے خوشی سے کُلوقتی خدمت اختیار کی ہے
[صفحہ ۱۶ پر تصویر کا حوالہ]
namfarG .M/622681 OTOHP NU