سخاوت جو خدا کو خوش کرتی ہے
سخاوت جو خدا کو خوش کرتی ہے
یسوع اور اُس کے شاگرد بیتعنیاہ میں مریم، مرتھا اور حال ہی میں زندہ کئے جانے والے لعزر سمیت چند قریبی دوستوں کے ساتھ ضیافت سے لطفاندوز ہو رہے تھے۔ جب مریم نے قیمتی عطر کو یسوع کے پاؤں پر ڈالا تو یہوداہ اسکریوتی مشتعل ہوکر کہنے لگا: ”یہ عطر تین سو دینار [ایک سال کی اُجرت کے برابر رقم] میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟“ دیگر نے بھی ایسی ہی شکایت کی۔—یوحنا ۱۲:۱-۶؛ مرقس ۱۴:۳-۵۔
لیکن یسوع نے جواب دیا: ”اُسے چھوڑ دو۔ . . . کیونکہ غریبغربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں۔ جب چاہو اُن کے ساتھ نیکی کر سکتے ہو لیکن مَیں تمہارے پاس ہمیشہ نہ رہوں گا۔“ (مرقس ۱۴:۶-۹) یہودی مذہبی پیشوا یہ تعلیم دیتے تھے کہ خیرات دینا نہ صرف نیکی ہے بلکہ اس سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، یسوع نے واضح کِیا کہ خدا کو صرف غریبوں میں خیرات بانٹنے ہی سے خوش نہیں کِیا جا سکتا بلکہ اس کے اَور بھی طریقے ہیں۔
ابتدائی مسیحی کلیسیا میں مروجہ طریقوں کا مختصر جائزہ ظاہر کریگا کہ ہم کیسے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے خدا کو خوش کر سکتے ہیں۔ یوں ایک بہت ہی مفید طریقہ بھی سامنے آئیگا۔
خیرات دینا
کئی مرتبہ یسوع نے اپنے شاگردوں کی ”خیرات“ دینے کے لئے حوصلہافزائی کی۔ (لوقا ۱۲:۳۳) تاہم، یسوع نے خبردار کِیا کہ اس میں خدا کی بجائے اپنی بڑائی کرنے کے خیال سے نمودونمائش کا عنصر نہیں ہونا چاہئے۔ اُس نے کہا: ”جب تُو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا ریاکار عبادتخانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کی بڑائی کریں۔“ (متی ۶:۱-۴) اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے، ابتدائی مسیحیوں نے اپنے زمانے کے پارسا مذہبی راہنماؤں کی طرح نمائش کرنے سے گریز کِیا اور ذاتی خدمات یا تحائف کی صورت میں ضرورتمندوں کی مدد کی۔
مثال کے طور پر، لوقا ۸:۱-۳ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ مریم مگدلینی، یوآنہ، سُوسناہ اور دیگر خواتین نے اپنے ”مال“ سے یسوع اور اُس کے شاگردوں کی خدمت کی۔ اگرچہ یہ اشخاص محتاج نہیں تھے توبھی اِنہوں نے خدمتگزاری پر پوری توجہ دینے کے لئے اپنا ذریعۂمعاش چھوڑ دیا تھا۔ (متی ۴:۱۸-۲۲؛ لوقا ۵:۲۷، ۲۸) ان خواتین نے خداداد تفویض کو پورا کرنے میں اُن کی مدد کرنے سے دراصل خدا کو جلال دیا تھا۔ نیز خدا نے آئندہ نسلوں کے لئے اُن کی مہربانہ سخاوت کا ریکارڈ بائبل میں محفوظ کرا کے اپنی قدردانی کا ثبوت پیش کِیا۔—امثال ۱۹:۱۷؛ عبرانیوں ۶:۱۰۔
ہرنی نامی خاتون بھی ”بہت ہی نیک کام اور خیرات کِیا کرتی تھی۔“ وہ سمندر کے کنارے واقع اپنے قصبے یافا کی ضرورتمند بیواؤں کے لئے کپڑے بنایا کرتی تھی۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ آیا وہ کپڑا بھی اپنے پیسوں سے خریدتی تھی یا صرف سلائی کرکے دیا کرتی تھی۔ اپنے اِس نیک کام کی بدولت وہ ضرورتمندوں اور خدا کو بھی بہت عزیز تھی جس نے رحم کے ساتھ اُس کی نیکنیتی کو بڑی برکت دی تھی۔—اعمال ۹:۳۶-۴۱۔
درست محرک ضروری ہے
کس چیز نے اِن اشخاص کو سخاوت کرنے کی تحریک دی تھی؟ یہ مدد کے لئے محض جذباتی اور مشفقانہ تحریک نہیں تھی۔ اُنہوں نے غربت، مصیبت، بیماری یا دیگر مشکلات کا تجربہ کرنے والوں کی مدد کے لئے ہر روز کچھ نہ کچھ کرنے کی ذاتی اخلاقی ذمہداری محسوس کی تھی۔ (امثال ۳:۲۷، ۲۸؛ یعقوب ۲:۱۵، ۱۶) ایسا دینا ہی خدا کو خوش کرتا ہے۔ اس کا اصل محرک خدا کے لئے گہری محبت اور اُس کی رحمانہ اور فراخدلانہ شخصیت کی نقل کرنے کی خواہش ہے۔—متی ۵:۴۴، ۴۵؛ یعقوب ۱:۱۷۔
یوحنا رسول نے یہ پوچھتے ہوئے سخاوت کے نہایت اہم پہلو کو نمایاں کِیا: ”جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحمکرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتیہے؟“ (۱-یوحنا ۳:۱۷) اس کا جواب بالکل واضح ہے۔ خدا کی محبت لوگوںکو سخاوت کی طرف مائل کرتی ہے۔ خدا ایسے لوگوں کی قدر کرتا اوراُنہیں اَجر دیتا ہے جو اُسی کی مانند فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ (امثال ۲۲:۹؛ ۲-کرنتھیوں ۹:۶-۱۱) کیا آجکل ہمیں ایسی فراخدلی نظر آتی ہے؟ غور کیجئے کہ حال ہی میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا میں کیا واقعہوا۔
ایک عمررسیدہ مسیحی خاتون کے گھر میں مرمت کی اشد ضرورت تھی۔ وہ تنہا رہتی تھی اور اُس کا کوئی مددگار نہ تھا۔ کئی سالوں تک اُس کا گھر مسیحی اجلاسوں کے لئے دستیاب رہا اور اکثر وہ دوسروں کی دعوت بھی کرتی تھی۔ (اعمال ۱۶:۱۴، ۱۵، ۴۰) اُس کی خستہحالی کو دیکھ کر کلیسیا کے ارکان نے مدد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بعض نے عطیات دئے جبکہ دیگر نے مزدوری کی۔ چند ہفتوں ہی میں رضاکاروں نے نئی چھت ڈال دی، نیا باتھروم بنا دیا، پہلی منزل کو پلستر کرکے رنگ بھی کر دیا اور باورچیخانے میں نئی الماریاں بنا دیں۔ اس سے نہ صرف اُس خاتون کی ضرورت پوری ہوئی بلکہ کلیسیا ایک دوسرے کے قریب بھی آ گئی جس سے پڑوسیوں پر سچے مسیحیوں کی طرح دینے کی اچھی مثال کا گہرا اثر ہوا۔
ہم متعدد طریقوں سے دوسروں کی ذاتی طور پر مدد کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ۲-کرنتھیوں ۸:۱۲) تاہم، کیا ایسی ذاتی اور براہِراست مدد ہی واحد طریقہ ہے جسے یہوواہ برکت دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
کسی یتیم کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتے ہیں؟ کیا ہم کسی عمررسیدہ بیوہ کے لئے خریداری یا کچھ سلائی کا کام کر سکتے ہیں؟ کیا ہم کسی نادار کے لئے کھانا فراہم کر سکتے یا اُسے کچھ پیسے دے سکتے ہیں؟ ہمارا مدد کرنے کے لئے بہت امیر ہونا ضروری نہیں ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”اگر نیت ہو تو خیرات اُس کے موافق مقبول ہوگی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُس کے موافق جو اُس کے پاس نہیں۔“ (منظم امداد کی بابت کیا ہے؟
بعضاوقات ذاتی کوششیں کافی نہیں ہوتیں۔ دراصل، یسوع اور اُس کے شاگرد غریبوں کے لئے مشترکہ فنڈ رکھتے تھے اور کام کے دوران ملنے والے لوگوں سے عطیات قبول کرکے جمع کر لیتے تھے۔ (یوحنا ۱۲:۶؛ ۱۳:۲۹) اسی طرح، پہلی صدی کی کلیسیائیں بوقتِضرورت عطیات جمع کرکے وسیع پیمانے پر امداد فراہم کرتی تھیں۔—اعمال ۲:۴۴، ۴۵؛ ۶:۱-۳؛ ۱-تیمتھیس ۵:۹، ۱۰۔
ایسا ہی ایک واقعہ ۵۵ س.ع. میں پیش آیا تھا۔ یہودیہ کی کلیسیائیں غربت کا شکار ہو گئی تھیں جس کی وجہ شاید حال ہی میں واقع ہونے والا بڑا قحط تھا۔ (اعمال ۱۱:۲۷-۳۰) پولس رسول کو ہمیشہ غریبوں کی فکر ہوتی تھی اس لئے اُس نے مکدونیہ تک کی کلیسیاؤں کے لئے مدد کا بندوبست کِیا۔ اُس نے ذاتی طور پر عطیات جمع کرنے کا کام منظم کِیا اور انہیں پہنچانے کے لئے لائق بھائیوں کو استعمال کِیا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۱-۴؛ گلتیوں ۲:۱۰) پولس اور دیگر اشخاص نے اپنی خدمات کا کوئی عوضانہ نہیں لیا تھا۔—۲-کرنتھیوں ۸:۲۰، ۲۱۔
آجکل یہوواہ کے گواہ مصیبت کے وقت میں فوراً مدد کو پہنچتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سن ۲۰۰۱ کے موسمِگرما میں، طوفانی بارشوں کی وجہ سے ہوسٹن، ٹیکساس، یو.ایس.اے. میں بہت بڑا سیلاب آ گیا۔ مجموعی طور پر، ۷۲۳ گواہوں کے گھروں کو نقصان پہنچا بعض تو بالکل تباہ ہو گئے۔ اس تباہی کے پیشِنظر فوراً لائق مسیحی بزرگوں پر مشتمل ایک امدادی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ مختلف اشخاص کی ضروریات کو پورا کِیا جا سکے اور مقامی گواہوں کی مدد کے لئے عطیات کا بندوبست کِیا جا سکے جن سے وہ اس صورتحال سے نپٹنے کے قابل ہوں اور اپنے گھروں کی مرمت بھی کر سکیں۔ قریبی کلیسیاؤں سے رضاکاروں نے سارا کام کِیا۔ ایک گواہ نے مدد کے لئے اس حد تک قدردانی دکھائی کہ جب اُسے اپنے گھر کی مرمت کے لئے انشورنس کمپنی سے رقم ملی تو اُس نے فوراً سارا پیسہ ریلیف فنڈ میں دے دیا تاکہ دوسرے ضرورتمندوں کی مدد ہو سکے۔
امثال ۱۴:۱۵ بیان کرتی ہے: ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“ پس تمام حقائق کا بغور جائزہ لینا دانشمندی کی بات ہے۔
لیکن خیراتی ادارے کے سلسلے میں ہمیں اُن تمام درخواستوں کے سلسلے میں محتاط رہنا چاہئے۔ بعض اداروں کے انتظامی اور فنڈ بڑھانے کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اصل مقصد کے لئے پیسہ بہت ہی کم بچتا ہے۔نہایت ہی مفید سخاوت
سخاوت کی ایک قِسم خیرات دینے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یسوع نے اس کا ذکر اُس وقت کِیا جب کسی نوجوان دولتمند نے اُس سے پوچھا کہ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے اُسے کیا کرنا چاہئے۔ یسوع نے اُسے بتایا: ”جا اپنا مالواسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملیگا اور آکر میرے پیچھے ہو لے۔“ (متی ۱۹:۱۶-۲۲) غور کریں کہ یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’غریبوں کو دینے سے تجھے زندگی ملے گی۔‘ اس کے برعکس، اُس نے یہ کہا کہ ”میرے پیچھے ہو لے۔“ باالفاظِدیگر، خیرات مفید اور قابلِتعریف تو ضرور ہے مگر مسیحی شاگردی میں اس سے زیادہ کچھ شامل ہے۔
یسوع کی بنیادی دلچسپی دوسروں کی روحانی طور پر مدد کرنے میں تھی۔ اپنی موت سے ذرا پہلے اُس نے پیلاطُس کو بتایا: ”مَیں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔“ (یوحنا ۱۸:۳۷) اگرچہ یسوع نے غریبوں کی مدد کرنے، بیماروں کو شفا دینے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے میں سرگرمی کا مظاہرہ کِیا توبھی اُس نے بنیادی طور پر اپنے شاگردوں کو منادی کے لئے تیار کِیا تھا۔ (متی ۱۰:۷، ۸) دراصل، اُن کے لئے اُس کی آخری ہدایات میں یہ حکم شامل تھا: ”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔“—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
بِلاشُبہ، منادی سے بھی دُنیا کے تمام مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تاہم، تمام لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانا خدا کو جلال بخشتا ہے کیونکہ منادی سے خدا کی مرضی پوری ہوتی اور الہٰی پیغام قبول کرنے والوں کو ابدی فائدہ پہنچانے والی راہ کھلتی ہے۔ (یوحنا ۱۷:۳؛ ۱-تیمتھیس ۲:۳، ۴) کیوں نہ جب یہوواہ کے گواہ اگلی مرتبہ آپ کے دروازے پر آئیں تو اُن کی بات دھیان سے سنیں؟ وہ روحانی تحفہ لیکر آتے ہیں۔ نیز وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو دینے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
[صفحہ ۶ پر تصویریں]
فکرمندی ظاہر کرنے کے بہت سے طریقے ہیں
[صفحہ ۷ پر تصویر]
ہماری خوشخبری کی منادی خدا کو خوش کرنے کے علاوہ ابدی فوائد کی راہ کھولتی ہے