مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہر حال میں خوش رہنا سیکھیں

ہر حال میں خوش رہنا سیکھیں

ہر حال میں خوش رہنا سیکھیں

پولس رسول نے فلپی میں رہنے والے مسیحیوں کو ایک حوصلہ‌افزا خط لکھا جس میں اُس نے کہا:‏ ”‏یہ نہیں کہ مَیں محتاجی کے لحاظ سے کہتا ہوں کیونکہ مَیں نے یہ سیکھا ہے کہ جس حالت میں ہوں اُسی پر راضی رہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ ہر ایک بات اور سب حالتوں میں مَیں نے سیر ہونا بھوکا رہنا اور بڑھنا گھٹناگھٹنا سیکھا ہے۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

پولس کے ہر حال میں خوش رہنے کا راز کیا تھا؟‏ ہم اُس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ اپنے زمانے کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بےثباتی کے پیشِ‌نظر سچے مسیحیوں کیلئے ہر حال میں خوش رہنے کے راز سے واقف ہونا واقعی فائدہ‌مند ہوگا تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت پر توجہ مرکوز رکھ سکیں۔‏

مسیحی بننے سے پہلے پولس ایک بڑا آدمی تھا۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏اگر کسی اَور کو جسم پر بھروسا کرنے کا خیال ہو تو مَیں اُس سے بھی زیادہ کر سکتا ہوں۔‏ آٹھویں دن میرا ختنہ ہوا۔‏ اؔسرائیل کی قوم اور بنیمینؔ کے قبیلہ کا ہوں۔‏ عبرانیوں کا عبرانی۔‏ شریعت کے اعتبار سے فریسی ہوں۔‏ جوش کے اعتبار سے کلیسیا کا ستانے والا۔‏ شریعت کی راستبازی کے اعتبار سے بےعیب تھا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۳:‏۴-‏۶‏)‏ اسکے علاوہ پولس کو سردار کاہنوں کی طرف سے مسیحیوں کو ستانے کی پُشت‌پناہی حاصل تھی۔‏ اگر پولس یہودی مذہب پر چلتا رہتا تو اُسے یہودی لوگوں میں مزید عزت،‏ شہرت اور دولت مل سکتی تھی۔‏—‏اعمال ۲۶:‏۱۰،‏ ۱۲‏۔‏

تاہم،‏ جب پولس سرگرم مسیحی بنا اور اُس نے یہوواہ کی خدمت اور خوشخبری کی خاطر یہ سب کچھ چھوڑ دیا تو حالات بُری طرح بدل گئے۔‏ (‏فلپیوں ۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ اَب وہ گزربسر کیلئے کیا کریگا؟‏ کیا اُسکو مُناد کے طور پر کچھ آمدنی ملے گی؟‏

پولس اُجرت کے بغیر خدا کی خدمت کرتا تھا۔‏ وہ کرنتھس شہر میں رہتے ہوئے اکولہ اور پرسکلہ کیساتھ خیمے بناتا اور دیگر کام بھی کِیا کرتا تھا تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنے۔‏ (‏اعمال ۱۸:‏۱-‏۳؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۹؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۸-‏۱۰‏)‏ پولس نے خوشخبری کا اعلان کرنے اور مسیحیوں کو ہمت دلانے کی خاطر دُوردراز ملکوں کا سفر بھی کِیا۔‏ خدا کی خدمت میں پوری طرح مصروف رہنے کی وجہ سے اُس کے پاس زیادہ اثاثے نہیں تھے۔‏ لہٰذا اُس نے گزارا کیسے کِیا؟‏ جہاں کہیں بھی وہ جاتا بھائی اُسکی مدد کرتے تھے۔‏ اسکے باوجود،‏ کئی مرتبہ اُسے تنگی کا تجربہ کرنا پڑا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۷؛‏ فلپیوں ۴:‏۱۵-‏۱۸‏)‏ پھر بھی اُس نے اپنی حالت کا شکوہ نہ کِیا اور نہ ہی دوسروں کی چیزوں کا لالچ کِیا۔‏ اُس نے اپنے پورے دل سے اپنے بھائیوں کی خدمت کی۔‏ اِسلئے وہ یسوع کے اِن الفاظ کو دُہرا سکا:‏ ”‏دینا لینے سے مبارک ہے۔‏“‏ ہمارے لئے کیا ہی عمدہ مثال!‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۳-‏۳۵‏۔‏

ہر حال میں خوش رہنے کا مطلب

پولس کی خوشی کا راز یہ تھا کہ وہ مطمئن تھا اور لالچی نہیں بنا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ اگر ہمارے پاس گزربسر کرنے کی ضروری چیزیں ہیں تو ہمیں اِنہی پر قناعت کرنی چاہئے۔‏ پولس نے اپنے ہمخدمت تیمتھیس سے کہا:‏ ”‏ہاں دینداری قناعت کیساتھ بڑے نفع کا ذریعہ ہے۔‏ کیونکہ نہ ہم دُنیا میں کچھ لائے اور نہ کچھ اُس میں سے لے جا سکتے ہیں۔‏ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶-‏۸‏۔‏

غور کریں کہ پولس نے سچی خوشی کو خدائی عقیدت کے ساتھ منسلک کِیا ہے۔‏ وہ سمجھتا تھا کہ حقیقی خوشی مال‌ودولت کی بجائے خدا کی خدمت کو پہلا درجہ دینے سے حاصل ہوتی ہے۔‏ لیکن ”‏کھانے پہننے“‏ کی چیزوں کے بغیر بھی ہم خدا کے کام کو پورا نہیں کر سکتے۔‏ چنانچہ،‏ ہمیں پولس سے سیکھتے ہوئے اپنا پورا بھروسا یہوواہ پر رکھنا چاہئے خواہ ہمارے حالات کیسے ہی ہوں۔‏

آجکل اکثر لوگ پریشان ہوتے ہیں کیونکہ وہ خدا پر نہیں بلکہ مال‌ودولت پر بھروسا رکھتے ہیں۔‏ وہ اپنی روزمرّہ ضروریات کو پورا کرنے کی بجائے پیسوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔‏ ٹیلی‌ویژن،‏ ریڈیو اور اخباروں کے ذریعے بڑی بڑی کمپنیاں لوگوں کو اپنی مصنوعات سے متعارف کراتی اور اُنہیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ اِن چیزوں کے بغیر لوگوں کو خوشی اور سکون نہیں مل سکتا۔‏ نتیجتاً،‏ بہت سے لوگ اُنکے جال میں پھنس جاتے ہیں۔‏ لیکن خوشی اور اطمینان حاصل کرنے کی بجائے وہ ”‏ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

اُنہوں نے خوشی کا راز جان لیا ہے

کیا اِس دُنیا کے خراب ماحول میں رہتے ہوئے،‏ ہر حال میں خوش رہ کر خدا کی خدمت کرنا واقعی ممکن ہے؟‏ جی‌ہاں،‏ ممکن ہے۔‏ درحقیقت،‏ لاکھوں لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے ہر حال میں خوش رہنے کا راز جان لیا ہے۔‏ وہ یہوواہ کے گواہ ہیں،‏ جنہوں نے خود کو خدا کیلئے مخصوص کر رکھا ہے اور وہ پوری دُنیا میں خدا کی مرضی پوری کرتے ہوئے لوگوں کو اُسکے مقاصد کی بابت سکھا رہے ہیں۔‏

مثال کے طور پر،‏ ایسے اشخاص کی بابت غور کرتے ہیں جنہوں  نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا ہے۔‏ اب وہ رضاکاروں کے طور پر تربیت پا کر دوسرے ملکوں میں بطور مشنری لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ اِن ملکوں میں رہن‌سہن کا طریقہ اُن کے اپنے ملک سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کچھ مشنری ۱۹۴۷ میں ایشیا کے ایک ملک میں گئے جہاں ابھی ابھی جنگ ختم ہوئی تھی۔‏ وہاں بجلی تک نہ تھی جسکی وجہ سے اُنہیں تمام کام ہاتھوں سے کرنے پڑتے تھے۔‏ وہ کپڑے مشین سے دھونے کے عادی تھے لیکن اب اُنہیں اپنے کپڑے ہاتھ سے دھونے پڑتے تھے اور بعض‌اوقات تو دریا کے کنارے پتھروں پر دھونے پڑتے تھے۔‏ مگر پھر بھی یہ مشنری خوشی سے منادی کے کام میں مصروف رہے کیونکہ لوگوں کو بائبل کی سچائی سکھانا اُن کی دِلی آرزو تھی۔‏

ایسے بہن بھائی بھی ہیں جو منادی میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں یا پھر ان علاقوں میں جا کر خدمت کرنے کو تیار ہیں جہاں کسی نے پہلے منادی نہیں کی۔‏ اڈولفو نامی یہوواہ کا ایک گواہ اپنی بیوی کیساتھ تقریباً ۵۰ سال سے میکسیکو کے مختلف حصوں میں خوشخبری سنا رہا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏پولس کی طرح جب مَیں اور میری بیوی مختلف جگہوں میں بھائیوں سے ملنے جاتے تو ہم اُنکی طرح زندگی بسر کرنا سیکھ لیتے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم ایک ایسی کلیسیا کے بھائیوں سے ملنے گئے جو شہر سے بہت دُور رہتے تھے۔‏ بازار پاس نہ ہونے کی وجہ سے بہن بھائی دن میں صرف تین روٹیوں سے جن پر ذرا سا تیل لگا ہوا تھا اور ان کے ساتھ تھوڑی سی چائے پی کر گزارا کرتے  تھے۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑا۔‏ ہم نے تقریباً ۵۴ سال تک اُس مُلک میں رہ کر یہوواہ کی خدمت کو جاری رکھا اور ایسے بہت سے تجربات سے محظوظ ہوئے۔‏“‏

فلورین‌ٹی‌نو نامی بھائی ایک ایسے زمانے کو یاد کرتا ہے جب اُسے اور اُسکے خاندان کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔‏ وہ اپنے ابتدائی زمانے کو یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہمارے والد ایک کامیاب تاجر تھے۔‏ زمین‌وجائیداد کافی تھی۔‏ ہماری پرچون کی دُکان بھی تھی جسکی تجوری دن کے آخر پر پیسوں سے بھری ہوتی تھی۔‏

‏”‏مگر اچانک میرے باپ کا کاروبار تباہ ہوگیا۔‏ ہم ایک دم کنگال ہو گئے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ میرے ایک بھائی کا ایکسیڈنٹ بھی ہو گیا اور وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا۔‏ سب کچھ یک‌لخت بدل گیا تھا۔‏ مَیں چھوٹی‌موٹی چیزیں بیچ کر گزارا کرنے لگا۔‏ مجھے کھیتوں میں بھی کام کرنا پڑا۔‏ بعض مجھے ہر فن مولا کہتے تھے۔‏ اپنی ماں کی بات سے مجھے بہت تسلی ملتی تھی۔‏ وہ ہمیں‌سمجھاتی تھی کہ سب سے بڑی دولت یہوواہ خدا کی خدمت کرنا ہے جو چند ہی لوگوں کو حاصل ہے۔‏ ہاں،‏ مَیں نے ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیا تھا۔‏ اسی وجہ سے مَیں ۲۵ سال سے یہوواہ کی کُل‌وقتی خدمت کر رہا ہوں اور مجھے ایسا کرنے سے بڑی خوشی اور اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏“‏

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ”‏دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔‏“‏ اِسی لئے ہم یہ نصیحت پاتے ہیں:‏ ”‏خوشی کرنے والے ایسے ہوں گویا خوشی نہیں کرتے اور خریدنے والے ایسے ہوں گویا مال نہیں رکھتے۔‏ اور دُنیوی کاروبار کرنے والے ایسے ہوں کہ دُنیا ہی کے نہ ہو جائیں۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۲۹-‏۳۱‏۔‏

اِسلئے آپکو بھی اپنی زندگی کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔‏ اگر آپ مالدار نہیں ہیں تو دل میں لالچ پیدا نہ کریں اور نہ ہی آزردہ ہوں بلکہ جو کچھ آپ  کے پاس ہے اُس پر قناعت کریں۔‏ مادی چیزوں کو اُنہی کے مقام پر رکھیں اور اپنی زندگی پر حاوی نہ ہونے دیں۔‏ پولس نے کہا:‏ ’‏ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھو جو ہمیں لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا  ہے۔‏‘‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ  ہم  نے  ہر  حال میں خوش رہنے کا راز سیکھ لیا ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

پولس اپنے ہاتھ سے کام کرتا تھا تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

اِنہوں نے ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیا ہے