مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے غیرجانبدار خدا،‏ یہوواہ کی نقل کریں

اپنے غیرجانبدار خدا،‏ یہوواہ کی نقل کریں

اپنے غیرجانبدار خدا،‏ یہوواہ کی نقل کریں

‏”‏خدا کے ہاں کسی کی طرفداری نہیں۔‏“‏—‏رومیوں ۲:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ کنعانیوں کے سلسلے میں یہوواہ کا مقصد کیا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے کیا کِیا اور اس سے کونسے سوالات پیدا ہوتے ہیں؟‏

موآب کے میدانوں میں ۱۴۷۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں خیمہ‌زن اسرائیلی موسیٰ کی باتیں بڑے دھیان سے سن رہے تھے۔‏  دریائےیردن کے پار ایک آزمائش اُنکی منتظر تھی۔‏ موسیٰ نے ملکِ‌موعود میں بسنے والی سات طاقتور کنعانی قوموں کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست دینے کی بابت یہوواہ کے مقصد کو بیان کِیا۔‏ موسیٰ کے یہ الفاظ کتنے حوصلہ‌افزا تھے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تیرا خدا اُنکو تیرے آگے شکست دلائے اور تُو اُنکو مار لے“‏!‏ اسرائیلیوں کو اُن کیساتھ نہ  کوئی عہد باندھنا تھا اور نہ کسی قِسم کی رعایت کرنی تھی۔‏—‏استثنا ۱:‏۱؛‏ ۷:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۲ تاہم،‏ یہوواہ نے اُس شہر سے ایک خاندان کو بچایا جس پر  اسرائیلیوں نے سب سے پہلے حملہ کِیا۔‏ دیگر چار شہروں کے لوگوں نے بھی خدا کے تحفظ کا تجربہ کِیا۔‏ ایسا کیوں ہوا؟‏ کنعانیوں کے بچاؤ کے ساتھ منسلک ہیجان‌خیز واقعات سے ہم یہوواہ کی بابت کیا سیکھتے ہیں؟‏ نیز ہم اُس کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

یہوواہ کی شہرت کیلئے ردِعمل

۳،‏ ۴.‏ اسرائیلی فتوحات کی خبروں نے کنعانی باشندوں پر کیا اثر ڈالا تھا؟‏

۳ ملکِ‌موعود  میں  داخل  ہونے  سے  پہلے  بیابان  میں  اسرائیلیوں  کے ۴۰ سالہ سفر کے دوران یہوواہ نے اپنے لوگوں کی حفاظت کی اور وہ اُن کی خاطر لڑا۔‏ ملکِ‌موعود کے جنوب میں اسرائیلیوں نے عراد کے کنعانی بادشاہ کا مقابلہ کِیا۔‏ یہوواہ کی مدد سے اسرائیلیوں نے حُرمہ میں اُسے اور اُس کے لوگوں کو شکست دی۔‏ (‏گنتی ۲۱:‏۱-‏۳‏)‏ بعدازاں،‏ اسرائیلی ادوم کے مُلک کو پار کرکے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے بحرِمُردار کے شمال‌مشرق میں پہنچے۔‏ اس علاقے میں جہاں پہلے موآبی رہتے تھے اب اموری آباد تھے۔‏ اموری بادشاہ سیحون نے اسرائیلیوں کو اپنے علاقے سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔‏ نتیجتاً،‏ ارنون کی وادی کے شمال میں،‏ منظرِ کے مقام پر جنگ کے دوران سیحون کی موت ہوئی۔‏ (‏گنتی ۲۱:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ استثنا ۲:‏۳۰-‏۳۳‏)‏ مزید شمال کی طرف بڑھتے ہوئے بسن میں عوج دوسرے اموریوں پر حکومت کرتا تھا۔‏ دیوہیکل عوج بھی یہوواہ سے بچنے میں ناکام رہا۔‏ عوج کو ادرعی میں ہلاک کر دیا گیا۔‏ (‏گنتی ۲۱:‏۳۳-‏۳۵؛‏ استثنا ۳:‏۱-‏۳،‏ ۱۱‏)‏ مصر سے اسرائیلیوں کے خروج سے منسلک واقعات کے ساتھ‌ساتھ ان فتوحات کی خبروں نے کنعانی باشندوں پر پُرزور اثر  ڈالا۔‏ *

۴ جب اسرائیلی یردن پار کرکے پہلی بار کنعان میں داخل ہوئے تو وہ جلجال میں خیمہ‌زن ہوئے۔‏ (‏یشوع ۴:‏۹-‏۱۹‏)‏ یریحو کا فصیل‌دار شہر کچھ ہی فاصلے پر تھا۔‏ کنعانی عورت راحب نے یہوواہ کے کاموں کی بابت جوکچھ سن رکھا تھا اسکی بِنا پر اُس نے ایمان کیساتھ عمل کرنے کی تحریک پائی۔‏ نتیجتاً،‏ جب یہوواہ یریحو پر تباہی لایا تو اُسے اور اُسکے گھرانے کو بچا لیا گیا۔‏—‏یشوع ۲:‏۱-‏۱۳؛‏ ۶:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ یعقوب ۲:‏۲۵‏۔‏

۵.‏ کس بات نے جبعونیوں کو ہوشیاری سے کام لینے کی تحریک دی تھی؟‏

۵ اسکے بعد،‏ اسرائیلی دریا کے قریب،‏ نشیبی علاقے سے گزرتے ہوئے وسطی پہاڑی علاقے میں آ گئے۔‏ یہوواہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یشوع نے عی کے شہر پر حملہ کرنے کیلئے اپنے آدمیوں کو گھات میں بٹھایا۔‏ (‏یشوع،‏ ۸ باب)‏ اسرائیلیوں کے ہاتھوں تباہی کی لگاتار خبروں نے بہتیرے کنعانی بادشاہوں کو جنگ کیلئے متحد ہونے کی تحریک دی۔‏ (‏یشوع ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ قریب ہی واقع حوّی شہر،‏ جبعون کے لوگوں کا ردِعمل فرق تھا۔‏ یشوع ۹:‏۴ کے مطابق،‏ ”‏اُنہوں نے .‏ .‏ .‏ حیلہ‌بازی کی۔‏“‏ راحب کی طرح وہ بھی سن چکے تھے کہ یہوواہ نے کیسے مصر سے خروج کے دوران اور سیحون اور عوج کو شکست دینے کے سلسلے میں اپنے لوگوں کو بچایا تھا۔‏ (‏یشوع ۹:‏۶-‏۱۰‏)‏ جبعونی جان گئے کہ مزاحمت بےفائدہ ثابت ہوگی۔‏ لہٰذا اُنہوں نے جبعون اور تین قریبی شہروں—‏کفیرہ،‏ بیروت اور قریت‌یعریم—‏کے بچاؤ کی خاطر کچھ لوگوں کو کسی دُور کے علاقے کے رہنے والوں کا بھیس بدل کر جلجال میں یشوع کے پاس بھیجا۔‏ یہ منصوبہ کامیاب رہا۔‏ یشوع نے اُن کیساتھ عہد باندھا جو اُنکی بقا کا باعث بنا۔‏ تین دن بعد یشوع اور اسرائیلیوں کو پتا چلا کہ اُنہیں دھوکا دیا گیا ہے۔‏ تاہم،‏ اُنہوں نے یہوواہ کو گواہ بنا کر یہ عہد باندھا تھا لہٰذا وہ اس پر قائم رہے۔‏ (‏یشوع ۹:‏۱۶-‏۱۹‏)‏ کیا یہوواہ انکے فیصلے سے متفق تھا؟‏

۶.‏ یہوواہ نے جبعونیوں کیساتھ باندھے گئے یشوع کے عہد کے لئے کیسا جوابی‌عمل دکھایا؟‏

۶ جبعونیوں کو اسرائیلیوں اور خیمۂ‌اجتماع میں ’‏یہوواہ کے مذبح‘‏ کے لئے لکڑہارے اور پانی بھرنے والے بننے کی اجازت دی گئی۔‏ (‏یشوع ۹:‏۲۱-‏۲۷‏)‏ اس کے علاوہ،‏ جب پانچ اموری بادشاہوں اور اُنکی فوجوں نے جبعونیوں کو للکارا تو یہوواہ نے معجزانہ طور پر اُنکی خاطر مداخلت کی۔‏ آسمان سے گِرنے والے اولوں نے یشوع کی فوجوں کی نسبت زیادہ دشمنوں کو ہلاک کِیا۔‏ یہوواہ نے دشمنوں کی مکمل شکست کیلئے سورج اور چاند کے ٹھہر جانے کی بابت یشوع کی درخواست بھی سنی۔‏ یشوع نے بیان کِیا،‏ ”‏ایسا دن نہ کبھی اُس سے پہلے ہوا اور نہ اُسکے بعد جس میں [‏یہوواہ]‏ نے کسی آدمی کی بات سنی ہو کیونکہ [‏یہوواہ]‏ اسرائیلیوں کی خاطر لڑا۔‏“‏—‏یشوع ۱۰:‏۱-‏۱۴‏۔‏

۷.‏ پطرس نے کونسی سچائی تسلیم کی اور یہ بعض کنعانیوں کے سلسلے میں کیسے ظاہر ہوئی تھی؟‏

۷ کنعانی راحب اور اُسکے خاندان کے علاوہ جبعونیوں نے بھی یہوواہ کا خوف رکھتے ہوئے اسکی مطابقت میں عمل کِیا تھا۔‏ اُن کیساتھ جو واقع ہوا وہ بعدازاں مسیحی رسول پطرس کی بیان‌کردہ سچائی کی واضح عکاسی کرتا ہے:‏ ”‏خدا کسی کا طرفدار نہیں۔‏ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

ابرہام اور اسرائیلیوں کیساتھ برتاؤ

۸،‏ ۹.‏ ابرہام اور اسرائیلی قوم کیساتھ یہوواہ کے برتاؤ سے اُس کی غیرجانبداری کیسے ظاہر ہوتی ہے؟‏

۸ شاگرد یعقوب نے ابرہام اور اُسکی نسل کیساتھ اپنے برتاؤ میں یہوواہ کے غیرمستحق فضل پر توجہ دلائی۔‏ ابرہام کے شجرۂنسب کی بجائے اُسکے ایمان نے اُسے ”‏خدا کا دوست“‏ بنایا تھا۔‏ (‏یعقوب ۲:‏۲۳‏)‏ ابرہام کا ایمان اور یہوواہ کیلئے اُسکی محبت اُسکی اولاد کیلئے برکات پر منتج ہوئی تھی۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۲۰:‏۷‏)‏ یہوواہ نے ابرہام سے وعدہ کِیا:‏ ”‏مَیں تجھے برکت پر برکت دونگا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دونگا۔‏“‏ تاہم اگلی آیت میں کئے گئے وعدے پر غور کریں:‏ ”‏تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی۔‏“‏—‏پیدایش ۲۲:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ رومیوں ۴:‏۱-‏۸‏۔‏

۹ طرفداری دکھانے کی بجائے یہوواہ نے اسرائیلیوں کیساتھ اپنے  برتاؤ  سے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے فرمانبردار لوگوں کیلئے کیا کچھ کر سکتا ہے۔‏ ایسا برتاؤ اپنے وفادار خادموں کیلئے یہوواہ کی باوفا محبت کی ایک مثال ہے۔‏ اگرچہ اسرائیل یہوواہ کی ”‏خاص اُمت“‏ تھی توبھی اسکا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسرے لوگ یہوواہ کے رحم سے محروم تھے۔‏ (‏خروج ۱۹:‏۵؛‏ استثنا ۷:‏۶-‏۸‏)‏ یہ سچ ہے کہ یہوواہ نے اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے آزاد کرایا اور یہ کہا تھا:‏ ”‏دُنیا کے سب گھرانوں میں سے مَیں نے صرف تم کو برگزیدہ کِیا ہے۔‏“‏ تاہم،‏ عاموس اور دیگر نبیوں کی معرفت یہوواہ نے ”‏سب قوموں“‏ کے لوگوں کیلئے ایک شاندار امکان کا وعدہ کِیا۔‏—‏عاموس ۳:‏۲؛‏ ۹:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴‏۔‏

یسوع غیرجانبدار اُستاد

۱۰.‏ یسوع نے غیرجانبداری ظاہر کرنے میں اپنے باپ کی نقل کیسے کی؟‏

۱۰ اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے جو اپنے باپ کا کامل پرتَو ہے یہوواہ کی غیرجانبداری کی نقل کی۔‏ (‏عبرانیوں ۱:‏۳‏)‏ اُس وقت وہ ”‏اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں“‏ کو تلاش کرنے کی بنیادی فکر رکھتا تھا۔‏ تاہم،‏ وہ ایک کنویں پر سامری عورت کو گواہی دینے سے نہ ہچکچایا۔‏ (‏متی ۱۵:‏۲۴؛‏ یوحنا ۴:‏۷-‏۳۰‏)‏ اُس نے بدیہی طور پر ایک غیریہودی فوجی افسر کی درخواست پر معجزہ بھی کِیا۔‏ (‏لوقا ۷:‏۱-‏۱۰‏)‏ اسکے علاوہ اُس نے خدا کے لوگوں کیلئے اپنی عملی محبت کا مظاہرہ کِیا۔‏ یسوع کے شاگردوں نے بھی دُور دُور کے علاقوں میں منادی کی تھی۔‏ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کا تعلق کسی  شخص کی  قومیت کی بجائے اُسکے رُجحان سے ہے۔‏ فروتن،‏ سچائی کے بھوکے اور خلوصدل لوگوں نے بادشاہتی خوشخبری کیلئے جوابی‌عمل ظاہر کِیا تھا۔‏ اسکے برعکس،‏ مغرور لوگوں نے یسوع اور اُسکے پیغام سے عداوت رکھی۔‏ یسوع نے بیان کِیا،‏ ”‏اَے باپ آسمان اور زمین کے خداوند مَیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں۔‏ ہاں اَے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا۔‏“‏ (‏لوقا ۱۰:‏۲۱‏)‏ جب ہم محبت اور ایمان کی بنیاد پر دوسروں کیساتھ پیش آتے ہیں تو ہم یہ جانتے ہوئے غیرجانبداری ظاہر کرتے ہیں کہ یہوواہ کو یہ بات پسند ہے۔‏

۱۱.‏ ابتدائی مسیحی کلیسیا میں غیرجانبداری کیسے ظاہر کی گئی تھی؟‏

۱۱ ابتدائی مسیحی کلیسیا میں یہودی اور غیریہودی دونوں برابر تھے۔‏ پولس نے وضاحت کی،‏ ”‏جلال اور عزت اور سلامتی ہر ایک نیکوکار کو ملیگی۔‏ پہلے یہودی کو پھر یونانی کو۔‏ کیونکہ خدا کے ہاں کسی کی طرفداری نہیں۔‏“‏ * (‏رومیوں ۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اُنکی قومیت کی بجائے یہوواہ اور اُسکے بیٹے یسوع کے فدیے کے ذریعے حاصل ہونے والے امکانات کی بابت علم کیلئے اُنکا جوابی‌عمل اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ آیا وہ یہوواہ کے فضل سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶،‏ ۳۶‏)‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہے۔‏ بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔‏“‏ اسکے بعد اصطلاح ”‏یہودی“‏ (‏مطلب ”‏یہوداہ سے“‏ یعنی قابلِ‌تعریف)‏ کے مفہوم کے مطابق پولس مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏ایسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۲:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یہوواہ تعریف کرنے میں غیرجانبدار رہتا ہے۔‏ کیا ہم بھی ایسا کرتے ہیں؟‏

۱۲.‏ مکاشفہ ۷:‏۹ میں کونسا امکان پیش کِیا گیا ہے اور یہ کن لوگوں کیلئے دستیاب ہے؟‏

۱۲ بعدازاں،‏ یوحنا رسول نے وفادار ممسوح مسیحیوں کی رویا دیکھی جنکی تصویرکشی ”‏بنی‌اسرائیل کے سب قبیلوں میں سے“‏ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ اشخاص پر مہر کی جانے والی روحانی قوم کے طور پر کی گئی تھی۔‏ اسکے بعد،‏ یوحنا نے ”‏ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ‌زبان کی ایک .‏ .‏ .‏ بڑی بِھیڑ“‏ دیکھی جو ”‏سفید جامے پہنے اور کھجور کی ڈالیاں اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تخت اور بّرہ کے آگے کھڑی“‏ تھی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۴،‏ ۹‏)‏ لہٰذا زمانۂ‌جدید کی مسیحی کلیسیا کسی بھی نسلی گروہ یا اہلِ‌زبان میں امتیاز نہیں کرتی۔‏ تمام طرح کے پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آنے والی ”‏بڑی مصیبت“‏ سے بچنے اور نئی دُنیا میں ”‏آبِ‌حیات کے چشموں“‏ سے پانی پینے کا امکان حاصل ہے۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۱۴-‏۱۷‏۔‏

مثبت اثرات

۱۳-‏۱۵.‏ (‏ا)‏ ہم نسلی اور ثقافتی اختلاف پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مہربانی ظاہر کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد کی مثالیں بیان کریں۔‏

۱۳ اپنے بچوں کو اچھی طرح جاننے والے ایک شفیق باپ کی مانند یہوواہ بھی ہم کو بخوبی جانتا ہے۔‏ اسی طرح جب ہم دوسروں کی ثقافت اور پس‌منظر میں دلچسپی لیتے ہوئے اُن سے واقف ہوتے ہیں تو اختلافات کم ہو جاتے ہیں۔‏ نسلی امتیازات مٹ جاتے اور دوستی اور محبت کے رشتے مضبوط ہو جاتے ہیں۔‏ امن‌واتحاد فروغ پاتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۹-‏۲۳‏)‏ غیرملکی تفویضات قبول کرنے  والے مشنریوں کی کارگزاری اس بات کو بخوبی واضح کرتی ہے۔‏ وہ وہاں  کے لوگوں میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں جسکے نتیجے میں مشنریوں کو بہت جلد  یہ  احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ مقامی کلیسیاؤں کا حصہ بن گئے ہیں۔‏—‏فلپیوں  ۲:‏۴۔‏

۱۴ بہتیرے ممالک میں غیرجانبدار رہنے کے مثبت اثرات صاف نظر آتے ہیں۔‏ ایتھیوپیا کے رہنے والے اکلےلو نے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں خود کو بہت تنہا محسوس کِیا۔‏ جب اُسے اس بات کا احساس ہوا کہ جدید یورپ کے بیشتر بڑے شہروں کی طرح یہاں پر بھی دوسرے ممالک کے لوگوں کیلئے مرّوت کی کمی ہے تو اُسکی تنہائی مزید بڑھ گئی۔‏ تاہم جب اکلےلو یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہال میں مسیحی اجلاس پر حاضر ہوا تو اُس نے کتنا بڑا فرق دیکھا!‏ حاضرین نے خوشی سے اُسکا استقبال کِیا اور اُسے بہت جلد اپنائیت کا احساس ہونے لگا۔‏ اُس نے خالق کی بابت اپنی سمجھ اور قدردانی کو بڑھاتے ہوئے تیزی سے ترقی کی۔‏ کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو بادشاہتی خوشخبری سنانے کے مواقع تلاش کرنے لگا۔‏ ایک دن جب اکلےلو کیساتھ منادی کرنے والے ساتھی نے پوچھا کہ اب اُسکی زندگی کے نشانے کیا ہیں تو اکلےلو نے فوراً جواب دیا کہ اُسے اُمید ہے کہ ایک ایسا دن آئیگا جب وہ اپنی زبان عامہاریک کی کلیسیا کا حصہ ہوگا۔‏ جب انگریزی زبان کی مقامی کلیسیا کے بزرگوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو اُنہوں نے خوشی سے اکلےلو کی آبائی زبان میں بائبل پر مبنی عوامی تقریر پیش کرنے کا انتظام کِیا۔‏ اس پر حاضر ہونے کی دعوت پر بہت سے غیرملکی اور مقامی لوگ برطانیہ میں عامہاریک زبان کے پہلے عوامی اجلاس پر جمع ہوئے۔‏ آج،‏ اس علاقے میں ایتھیوپیا اور دیگر ممالک کے لوگ ایک کلیسیا میں متحد ہیں۔‏ ان میں سے بہتیرے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی بھی چیز اُنہیں یہوواہ کیلئے مؤقف اختیار کرنے اور اسکی علامت میں مسیحی بپتسمہ لینے سے روک نہیں سکتی۔‏—‏اعمال ۸:‏۲۶-‏۳۶‏۔‏

۱۵ شخصیات اور پس‌منظر فرق ہو سکتے ہیں۔‏ تاہم یہ برتر یا کم‌تر ہونے کی بنیاد کی بجائے محض ناموافقت کو ظاہر کرتے ہیں۔‏ مالٹا کے جزیرے پر یہوواہ کے مخصوص‌شُدہ نئے خادموں کے بپتسمے دیکھ کر جہاں مقامی گواہوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی وہاں برطانیہ سے آنے والے مہمانوں کی آنکھیں بھی خوشی کے آنسوں سے نم تھیں۔‏ مالٹا اور برطانیہ کے ان دونوں گروہوں نے مختلف طریقوں سے اپنے جذبات کا اظہار کِیا اور یہوواہ کیلئے انکی گہری محبت نے مسیحی برادری کے بندھن کو مضبوط کِیا۔‏—‏زبور ۱۳۳:‏۱؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۴‏۔‏

تعصّب پر غالب آنا

۱۶-‏۱۸.‏ مسیحی کلیسیا میں تعصّب پر غالب آنے کے طریقے کو ظاہر کرنے کیلئے ایک تجربہ بیان کریں۔‏

۱۶ جب ہماری محبت یہوواہ اور اپنے مسیحی بھائیوں کیلئے بڑھتی ہے تو ہم دوسروں کی بابت یہوواہ کے نقطۂ‌نظر کی زیادہ نقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ اگر ہم ماضی میں کسی قوم،‏ نسل یا ثقافت کے لئے کوئی تعصّب رکھتے تھے تو ہم اس پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ دوسری جنگِ‌عظیم میں برطانوی فوج میں خدمت کرنے والے البرٹ کی مثال پر غور کریں جسے ۱۹۴۲ میں جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کرتے وقت قیدی بنا لیا تھا۔‏ اسکے بعد اُس نے تین سال ‏”‏ڈیتھ ریل‌روڈ“‏ پر کام کِیا جسکے قریب بعدازاں دریائےکوائی کا پُل بنایا گیا تھا۔‏ جنگ ختم ہونے پر جب وہ آزاد ہوا تو اُسکا وزن صرف ۷۰ پونڈ تھا،‏ جبڑے اور ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور اُسے پیچش،‏ داد اور ملیریا ہو گیا تھا۔‏ اُسکے ہزاروں ساتھی قیدیوں کی حالت اس سے بھی بدتر تھی اور بہتیروں کی موت واقع ہو چکی تھی۔‏ البرٹ نے جو ظلم دیکھا اور برداشت کِیا اُسکے نتیجے میں وہ تلخ‌مزاج بن چکا تھا اور ۱۹۴۵ میں جب وہ گھر لوٹا تو اُسے خدا اور مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔‏

۱۷ البرٹ کی بیوی آئرین یہوواہ کی گواہ بن گئی تھی۔‏ اُسے خوش کرنے کیلئے البرٹ یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا میں چند اجلاسوں پر حاضر ہوا۔‏ کُل‌وقتی خدمت کرنے والے ایک نوجوان مسیحی پال نے البرٹ کیساتھ بائبل مطالعہ کرنے کے پیشِ‌نظر اُس سے ملاقات کی۔‏ بہت جلد البرٹ یہ سمجھ گیا کہ خدا انسانوں کے دل کی حالت کے مطابق اُن پر نگاہ کرتا ہے۔‏ اُس نے یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کی اور بپتسمہ لیا۔‏

۱۸ بعدازاں پال لندن منتقل ہو گیا،‏ جاپانی زبان سیکھی اور ایک جاپانی کلیسیا کے ساتھ رفاقت رکھنے لگا۔‏ جب اُس نے چند جاپانی مہمان گواہوں کو اپنی سابقہ کلیسیا میں لیجانے کی تجویز پیش کی تو وہاں کے بھائیوں نے جاپانی لوگوں کیلئے البرٹ کے گہرے تعصّب کو یاد کِیا۔‏ برطانیہ لوٹنے کے بعد البرٹ نے جاپانی لوگوں کیساتھ کوئی میل‌جول نہیں رکھا تھا،‏ لہٰذا بھائیوں نے سوچا کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نپٹے گا۔‏ اُنکی پریشانی بیکار تھی—‏البرٹ نے غیرمشروط برادرانہ محبت کیساتھ مہمانوں کا استقبال کِیا۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۸،‏ ۹‏۔‏

‏”‏کشادہ‌دل ہو“‏

۱۹.‏ طرفداری کی طرف مائل ہونے کی صورت میں پولس رسول کی کونسی مشورت ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

۱۹ دانشمند بادشاہ سلیمان نے لکھا،‏ ”‏طرفداری کرنا خوب نہیں۔‏“‏ (‏امثال ۲۸:‏۲۱‏)‏ اپنی جان‌پہچان کے لوگوں کے قریب محسوس کرنا آسان ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات ہم ان لوگوں میں بہت کم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں جنہیں ہم زیادہ نہیں  جانتے۔‏ ایسی طرفداری یہوواہ کے خادم کیلئے موزوں نہیں۔‏ واقعی،‏ ہم سب کو ”‏کشادہ دل“‏ ہونے کی بابت پولس کی واضح مشورت پر عمل کرنا چاہئے۔‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں مختلف پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے ساتھی مسیحیوں کیلئے محبت ظاہر کرنے میں کشادہ‌دل ہونا چاہئے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۳‏۔‏

۲۰.‏ ہمیں زندگی کے کن حلقوں میں اپنے غیرجانبدار خدا یہوواہ کی نقل کرنی چاہئے؟‏

۲۰ ہمیں آسمانی بلاوے کا شرف حاصل ہے یا زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید،‏ غیرجانبدار رہنے سے ہم ایک گلّے اور ایک چرواہے کے تحت امن‌واتحاد سے مستفید ہو سکتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۶‏)‏ اپنے غیرجانبدار خدا یہوواہ کی نقل کرنے کی کوشش نہ صرف مسیحی خدمتگزاری،‏ خاندانی زندگی اور کلیسیاؤں میں بلکہ زندگی کے تمام حلقوں میں ہمارے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ اگلا مضمون اس موضوع کو زیرِبحث لائے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 یہوواہ کی شہرت بعدازاں مُقدس گیتوں کا موضوع بن گئی۔‏—‏زبور ۱۳۵:‏۸-‏۱۱؛‏ ۱۳۶:‏۱۱-‏۲۰‏۔‏

^ پیراگراف 11 یہاں پر اصطلاح ”‏یونانی“‏ عمومی طور پر غیرقوموں کیلئے استعمال ہوئی ہے۔‏—‏یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز،‏ جِلد ۱،‏ صفحہ ۱۰۰۴۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• یہوواہ نے راحب اور جبعونیوں کیلئے غیرجانبداری کیسے ظاہر کی؟‏

‏• یسوع نے اپنی تعلیم میں غیرجانبداری کیسے ظاہر کی؟‏

‏• ثقافتی اور نسلی تعصّب پر غالب آنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

کنعان پر اسرائیل کی فتح شروع ہوتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یسوع نے سامری عورت کو گواہی دینے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

برطانیہ میں عامہاریک زبان میں عوامی اجلاس

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

یہوواہ کیلئے البرٹ کی محبت نے تعصّب پر غالب آنے میں اُسکی مدد کی