مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح کے زمین پر آنے کا ثبوت

یسوع مسیح کے زمین پر آنے کا ثبوت

یسوع مسیح کے زمین پر آنے کا ثبوت

کیا آپ البرٹ آئن‌سٹائن کی بابت جانتے ہیں؟‏ آپ شاید فوراً کہیں ’‏جی‌ہاں،‏‘‏ لیکن کیوں؟‏ بہتیرے لوگ ذاتی طور پر اُس سے کبھی نہیں ملے۔‏ تاہم،‏ اُسکی کامرانیوں کی بابت معتبر رپورٹیں اُسے ایک حقیقی شخص ثابت کرتی ہیں۔‏ اُسکی عملی سائنسی دریافتیں اُسکے وجود کا حقیقی ثبوت ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ بہتیرے لوگ نیوکلیئر توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی سے استفادہ کرتے ہیں جسکی پیداوار آئن‌سٹائن کی مشہور مساوات 2E=mc ‏(‏توانائی،‏ کمیت اور روشنی کی رفتار کے مربع کی ضرب کے مساوی ہے)‏ کے اطلاق سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔‏

اسی منطق کا اطلاق اہم‌ترین تاریخی شخصیت یسوع مسیح پر بھی ہوتا ہے۔‏ اُسکی بابت تحریریں اور اُسکے اثر کے دیدنی ثبوت اُسکے وجود کی پُرزور تصدیق کرتے ہیں۔‏ پچھلے مضمون میں متذکرہ،‏ یعقوب کی بابت کندہ عبارت والی حالیہ اثریاتی دریافت دلچسپ تو ہے لیکن یسوع کی تاریخی حقیقت ایسی یا کسی اَور انسان‌ساختہ چیز کی محتاج نہیں ہے۔‏ درحقیقت،‏ ہمیں یسوع کے زمین پر آنے کا ثبوت اُس کی اور اُس کے شاگردوں کی بابت دُنیاوی مؤرخین کی تحریروں سے مل سکتا ہے۔‏

مؤرخین کی شہادت

مثال کے طور پر،‏ پہلی صدی کے یہودی مؤرخ اور ایک فریسی فلاویس یوسیفس کی شہادت پر غور کریں۔‏ اُس نے کتاب جیوائش اینٹیکویٹیز میں یسوع مسیح کا حوالہ دیا۔‏ اگرچہ بعض لوگ مسیحا کے طور پر یسوع کی بابت یوسیفس کے پہلے حوالے کے مستند ہونے کی بابت کچھ مُتشکِک ہیں توبھی یشیوا یونیورسٹی کے پروفیسر لوئس ایچ.‏ فیلڈمین کے مطابق،‏ بہت کم لوگ اُسکے دوسرے حوالے کی صداقت پر شک کرتے ہیں۔‏ یہاں پر یوسیفس نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏سردار کاہن حننیاہ]‏ نے صدر عدالت کے قاضیوں کو اکٹھا کِیا اور اُن کے سامنے یعقوب کو پیش کِیا جو مسیحا کہلانے والے یسوع کا بھائی تھا۔‏“‏ (‏جیوائش اینٹیکویٹیز،‏ XX،‏ ۲۰۰)‏ جی‌ہاں،‏ ایک فریسی یعنی ایک ایسے فرقے کے رُکن نے جسکی اکثریت یسوع کی جانی دُشمن تھی اس بات کو تسلیم کِیا کہ ”‏یعقوب یسوع کا بھائی تھا۔‏“‏

یسوع کے شاگردوں کی کارگزاریاں اُس کی موجودگی کے اثر کو نمایاں کرتی ہیں۔‏ تقریباً ۵۹ س.‏ع.‏ میں جب پولس رسول روم میں قید تھا تو یہودی رئیسوں  نے اُسے بتایا:‏ ”‏اس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے کہ ہر جگہ اسکے خلاف کہتے ہیں۔‏“‏ (‏اعمال ۲۸:‏۱۷-‏۲۲‏)‏ اُنہوں نے یسوع کے پیروکاروں کو ”‏فرقہ“‏ کہا تھا۔‏ اگر ہر جگہ اُنکے خلاف بات کی جاتی تھی تو کیا ایسا ممکن ہے کہ دُنیاوی مؤرخین نے بھی اُنکی بابت رپورٹیں دی ہوں؟‏

تقریباً ۵۵ س.‏ع.‏ میں پیدا ہونے والا دُنیا کا عظیم مؤرخ تستُس اپنے تاریخی ریکارڈ اینلز میں مسیحیوں کا ذکر کرتا ہے۔‏ اُس نے نیرو کے  ۶۴ س.‏ع.‏ میں،‏ روم کی بڑی آتشزدگی کیلئے مسیحیوں پر اِلزام لگانے کی بابت لکھا:‏ ”‏نیرو نے عوام  میں  مسیحی  کہلانے  والے  نفرت‌انگیز  فرقے  کو  قصوروار  قرار  دیکر  شدید  اذیت کا  نشانہ  بنایا۔‏ نام ’‏مسیحی‘‏ دراصل لفظ ’‏مسیح‘‏ سے نکلا ہے جسے تبریس کے دورِحکومت میں ایک حاکم پُنطیُس پیلاطُس کے ہاتھوں سزائےموت دی گئی تھی۔‏“‏ اس سرگزشت کی تفصیلات بائبل میں متذکرہ یسوع کی بابت معلومات سے مطابقت رکھتی ہیں۔‏

یسوع کے شاگردوں کا ذکر کرنے والا ایک اَور مصنف بتُھنیہ کا گورنر،‏ چھوٹا پلینی تھا۔‏ تقریباً ۱۱۱ س.‏ع.‏ میں پلینی نے شہنشاہ ٹراجن کے نام خط میں مسیحیوں سے نپٹنے کا طریقہ دریافت کِیا۔‏ پلینی نے لکھا،‏ جن لوگوں پر مسیحی ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا وہ بارہا دیوتاؤں کو پکارنے اور ٹراجن کی مورت کی پرستش کرنے سے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ وہ مسیحی نہیں ہیں۔‏ پلینی نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏لیکن کسی بھی سچے مسیحی کو ان کاموں کیلئے مجبور کرنا مشکل ہے۔‏“‏ یہ شہادت مسیح کے وجود کی حقیقت کو ثابت کرتی ہے جسکے شاگرد اُس پر اپنے ایمان کی وجہ سے جان دینے کو بھی تیار تھے۔‏

یسوع مسیح اور اُس کے شاگردوں کی بابت پہلی دو صدیوں کے  مؤرخین کے حوالہ‌جات کے خلاصے کے بعد،‏ دی انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا ‏(‏۲۰۰۲ ایڈیشن)‏ آخر میں یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ جُداگانہ بیانات ثابت کرتے ہیں کہ قدیم وقتوں میں مسیحیت کے مخالفین بھی یسوع کی تاریخی حقیقت کی بابت کبھی شک نہیں کرتے تھے جس پر پہلی مرتبہ ۱۸ویں صدی کے آخر پر،‏ ۱۹ ویں صدی کے دوران اور ۲۰ویں صدی کے شروع میں ناکافی وجوہات کی بنیاد پر اعتراض کِیا گیا تھا۔‏“‏

یسوع کے شاگردوں کی شہادت

دی انسائیکلوپیڈیا امریکانا بیان کرتا ہے کہ ”‏نیا عہدنامہ یسوع کی زندگی اور اُسکے انجام کی بابت اور ابتدائی مسیحیوں کیلئے اُسکی اہمیت کی بابت تقریباً تمام تاریخی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔‏“‏ مُتشکِک حضرات شاید یسوع کے وجود کے بارے میں بائبل کی شہادت کو قبول نہ کریں۔‏ تاہم،‏ صحیفائی بیانات پر مبنی استدلال کے دو پہلو خاص طور پر یسوع کے زمین پر آنے کو ثابت کرنے میں مددگار ہیں۔‏

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ آئن‌سٹائن کے مقبول نظریات اُس کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔‏ اسی طرح یسوع کی تعلیمات اُس کے وجود کی حقیقت کو ثابت کرتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع کے ایک مشہور وعظ—‏پہاڑی وعظ—‏پر غور کریں۔‏ (‏متی ۵-‏۷ ابواب)‏ متی رسول نے اس وعظ کے اثر کی بابت لکھا:‏ ”‏بِھیڑ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔‏ کیونکہ وہ .‏ .‏ .‏ صاحبِ‌اختیار کی طرح اُن کو تعلیم دیتا تھا۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ صدیوں کے دوران لوگوں پر اس وعظ کے اثر کی بابت پروفیسر ہانز ڈیٹر بیٹ‌ز نے بیان کِیا:‏ ”‏پہاڑی وعظ کا اثر یہودیت،‏ مسیحیت بلکہ مغربی ثقافت میں بھی سرایت کر گیا ہے۔‏“‏ اُس نے مزید بیان کِیا کہ اس وعظ کی ”‏منفرد دلکشی پوری دُنیا کو متاثر کرتی ہے۔‏“‏

اُس پہاڑی وعظ میں حکمت کے ان جامع اور عملی الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُسکی طرف پھیر دے۔‏“‏ ”‏خبردار اپنے راستبازی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لئے نہ کرو۔‏“‏ ”‏کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لیگا۔‏“‏ ”‏اپنے موتی سُورٔوں کے آگے نہ ڈالو۔‏“‏ ”‏مانگو تو تمکو دیا جائیگا۔‏“‏ ”‏جوکچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی اُنکے ساتھ کرو۔‏“‏ ”‏تنگ دروازہ سے داخل ہو۔‏“‏ ”‏اُنکے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لو  گے۔‏“‏ ”‏ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے۔‏“‏—‏متی ۵:‏۳۹؛‏ ۶:‏۱،‏ ۳۴؛‏ ۷:‏۶،‏ ۷،‏ ۱۲،‏ ۱۳،‏ ۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ آپ نے ان میں سے بعض اظہارات یا انکا بنیادی خیال ضرور سنا ہوگا۔‏ شاید آپکی زبان میں یہ مثلوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔‏ یہ تمام مثلیں پہاڑی وعظ سے لی گئی ہیں۔‏ بہتیرے لوگوں اور ثقافتوں پر اس وعظ کا اثر ”‏عظیم اُستاد“‏ کے وجود کی پُرزور شہادت ہے۔‏

تصور کریں کہ یسوع مسیح محض کسی شخص کی ذہنی تخلیق ہے۔‏ یہ بھی فرض کریں کہ اس شخص نے اپنی ذہانت سے اُن تعلیمات کی بنیاد ڈالی ہے جنکا ماخذ بائبل میں یسوع کو ٹھہرایا گیا ہے۔‏ کیا ایسی شخصیت ایجاد کرنے والا شخص یسوع اور اُسکی تعلیمات کو عام لوگوں کیلئے قابلِ‌قبول بنانے کی کوشش نہیں کریگا؟‏ تاہم،‏ پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏یہودی نشان چاہتے ہیں اور یونانی حکمت تلاش کرتے ہیں۔‏ مگر ہم اُس مسیح مصلوب کی منادی کرتے ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ٹھوکر اور غیرقوموں کے نزدیک بیوقوفی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ مسیح مصلوب کا پیغام یہودیوں اور غیرقوموں کیلئے جاذبِ‌توجہ نہیں تھا۔‏ اسکے باوجود پہلی صدی کے مسیحیوں نے اس مسیح کی بابت گواہی دی۔‏ مسیح مصلوب کی تصویرکشی کیوں کی گئی تھی؟‏ اسکا تسلی‌بخش جواب یہی ہے کہ مسیحی یونانی صحائف کے مصنّفین نے یسوع کی زندگی اور موت کے سچے واقعات تحریر کئے تھے۔‏

یسوع کی تاریخی حقیقت کی حمایت کرنے والے استدلال کا ایک اَور پہلو اُس کے شاگردوں کی طرف سے اُسکی تعلیمات کی مستعد منادی ہے۔‏ یسوع کے اپنی خدمتگزاری شروع کرنے کے کوئی ۳۰ سال بعد پولس یہ کہنے کے قابل تھا کہ خوشخبری کی ”‏منادی آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں کی گئی“‏ تھی۔‏ (‏کلسیوں ۱:‏۲۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ مخالفت کے باوجود یسوع کی تعلیمات قدیم دُنیا میں پھیل گئی تھیں۔‏ ایک مسیحی کے طور پر اذیت برداشت کرنے والے پولس نے لکھا:‏ ”‏اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو ہماری منادی بھی بیفائدہ ہے اور تمہارا ایمان بھی بےفائدہ۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۱۲-‏۱۷‏)‏ اگر قیامت نہ پانے والے مسیح کی منادی بیفائدہ تھی تو کسی بےوجود مسیح کی منادی تو اَور بھی زیادہ بیفائدہ ہوگی۔‏ ہم چھوٹے پلینی کی رپورٹ میں پڑھتے ہیں کہ پہلی صدی کے مسیحی یسوع مسیح پر اپنے ایمان کی وجہ سے جان دینے کو تیار تھے۔‏ اُنہوں نے مسیح کیلئے اپنی زندگی کو خطرے میں اِسلئے ڈالا تھا کیونکہ وہ ایک حقیقی شخص تھا،‏ وہ زمین پر آیا تھا اور یہاں اُس نے زندگی بسر کی تھی جیساکہ انجیلی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔‏

آپ نے ثبوت دیکھ لیا ہے

یسوع مسیح کی قیامت پر یقین مسیحی منادی کی بنیاد ہے۔‏ آپ آجکل اُسکے اثر کو محسوس کرنے سے اپنے ذہن کی آنکھوں سے قیامت‌یافتہ یسوع کو دیکھ سکتے ہیں۔‏

مصلوب کئے جانے سے تھوڑی دیر پہلے اُس نے مستقبل میں اپنی موجودگی کی ایک عظیم پیشینگوئی کی۔‏ اُس نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ جی اُٹھنے کے بعد وہ اپنے دُشمنوں سے نپٹنے کے انتظار میں کچھ وقت تک خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھےگا۔‏ (‏زبور ۱۱۰:‏۱؛‏ یوحنا ۶:‏۶۲؛‏ اعمال ۲:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ رومیوں ۸:‏۳۴‏)‏ اسکے بعد وہ کارروائی کرتے ہوئے شیطان اور اُسکے شیاطین کو آسمان پر سے گِرا دیگا۔‏—‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹‏۔‏

یہ سب کب واقع ہوگا؟‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ’‏اپنی موجودگی اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان‘‏ دیا تھا۔‏ اُسکی نادیدہ موجودگی کے نشان میں پُرتشدد جنگوں،‏ خوراک کی کمی،‏ زلزلوں،‏ جھوٹے نبیوں کا ظہور،‏ بےدینی اور شدید وباؤں کا پھیلاؤ شامل ہے۔‏ ایسے افسوسناک واقعات متوقع تھے اس لئےکہ شیطان ابلیس کے گِرائے جانے کا مطلب ”‏خشکی اور تری .‏ .‏ .‏ پر افسوس“‏ تھا۔‏ ابلیس ”‏بڑے قہر میں“‏ زمین پر آ چکا ہے ”‏اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏ اسکے علاوہ،‏ نشان میں بادشاہتی خوشخبری کی منادی بھی شامل ہے جو ’‏تمام دُنیا میں قوموں کے لئے گواہی‘‏ کی خاطر کی جا رہی ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۳-‏۱۴؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۲؛‏ لوقا ۲۱:‏۷-‏۱۹‏۔‏

جس طرح  ایک  معمے  کے  مختلف ٹکڑوں کو جوڑنے سے ایک خاص شکل بنتی ہے اُسی طرح یسوع کی پیشینگوئی میں متذکرہ واقعات بھی رونما ہوئے تھے۔‏ سن ۱۹۱۴ میں،‏ پہلی جنگِ‌عظیم کے شروع ہونے کے بعد سے ہم نے یسوع مسیح کی نادیدہ موجودگی کے مرکب ثبوت کو دیکھا ہے۔‏ وہ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر حکمرانی کر رہا ہے اور بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔‏ اس رسالے کا آپکے ہاتھ میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آجکل بادشاہتی منادی کا کام جاری ہے۔‏

یسوع کے وجود کے اثر کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کے لئے آپ کو بائبل مطالعے کی ضرورت ہے۔‏ یسوع کی موجودگی کی بابت تفصیلات جاننے کیلئے کیوں نہ یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کِیا جائے؟‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویریں]‏

یوسیفس،‏ تستُس اور چھوٹے  پلینی نے یسوع مسیح اور اُسکے شاگردوں کا حوالہ دیا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

All three images: © Bettmann/CORBIS

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

ابتدائی مسیحی یہ یقین رکھتے تھے کہ یسوع حقیقی شخص تھا