دوسروں کی خدمت کرنے سے اپنا دُکھ کم کرنا
میری کہانی میری زبانی
دوسروں کی خدمت کرنے سے اپنا دُکھ کم کرنا
از ہولیان اریاس
سن ۱۹۸۸ میں، میری عمر ۴۰ برس تھی۔ میرا مستقبل روشن تھا کیونکہ مَیں ایک بڑی کمپنی کا ریجنل ڈائریکٹر تھا۔ کمپنی سے مجھے اچھی تنخواہ کے علاوہ ایک گاڑی اور سپین کے شہر میڈرڈ میں بہت شاندار دفتر بھی ملا ہوا تھا۔ یہ کمپنی مجھے کچھ عرصے میں مزید ترقی دینے کا بھی سوچ رہی تھی۔ اُس وقت مَیں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میری زندگی کا رُخ بدلنے والا ہے۔
اُسی سال ڈاکٹر نے مجھے ایک بھیانک خبر سنائی۔ اُس نے کہا کہ مجھے ایک ایسی بیماری ہے جس سے میرے جسم کی مختلف نسیں کمزور ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ کام کرنا بند کر دینگی اور ایک دن مَیں بالکل مفلوج ہو جاؤنگا۔ * مَیں بہت گھبرا گیا اور مجھے ایسے لگا جیسے یہ بیماری میرے سر پر تلوار لئے کھڑی ہے۔ مجھے اپنی بیوی میلاگروس اور اپنے ۳ سالہ بیٹے اسماعیل کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ ہم اس مشکل کا سامنا کس طرح کرینگے؟ ابھی مَیں اِس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اَور آفت میرے سر پر ٹوٹ پڑی۔
ایک مہینے بعد میرے سُپروائزر نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔ اُس نے مجھ سے کہا کہ کمپنی کو صرف تندرست لوگوں کی ضرورت ہے۔ ایک بیمار شخص کمپنی کے لئے فائدہمند ثابت نہیں ہو سکتا۔ اُسی وقت مجھے نوکری سے نکال دیا گیا۔ اچانک میرے سارے خواب ٹوٹ کر بکھر گئے!
مَیں اپنی بیوی اور بیٹے کے سامنے تو خوش رہنے کی کوشش کرتا لیکن تنہائی میں فکروں میں ڈوبا رہتا تھا۔ مَیں اپنی مایوسیوں کے ساتھ لڑنے کی بہت کوشش کرتا۔ سب سے زیادہ مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ مَیں اپنی کمپنی کی نظروں میں ایک دم بیکار ہو گیا تھا۔
کمزوریوں سے قوت پانا
تقریباً ۲۰ سال پہلے مَیں یہوواہ کا گواہ بن گیا تھا اور یہی بات اِس مشکل وقت میں میری تسلی کا باعث رہی۔ مَیں نے حوصلہ پانے کے لئے پورے دل سے یہوواہ خدا سے دُعا کی۔ میری بیوی بھی یہوواہ کی ایک گواہ ہے لہٰذا ایسے حالات میں اُس نے بھی میرا ساتھ دیا۔ اِس کے علاوہ میرے کچھ قریبی دوستوں نے بھی میری مدد کی۔ مَیں اُن کی مہربانیوں کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔—امثال ۱۷:۱۷۔
مجھے دوسرے لوگوں کے سامنے اپنی ذمہداریوں کا بھی احساس تھا۔ مَیں اپنے بیٹے کو اچھی تعلیم دینا چاہتا، اُس کے ساتھ کھیلنا اور منادی بھی کرنا چاہتا تھا۔ اِس خواہش نے مجھے کبھی بےحوصلہ ہونے نہ دیا۔ مَیں کلیسیا میں ایک بزرگ کی خدمات انجام دے رہا تھا۔ اس لئے بہن بھائیوں کو میری ضرورت تھی۔ اگر میرا دُکھ میرے ایمان کو کمزور کر دیتا تو مَیں کس طرح دوسروں کے لئے ایک اچھا نمونہ بن سکتا تھا؟
بیمار ہونے اور نوکری سے نکال دئے جانے کی وجہ سے میری زندگی میں اچانک بہت سی تبدیلیاں آئی تھیں۔ مگر مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ ایسی تبدیلیاں ہمیشہ بُری نہیں ہوتیں۔ ایک ڈاکٹر نے یوں کہا: ”بیماری انسان کو تباہ نہیں کرتی بلکہ بدل دیتی ہے۔“
یہ بیماری میرے ’جسم میں ایک کانٹے‘ کی مانند ہے۔ لیکن اِس کی وجہ سے مَیں دوسروں کی تکلیف کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۷) امثال ۳:۵ کے الفاظ اب میرے لئے پہلے سے زیادہ واضح ہو گئے ہیں جہاں لکھا ہے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔“ اِس تکلیف نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ زندگی میں کونسی باتوں کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ مجھے معلوم ہے کہ مَیں یہوواہ کی خدمت میں ابھی بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ اِس وجہ سے مَیں سکون محسوس کرتا ہوں اور مَیں نے یسوع کے ان الفاظ کے صحیح مطلب کو سمجھ لیا ہے کہ ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“—اعمال ۲۰:۳۵۔
ایک نئی زندگی کا آغاز
اِسی عرصے کے دوران مجھے سپین کے شہر میڈرڈ میں ایک کورس کے لئے بلایا گیا۔ کورس میں مسیحی بھائیوں کو خاص تربیت دی جانی تھی تاکہ وہ ڈاکٹروں اور مریضوں کے مابین تعلقات کو بڑھا سکیں۔ اس کے بعد ان بھائیوں کو ہسپتال رابطہ کمیٹیاں قائم کرنی تھیں۔ میرے لئے یہ کورس ایک بہت اچھے وقت پر آیا۔ مَیں نے یہ جان لیا کہ یہ کام کسی بھی دوسری نوکری سے زیادہ سکون دے سکتا ہے اور میرا مستقبل دوبارہ روشن ہوگا۔
اس کورس میں ہمیں سکھایا گیا کہ کمیٹی کے بھائیوں کو ہسپتالوں میں جا کر ایسے ڈاکٹروں کی تلاش کرنی ہے جو خون کے بغیر آپریشن کرنے کو تیار ہوں۔ اس کے علاوہ اُن کو ڈاکٹروں اور نرسوں کو یہ بھی سمجھانا تھا کہ یہوواہ کے گواہ خون کے بغیر آپریشن کیوں کروانا چاہتے ہیں۔ اِس طرح وہ اِن کے ساتھ اچھا رابطہ قائم کر سکتے تھے۔ میرے لئے یہ سب نئی باتیں تھیں کیونکہ مجھے ادویات اور ڈاکٹری کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کورس نے مجھے بہت خوشی بخشی اِسلئےکہ اب میرے پاس ایک اہم کام تھا۔
ہسپتالوں کے دورے سے اطمینان حاصل کرنا
میری بیماری میں آہستہ آہستہ اضافے کے ساتھ، ہسپتال رابطہ کمیٹی کے ممبر کے طور پر میری ذمہداریوں میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ نوکری کرنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے مجھے حکومت سے پینشن ملنے
لگی۔ اب میرے پاس ڈاکٹروں سے ملنے کے لئے زیادہ وقت تھا۔ کچھ ڈاکٹر ہمارے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں تھے لیکن زیادہتر ڈاکٹروں نے ہمارا ساتھ دیا۔ اگرچہ مَیں پہیوں والی کُرسی استعمال کرنے لگا توبھی اِس بات نے میرے کام میں رُکاوٹ پیدا نہ کی۔ کمیٹی کے دوسرے ممبر ہمیشہ میری بہت مدد کرتے تھے۔ جب ڈاکٹر مجھے پہیوں والی کُرسی پر دیکھتے تو وہ میری باتوں کو غور سے سنتے اور میری اِس کوشش کی بہت قدر کرتے تھے۔پچھلے ۱۰ سالوں میں مَیں ۱۰۰ سے زیادہ ڈاکٹروں سے ملا ہوں۔ کچھ تو فوراً ہماری مدد کرنے کو تیار ہو گئے۔ اِن میں سے ایک ڈاکٹر خوان ڈوارٹے ہے جو دل کا آپریشن کرتا ہے۔ اب تک ڈاکٹر ڈوارٹے نے سپین میں تقریباً ۲۰۰ یہوواہ کے گواہوں کا خون کے بغیر آپریشن کِیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے اَور بھی بہت سے ڈاکٹر خون کے بغیر آپریشن کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ یہ سب ہمارے لگاتار ڈاکٹروں سے ملکر بات کرنے اور خون کے بغیر علاج کرنے کے طریقوں میں ترقی کا نتیجہ ہے۔ نیز ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ ہماری کاوشوں کو برکت دے رہا ہے۔
مَیں خاص طور پر بچوں کے دل کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ دو سال تک ہم نے دو ڈاکٹروں اور اُن کی ٹیم کو راضی کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ ہم نے اُن کو مختلف میڈیکل رسالے دئے جن میں اس قِسم کے آپریشن کرنے کے نئے نئے طریقے سمجھائے گئے تھے۔ اِس کے علاوہ ہم اُن کو دوسرے ڈاکٹروں کے بارے میں بھی بتاتے رہے جو اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ ہماری کوششوں کی وجہ سے ۱۹۹۹ میں یہ دو ڈاکٹر یہوواہ کے گواہوں کے ایک چھوٹے بچے کے دل کا آپریشن خون کے بغیر کرنے پر راضی ہو گئے۔ یہ ایک بہت مشکل آپریشن تھا اور انگلینڈ سے ایک ماہر ڈاکٹر نے آ کر اِن کی مدد بھی کی۔ * مَیں بچے کے والدین کے ساتھ آپریشن تھیئٹر کے باہر انتظار کر رہا تھا۔ آخرکار ڈاکٹر نے آ کر ہمیں بتایا کہ خون کے بغیر آپریشن کامیاب رہا ہے۔ یہ سُن کر ہم سب بہت ہی خوش ہوئے۔ اب یہ دو ڈاکٹر پورے سپین میں خون کے بغیر یہوواہ کے گواہوں کے بچوں کا علاج کر رہے ہیں۔
اس قِسم کے آپریشن کی کامیابی سے مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ مَیں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کر سکتا ہوں۔ جب ایسے بھائیوں کو فوری آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے تو اکثر اُن کے شہر کے ڈاکٹر خون کے بغیر آپریشن کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پھر وہ شدید پریشانی کی حالت میں ہسپتال رابطہ کمیٹی کو فون کرتے ہیں۔ جب اِن بھائیوں کو بتایا جاتا ہے کہ شہر میڈرڈ میں ڈاکٹر ہر قِسم کا آپریشن خون کے بغیر کرنے کو تیار ہیں تو اُن کی جان میں جان آتی ہے۔ مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے ہسپتال پہنچتے ہی ایسے بھائیوں کے چہروں پر خوشی نظر آنے لگتی ہے۔
مریض کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھنا
گزشتہ چند سالوں سے ہسپتال رابطہ کمیٹی نے ججوں کے پاس جا کر اُن کے تعاون کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ججوں کو ایک رسالہ فیملی کیئر اینڈ میڈیکل مینیجمنٹ فار جیہوواز وٹنسز دیتے ہیں جو خاص طور پر ایسے سرکاری لوگوں کے لئے شائع کِیا گیا ہے۔ اِس میں خون نہ لینے کی وجہ اور خون کے بغیر علاج کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ہمیں ایسا کرنے کی سخت ضرورت تھی کیونکہ سپین میں یہ بات عام تھی کہ ڈاکٹر ججوں سے اجازت لے کر مریض کی مرضی کے خلاف اُسے خون دیا کرتے تھے۔
ججوں کے کمرے بہت شاندار ہوتے ہیں۔ اِس لئے جب ہم پہلی مرتبہ اُن سے ملنے گئے تو مَیں اپنی پہیوں والی کُرسی پر بیٹھا اپنے آپ کو بہت چھوٹا خیال کر رہا تھا۔ ججوں کے کمروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے میرے ساتھ ایک چھوٹا سا حادثہ بھی پیش آیا اور مَیں اپنے گھٹنوں کے بل زمین پر گِر پڑا۔ کچھ ججوں اور وکیلوں نے مجھ پر ترس کھاتے ہوئے کُرسی پر بیٹھنے میں میری مدد کی۔ اُن سب کے سامنے مَیں بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔
کچھ ججوں کو ہماری ملاقات کا مقصد سمجھ میں نہ آیا۔ لیکن اِن میں سے زیادہتر ہمارے ساتھ اچھی طرح پیش آئے۔ جس جج کے پاس ہم سب سے پہلے گئے اُس نے کہا، مَیں آپ سے اس موضوع پر تفصیل سے بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ مَیں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ خون لینے سے انکار کیوں کرتے ہیں۔ جب ہم دوبارہ اُسے ملنے گئے تو وہ خود میری کُرسی کو دھکیل کر مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ پھر اُس نے ہماری بات کو غور سے سنا۔ اس ملاقات نے ہمارا حوصلہ بڑھایا اور ہماری ہچکچاہٹ کو دُور کِیا۔ اِس طرح ہم اَور بھی ججوں سے بات کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اِسی عرصے کے دوران ہم ایک جج سے ملے جس کو ہم نے ایک فیملی کیئر رسالہ دیا۔ اُس نے وعدہ کِیا کہ وہ یہ رسالہ ضرور پڑھیگا۔ مَیں نے جاتے ہوئے اُسے اپنا فون نمبر دیا تاکہ وہ ضرورت کے وقت مجھ سے رابطہ کر سکے۔ دو ہفتوں بعد اُسی جج نے مجھے فون کِیا اور کہا کہ ایک ڈاکٹر مجھ سے ایک یہوواہ کے گواہ کو اُس کی مرضی کے خلاف خون دینے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ مگر مَیں اُسے یہ اجازت نہیں دینا چاہتا۔ اُس نے ہماری مدد مانگی تاکہ گواہ مریض کی مرضی کے مطابق اُس کا علاج ہو سکے۔ ہمیں دوسرا ہسپتال ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی جہاں ڈاکٹر خون کے بغیر آپریشن کرنے کو تیار تھے۔ جج یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اُس نے آئندہ بھی ایسی صورتحال میں ہم سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کِیا۔
اکثر ڈاکٹر خون کے بغیر علاج میں گواہ مریضوں کے حقوق اور جذبات کے بارے میں میرے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے۔ مَیں اُن کو گواہوں کا نظریہ پیش کرتا تھا جو بائبل کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ایسی باتچیت سے مَیں یہ سمجھنے کے قابل ہو گیا کہ ڈاکٹروں کو کتنے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
پروفیسر ڈیآگو گراسیا مریضوں کے حقوق اور جذبات کے بارے میں ڈاکٹروں کو کورس کے ذریعے تعلیم دیتا ہے۔ وہ اِس بات سے متفق ہے کہ یہوواہ کے گواہوں کا حق بنتا ہے کہ وہ خون نہ لیں۔ وہ سپین برانچ سے کچھ بھائیوں کو باقاعدگی سے اپنے کورس پر آنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ ڈاکٹروں کو گواہوں کا نظریہ سمجھا سکیں۔ اُس کے طالبعلموں میں سپین کے سب سے نامور ڈاکٹر شامل ہیں۔ *
حقیقت کا سامنا کرنا
مسیحی بہن بھائیوں کی خدمت کرنے سے مَیں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ لیکن میری صورتحال دنبدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ میری بیماری کا اثر میرے جسم پر تو پڑ رہا ہے لیکن میرا ذہن اب تک بالکل ٹھیک ہے۔ مَیں اپنی بیوی اور بیٹے کا بہت شکرگزار ہوں جو میری مدد کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی صورتحال کے بارے میں کبھی شکایت نہیں کی۔ اُن کے بغیر مَیں کلیسیائی اور دیگر ذمہداریاں پوری کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا تھا۔ حتیٰکہ مَیں اپنی پینٹ کا بٹن بند کرنے یا اپنی جیکٹ تک پہننے کے قابل نہیں رہا ہوں۔ ہر ہفتے کے روز مَیں اپنے بیٹے اسماعیل کے ساتھ منادی کرنے جاتا ہوں۔ وہ میری پہیوں والی کُرسی کو گھرباگھر دھکیلتا ہے تاکہ مَیں لوگوں سے باتچیت کر سکوں۔ مجھے اسماعیل کے ساتھ ملکر منادی کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔
پچھلے ۱۲ سال میری زندگی کے بڑے دردناک سال رہے ہیں۔ میری معذوری کی وجہ سے میرے خاندان کو بھی دُکھ اُٹھانا پڑ رہا ہے اور یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تنہائی میں آنسو بہاتے ہونگے۔ ایک سال کے اندر میری ساس اور میرے والد فوت ہو گئے۔ میرا باپ ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ اُس کو بھی میری طرح کی بیماری تھی۔ میری بیوی میلاگروس میرے باپ کی دیکھبھال کِیا کرتی تھی۔ اپنے سُسر کو آہستہ آہستہ مرتے ہوئے دیکھ کر اُسے میری موت سامنے نظر آنے لگی۔ اُسی سال میری بیماری نے مجھے چلنےپھرنے کے قابل نہ چھوڑا۔
ان تمام واقعات کا ہمارے خاندان نے ملکر مقابلہ کِیا۔ اس سے ہماری محبت کا بندھن مزید مضبوط ہوا ہے۔ مَیں ایک آفیسر کی کُرسی سے ایک پہیوں والی کُرسی پر آیا ہوں۔ لیکن یہ میرے لئے اچھا ثابت ہوا ہے کیونکہ مَیں بہتر طور پر بہن بھائیوں کی خدمت کرنے کے قابل ہوا ہوں۔ یقیناً دوسروں کی مدد کرنے سے اپنا دُکھ کم ہو جاتا ہے۔ یہوواہ وعدہ کرتا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ہمیں قوت دیگا۔ پولس رسول کی طرح مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“—فلپیوں ۴:۱۳۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 اس بیماری کو ملٹیپل سکلےروسز کہا جاتا ہے۔
^ پیراگراف 19 آپریشن کرنے کا یہ خاص طریقہ راس پروسیجر کے نام سے بھی مشہور ہے۔
^ پیراگراف 27 دی واچٹاور، فروری ۱۵، ۱۹۹۷ صفحہ ۱۹، ۲۰ دیکھیں۔
[صفحہ ۲۴ پر بکس]
بیوی کا اظہارِخیال
ایک بیوی کیلئے ایسے شوہر کی دیکھبھال کرنا آسان نہیں ہوتا جو اِس قِسم کی بیماری میں مبتلا ہو۔ مَیں نے وقت کو سمجھداری سے استعمال کرنا اور کل کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند نہ ہونا بھی سیکھا ہے۔ (متی ۶:۳۴) یقیناً دُکھوں کا سامنا کرنے سے انسان کے اندر اچھی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہماری ازدواجی زندگی اب پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور ہم یہوواہ خدا کے اَور بھی نزدیک ہو گئے ہیں۔ جب مَیں دوسرے بہن بھائیوں کی زندگی کے تجربات پڑھتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ اُنہوں نے کسطرح مشکلات کو برداشت کِیا تو مجھے کافی تسلی ملتی ہے۔ جب میرا شوہر دوسروں کی خدمت کرتا ہے تو مَیں اُسکی خوشی میں شریک ہوتی ہوں۔ اگرچہ ہمیں ہر روز نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے توبھی مجھے پورا یقین ہے کہ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں بھولیگا۔
[صفحہ ۲۴ پر بکس]
بیٹے کا اظہارِخیال
اپنے والد کی عمدہ مثال سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اپنے والد کی کُرسی کو دھکیلتے ہوئے مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ مَیں وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جو مَیں کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی مَیں کمعمر ہوں لیکن جب مَیں بڑا ہو جاؤں گا تو اپنے باپ کی طرح ہسپتال رابطہ کمیٹی کا ممبر بنوں گا۔ بائبل سے مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تمام تکالیف جلد ختم ہو جائینگی اور یہ بھی کہ بہت سے بہن بھائی ہم سے بھی زیادہ دُکھ برداشت کر رہے ہیں۔
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
میری بیوی میرے لئے قوت کا ذریعہ ہے
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
دل کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر خوان ڈوارٹے سے باتچیت کرتے ہوئے
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
مَیں اور میرا بیٹا منادی میں ایک ساتھ کام کرتے ہوئے