مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏دیکھو!‏ یہ ہمارا خدا ہے‘‏

‏’‏دیکھو!‏ یہ ہمارا خدا ہے‘‏

‏’‏دیکھو!‏ یہ ہمارا خدا ہے‘‏

مطالعے کے ان دو مضامین میں زیرِبحث آنے والی معلومات یہوواہ کے نزدیک جائیں کتاب پر مبنی ہے جو ۲۰۰۲/‏۲۰۰۳ کے دوران پوری دُنیا میں منعقد ہونے والے دسٹرکٹ کنونشنوں پر ریلیز کی گئی تھی۔‏​—‏⁠صفحہ ۲۰ پر مضمون بعنوان ”‏اِس نے میرے دل کا خلا پُر کر دیا“‏ دیکھیں۔‏

‏’‏دیکھو یہ ہمارا خدا ہے۔‏ ہم اُسکی راہ تکتے تھے اور وہی ہم کو بچائیگا۔‏ یہ یہوواہ ہے۔‏‘‏—‏یسعیاہ ۲۵:‏۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے آبائی بزرگ ابرہام کا ذکر کیسے کِیا اور یہ بات ہمیں کیا سوچنے کی تحریک دے سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ بائبل کیسے ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے ساتھ قریبی رشتہ ممکن ہے؟‏

‏”‏میرے دوست۔‏“‏ آسمان اور زمین کے خالق،‏ یہوواہ نے آبائی بزرگ ابرہام کی بابت کہا تھا۔‏ (‏یسعیاہ ۴۱:‏۸‏)‏ ذرا کسی ادنیٰ انسان کے کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کا دوست بننے کا تصور کریں!‏ آپ شاید سوچیں،‏ ’‏کیا میرے لئے خدا کے اسقدر قریب جانا ممکن ہے؟‏‘‏

۲ بائبل یقین دلاتی ہے کہ خدا سے قریبی رشتہ رکھنا ممکن ہے۔‏ ابرہام کو ایسی قربت سے نوازا گیا تھا کیونکہ وہ ”‏خدا پر ایمان لایا“‏ تھا۔‏ (‏یعقوب ۲:‏۲۳‏)‏ آجکل بھی ”‏راستباز [‏یہوواہ کے]‏ محرمِ‌راز ہیں۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۳۲‏)‏ یعقوب ۴:‏۸ میں بائبل تاکید کرتی ہے:‏ ”‏خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا۔‏“‏ واقعی،‏ اگر ہم یہوواہ کے نزدیک جانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ضرور ہماری مدد کریگا۔‏ بیشک وہ بھی ہمارے نزدیک آئیگا۔‏ لیکن کیا ان الہامی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے ہم گنہگار،‏ ناکامل انسان پہلا قدم اُٹھاتے ہیں؟‏ ہرگز نہیں۔‏ یہوواہ کی قربت دراصل اُسی کی طرف سے اُٹھائے گئے دو اہم اقدام کی وجہ سے ممکن ہے۔‏—‏زبور ۲۵:‏۱۴‏۔‏

۳.‏ یہوواہ نے ہمارے لئے اپنی دوستی ممکن بنانے کیلئے کونسے دو اقدام اُٹھائے ہیں؟‏

۳ اوّل،‏ یہوواہ نے یسوع کے لئے ممکن بنایا کہ وہ ”‏اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیے میں دے۔‏“‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ یہ فدیہ ہمارے لئے خدا کی قربت کو ممکن بناتا ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم اِس لئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبت رکھی۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا نے ”‏پہلے .‏ .‏ .‏ ہم سے محبت رکھی،‏“‏ لہٰذا اُس نے ہمارے لئے یہ ممکن بنایا کہ ہم اُس کے ساتھ دوستی کے رشتے میں داخل ہوں۔‏ دوم،‏ یہوواہ نے خود کو ہم پر آشکارا کِیا ہے۔‏ دوستی کا رشتہ دوسرے شخص کو جاننے اور اُس کی صفات کی قدر اور تعریف کرنے سے گہرا ہوتا ہے۔‏ ذرا سوچیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔‏ اگر یہوواہ کوئی نامعلوم یا ایسا خدا ہوتا جسے جاننا مشکل ہوتا تو ہم کبھی بھی اُس کے نزدیک نہیں جا سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ خود کو پوشیدہ رکھنے کی بجائے یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُسے جانیں۔‏ (‏یسعیاہ ۴۵:‏۱۹‏)‏ اپنے کلام بائبل میں وہ خود کو قابلِ‌فہم اصطلاحات سے ظاہر کرتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ہم سے محبت رکھتا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اُسے اپنے آسمانی باپ کے طور پر جانیں اور اُس سے محبت رکھیں۔‏

۴.‏ یہوواہ کی صفات کو بہتر طور پر جاننے سے ہم کیسا محسوس کرینگے؟‏

۴ کیا آپ نے کبھی کسی بچے کو اپنے دوستوں میں کھڑے ہوکر اپنے باپ کی طرف اشارہ کرکے یہ کہتے سنا ہے کہ ”‏یہ میرے ابو ہیں؟‏“‏ یہوواہ کے پرستاروں کے پاس اُس کی بابت ایسا ہی محسوس کرنے کی ہر وجہ موجود ہے۔‏ بائبل ایک ایسے وقت کا ذکر کرتی ہے جب وفادار لوگ بڑی خوشی سے یہ کہیں گے:‏ ’‏دیکھو یہ ہمارا خدا ہے۔‏‘‏ (‏یسعیاہ ۲۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ جتنا زیادہ ہم یہوواہ کی خوبیوں کو سمجھتے ہیں،‏ اُتنا ہی زیادہ ہم یہ محسوس کرینگے کہ ہمارا باپ سب سے اچھا ہے جو ہمارا قریبی دوست بھی ہے۔‏ واقعی،‏ یہوواہ کی صفات کو سمجھنا ہمیں اُس کی قربت میں آنے کی بہتیری وجوہات فراہم کرتا ہے۔‏ آئیے دیکھیں کہ بائبل یہوواہ کی بنیادی صفات—‏قدرت،‏ انصاف،‏ حکمت اور محبت—‏کو کیسے بیان کرتی ہے۔‏ اس مضمون میں،‏ ہم ان میں سے تین صفات پر گفتگو کرینگے۔‏

‏”‏قدرت .‏ .‏ .‏ میں شاندار“‏

۵.‏ صرف یہوواہ ہی کو موزوں طور پر ”‏قادرِمطلق“‏ کیوں کہا جا سکتا ہے اور وہ اپنی عظیم قدرت کو کس طرح استعمال کرتا ہے؟‏

۵ یہوواہ ”‏قدرت .‏ .‏ .‏ میں شاندار“‏ ہے۔‏ (‏ایوب ۳۷:‏۲۳‏)‏ یرمیاہ ۱۰:‏۶ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تیرا کوئی نظیر نہیں۔‏ تُو عظیم ہے اور قدرت کے سبب سے تیرا نام بزرگ ہے۔‏“‏ کسی مخلوق کے برعکس،‏ یہوواہ لامحدود قدرت کا مالک ہے۔‏ اسی وجہ سے صرف اُسی کو ”‏قادرِمطلق“‏ کہا جاتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۵:‏۳‏)‏ یہوواہ اپنی عظیم طاقت کو تخلیق،‏ تباہی،‏ تحفظ اور بحالی کے لئے استعمال کرتا ہے۔‏ اس کی محض دو مثالوں—‏تخلیقی قوت اور حفاظتی قوت—‏پر غور کریں۔‏

۶،‏ ۷.‏ سورج کتنا طاقتور ہے اور یہ کونسی اہم سچائی کی تصدیق کرتا ہے؟‏

۶ جب آپ موسمِ‌گرما میں باہر دھوپ میں کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کو جِلد پر کیا محسوس ہوتا ہے؟‏ سورج کی تپش۔‏ واقعی آپ کو یہوواہ کی تخلیقی قوت کے نتائج محسوس ہوتے ہیں۔‏ سورج کتنا طاقتور ہے؟‏ اس کے مرکز میں درجۂ‌حرارت ۲ کروڑ ۷۰ لاکھ ڈگری فارن‌ہائیٹ ہے۔‏ اگر آپ اس کے مرکز سے سوئی کی نوک کے برابر ٹکڑا بھی نکال کر زمین پر رکھ دیں تو آپ اُس کے آس‌پاس ۱۵۰ کلومیٹر تک کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔‏ ہر سیکنڈ میں سورج سے سینکڑوں ملین نیوکلیئر بموں کے دھماکے برابر توانائی خارج ہوتی ہے۔‏ تاہم،‏ زمین اِس حرمرکزائی بھٹی سے بالکل صحیح فاصلے پر گردش کرتی ہے۔‏ اگر زمین اس کے بہت قریب ہو تو اس کا پانی بخارات بن کر اُڑ جائیگا اور اگر یہ بہت دُور ہو تو یہ جم جائیگا۔‏ ان دونوں میں سے کوئی بھی حالت ہمارے سیارے سے زندگی کا نام‌ونشان مٹا دیگی۔‏

۷ اگرچہ زندگی کا دارومدار اسی پر ہے توبھی بہتیرے لوگ سورج کو بہت کم اہم خیال کرتے ہیں۔‏ یوں،‏ وہ اُس سبق کو سیکھنے میں ناکام رہ جاتے ہیں جو سورج ہمیں سکھا سکتا ہے۔‏ زبور ۷۴:‏۱۶ یہوواہ کی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏نوُر اور آفتاب کو تُو ہی نے تیار کِیا۔‏“‏ واقعی،‏ سورج یہوواہ کا جلال ظاہر کرتا ہے جو ’‏آسمان اور زمین کا بنانے والا ہے۔‏‘‏ (‏زبور ۱۴۶:‏۶‏)‏ یہ خلق‌کردہ بیشمار چیزوں میں سے محض ایک ہے جو ہمیں یہوواہ کی عظیم طاقت کے بارے میں سکھاتا ہے۔‏ ہم یہوواہ کی تخلیقی قوت کی بابت جتنا زیادہ علم حاصل کرتے ہیں اُتنا ہی ہم اُس کی تعظیم کرنے لگتے ہیں۔‏

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ کونسا مشفقانہ بیان اپنے خادموں کی حفاظت اور نگہداشت کیلئے یہوواہ کی رضامندی کو ظاہر کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ بائبل وقتوں کے چرواہے اپنی بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کیسے کرتے تھے اور یہ ہمیں اپنے عظیم چرواہے کی بابت کیا سکھاتا ہے؟‏

۸ یہوواہ اپنی عظیم طاقت کو اپنے خادموں کے تحفظ اور دیکھ‌بھال کے لئے بھی استعمال کرتا ہے۔‏ بائبل یہوواہ کے تحفظ کے وعدوں کو بیان کرنے کے لئے نہایت واضح اور اثرآفرین الفاظ استعمال کرتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسعیاہ ۴۰:‏۱۱ پر غور کریں۔‏ یہاں پر یہوواہ خود کو ایک چرواہے اور اپنے لوگوں کو بھیڑوں سے تشبِیہ دیتا ہے۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏وہ چوپان کی مانند اپنا گلّہ چرائیگا۔‏ وہ برّوں کو اپنے بازوؤں میں جمع کریگا اور اپنی بغل میں لیکر چلیگا اور اُن کو جو دودھ پلاتی ہیں آہستہ آہستہ لے جائیگا۔‏“‏ کیا آپ اس بیان کی ذہنی تصویر بنا سکتے ہیں؟‏

۹ پالتو بھیڑ نہایت بھولابھالا جانور ہے۔‏ بائبل وقتوں میں چرواہوں کو اپنی بھیڑوں کو بھیڑیوں،‏ ریچھوں اور شیروں سے بچانے کے لئے بڑی دلیری کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۳۴-‏۳۶؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ لیکن بعض‌اوقات اُنہیں بڑی شفقت اور نرمی سے بھیڑوں کی حفاظت اور دیکھ‌بھال کرنی پڑتی تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب کوئی بھیڑ اپنے باڑے سے دُور بچہ جنتی تھی تو چرواہا نوزائیدہ برّے کو کیسے محفوظ رکھتا تھا؟‏ وہ اُسے کئی دنوں تک ”‏اپنی بغل“‏—‏جھولی—‏میں اُٹھائے رکھتا تھا۔‏ یہ ننھا برّہ چرواہے کی گود میں کیسے جاتا تھا؟‏ برّہ چرواہے کے پاس جاکر اُس کی ٹانگ پر اپنا مُنہ رگڑتا تھا۔‏ اس کے لئے چرواہے کو جھک کر برّے کو اُٹھانا اور اپنی گود میں محفوظ کرنا پڑتا تھا۔‏ اپنے خادموں کی حفاظت اور نگہداشت کے لئے ہمارے عظیم چرواہے کی رضامندی کی کیا ہی مشفقانہ تصویر!‏

۱۰.‏ یہوواہ آجکل کونسا روحانی تحفظ فراہم کرتا ہے اور ایسا تحفظ بالخصوص کیوں اہم ہے؟‏

۱۰ یہوواہ نے صرف تحفظ کا وعدہ ہی نہیں کِیا ہے۔‏ بائبل وقتوں میں اُس نے کئی معجزانہ طریقوں سے بھی ثابت کِیا کہ وہ ”‏دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا .‏ .‏ .‏ جانتا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ ہمارے زمانے کی بابت کیا ہے؟‏ ہم جانتے ہیں کہ وہ اب ہمیں ہر مصیبت سے بچانے کے لئے اپنی طاقت استعمال نہیں کرتا۔‏ تاہم،‏ اس سے بڑھکر وہ روحانی تحفظ فراہم کرتا ہے۔‏ ہمارا شفیق خدا ہمیں آزمائشیں برداشت کرنے کے لئے ضروری چیزوں سے لیس کرنے اور اپنے ساتھ ہمارے رشتے کی حفاظت کرنے سے ہمیں روحانی نقصان سے بچاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ لوقا ۱۱:‏۱۳ بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب تم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روح‌القدس کیوں نہ دیگا؟‏“‏ یہی طاقت ہمیں ہر مسئلے یا آزمائش کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ یوں یہوواہ صرف چند سالوں کے لئے نہیں بلکہ ابدیت تک ہماری زندگی بچاتا ہے۔‏ اس امکان کے پیشِ‌نظر ہم اس نظام کی ہر تکلیف کو ”‏دم‌بھر کی ہلکی سی مصیبت“‏ سمجھ سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۷‏)‏ کیا ہم ایسے خدا کے نزدیک جانے کی ترغیب نہیں پاتے جو اپنی طاقت کو ہمارے لئے اتنی شفقت سے استعمال کرتا ہے؟‏

‏’‏یہوواہ انصاف کو پسند کرتا ہے‘‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کا انصاف ہمیں اُس کی طرف کیوں راغب کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ داؤد یہوواہ کے انصاف کی بابت کس نتیجے پر پہنچا تھا اور یہ الہامی الفاظ ہمیں کیسے تسلی دیتے ہیں؟‏

۱۱ یہوواہ کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ہمیشہ انصاف کرتا ہے۔‏ الہٰی انصاف سردمہر اور درشت خوبی نہیں جو ہمیں یہوواہ سے دُور لے جائے بلکہ یہ ایک مرغوب خوبی ہے جو ہمیں اُس کے نزدیک لے جاتی ہے۔‏ بائبل اس صفت کی دلکش نوعیت کو صاف الفاظ میں بیان کرتی ہے۔‏ پس،‏ آئیے تین ایسے طریقوں پر غور کریں جن سے یہوواہ انصاف کرتا ہے۔‏

۱۲ اوّل،‏ یہوواہ کا انصاف اُسے اپنے خادموں کے ساتھ وفاداری سے پیش آنے کی تحریک دیتا ہے۔‏ زبورنویس داؤد کو یہوواہ کے انصاف کے اس پہلو کا براہِ‌راست تجربہ ہوا تھا۔‏ اپنے ذاتی تجربے اور خدائی طریقوں کے مطالعے سے داؤد کس نتیجے پر پہنچا تھا؟‏ اُس نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مُقدسوں کو ترک نہیں کرتا۔‏ وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۲۸‏)‏ کیا ہی تسلی‌بخش یقین‌دہانی!‏ ہمارا خدا اُن لوگوں کو ایک لمحے کے لئے بھی نہیں چھوڑتا جو اُس کے وفادار ہیں۔‏ پس ہم اُس کی قربت اور مشفقانہ نگہداشت پر انحصار کر سکتے ہیں۔‏ اُس کا انصاف اس کی ضمانت دیتا ہے!‏—‏امثال ۲:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۱۳.‏ اسرائیل کو دی گئی شریعت سے ناداروں کے لئے یہوواہ کی فکر کیسے عیاں تھی؟‏

۱۳ دوم،‏ الہٰی انصاف مصیبت‌زدہ لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔‏ اسرائیل کو دی گئی شریعت سے نادار لوگوں کے لئے یہوواہ کی فکر صاف ظاہر ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ شریعت میں یتیموں اور بیواؤں کی ضروریات پوری کرنے کے انتظامات کو واضح کِیا گیا تھا۔‏ (‏استثنا ۲۴:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ ایسے خاندانوں کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے یہوواہ خود اُن کا باپ،‏ منصف اور محافظ بنا۔‏ (‏استثنا ۱۰:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اُس نے اسرائیلیوں کو آگاہ کِیا کہ اگر وہ بےبس عورتوں اور بچوں پر ظلم کرینگے تو وہ ایسے لوگوں کی فریاد ضرور سنے گا۔‏ خروج ۲۲:‏۲۲-‏۲۴ کے مطابق وہ کہتا ہے کہ ”‏میرا قہر بھڑکے گا۔‏“‏ اگرچہ قہر خدا کی نمایاں صفات میں شامل نہیں توبھی بےبس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہوتا دیکھ کر وہ بجا طور پر غضبناک ہوتا ہے۔‏—‏زبور ۱۰۳:‏۶‏۔‏

۱۴.‏ یہوواہ کی غیرجانبداری کا حیران‌کُن ثبوت کیا ہے؟‏

۱۴ سوم،‏ استثنا ۱۰:‏۱۷ میں بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ یہوواہ ”‏رُورعایت نہیں کرتا اور نہ رشوت لیتا ہے۔‏“‏ بہتیرے بااختیار اشخاص کے برعکس،‏ یہوواہ دولت یا وضع‌قطع سے متاثر نہیں ہوتا۔‏ وہ تعصّب یا طرفداری سے کام نہیں لیتا۔‏ اُس کی غیرجانبداری کا حیران‌کُن ثبوت یہ ہے:‏ ہمیشہ کی زندگی کے امکان کیساتھ اُس کے سچے پرستار بننے کا موقع صرف چند بڑے اشخاص تک محدود نہیں ہے۔‏ بلکہ،‏ اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵ بیان کرتی ہے:‏ ”‏خدا کسی کا طرفدار نہیں۔‏ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔‏“‏ یہ موقع معاشرتی حیثیت،‏ رنگ‌ونسل یا قومیت سے قطع‌نظر سب کو حاصل ہے۔‏ کیا یہی سچا انصاف نہیں؟‏ واقعی،‏ یہوواہ کے انصاف کی اچھی سمجھ ہمیں اُس کے قریب لاتی ہے!‏

‏’‏خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‏‘‏

۱۵.‏ حکمت کیا ہے اور یہوواہ اِسے کیسے ظاہر کرتا ہے؟‏

۱۵ پولس رسول نے بڑے جوش سے یہ بات کہی جو رومیوں ۱۱:‏۳۳ میں درج ہے:‏ ”‏واہ!‏ خدا کی .‏ .‏ .‏ حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!‏“‏ واقعی،‏ جب ہم یہوواہ کی حکمت کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو ہم حیرت‌وتعظیم سے  معمور ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اس خوبی کی تشریح کیسے کی جا سکتی ہے؟‏ حکمت سے علم،‏ فہم اور سمجھ حاصل ہوتی ہے جس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔‏ اپنی بےپناہ حکمت سے یہوواہ ہمیشہ صحیح فیصلے کرتا اور اُنہیں عمل میں لاتا ہے۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ یہوواہ کی مخلوقات اُس کی حکمت کا ثبوت کیسے پیش کرتی ہیں؟‏ مثال دیں۔‏

۱۶ یہوواہ کی وسیع حکمت کے بعض ثبوت کونسے ہیں؟‏ زبور ۱۰۴:‏۲۴ کہتی ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تیری صنعتیں کیسی بےشمار ہیں!‏ تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔‏ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے۔‏“‏ واقعی ہم جتنا زیادہ یہوواہ کے تخلیقی کاموں کی بابت سیکھتے ہیں ہم اُسی قدر زیادہ اُس کی حکمت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔‏ سائنسدانوں نے یہوواہ کی مخلوقات کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھا ہے!‏ انجینیئرنگ کا ایک ایسا شعبہ بھی ہے جسے حیاتیاتی نقالی کہا جاتا ہے جس میں فطرت کی چیزوں کی نقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‏

۱۷ مثال کے طور پر،‏ آپ ایک مکڑے کے جال کی خوبصورتی کو دیکھ کر یقیناً دنگ رہ گئے ہونگے۔‏ یہ واقعی نمونہ‌سازی کا شاہکار ہے۔‏ کمزور اور نفیس نظر آنے والے بعض تار سٹیل سے بھی زیادہ مضبوط اور ایک بلٹ‌پروف جیکٹ کے دھاگوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔‏ اس کا دراصل کیا مطلب ہے؟‏ ذرا مکڑے کے جال کو مچھلی پکڑنے والی کشتی پر استعمال ہونے والے جال کے برابر بڑھانے کا تصور کریں۔‏ یہ جال اسقدر مضبوط ہوگا کہ دورانِ‌پرواز مسافر طیارے کو بھی پکڑ سکتا ہے!‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے اِن تمام چیزوں کو ”‏حکمت سے“‏ بنایا ہے۔‏

۱۸.‏ اپنے الہامی کلام بائبل کو تحریر کرنے کے لئے انسانوں کو استعمال کرنے سے یہوواہ کی حکمت کیسے عیاں ہوتی ہے؟‏

۱۸ یہوواہ کی حکمت کا سب سے بڑا ثبوت اُس کے کلام بائبل میں ملتا ہے۔‏ اس کی دانشمندانہ مشورت ہمیں زندگی کی بہترین راہ دکھاتی ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ لیکن یہوواہ کی لاثانی حکمت بائبل تحریر کرنے کے  طریقے سے بھی نمایاں ہے۔‏ کیسے؟‏ حکمت ہی سے یہوواہ نے اپنا کلام تحریر  کرانے کے لئے انسانوں کا انتخاب کِیا۔‏ اگر اُس نے اپنا الہامی کلام فرشتوں سے تحریر کرایا ہوتا تو کیا یہ اِتنا ہی جاذبِ‌توجہ ہوتا؟‏ ممکن ہے کہ فرشتوں نے اپنے بلند نقطۂ‌نظر سے یہوواہ کی خوب عکاسی کی ہوتی اور اُس کے لئے اپنی عقیدت کا بھی اظہار کِیا ہوتا۔‏ لیکن کیا ہم علم،‏ تجربے اور طاقت میں ہم سے کہیں زیادہ افضل کامل روحانی مخلوق کے نقطۂ‌نظر کو سمجھنے کے قابل ہوتے؟‏—‏عبرانیوں ۲:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۱۹.‏ کونسی مثال ظاہر کرتی ہے کہ انسانی مصنّفین استعمال کرنے سے بائبل کی دلکشی اور اثرپذیری میں اضافہ ہوا ہے؟‏

۱۹ انسانی مصنّفین استعمال کرنے سے بائبل کی دلکشی اور اثرپذیری میں اضافہ ہوا ہے۔‏ یہ مصنّفین ہمارے ہم‌طبیعت انسان تھے۔‏ ناکامل ہونے کی وجہ سے اُنہیں ہم جیسے دباؤ اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا تھا۔‏ بعض‌اوقات اُنہوں نے ذاتی احساسات اور جدوجہد کی بابت تحریر کِیا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۷-‏۱۰‏)‏ لہٰذا اُنہوں نے ایسے الفاظ لکھے جنہیں کوئی بھی فرشتہ نہیں لکھ سکتا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ زبور ۵۱ میں درج داؤد کے الفاظ پر غور کریں۔‏ بالائی عبارت کے مطابق،‏ داؤد نے سنگین گناہ کرنے کے بعد یہ گیت مرتب کِیا تھا۔‏ وہ اپنا دل اُنڈیل دیتا اور شدید غم کے اظہار کے ساتھ خدا سے معافی کی بھیک مانگتا ہے۔‏ اس کی ۲ اور ۳ آیت کہتی ہے:‏ ”‏میری بدی کو مجھ سے دھو ڈال اور میرے گناہ سے مجھے پاک کر۔‏ کیونکہ مَیں اپنی خطاؤں کو مانتا ہوں اور میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔‏“‏ اسی کی ۵ آیت پر غور کریں:‏ ”‏دیکھ!‏ مَیں نے بدی میں صورت پکڑی اور مَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا۔‏“‏ پھر ۱۷ آیت بیان کرتی ہے:‏ ”‏شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔‏ اَے خدا تو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانیگا۔‏“‏ کیا آپ مصنف کے غم کو محسوس کر سکتے ہیں؟‏ صرف ناکامل انسان ہی ایسے جذبات کا اظہار کر سکتا تھا۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی مصنّفین استعمال کرنے کے باوجود بائبل میں یہوواہ ہی کی حکمت پنہاں ہے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کیا زیرِبحث آئیگا؟‏

۲۰ ناکامل انسانوں کو استعمال کرنے سے یہوواہ نے وہ چیز فراہم کی جس کی ہمیں ضرورت تھی یعنی ایسا ریکارڈ جو ”‏خدا کے الہام سے“‏ ہونے کے باوجود انسان کے لئے قابلِ‌فہم ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ واقعی،‏ روح‌القدس نے اُن مصنّفین کی راہنمائی کی تھی۔‏ اس لئے اُنہوں نے اپنی نہیں بلکہ یہوواہ کی حکمت تحریر کی تھی۔‏ یہ حکمت پوری طرح قابلِ‌بھروسا ہے۔‏ یہ ہماری حکمت سے اتنی بالاتر ہے کہ خدا بڑی شفقت سے ہمیں یہ تاکید کرتا  ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ ایسی دانشمندانہ مشورت پر دھیان دینے سے ہم کُل حکمت کے ماخذ خدا کی قربت میں آ جاتے ہیں۔‏

۲۱ یہوواہ کی تمام صفات میں سب سے زیادہ دلکش اور پسندیدہ صفت محبت ہے۔‏ اگلے مضمون میں یہ بتایا جائیگا کہ یہوواہ نے محبت کا مظاہرہ کیسے کِیا ہے؟‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• یہوواہ نے ہمارے لئے اپنی قربت کو ممکن بنانے کیلئے کونسے اقدام اُٹھائے ہیں؟‏

‏• یہوواہ کی تخلیقی قوت اور حفاظتی قوت کی بعض مثالیں کونسی ہیں؟‏

‏• یہوواہ انصاف کس طرح کرتا ہے؟‏

‏• یہوواہ کی حکمت اُسکی تخلیق اور بائبل سے کیسے  عیاں ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

برّے کو اپنی گود میں اُٹھا لینے والے چرواہے کی طرح یہوواہ بڑی شفقت سے اپنی بھیڑوں کی نگہبانی کرتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

یہوواہ کی حکمت بائبل تحریر کرنے کے طریقے سے عیاں ہوتی ہے