مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

عبرانیوں ۲:‏۱۴ میں شیطان کو ’‏موت پر قدرت رکھنے‘‏ والے کے طور پر کیوں بیان کِیا گیا ہے؟‏

مختصراً،‏ پولس کا مطلب تھا کہ شیطان ذاتی طور پر یا اپنے نمائندوں کے ذریعے انسانوں کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔‏ اسی کی مطابقت میں،‏ یسوع نے بھی شیطان کی بابت کہا تھا کہ وہ ”‏شروع ہی سے خونی ہے۔‏“‏—‏یوحنا ۸:‏۴۴‏۔‏

بعض ترجمے عبرانیوں ۲:‏۱۴ میں بیان کرتے ہیں کہ شیطان ”‏موت پر قادر“‏  ہے یا ”‏مارنے کی قدرت“‏ رکھتا ہے۔‏ (‏کنگ جیمز ورشن؛‏ ریوائزڈ سٹینڈرڈ؛‏ نیو انٹرنیشنل ورشن؛‏ جیروصلم بائبل‏)‏ ایسے ترجموں کی وجہ سے غلط‌فہمی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان میں کسی کو بھی مار ڈالنے کی لامحدود طاقت ہے۔‏ تاہم،‏ ایسا نہیں ہے۔‏ اس طرح تو اُس نے بہت عرصہ پہلے ہی یہوواہ کے پرستاروں کو صفحۂ‌ہستی سے مٹا ڈالا ہوتا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱۵‏۔‏

یونانی اظہار جسکا ترجمہ بعض ترجموں میں ”‏موت پر قدرت حاصل“‏ کِیا  گیا ہے اور نیو ورلڈ ٹرانسلیشن میں ‏”‏موت کا سبب بننا“‏ کِیا گیا ہے وہ ‏”‏کرا توس تاؤ تھاناتاؤ“‏ ہے۔‏ تاؤ تھاناتاؤ دراصل ایک اظہار ہے جسکا مطلب ہے ”‏موت۔‏“‏ بنیادی طور پر،‏ کرا توس کا مطلب ”‏قوت،‏ طاقت،‏ قدرت“‏ ہے۔‏ تھیولاجیکل ڈکشنری آف دی نیو ٹسٹامنٹ کے مطابق،‏ اسکا مطلب ”‏قوت یا طاقت کے استعمال کی بجائے اسکی موجودگی یا علامت“‏ ہے۔‏ لہٰذا،‏ عبرانیوں ۲:‏۱۴ میں پولس کا یہ مطلب نہیں کہ شیطان کو موت پر مکمل اختیار حاصل ہے۔‏ بلکہ وہ شیطان کے موت کا سبب بننے کے قابل ہونے یا امکان رکھنے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔‏

شیطان کیسے ”‏موت کا سبب بن سکتا ہے“‏؟‏ ایوب کی کتاب میں ہم ایک واقعہ کی بابت پڑھتے ہیں جو قدرے غیرمعمولی ہے۔‏ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ شیطان ایک طوفان لایا جس سے ایوب کے سارے بچے مر گئے۔‏ تاہم،‏ غور کریں کہ شیطان یہ یہوواہ کی اجازت کے ساتھ ہی کر سکتا تھا جو محض اسلئے دی گئی تھی کیونکہ ایک اہم مسئلے کو حل کِیا جانا تھا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۱۲،‏ ۱۸،‏ ۱۹‏)‏ بِلاشُبہ،‏ شیطان ایوب کو مارنے کے قابل نہیں تھا۔‏ اسکی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‏ (‏ایوب ۲:‏۶‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ بعض‌اوقات شیطان ایماندار آدمیوں کی ہلاکت کا سبب بننے کے قابل ہوا ہے توبھی ہمیں اس بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے ہماری زندگی چھین سکتا ہے۔‏

شیطان انسانی نمائندوں کے ذریعے بھی موت لانے کا سبب بنا ہے۔‏ لہٰذا،‏ بہت سے مسیحیوں نے اپنے ایمان کی خاطر جان دیدی جن میں سے بعض کو مشتعل ہجوم نے مار ڈالا یا سرکاری اہلکاروں اور بدعنوان منصفوں کے ہاتھوں غیرمنصفانہ سزا کے طور پر قتل کئے گئے ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۲:‏۱۳‏۔‏

مزیدبرآں،‏ بعض‌اوقات انسانی کمزوریوں کی وجہ سے بھی شیطان موت کا سبب بنا ہے۔‏ قدیم اسرائیل کے زمانے میں،‏ بلعام نبی نے موآبیوں کو صلاح دی کہ اسرائیلیوں کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی حکم‌عدولی“‏ کرنے پر اُکسائیں۔‏ (‏گنتی ۳۱:‏۱۶‏)‏ اسکے نتیجے میں ۰۰۰،‏۲۳ اسرائیلی مارے گئے۔‏ (‏گنتی ۲۵:‏۹؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۸‏)‏ اسی طرح آجکل بھی بعض لوگ شیطان کے ”‏منصوبوں“‏ کا شکار ہو جاتے اور بداخلاقی یا دیگر بُرے کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱‏)‏ سچ ہے کہ ایسے لوگ فوری طور پر تو اپنی زندگیوں سے  ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے۔‏ تاہم وہ ہمیشہ کی زندگی سے محروم رہنے کے خطرے میں پڑ جاتے ہیں اور یوں شیطان اُنکی موت کا سبب بنتا ہے۔‏

اگرچہ ہم شیطان کے نقصان پہنچانے کی صلاحیت سے واقف ہیں توبھی ہمیں اُس سے بہت زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ جب پولس نے کہا کہ شیطان موت کا سبب بن سکتا ہے تو اُس نے یہ بھی کہا کہ مسیح اسی واسطے موأ کہ وہ ”‏اِبلیس کو تباہ کر دے اور جو عمربھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع نے فدیہ دیا اور یوں نسلِ‌انسانی کو گُناہ اور موت کے قبضہ سے چھڑا لیا۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۱۰‏۔‏

بِلاشُبہ یہ سوچنا کہ شیطان موت کا سبب بن سکتا ہے ایک سنجید امر ہے لیکن ہمیں یقین ہے یہوواہ شیطان اور اُسکے نمائندوں کی طرف سے پہنچائے جانے والے ہر نقصان سے بچانے پر قادر ہے۔‏ یہوواہ نے یقین‌دہانی کرائی ہے کہ قیامت‌یافتہ مسیح ”‏ابلیس کے کاموں کو مٹائے“‏ گا۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۸‏)‏ یہوواہ کی طاقت سے یسوع مُردوں کو زندہ کریگا اور یوں موت کے اثرات کو ختم کر دیگا۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ بالآخر یسوع ڈرامائی طور پر شیطان کو اتھاہ‌گڑھے میں بند کرنے سے اُسکی طاقت کو ختم کر دیگا۔‏ پھر شیطان ہمیشہ‌ہمیشہ کیلئے نابود ہو جائیگا۔‏—‏مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۱۰‏۔‏