مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

محبت کو زوال نہیں

محبت کو زوال نہیں

محبت کو زوال نہیں

تمام انسان عمر،‏ ثقافت،‏ زبان یا نسل سے قطعِ‌نظر محبت کے بھوکے ہیں۔‏ اگر ایسے بھوکوں کو سیر نہیں کِیا جاتا تو وہ خوش نہیں رہتے۔‏ ایک طبّی محقق نے لکھا:‏ ”‏محبت اور اُنس مرض اور علاج،‏ غم اور خوشی،‏ تکلیف اور آرام کا تعیّن کرنے میں بنیادی عناصر ثابت ہوتے ہیں۔‏ اگر کسی نئی دوا کا اثر ایسا ہو تو ہر ڈاکٹر اپنے مریضوں کیلئے اِسے ہی تجویز کریگا۔‏ اسے تجویز نہ کرنا غلط ہوگا۔‏“‏

تاہم،‏ جدید معاشرے میں خاص طور پر ذرائع‌ابلاغ اور مقبول تقلیدی کردار پُرتپاک،‏ مشفقانہ رشتوں کیلئے انسان کی ضرورت کی بجائے اکثر دولت،‏ اختیار،‏ شہرت اور جنس پر زور دیتے ہیں۔‏ بہتیرے اساتذہ دُنیاوی نصب‌العین اور پیشوں پر زور دیتے ہیں کیونکہ اُنکی نظر میں ترقی کا دارومدار انہی پر ہے۔‏ واقعی،‏ تعلیم اور اپنی مہارتوں کو بڑھانا ضروری ہے لیکن کیا ان میں اس حد تک مگن ہو جانا چاہئے کہ خاندان اور دوستوں کیلئے وقت ہی نہ بچے؟‏ زمانۂ‌قدیم کے ایک تعلیم‌یافتہ مصنف اور انسانی فطرت کے باریک‌بین مشاہد نے ایک نہایت لائق مگر محبت سے خالی شخص کو ”‏ٹھنٹھناتا پیتل اور جھنجھناتی جھانجھ“‏ کہا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱‏)‏ ایسے لوگ دولت اور شہرت حاصل کر لینے کے باوجود حقیقی خوشی سے محروم رہتے ہیں۔‏

یسوع مسیح انسانوں کو اچھی طرح سمجھتا اور اُن سے بہت محبت کرتا تھا اسی لئے اُس نے خدا اور پڑوسی کی محبت کو اپنی تعلیم کا محور بنایا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت  رکھ۔‏  .‏ .‏ .‏ اور .‏ .‏ .‏ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷-‏۳۹‏)‏ دراصل ان حکموں پر عمل کرنے والے ہی یسوع کے پیروکار ہونگے۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۵‏۔‏

پس،‏ آجکل کی اس دُنیا میں کوئی شخص کیسے محبت پیدا  کر سکتا ہے؟‏ نیز والدین اپنے بچوں کو محبت کرنا کیسے سکھا سکتے ہیں؟‏ اگلے مضمون میں ان سوالوں کو زیرِبحث لایا جائیگا۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویریں]‏

حریص دُنیا میں محبت پیدا کرنا بہت مشکل ہے