اوگاریت—بعل کی پرستش کا قدیم مرکز
اوگاریت—بعل کی پرستش کا قدیم مرکز
یہ سن ۱۹۲۸ کی بات ہے کہ شام کے مُلک میں ایک کسان کا ہل ایک پتھر سے ٹکرا گیا جسکے نیچے ایک مقبرہ تھا جس میں مٹی کے ظروف تھے۔ وہ اپنی دریافت کی اہمیت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس غیرمتوقع دریافت کی خبر ملتے ہی اگلے سال کلوڈ شیفر کے تحت فرانسیسی ماہرینِاثریات کی ایک ٹیم اُس جگہ پہنچی۔
کچھ ہی دیر بعد اپنے اوزاروں کی مدد سے کھدائی کرتے ہوئے اس ٹیم کو ایک عبارت ملی جسکی مدد سے وہ کھنڈرات کی شناخت کرنے کے قابل ہوئے۔ یہ ”مشرقِقریب کے اہمترین قدیم دی اٹلانٹک منتھلی۔
شہروں میں ایک“ اوگاریت تھا۔ مصنف بیری ہوبرمین نے یہ تک کہا: ”اس دریافت کی نسبت بحرِمُردار کے طوماروں سمیت کسی بھی اثریاتی دریافت نے بائبل کی ہماری سمجھ پر اسقدر گہرا اثر نہیں ڈالا۔“—تجارتی راستوں کا سنگم
بحیرۂروم کے ساحل پر جو اب شمالی شام کا علاقہ ہے راس شمرہ کہلانے والے ایک ٹیلے پر واقع اوگاریت دوسری ہزاری ق.س.ع. میں ایک امیر، وسیعالمشرب شہر تھا۔ یہ کوہِکاسیس کے شمال میں کوئی ۳۵ میل سے لیکر جنوب میں ٹیل سوکاس تک اور مغرب میں بحیرۂروم سے ۲۰ تا ۳۰ میل سے لیکر مشرق میں اورنٹے کی وادی تک کا احاطہ کرتا تھا۔
اوگاریت کا معتدل موسم مویشی پالنے کیلئے موزوں تھا۔ یہ علاقہ دالدلیے، روعنِزیتون، مے اور لکڑی کی پیداوار کیلئے مشہور تھا ان اشیا کی مسوپتامیہ اور مصر میں بڑی کمی پائی جاتی تھی۔ علاوہازیں، اہم تجارتی راستوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے یہ شہر سب سے پہلی بڑی بینالاقوامی بندرگاہ بن گیا۔ اوگاریت میں ایجین، اناطولیا، بابل، مصر اور مشرقِوسطیٰ کے دیگر علاقوں کے تاجر دھات، زرعی پیداوار اور مقامی طور پر بنائی جانے والی بیشمار چیزوں کی تجارت کرتے تھے۔
مادی خوشحالی کے باوجود اوگاریت ہمیشہ باجگذار سلطنت رہی۔ یہ شہر مصری سلطنت کی انتہائی شمالی فوجی چوکی کا حصہ تھا لیکن بعدازاں ۱۴ویں صدی ق.س.ع. میں یہ حتی سلطنت میں ضم کِیا گیا۔ اوگاریت اسکے حکمرانوں کی تعظیم کرنے اور انہیں فوجی فراہم کرنے کے دباؤ میں آ گیا تھا۔ حملہآور ”ساحلی لوگوں“ * کے ہاتھوں اناطولیا (وسطی ترکی) اور شمالی شام کی تباہی کے دوران حتیوں نے اوگاریتی فوجوں اور بیڑے کا مطالبہ کِیا۔ نتیجتاً اوگاریت اپنا دفاع نہ کر سکا اور تقریباً ۱۲۰۰ ق.س.ع. میں مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔
ماضی کو بحال کرنا
اوگاریت کی تباہی کے بعد تقریباً ۶۰ فٹ اُونچا اور ۶۰ ایکڑ سے زیادہ وسیع ٹیلا رہ گیا۔ اس علاقے کے صرف چھٹے حصے کی کھدائی ہوئی ہے۔ کھنڈرات میں ماہرینِاثریات کو کئی صحنوں اور تقریباً ایک سو کمروں والے تقریباً ۰۰۰،۰۰،۱ مربع فٹ کے ایک بڑے محل کے آثار بھی ملے ہیں۔ اس محل میں پانی کا انتظام، غسلخانے اور نکاسی کا نظام موجود تھا۔ فرنیچر سونے، سنگِلاجورد اور ہاتھی دانت سے جڑا ہوا تھا۔ عمدگی سے تراشے ہوئے ہاتھی دانت کے بنے تختے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ فصیلدار باغیچہ اور اس میں مصنوعی پانی کا تالاب محل کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا تھا۔
شہر اور اسکے اردگرد کی ہموار زمین کی نمایاں عمارتیں بعل اور دجون کے مندر تھے۔ * ان مندروں کے مینار تقریباً ۶۰ فٹ اُونچے تھے اور ان میں ایک چھوٹا سا برآمدہ اندرونی کمرے تک جاتا تھا جہاں مندر کے دیوتا کا بُت رکھا ہوا تھا۔ ایک زینہ چھت کو جاتا تھا جہاں پر بنے چبوترے پر بیٹھ کر بادشاہ مختلف تقریبات کی صدارت کِیا کرتا تھا۔ رات کے وقت یا طوفان کے دوران ساحل پر بحفاظت پہنچنے کیلئے کشتیوں کی راہنمائی کیلئے مندروں کی چوٹیوں پر غالباً چراغ جلائے جاتے تھے۔ طوفان دیوتا بعل ہدد کے مندر میں پتھر کے بنے ہوئے ۱۷ لنگر ملے جو دراصل طوفان سے بچ کر آنے والے ملاحوں نے بطور نذرانہ پیش کئے تھے۔
تختیوں کی بیشقیمت دریافت
اوگاریت کے کھنڈرات سے مٹی کی ہزاروں تختیاں ملی ہیں۔ پانچ رسمالخط میں لکھی آٹھ زبانوں میں معاشی، قانونی، سفارتی اور انتظامی متن دریافت ہوا ہے۔ شیفر کی ٹیم کو اب تک نامعلوم زبان—اب اوگاریتی زبان کہلاتی ہے—میں دریافتشُدہ قدیمترین حروفِابجد کے ۳۰ میخی نشانوں میں لکھی عبارتیں ملیں ہیں۔
روزمرّہ کے معاملات کا احاطہ کرنے کے علاوہ اوگاریتی دستاویز میں موجود ادبی متن قدیم مذہبی عقائد اور رسومات پر نئی بصیرت عطا کرتا ہے۔ بظاہر اوگاریتی مذہب پڑوسی مُلک کنعان کے لوگوں کے مذہب سے بڑی مماثلت رکھتا تھا۔ رولینڈ ڈیوہ کے مطابق، یہ متن ”اسرائیلی قبضے سے پہلے کنعانی ثقافت کی درست عکاسی کرتا ہے۔“
بعل کے شہر کا مذہب
راس شمرہ متن میں ۲۰۰ سے زائد دیویدیوتاؤں کا ذکر آیا ہے۔ سب سے بڑا دیوتا ایل تھا جسے دیوتاؤں اور انسانوں کا باپ کہا جاتا تھا۔ نیز طوفان دیوتا بعلہدد ”بادلوں کا سوار“ اور ”زمین کا سردار“ تھا۔ ایل کی تصویرکشی انسانوں سے الگ رہنے والے ایک دانشمند، سفید داڑھی والے بزرگ کے طور پر کی گئی ہے۔ اسکے برعکس، بعل ایک طاقتور اور متکبر دیوتا ہے جو دوسرے دیوتاؤں اور انسانوں پر حکمرانی کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
دریافتشُدہ متن غالباً نئے سال یا فصل کی کٹائی جیسے مذہبی تہواروں پر پڑھے جاتے تھے۔ تاہم، اسکے درست معنی واضح نہیں ہیں۔ حکمرانی کی بابت بحثوتکرار پر مبنی ایک نظم میں بعل ایل کے سب سے پیارے بیٹے سمندر دیوتا یام کو شکست دیتا ہے۔ اس جیت نے غالباً اوگاریتی ملاحوں کو یہ اعتماد بخشا کہ بعل سمندر کے سفر میں انکی حفاظت کر سکتا ہے۔ موٹ کے سا تھ ایک لڑائی میں بعل شکست کھا کر عالمِارواح میں چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً خشکسالی چھا جاتی ہے اور تمام انسانی کارگزاریاں رُک جاتی ہیں۔ بعل کی بیوی اور بہن عنات—محبت اور جنگ کی دیوی—موٹ کو قتل کرکے بعل کی زندگی کو بحال کرتی ہے۔ بعل ایل کی بیوی یسیرت (اشیرہ) کے بیٹوں کا خون کرکے دوبارہ تختافروز ہوتا ہے۔ تاہم، موٹ سات سال بعد لوٹ آتا ہے۔
بعض لوگ اس نظم کے معنی کو موسموں کے سالانہ چکر کی علامت سے منسوب کرتے ہیں جس میں زندگیبخش بارشوں کا اختتام موسمِگرما کی تپش سے ہوتا ہے اور یہ موسمِخزاں میں دوبارہ شروع ہوتی ہیں۔ دیگر سمجھتے ہیں
کہ یہ ساتسالہ چکر قحط اور خشکسالی سے تعلق رکھتا ہے۔ بہرصورت، بعل کی بالادستی انسانی کاوشوں کیلئے اہم خیال کی جاتی تھی۔ سکالر پیٹر کریجی بیان کرتا ہے: ”بعل کے مذہب کا مقصد اُسکی بالادستی کو برقرار رکھنا تھا کیونکہ اُسکے پرستاروں کا یقین تھا کہ صرف اُسکی بالادستی انسانی زندگی کیلئے ضروری فصلوں اور مویشیوں کو محفوظ رکھ سکتی تھی۔“بُتپرستی سے تحفظ
دریافتشُدہ متن میں اوگاریتی مذہب کی بداخلاقی صاف واضح ہے۔ دی السٹریٹد بائبل ڈکشنری بیان کرتی ہے: ”متن ان دیوتاؤں کی پرستش کے گھٹیا نتائج یعنی جنگ، زناکاری، مُقدس فاحشہگری، شہوتپرستی اور اسکے نتیجے میں واقع ہونے والی سماجی تنزلی کو ظاہر کرتا ہے۔“ ڈیوہ بیان کرتا ہے: ”ان نظموں کو پڑھنے سے ایک شخص اس قِسم کی پرستش کیلئے یاوے کے سچے پرستاروں اور نبیوں کی نفرت کو سمجھ سکتا ہے۔“ قدیم اسرائیلی قوم کو دی جانے والی خدا کی شریعت ایسے جھوٹے مذہب کے خلاف ایک تحفظ تھا۔
اوگاریت میں غیبدانی، علمِنجوم اور جادوگری بہت عام تھی۔ اجرامِفلکی کے علاوہ ناقص جنین اور ذبح کئے گئے جانوروں کی انتڑیوں کی مدد سے شگون اور نشان نکالے جاتے تھے۔ مؤرخ جاکلین گاشے بیان کرتی ہے، ”یہ مانا جاتا تھا کہ رسمی طور پر جس جانور کو دیوتا کیلئے قربان کِیا جاتا تھا اُسکی شناخت اُس دیوتا کیساتھ ہوتی تھی اور اُسکی روح دیوتا کی روح کیساتھ مِل جاتی تھی۔ نتیجتاً، ان اعضا پر نمایاں نشان کو پڑھنے سے دیوتاؤں کی مرضی کو جاننا ممکن تھا جو آئندہ کے واقعات کی یا کسی خاص صورتحال کے لئے موزوں ردِعمل کی بابت مثبت یا منفی جواب دینے کے قابل تھے۔“ (لاپیز ڈیاوگاریٹ اوٹور ڈے ۱۲۰۰ اےوی.جے.سی) اس کے برعکس، اسرائیلیوں کو ایسی رسومات کو رد کرنا تھا۔—استثنا ۱۸:۹-۱۴۔
موسوی شریعت میں جانوروں سے بدفعلی پر سخت ممانعت تھی۔ (احبار ۱۸:۲۳) تاہم، اوگاریت میں اس رسم کو کیسا خیال کِیا جاتا تھا؟ دریافتشُدہ متن کے مطابق، بعل ایک بچھیا کیساتھ مباشرت کرتا ہے۔ ماہرِاثریات سائرس گورڈن نے بیان کِیا، ”اگر یہ استدلال کِیا جاتا ہے کہ بعل نے اس کام کیلئے ایک بیل کا روپ اختیار کِیا تھا تو یہ بات بعل کے پجاریوں کے سلسلے میں سچ نہیں ہو سکتی جو بالکل بعل جیسے کام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔“
اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا تھا: ”تم مُردوں کے سبب سے اپنے جسم کو زخمی نہ کرنا۔“ (احبار ۱۹:۲۸) تاہم، بعل کی موت پر ایل نے ”چاقو سے اپنے جسم کو چیرا، اُسترے سے کاٹا اور اپنے گال اور ٹھوڑی کو زخمی کِیا۔“ بدیہی طور پر، بعل کے پجاریوں میں جسم کو گھایل کرنے کی رسم عام تھی۔—۱-سلاطین ۱۸:۲۸۔
ایک اوگاریتی نظم ظاہر کرتی ہے کہ بکری کے بچے کو دودھ میں پکانا کنعانی مذہب میں زرخیزی خروج ۲۳:۱۹۔
کی عام رسم کا حصہ تھا۔ تاہم، موسوی شریعت میں اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا تھا: ”تُو حلوان کو اُسکی ماں کے دُودھ میں نہ پکانا۔“—بائبل اقتباسات کیساتھ موازنہ
اوگاریتی متن کا ابتدائی ترجمہ بنیادی طور پر بائبل کی عبرانی زبان کی مدد سے کِیا گیا تھا۔ تاہم، پیٹر کریجی بیان کرتا ہے: ”عبرانی متن میں بہتیرے مستعمل الفاظ کے معنی غیرواضح اور بعضاوقات نامعلوم ہیں؛ ۲۰ویں صدی سے پہلے کے مترجمین نے مختلف طریقوں سے انکے ممکنہ معنوں کا اندازہ لگایا تھا۔ تاہم جب یہی الفاظ اوگاریتی متن میں آتے ہیں تو انکے معنی کو سمجھنا ممکن ہے۔“
مثال کے طور پر، یسعیاہ ۳:۱۸ میں ایک مستعمل عبرانی لفظ کا عام ترجمہ ”جالیاں“ کِیا گیا ہے۔ اس لفظ کا اوگاریتی لفظ سورج اور سورج دیوی دونوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ لہٰذا، یسعیاہ کی پیشینگوئی میں متذکرہ یروشلیم کی عورتیں غالباً کنعانی دیوتاؤں کی تعظیم میں سورج اور ”چاند“ کی شکل کے زیور پہنا کرتی تھیں۔
مسوراتی متن میں امثال ۲۶:۲۳ کے ”اُلفتی لب بدخواہ دل“ کا موازنہ ایک مٹی کے برتن سے کِیا گیا ہے جس پر ”چاندی کی باریک تہہ“ چڑھائی گئی ہے۔ اس لفظ کا اوگاریتی اصل اس موازنے کا ترجمہ ”چمکدار سطح والے مٹی کے برتن کی طرح“ کرتا ہے۔ ریوائزڈ اُردو ورشن میں موزوں طور پر اس مثل کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے: ”اُلفتی لب بدخواہ دل کے ساتھ اُس ٹھیکرے کی مانند ہیں جس پر کھوٹی چاندی منڈھی ہو۔“—امثال ۲۶:۲۳۔
کیا یہ بائبل کی بنیاد ہے؟
راس شمرہ کے متن کے جائزے نے بعض علماء کو یہ دعویٰ کرنے کی تحریک دی ہے کہ بائبل کے بعض اقتباسات اوگاریتی شاعرانہ ادب سے ماخوذ ہیں۔ فرینج انسٹیٹیوٹ کا رُکن اینڈرے کاکو ”کنعانی ثقافت کے اسرائیلی مذہب کی بنیاد ہونے“ کا ذکر کرتا ہے۔
زبور ۲۹ کی بابت روم کے پونٹیفیکل ببلیکل انسٹیٹیوٹ کے مچل ڈاہوڈ نے بیان کِیا: ”یہ زبور یاوے کے پرستاروں نے طوفان دیوتا بعل کیلئے ایک قدیم کنعانی گیت سے لیا ہے۔ . . . اس زبور کے تقریباً ہر لفظ کی نقل اب قدیم کنعانی متن میں پائی جاتی ہے۔“ کیا یہ نتیجہ اخذ کرنا معقول ہے؟ ہرگز نہیں!
اعتدالپسند علماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مماثلتیں بڑھاچڑھا کر پیش کی گئی ہیں۔ دیگر اس نظریے پر تنقید کرتے ہیں کہ ہر متن کی بنیاد اوگاریتی ہے۔ مذہبی علماء گیری برینٹلی بیان کرتا ہے کہ ”کوئی بھی واحد اوگاریتی متن زبور ۲۹ کے مماثل نہیں۔ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ زبور ۲۹ (یا کوئی بھی دوسرا بائبل اقتباس) کسی بُتپرستانہ افسانے کی نقل ہے۔“
کیا اندازِبیان، شاعرانہ مماثلتوں اور اسلوبِتحریر کی خصوصیات مطابقتپذیری کا ثبوت ہے؟ اسکے برعکس، ایسی مماثلتیں متوقع ہیں۔ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن بیان کرتا ہے: ”طرزِبیان اور مواد میں مماثلت کی وجہ ثقافتی ہے: اوگاریت اور اسرائیل کے درمیان جغرافیائی اور معاشرتی اختلافات کے باوجود ان دونوں قوموں کی ملتیجلتی ثقافت کا شاعرانہ اور مذہبی ذخیرۂالفاظ ایک جیسا تھا۔“ لہٰذا گیری برینٹلی بیان کرتا ہے: ”لسانی مماثلتوں کی وجہ سے بُتپرستانہ عقائد کو بائبل متن کی بنیاد ٹھہرانا نامناسب ہے۔“
آخر میں اس بات پر غور کِیا جانا چاہئے کہ راس شمرہ کے متن اور بائبل متن میں اگر کوئی مماثلتیں موجود بھی ہیں تو یہ روحانی نہیں بلکہ مکمل طور پر ادبی ہیں۔ ماہرِاثریات سائرس گورڈن نے بیان کِیا کہ ”بائبل کے بلند اخلاقی معیار اوگاریت میں نہیں پائے جاتے۔“ بلکہ انکے درمیان اختلافات کسی بھی مماثلت سے کہیں زیادہ ہیں۔
ممکنہ طور پر اوگاریتی تحقیقات بائبل طالبعلموں کو بائبلنویسوں اور بالعموم عبرانی قوم کے ثقافتی، تاریخی اور مذہبی ماحول کو سمجھنے میں مدد دیتی رہینگی۔ علاوہازیں، راس شمرہ کے اقتباسات کا مزید جائزہ قدیم عبرانی زبان کی سمجھ پر نئی روشنی ڈال سکتا ہے۔ تاہم، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اوگاریت کی اَثریاتی دریافتیں واضح طور پر بعل کی گھٹیا پرستش اور یہوواہ کی پاک پرستش کے درمیان فرق کو نمایاں کرتی ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 7 عام طور پر، ”ساحلی لوگوں“ کی شناخت بحیرۂروم کے جزائر اور ساحلی علاقوں کے ملاحوں کے طور پر ہوتی ہے۔ ان میں فلستی بھی شامل ہو سکتے تھے۔—عاموس ۹:۷۔
^ پیراگراف 10 اس سلسلے میں لوگ مختلف آراء رکھتے ہیں توبھی بعض ماہرین دجون کے مندر کی شناخت ایل کے مندر کے طور پر کرتے ہیں۔ جیروسلم سکول آف بائبل سٹیڈیز کے فرینچ سکالر اور پروفیسر رولینڈ ڈیوہ کے مطابق دجون—قضاۃ ۱۶:۲۳ اور ۱-سموئیل ۵:۱-۵ میں متذکرہ دجون—ایل ہی کا ذاتی نام ہے۔ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن بیان کرتا ہے کہ ممکنہ طور پر ”دجون کسی طرح سے ایل کیساتھ منسوب یا اُس میں شامل تھا۔“ راس شمرہ متن میں بعل کو دجون کا بیٹا بھی کہا گیا ہے لیکن یہاں پر ”بیٹے“ کا مطلب غیرواضح ہے۔
[صفحہ ۲۵ پر عبارت]
اوگاریت کی اثریاتی دریافتوں نے ہماری صحیفائی سمجھ کو بڑھایا ہے
[صفحہ ۲۵، ۲۴ پر نقشہ/تصویر]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
۱۴ویں صدی ق۔س۔ع میں حتی سلطنت
بحیرۂروم
فرات
کوہِکاسیس (جبل الاگرہ)
اوگاریت (راس شمر ہ)
ٹیل سوکاس
اورنٹے
شام
مصر
[تصویر کا حوالہث]
Statuette of Baal and rhyton
:in the shape of an animal’s head
;Musée du Louvre, Paris
:painting of the royal palace
D. Héron-Hugé pour ©
”Le Monde de la Bible“
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
محل کے مدخل کے آثار
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
ایک اوگاریتی نظم خروج ۲۳:۱۹ کے پسمنظر پر روشنی ڈال سکتی ہے
[تصویر کا حوالہث]
Musée du Louvre, Paris
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
بعل کی یادگار
شکار کا منظر پیش کرنے والی سونے کی تھالی
ہاتھی دانت کے کاسمیٹک بکس کے ڈھکن پر باروری کی دیوی کی تصویر
[تصویر کا حوالہث]
All pictures: Musée du Louvre, Paris