یہوواہ کے دن کی نزدیکی کے پیشِنظر ہمیں لوگوں کو کس نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟
یہوواہ کے دن کی نزدیکی کے پیشِنظر ہمیں لوگوں کو کس نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟
”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اسلئےکہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“—۲-پطرس ۳:۹۔
۱، ۲. (ا) یہوواہ آجکل لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟ (ب) ہم خود سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟
یہوواہ کے خادموں کو ”سب قوموں کو شاگرد“ بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ (متی ۲۸:۱۹) جب ہم اس تفویض کو پورا کرتے اور ’یہوواہ کے روزِعظیم‘ کا انتظار کرتے ہیں تو ہمیں لوگوں کو اُسی کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ (صفنیاہ ۱:۱۴) یہوواہ لوگوں کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟ پطرس رسول بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اسلئےکہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) خدا انسانوں کی بابت جانتا ہے کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ وہ ”چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۴) یہوواہ کی خوشنودی اس بات میں ہے کہ ”شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے“!—حزقیایل ۳۳:۱۱۔
۲ انفرادی طور پر کیا ہم بھی لوگوں کی بابت یہوواہ جیسا نظریہ رکھتے ہیں؟ اُس کی مانند، کیا ہم بھی ہر ایک قوم اور قبیلہ کے لوگوں کو ”اُس کی چراگاہ کی بھیڑیں“ خیال کرتے ہیں؟ (زبور ۱۰۰:۳؛ اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) آئیے خدا جیسا نظریہ رکھنے کی اہمیت کو اُجاگر کرنے والی دو مثالوں پر غور کریں۔ دونوں صورتوں میں ہلاکت یقینی تھی اور یہوواہ کے خادموں کو پہلے سے اس کی بابت بتا دیا گیا تھا۔ یہوواہ کے دن کے انتظار میں یہ مثالیں بالخصوص اہمیت کی حامل ہیں۔
ابرہام یہوواہ جیسا نظریہ رکھتا تھا
۳. سدوم اور عمورہ کے باشندوں کی بابت یہوواہ کا نظریہ کیا تھا؟
۳ پہلی مثال وفادار ابرہام اور سدوم اور عمورہ کے بدکار شہروں کی ہے۔ جب یہوواہ نے سنا کہ ”سدؔوم اور عموؔرہ کا شور بڑھ گیا“ تو اُس نے فوری طور پر اُن شہروں اور اُن کے باشندوں کو تباہ نہیں کر دیا تھا۔ اُس نے پہلے تفتیش کی۔ (پیدایش ۱۸:۲۰، ۲۱) دو فرشتوں کو سدوم بھیجا گیا جنہوں نے راستباز شخص لوط کے گھر قیام کِیا۔ جس رات فرشتے وہاں پہنچے، ”شہر کے مردوں نے جوان سے لیکر بڈھے تک سب لوگوں نے ہر طرف سے اُس گھر کو گھیر لیا“ اور وہ فرشتوں کے ساتھ صحبت کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ واضح طور پر شہر کے باشندوں کی شرمناک حالت نے ثابت کر دیا کہ وہ تباہی کے لائق ہیں۔ اس کے باوجود، فرشتوں نے لوط سے کہا: ”کیا یہاں تیرا اَور کوئی ہے؟ داماد اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں اور جو کوئی تیرا اِس شہر میں ہو سب کو اِس مقام سے باہر نکال لے جا۔“ یہوواہ نے اُس شہر کے بعض لوگوں کو بچانے کی راہ کھول دی مگر آخر میں صرف لوط اور اُس کی دو بیٹیاں ہی تباہی سے بچ سکیں۔—پیدایش ۱۹:۴، ۵، ۱۲، ۱۶، ۲۳-۲۶۔
۴، ۵. ابرہام نے سدوم کے باشندوں کے لئے کیوں التجا کی تھی نیز کیا لوگوں کی بابت اُس کا نظریہ یہوواہ کے نظریے جیسا تھا؟
۴ آئیے اب ہم اُس وقت کی طرف چلتے ہیں جب یہوواہ نے سدوم اور عمورہ کے شہروں کا جائزہ لینے کے ارادے کا اظہار کِیا تھا۔ اُس وقت ابرہام نے یہ درخواست کی تھی: ”شاید اُس شہر میں پچاس راستباز ہوں۔ کیا تُو اُسے ہلاک کریگا اور اُن پچاس راستبازوں کی خاطر جو اُس میں ہوں اُس مقام کو نہ چھوڑیگا؟ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے پیدایش ۱۸:۲۲-۳۳۔
ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کریگا؟“ ابرہام نے دو مرتبہ اظہار ”تجھ سے بعید ہے“ استعمال کِیا۔ ابرہام اپنے تجربے سے جانتا تھا کہ یہوواہ بدکاروں کے ساتھ راستبازوں کو ہرگز تباہ نہیں کریگا۔ جب یہوواہ نے یہ کہا کہ اگر سدوم کے ”شہر کے اندر پچاس راستباز ملیں“ تو مَیں اسے تباہ نہیں کرونگا تو ابرہام بتدریج اس تعداد کو کم کرتے ہوئے دس پر پہنچ گیا۔—۵ اگر ابرہام کی درخواست یہوواہ کے نظریات سے مطابقت نہ رکھتی تو کیا یہوواہ اُس کی درخواست پر دھیان دیتا؟ یقیناً نہیں۔ ’یہوواہ کے دوست‘ کے طور پر ابرہام نہ صرف یہوواہ کے نظریات سے واقف تھا بلکہ خود بھی ایسے ہی نظریات رکھتا تھا۔ (یعقوب ۲:۲۳) جب یہوواہ نے سدوم اور عمورہ پر غور کِیا تو وہ ابرہام کی درخواست سننے کے لئے تیار تھا۔ کیوں؟ اسلئےکہ ہمارا آسمانی باپ ”کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“
لوگوں کی بابت یوناہ کا بالکل فرق نظریہ
۶. نینوہ کے لوگوں نے یوناہ کے پیغام کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۶ اب دوسری مثال پر غور کریں جو یوناہ کی ہے۔ اس مرتبہ تباہی کا منتظر شہر نینوہ تھا۔ یوناہ نبی کو یہ اعلان کرنا تھا کہ اس شہر کی شرارت ’یہوواہ کے حضور پہنچ‘ گئی ہے۔ (یوناہ ۱:۲) نواحی علاقوں سمیت نینوہ ایک بڑا شہر تھا جس کی ”مسافت تین دن کی راہ تھی۔“ جب حکم کی تعمیل میں یوناہ نینوہ میں داخل ہوا تو ”منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوؔہ برباد کِیا جائیگا۔“ یہ سن کر ”نینوؔہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰواعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا۔“ حتیٰکہ نینوہ کے بادشاہ نے بھی توبہ کی۔—یوناہ ۳:۱-۶۔
۷. یہوواہ نے نینوہ کے لوگوں کی توبہ کو کیسا خیال کِیا تھا؟
۷ یہ سدوم کے ردِعمل سے بالکل مختلف تھا! یہوواہ نے نینوہ کے تائب لوگوں کو کیسا خیال کِیا؟ یوناہ ۳:۱۰ بیان کرتی ہے: ”خدا . . . اُس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کِیا۔“ نینوہ کے لوگوں نے چونکہ اپنی روش بدل لی تھی اس لئے یہوواہ بھی عذاب نازل کرنے سے ”باز“ رہا۔ الہٰی معیار نہیں بدلے تھے بلکہ یہوواہ نے نینوہ کے لوگوں کی توبہ کو دیکھ کر اپنا فیصلہ بدل لیا تھا۔—ملاکی ۳:۶۔
۸. یوناہ ناراض کیوں ہو گیا تھا؟
۸ جب یوناہ کو احساس ہوا کہ نینوہ برباد نہیں ہوگا تو کیا اُس نے معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھا؟ جینہیں، اگلی آیات بیان کرتی ہیں: ”یوؔناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا۔“ یوناہ نے اَور کیا کِیا؟ سرگزشت بیان کرتی ہے: ”اُس نے [یہوواہ] سے یوں دُعا کی کہ اَے [یہوواہ] جب مَیں انپے وطن ہی میں تھا اور ترسیسؔ کو بھاگنے والا تھا تو کیا مَیں نے یہی نہ کہا تھا؟ مَیں جانتا تھا کہ تو رحیموکریم خدا ہے جو قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔“ (یوناہ ۴:۱، ۲) یوناہ یہوواہ کی صفات سے بخوبی واقف تھا۔ تاہم، اُس وقت نبی آزردہخاطر تھا لہٰذا اُس نے نینوہ کے تائب لوگوں کی بابت یہوواہ کے نظریے کی حمایت نہ کی۔
۹، ۱۰. (ا) یہوواہ نے یوناہ کو کونسا سبق سکھایا؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ آخرکار یوناہ نے نینوہ کے لوگوں کی بابت یہوواہ جیسا نظریہ اختیار کر لیا ہوگا؟
یوناہ ۴:۵-۱۱) یہ لوگوں کی بابت یہوواہ کے نظریے کے سلسلے میں یوناہ کے لئے کتنا بڑا سبق تھا!
۹ یوناہ نے نینوہ سے باہر نکلکر ایک چھپر بنایا اور اُس کے سایہ میں بیٹھ گیا کہ یہ ”دیکھے شہر کا کیا حال ہوتا ہے۔“ یہوواہ نے کدو کی بیل اُگائی تاکہ یہ یوناہ کے لئے سایہ فراہم کرے۔ تاہم، اگلے دن بیل سوکھ گئی۔ جب یوناہ اس کی بابت ناراض ہوا تو یہوواہ نے کہا: ”کیا تُو اس بیل کے سبب سے ایسا ناراض ہے؟ . . .کیا مجھے لازم نہ تھا کہ مَیں اتنے بڑے شہر نینوؔہ کا خیال کروں جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے اور بےشمار مویشی ہیں؟“ (۱۰ اس بات کا بائبل میں کوئی ریکارڈ نہیں ملتا کہ نینوہ کے لوگوں پر ترس کھانے کی بابت خدا کے بیان کے لئے یوناہ نے کیسا ردِعمل دکھایا تھا۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ نبی نے نینوہ کے تائب لوگوں کے لئے اپنا نظریہ تبدیل کر لیا تھا۔ ہم اس لئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہوواہ نے اُسے یہ الہامی سرگزشت تحریر کرنے کے لئے استعمال کِیا تھا۔
آپ کیسا میلان رکھتے ہیں؟
۱۱. ابرہام نے آجکل کے لوگوں کی بابت کیسا محسوس کِیا ہوتا؟
۱۱ اب ہمیں یہوواہ کے روزِعظیم کے دوران موجودہ نظامالعمل کی تباہی کا سامنا ہے۔ (لوقا ۱۷:۲۶-۳۰؛ گلتیوں ۱:۴؛ ۲-پطرس ۳:۱۰) اگر آج ابرہام زندہ ہوتا تو وہ بہت جلد تباہ ہونے والی اس دُنیا کے لوگوں کی بابت کیسا محسوس کرتا؟ وہ اُن لوگوں کے لئے ضرور پریشان ہوتا جنہیں ابھی تک ”بادشاہی کی . . . خوشخبری“ سننے کا موقع نہیں ملا۔ (متی ۲۴:۱۴) ابرہام نے باربار سددم میں موجود راستباز لوگوں کے لئے درخواست کی تھی۔ کیا ہم اُن لوگوں کے لئے ذاتی فکر دکھاتے ہیں جنہیں اگر توبہ کرکے خدا کی خدمت کرنے کا موقع ملے تو وہ شیطان کے قبضہ میں پڑی ہوئی دُنیا کی راہوں کو رد کر دینگے؟—۱-یوحنا ۵:۱۹؛ مکاشفہ ۱۸:۲-۴۔
۱۲. خدمتگزاری میں ملنے والے لوگوں کی بابت یوناہ جیسا رُجحان اختیار کرنا کیوں آسان ہے اور ہم اس کی بابت کیا کر سکتے ہیں؟
۱۲ بدکاری کے خاتمے کا انتظار کرنا معقول بات ہے۔ (حبقوق ۱:۲، ۳) تاہم، جو لوگ توبہ کر سکتے ہیں اُن کی فلاح کے لئے فکرمند نہ ہوتے ہوئے یوناہ جیسا میلان پیدا کرنا بہت آسان ہے۔ ایسا اُس صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم بادشاہتی پیغام کے ساتھ لوگوں کے گھروں پر جاتے ہیں اور وہ بےحسی، مخالفت یا پھر لڑنے کا رُجحان دکھاتے ہیں۔ ہم شاید اُن لوگوں کو نظرانداز کر دیں جنہیں یہوواہ اس شریر نظاماُلعمل سے بچا لے گا۔ (رومیوں ۲:۴) اگر سنجیدہ غوروخوض کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم میں یوناہ جیسا ذرا سا بھی رُجحان ہے جو وہ نینوہ کے لوگوں کے لئے رکھتا تھا تو ہم اپنے نظریے کو یہوواہ کے نظریے کے مطابق ڈھالنے میں مدد کی خاطر دُعا کر سکتے ہیں۔
۱۳. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی یہوواہ لوگوں کی فکر رکھتا ہے؟
۱۳ یہوواہ ایسے لوگوں کی بھی فکر رکھتا ہے جو ابھی تک اُس کی خدمت نہیں کر رہے اور وہ اپنے مخصوصشُدہ لوگوں کی درخواستوں کو بھی سنتا ہے۔ (متی ۱۰:۱۱) مثلاً جو لوگ رات دن اس سے دُعا کرتے ہیں ”وہ جلد ان کا انصاف کریگا۔“ (لوقا ۱۸:۷، ۸) مزیدبرآں، یہوواہ وقت آنے پر اپنے تمام وعدے اور مقاصد ضرور پورے کریگا۔ (حبقوق ۲:۳) اس میں زمین سے تمام بُرائی کا خاتمہ شامل ہے بالکل اُسی طرح جیسے اُس نے نینوہ کے دوبارہ بدکاری میں پڑ جانے کی صورت میں اُسے تباہوبرباد کر دیا تھا۔—ناحوم ۳:۵-۷۔
۱۴. یہوواہ کے روزِعظیم کے انتظار میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۴ جب تک یہوواہ کے روزِعظیم کے دوران یہ شریر نظاماُلعمل اپنے خاتمے کو نہیں پہنچ جاتا، کیا ہم صبر کے ساتھ منتظر رہینگے اور یہوواہ کی مرضی بجا لانے میں مشغول رہینگے؟ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ یہوواہ کے دن کے آنے سے پہلے منادی کا کام کتنا اَور باقی ہے مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ خاتمے سے پہلے خدا کی مرضی کے مطابق پوری دُنیا میں بادشاہتی خوشخبری کی منادی کی جائیگی۔ نیز ہمیں ”مرغوب چیزوں“ کی بابت بھی فکرمند ہونا چاہئے جنہیں یہوواہ اپنے گھر کو جلال سے معمور کرنے کے لئے جمع کر رہا ہے۔—حجی ۲:۷۔
ہمارے کاموں سے ہمارا رُجحان ظاہر ہوتا ہے
۱۵. کیا چیز منادی کے کام کے لئے ہماری قدردانی کو بڑھا سکتی ہے؟
۱۵ شاید ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں منادی کے کام کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں نیز ہم ایسی حالت میں بھی نہیں کہ کسی ایسے علاقے میں منتقل ہو جائیں جہاں بادشاہتی مُنادوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ فرض کریں کہ خاتمہ آنے سے پہلے ہمارے علاقے میں صرف دس ہی لوگ ملتے ہیں۔ کیا ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ دس بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں؟ یسوع کو بِھیڑ کو دیکھ کر ”ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“ (متی ۹:۳۶) بائبل کا بغور مطالعہ کرنے اور توجہ کے ساتھ مینارِنگہبانی اور جاگو! کے مضامین پڑھنے سے ہم اس دُنیا کی خستہحالی کی بابت زیادہ بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے خوشخبری کی منادی کرنے کی ضرورت کے لئے ہماری قدردانی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بائبل پر مبنی مواد کا اچھا استعمال جسے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ فراہم کرتا ہے، یہ ہمیں اکثر کئے جانے والے علاقے میں بھی دوسروں کو قائل کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۴-۱۷۔
۱۶. ہم اپنی خدمتگزاری کی اثرآفرینی کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
۱۶ ابھی بھی بائبل کے زندگیبخش پیغام کے لئے جوابیعمل دکھانے والے لوگوں کے لئے ہماری فکرمندی ہمیں اپنی خدمتگزاری میں مختلف اوقات پر مختلف طریقوں سے لوگوں تک رسائی کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ کیا ہمارا یہ تجربہ نہیں کہ جب ہم ملاقات کے لئے جاتے ہیں تو بہتیرے لوگ گھر پر نہیں ملتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم گواہی دینے کے وقت اور مقامات کو تبدیل کرکے اپنی خدمتگزاری کو زیادہ مؤثر بنا سکتے ہیں۔ ماہیگیر اُس وقت مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں جب مچھلی مِل سکتی ہے۔ کیا ہم روحانی ماہیگیری کے کام میں بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں؟ (مرقس ۱:۱۶-۱۸) جہاں ممکن ہو کیوں نہ وہاں شام کی گواہی اور ٹیلیفون پر گواہی کو آزمایا جائے؟ بعض نے پارکنگ کی جگہوں، ٹرکوں کے اڈوں، پٹرول اسٹیشنوں اور بڑی بڑی دُکانوں کو ماہیگیری ’کے پھلدار علاقے‘ پایا ہے۔ غیررسمی گواہی دینے کے مواقع سے فائدہ اُٹھانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم لوگوں کی بابت ابرہام جیسا نظریہ رکھتے ہیں۔
۱۷. ہم مشنریوں اور غیرممالک میں خدمت کرنے والے دیگر اشخاص کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۷ لاکھوں ابھی تک بادشاہتی پیغام سننے سے محروم ہیں۔ منادی کے علاوہ کیا گھر میں ہوتے ہوئے بھی ہم ان لوگوں کے لئے فکرمندی ظاہر کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسے مشنریوں اور کُلوقتی خادموں سے واقف ہیں جو بیرونی ممالک میں خدمت انجام دے رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہم خطوط کے ذریعے اُن کے کام کے لئے اپنی قدردانی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس سے عام لوگوں کے لئے فکرمندی کیسے ظاہر ہو سکتی ہے؟ حوصلہافزائی اور تعریف سے بھرے ہمارے خطوط مشنریوں کو اپنی تفویضات میں کام کرتے رہنے کی ہمت دے سکتے ہیں اور اس طرح دیگر بہتیرے لوگوں کی سچائی کا علم حاصل کرنے میں مدد ہو سکتی ہے۔ (قضاۃ ۱۱:۴۰) ہم مشنریوں اور ایسے لوگوں کے لئے دُعا بھی کر سکتے ہیں جو دیگر ممالک میں سچائی کے متلاشی ہیں۔ (افسیوں ۶:۱۸-۲۰) فکرمندی ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ یہوواہ کے گواہوں کے عالمگیر کام کے لئے مالی عطیات دینا ہے۔—۲-کرنتھیوں ۸:۱۳، ۱۴؛ ۹:۶، ۷۔
کیا آپ دوسری جگہ جا سکیں گے؟
۱۸. بعض مسیحیوں نے اپنے مُلک میں بادشاہتی مفادات کو کیسے فروغ دیا ہے؟
۱۸ ایسے بادشاہتی مُناد جو زیادہ ضرورت والے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں اُنہیں ان کی خودایثارانہ کاوشوں کے لئے بڑی برکات حاصل ہوئی ہیں۔ تاہم، اپنے وطن میں رہ کر بھی بعض یہوواہ کے گواہوں نے دوسری زبان سیکھی تاکہ نقلمکانی کرکے آنے والوں کو روحانی مدد فراہم کر سکیں۔ ایسی کاوشیں بابرکت ثابت ہوئی ہیں۔ مثال کے طور، ٹیکساس یو.ایس.اے. میں چینی لوگوں کی مدد کرنے والے سات گواہوں نے ۲۰۰۱ میں خداوند کے عشایئے پر حاضر ہونے والے ۱۱۴ اشخاص کا خیرمقدم کِیا۔ ایسے گروہوں کی مدد کرنے والوں نے اپنے کھیتوں کو کٹائی کے لئے تیار پایا ہے۔—متی ۹:۳۷، ۳۸۔
۱۹. اگر آپ بادشاہتی منادی کے فروغ کے لئے کسی دوسرے مُلک جانے کی بابت سوچ رہے ہیں تو کیا کرنا اچھا ہوگا؟
۱۹ شاید آپ اور آپکا خاندان محسوس کرے کہ آپ بادشاہتی منادی کے زیادہ ضرورت والے علاقے میں منتقل ہونے کے قابل ہیں۔ بِلاشُبہ، سب سے پہلے ”بیٹھ کر لاگت کا حساب“ لگانا ضروری ہے۔ (لوقا ۱۴:۲۸) بالخصوص جب کوئی دوسرے مُلک منتقل ہونا چاہتا ہے تو سوچبچار بہت ضروری ہے۔ ایسا کرنے کی بابت سوچنے والا ایک شخص خود سے اس قِسم کے سوال پوچھ سکتا ہے: ’کیا مَیں اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے قابل ہونگا؟ کیا مجھے مناسب ویزا مِل سکتا ہے؟ کیا مَیں اُس مُلک کی زبان بول سکتا یا اسے سیکھنے کے لئے تیار ہوں؟ کیا مَیں نے وہاں کے موسم اور ثقافت کی بابت غور کر لیا ہے؟ کیا مَیں واقعی وہاں ساتھی ایمانداروں کے لئے بوجھ بننے کی بجائے ”تسلی کا باعث“ ہونگا؟‘ (کلسیوں ۴:۱۰، ۱۱) یہ معلوم کرنے کے لئے کہ جس مُلک میں منتقل ہونے کا آپ سوچ رہے ہیں وہاں کتنی ضرورت ہے، یہ ہمیشہ بہتر ہوتا ہے کہ اُس علاقے میں منادی کے کام کی نگرانی کرنے والے یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر کو لکھا جائے۔ *
۲۰. ایک نوجوان مسیحی نے غیرمُلک میں اپنے ہمایمانوں اور دیگر لوگوں کی خدمت کیسے کی؟
۲۰ جاپان میں کنگڈم ہالز تعمیر کرنے سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی کو پتا چلا کہ پیراگوئے میں پرستش کی جگہ تیار کرنے کے لئے ماہر کاریگروں کی ضرورت ہے۔ تنہا اور جوانی کے جوش سے معمور وہ اس مُلک میں منتقل ہو گیا اور تنہا کُلوقتی کارکُن کے طور پر آٹھ مہینوں کے لئے اُس پروجیکٹ پر کام کِیا۔ اپنے قیام کے دوران اُس نے سپینش زبان بھی سیکھ لی اور گھریلو بائبل مطالعے بھی کرائے۔ وہ مُلک میں بادشاہتی مُنادوں کی ضرورت کو دیکھ سکتا تھا۔ اگرچہ وہ جاپان واپس آ گیا مگر جلد ہی وہ پیراگوئے واپس لوٹ گیا اور کنگڈم ہال میں لوگوں کو جمع کرنے کے کام میں مدد کرنے لگا۔
۲۱. یہوواہ کے روزِعظیم کے انتظار میں ہماری بنیادی فکر اور نظریہ کیا ہونا چاہئے؟
۲۱ خدا اس بات کا خیال رکھیگا کہ منادی کا کام اُس کی مرضی کے مطابق پوری طرح انجام پائے۔ آجکل وہ روحانی کٹائی کے حتمی کام کو تیز کر رہا ہے۔ (یسعیاہ ۶۰:۲۲) یہوواہ کے دن کے انتظار میں آئیے گرمجوشی کے ساتھ کٹائی کے کام میں حصہ لیں اور لوگوں کو اُسی نظر سے دیکھیں جیسے ہمارا شفیق خدا دیکھتا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 19 کسی ایسے مُلک میں منتقل ہونا مفید نہیں ہوگا جہاں منادی کے کام پر پابندی ہے۔ ایسا کرنا دانشمندی کے ساتھ وہاں کے حالات کے مطابق کام کرنے والے بادشاہتی مُنادوں کے لئے بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• یہوواہ کے دن کے انتظار میں ہمیں لوگوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
• سدوم میں رہنے والے راستبازوں کی بابت ابرہام کا نظریہ کیا تھا؟
• یوناہ نے نینوہ کے تائب لوگوں کو کیسا خیال کِیا تھا؟
• ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ جن لوگوں تک ابھی خوشخبری نہیں پہنچی ہم اُنکی بابت یہوواہ جیسا نظریہ رکھتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
ابرہام لوگوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھتا تھا
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
یوناہ نے نینوہ کے تائب لوگوں کی بابت یہوواہ کا نظریہ اپنا لیا
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
لوگوں کیلئے فکرمندی ہمیں خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے مختلف اوقات اور طریقوں پر غور کرنے کی تحریک دیتی ہے