مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مبارک ہے وہ شخص جسکا خدا یہوواہ ہے

مبارک ہے وہ شخص جسکا خدا یہوواہ ہے

میری کہانی میری زبانی

مبارک ہے وہ شخص جسکا خدا یہوواہ ہے

از ٹام ڈیڈر

ہم اسمبلی کیلئے ہال کرائے پر لے چکے تھے۔‏ مگر بدھ کے روز برف پڑنے لگی اور جمعے کے دن تک برف‌باری اتنی شدید ہو گئی کہ باہر کچھ نظر نہیں آتا تھا۔‏ اِسکے ساتھ ساتھ سردی بھی بہت زیادہ ہو گئی۔‏ (‏منفی  ۴۰ سینٹی گریڈ تھا)‏ ہال تو ہم نے ۳۰۰ لوگوں کیلئے لیا تھا مگر برف‌باری کی وجہ سے صرف ۲۸ لوگ اسمبلی کیلئے حاضر ہوئے جن میں چند بچے بھی شامل تھے۔‏ اُس وقت میری عمر ۲۵ سال تھی اور مجھے ابھی ابھی سفری نگہبان بنایا گیا تھا۔‏ اِس حیثیت سے یہ میری پہلی اسمبلی تھی۔‏ ظاہر سی بات ہے کہ مَیں بہت پریشان تھا۔‏ آئیے مَیں آپکو بتاتا ہوں کہ مجھے خدا کی خدمت میں اتنا بڑا شرف کیسے حاصل ہوا۔‏

میرے والد کا نام مائیکل اور والدہ کا حنّہ ڈیڈر ہے۔‏ ہم آٹھ بھائی ہیں۔‏ بِل سب سے بڑا ہے۔‏ اُسکے بعد میٹرو،‏ جان،‏ فریڈ،‏ مائک اور ایلیکس،‏ پھر ۱۹۲۵ میں میری پیدائش ہوئی اور سب سے چھوٹے بھائی کا نام والی ہے۔‏ ہم کینیڈا کے ایک صوبے مانی‌ٹوبا میں ایک فارم پر رہتے تھے جہاں ہم کھیتی‌باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔‏میرا والد کم ہی گھر پر رہتا تھا۔‏ وہ ریلوے میں ملازم تھا۔‏ اُسکا کام ایک ویران علاقے میں پٹڑیوں کے ایک حصے کی دیکھ‌بھال اور مرمت کرنا تھا۔‏ وہ وہیں پر ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔‏ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں بچوں کیساتھ رہنا بہت مشکل تھا۔‏ اِسلئے میری ماں اکثر ایک دو ہفتوں کیلئے اُسکے پاس جا کر رہتی تھی۔‏ ماں نے ہمیں گھر کے تمام کام کرنے سکھا دئے جس میں کھانا پکانا بھی شامل تھا۔‏ ہم یونانی کیتھولک چرچ کے رُکن تھے۔‏ ماں نے ہمیں کئی دُعائیں زبانی یاد کرانے کے علاوہ چرچ کی مختلف رسومات کے بارے میں بھی سکھایا تھا۔‏

بائبل سچائی سے رابطہ

مَیں جوانی ہی سے بائبل میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔‏ ہمارا پڑوسی یہوواہ کا ایک گواہ تھا۔‏ وہ اکثر ہمارے گھر آ کر ہمیں بائبل پڑھ کر سناتا اور ہمیں خدا کی بادشاہت،‏ ہرمجدون اور نئی دُنیا کے بارے میں بتاتا تھا۔‏ مائک اور ایلیکس کو اُسکی باتیں بہت اچھی لگیں۔‏ بائبل میں سے اُنکو سمجھایا گیا کہ خدا یہ بالکل پسند نہیں کرتا کہ اُسکے لوگ جنگ میں حصہ لیں۔‏ اِسلئے اُنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔‏ نتیجتاً اُنکو کچھ عرصے کیلئے قید میں بھی رکھا گیا۔‏ فریڈ اور والی نے بھی بائبل کی سچائیوں کو اپنا لیا۔‏ لیکن میرے تین بڑے بھائیوں اور ماں نے اِن باتوں میں کوئی دلچسپی نہ لی۔‏ اِسکی بجائے ماں نے تو کئی سال تک ہماری مخالفت بھی کی۔‏ پھر ۸۳ سال کی عمر میں ہماری والدہ نے بپتسمہ لیکر ہم سب کو حیران کر دیا۔‏ اسکے بعد اُس نے ۱۳ سال تک یہوواہ خدا کی خدمت کی اور پھر ۹۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔‏ میرے والد بھی اپنی وفات سے پہلے بائبل کی سچائیوں میں دلچسپی لینے لگے تھے۔‏

جب مَیں ۱۷ سال کا ہوا تو مَیں نے شہر وینی‌پگ جانے کا ارادہ کر لیا۔‏ اِسکی دو وجوہات تھیں۔‏ ایک یہ کہ مَیں کام تلاش کرنا چاہتا تھا اور دوسرا یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کو سمجھنے میں مدد حاصل کرنا چاہتا تھا۔‏ کینیڈا میں اُس وقت یہوواہ کے گواہوں پر پابندی تھی لیکن پھر بھی اجلاس باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے۔‏ سب سے پہلا اجلاس جس پر مَیں حاضر ہوا پابندی کی وجہ سے ایک گواہ کے گھر میں تھا۔‏ جو باتیں مَیں نے وہاں سنیں وہ مجھے عجیب لگیں کیونکہ مَیں تو یونانی کیتھولک چرچ کا رُکن تھا۔‏ اس چرچ میں پادری ہوتے ہیں۔‏ لیکن یہاں کوئی پادری نہیں تھا۔‏ آہستہ آہستہ مَیں سمجھنے لگا کہ بائبل یہ نہیں سکھاتی کہ ایک پادری طبقے کا ہونا ضروری ہے جو منادی کا کام کرے۔‏ بلکہ بائبل کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ‌داری ہے۔‏ اِسکے علاوہ مَیں نے سیکھا کہ خدا کو جنگ سے نفرت ہے لیکن پادری تو جنگ کیلئے فوجوں کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴؛‏ متی ۲۳:‏۸-‏۱۰؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ بائبل یہ بھی سکھاتی ہے کہ زمین کو فردوس بنا دیا جائیگا جہاں تمام انسان ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھا سکیں گے۔‏ مجھے یہ سب باتیں بہت اچھی لگیں۔‏

اب مجھے پورا یقین ہو گیا تھا کہ یہوواہ کے گواہ بائبل کی سچائی سکھاتے ہیں۔‏ مَیں نے یہوواہ کی خدمت کرنے کا ارادہ کر لیا اور ۱۹۴۲ میں بپتسمہ لے لیا۔‏ سن ۱۹۴۳ میں کینیڈا میں یہوواہ کے گواہوں سے پابندی اُٹھا لی گئی تھی۔‏ اِسکی وجہ سے منادی کے کام میں مزید ترقی ہونے لگی۔‏ بائبل کی سچائیاں میرے دل تک پہنچ رہی تھیں اور مجھے بزرگ بنا دیا گیا۔‏ اِسکے علاوہ مَیں اپنے علاقے میں جگہ جگہ جا کر تقریریں دیتا اور ایسے علاقوں میں بھی منادی کرتا جہاں پہلے منادی نہیں کی گئی تھی۔‏ اِسی دوران مَیں ریاستہائےمتحدہ میں یہوواہ کے گواہوں کے کئی بڑے کنونشنز پر بھی حاضر ہوا۔‏ اِن تمام باتوں کی بِنا پر مَیں بائبل کی سچائیوں پر عمل کرنے میں ترقی کرتا گیا۔‏

یہوواہ کی خدمت میں آگے بڑھنا

سن ۱۹۵۰ میں،‏ مَیں پائنیر کے طور پر منادی کے کام میں زیادہ  وقت صرف کرنے لگا۔‏ اُسی سال دسمبر میں مجھے سفری نگہبان بنا دیا گیا۔‏ اِس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کیلئے مجھے ایک بہت ہی تجربہ‌کار اور وفادار بھائی نے تربیت دی۔‏ میرا بھائی ایلیکس پہلے ہی سے سفری نگہبان تھا۔‏ مَیں نے ایک ہفتے تک اُسکے ساتھ بھی کلیسیاؤں کی خدمت کی تاکہ مَیں اُس سے سیکھ سکوں۔‏

کہانی کے شروع میں مَیں آپکو ایک سرکٹ اسمبلی کے بارے میں بتا رہا تھا۔‏ شدید برف‌باری کی وجہ سے کم ہی لوگ اسمبلی پر حاضر ہوئے تھے اور مَیں بہت پریشان تھا۔‏ مگر ہمارے ڈسٹرکٹ اوورسئیر،‏ بھائی جیک ناتھن نے ہماری ہمت بڑھائی۔‏ ہم نے اپنے ذاتی تجربے سنائے اور منادی کرنے اور بائبل کا مطالعہ کرانے کے مختلف طریقے پیش کئے۔‏ اِسطرح ہم نے مختصر سا پروگرام پیش کِیا۔‏ کھانا تو ہم نے ۳۰۰ لوگوں کیلئے منگوایا تھا اِسلئے اُسکی کوئی کمی نہ تھی۔‏ ہر دو گھنٹے بعد ہم کافی پیتے اور کیک کھاتے تھے۔‏ جب رات ہوئی تو برفانی طوفان کی وجہ سے کوئی گھر نہ جا سکا۔‏ اسلئے کوئی پلیٹ‌فارم پر سو گیا،‏ کوئی بینچ پر اور باقیوں نے زمین پر لیٹ کر رات کاٹی۔‏ اتوار تک برف‌باری کی شدت کم ہو گئی اور ۹۶ لوگ عوامی تقریر کیلئے حاضر ہوئے۔‏ اِس اسمبلی نے مجھے مشکل صورتحال سے نپٹنا سکھایا۔‏

پھر مجھے کینیڈا کے مغربی علاقے،‏ البرٹا،‏ برٹش کولمبیا میں سفری نگہبان کے طور پر بھیجا گیا۔‏ یہاں گرمی کے موسم میں سورج غروب نہیں ہوتا۔‏ مَیں الاسکا ہائی‌وے پر باقاعدگی سے ۴۷۷،‏۱ کلومیٹر کا سفر طے کرتا تھا۔‏ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ الاسکا ہائی‌وے اُونچے پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔‏ اکثر برف کی وجہ سے سڑک بند ہو جاتی تھی۔‏ تنگ پہاڑی راستوں پر پاؤں پھسلنے کا بھی خطرہ ہوتا تھا۔‏ ہوا کے جھونکے برف کو گرد کی طرح اُڑاتے تھے جسکی وجہ سے راستہ مشکل سے نظر آتا تھا۔‏ ایسے حالات میں منادی کرنے سے مَیں نے صبر اور احتیاط سے کام لینا سیکھا۔‏

مَیں اکثر یہ دیکھ کر حیران ہوتا کہ بائبل کا پیغام دُنیا کے اِس آخری کونے تک کیسے پہنچ رہا تھا۔‏ آئیے مَیں آپکو اِسکی ایک مثال دیتا ہوں۔‏ ایک دفعہ رات کے نو بجے مَیں اپنے دوست کیساتھ الاسکا ہائی‌وے پر منادی کر رہا تھا۔‏ ہمیں سامنے ایک جھونپڑی نظر آئی جسکی کھڑکی سے دھیمی سی روشنی باہر آ رہی تھی۔‏ روشنی کو دیکھ کر ہمیں پتہ چل گیا کہ یہاں کوئی رہتا ہے۔‏ ہم نے دروازے پر دستک دی۔‏ پھر ہمیں اندر بلایا گیا۔‏ جب ہم نے دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں؟‏ ایک بوڑھا آدمی بستر پر لیٹے ہوئے مینارِنگہبانی کا تازہ‌ترین شمارہ پڑھ رہا ہے۔‏ یہ رسالہ ابھی ہمارے پاس نہیں تھا کیونکہ ہم آٹھ دن سے سفر کر رہے تھے۔‏ اُس آدمی کا نام فریڈ برگ تھا۔‏ وہ کئی سالوں سے ہمارے رسالے پڑھ رہا تھا جو اُسے ہوائی‌جہاز کے ذریعے بھیجے جاتے تھے۔‏ لیکن ہمارے آنے سے پہلے گواہوں نے اُس سے کبھی ملاقات نہیں کی تھی۔‏ فریڈ نے ہمیں رات رُکنے کیلئے کہا۔‏ ہم دیر تک اُسکے ساتھ بائبل پر بات‌چیت کرتے رہے۔‏ اِسکے بعد ہم نے فریڈ کا پتہ اُن یہوواہ کے گواہوں کو دیا جو اُس علاقے میں رہتے تھے۔‏

کئی سالوں کیلئے مَیں سفری نگہبان کے طور پر کینیڈا کے مغربی علاقے سے الاسکا تک خدمت کرتا رہا۔‏ اِسکے لئے مجھے باقاعدگی سے ۵۰۰،‏۳ کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔‏

مَیں ایسے لوگوں کو منادی کر رہا تھا جو آبادی سے دُور،‏ بہت ہی ویران علاقوں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔‏ لیکن مَیں نے دیکھا کہ علاقہ چاہے کتنا ہی ویران کیوں نہ ہو اگر وہاں کوئی ایسا شخص رہتا ہے جسکے دل میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش ہے تو بائبل کا پیغام اُس تک ضرور پہنچتا ہے۔‏ یہ یہوواہ کی اُس محبت کا ثبوت ہے جو وہ تمام لوگوں کیلئے رکھتا ہے۔‏ اسکی ایک مثال ہنری لیپائن ہے۔‏ یہ شخص ایک ایسے علاقے میں رہتا تھا جہاں سونے کی کانوں کے سوا اَور کچھ نہیں تھا۔‏ اُس نے اپنی زندگی کے ۶۰ سال یہیں گزارے تھے۔‏ ہنری کبھی کسی اجلاس پر حاضر نہیں ہوا تھا۔‏ مگر اُسکے دل میں یہوواہ کیلئے اتنی گہری محبت تھی کہ اُس نے ۸۴ سال کی عمر میں سرکٹ اسمبلی پر حاضر ہونے کیلئے ۶۰۰،‏۱ کلومیٹر کا سفر طے کِیا۔‏ ہنری کو اسمبلی کا پروگرام اور بھائیوں کیساتھ رفاقت رکھنا بہت ہی اچھا لگا۔‏ اکثر لوگ جو ہنری کو جانتے تھے اِس بات پر حیران ہوئے کہ اُس نے بڑھاپے میں اتنا لمبا سفر کیسے کِیا۔‏ اِس بات کی کھوج لگانے کیلئے اُنہوں نے بھی بائبل کا مطالعہ شروع کرتے ہوئے اِسکی سچائیوں کو قبول کِیا۔‏ یوں ہنری نے کچھ کہے بغیر دوسرے عمررسیدہ لوگوں کیلئے ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏ ہنری اپنی موت تک یہوواہ کا وفادار رہا۔‏

مجھے یہوواہ سے برکات ملیں

سن ۱۹۵۵ میں،‏ مجھے واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ۲۶ ویں کلاس میں حاضر ہونے کی دعوت ملی جہاں مجھے مشنری بننے کی تعلیم دی گئی۔‏ اِس تعلیم نے میرے ایمان کو اَور بھی مضبوط کِیا جسکی وجہ سے یہوواہ کیساتھ میرا رشتہ زیادہ مضبوط ہو گیا۔‏ سکول کے بعد مجھے کینیڈا بھیجا گیا جہاں مَیں دوبارہ سفری نگہبان کے طور پر بھائیوں کی خدمت کرنے لگا۔‏

ایک سال تک مَیں کینیڈا کے مشرقی حصے میں خدمت کرتا رہا۔‏ پھر مجھے دوبارہ الاسکا کے خوبصورت پہاڑی علاقے میں بھیجا گیا۔‏ آج تک مجھے برف‌پوش پہاڑوں کے دامن میں اُن جھیلوں کے منظر یاد آتے ہیں جن میں پانی کی لہریں چاندنی کی طرح چمکتی تھیں۔‏ گرمی کے موسم میں وادیوں میں رنگ‌برنگے پھولوں کے قالین بچھے ہوتے تھے۔‏ وہاں کی ہوا تازہ اور پانی صاف تھا۔‏ یہ جنگلی جانوروں کا گھر تھا جہاں ریچھ،‏ بھیڑیے،‏ ہرن اور دیگر جانور بھی رہتے تھے۔‏

الاسکا میں کام کرنا آسان کام نہیں تھا۔‏ ایک تو وہاں کے موسم پر کوئی اعتبار نہیں۔‏ پھر مجھے بہت لمبا سفر طے کرنا پڑتا (‏تقریباً ۲۰۰،‏۳ کلومیٹر)‏ اور میرے پاس گاڑی بھی نہیں تھی۔‏ اکثر مجھے بھائی اپنی گاڑی میں ایک کلیسیا سے دوسری کلیسیا تک پہنچا دیتے۔‏ مگر کبھی کبھار مجھے اگلی کلیسیا تک پہنچنے کیلئے ٹرک ڈرائیوروں یا وہاں پر سیر کیلئے آئے ہوئے لوگوں سے سواری کیلئے درخواست کرنی پڑتی تھی۔‏

آئیے مَیں آپکو سناتا ہوں کہ ایک بار میرے ساتھ کیا واقع ہوا۔‏ مجھے الاسکا ہائی‌وے پر ریاستہائےمتحدہ کے بارڈر سے سواری مِل گئی۔‏ کوئی ۵۰ کلومیٹر بعد مجھے اُتار دیا گیا اور مَیں پیدل چل پڑا۔‏ عام طور پر سڑک پر گاڑیاں گزرتی رہتی تھیں اور مجھے جلد ہی دوسری سواری مِل جاتی۔‏ مگر اِس مرتبہ نجانے کیوں کوئی گاڑی نہ گزری تھی۔‏ مَیں چلتا گیا۔‏ تقریباً دس گھنٹوں بعد مَیں نے ۴۰ کلومیٹر طے کر لئے تھے۔‏ رات کے بارہ بج چکے تھے۔‏ سردی بہت تھی (‏منفی ۲۳ سینٹی‌گریڈ)‏ اور مَیں بہت تھک چکا تھا۔‏ اگلا چیک‌پوائنٹ ابھی ۸۰ کلومیٹر دُور تھا۔‏ مجھے آرام کرنے کی بیحد ضرورت تھی۔‏ لیکن کہاں؟‏

تھکاوٹ کی وجہ سے مَیں ٹھیک چل بھی نہیں سکتا تھا۔‏ اچانک میری نظر ایک گاڑی پر پڑی جسے سڑک کے کنارے چھوڑ دیا گیا تھا۔‏ یہ سوچتے ہوئے کہ مَیں گاڑی کی سیٹوں پر لیٹ کر رات کاٹ سکونگا مَیں نے اِس سے برف ہٹانی شروع کر دی۔‏ لیکن جب مَیں نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو دیکھا کہ کسی نے تمام سیٹیں نکال لی تھیں۔‏ مَیں پھر چل پڑا۔‏ آخرکار مجھے ایک جھونپڑی نظر آئی جس میں کوئی نہیں رہتا تھا۔‏ اُسکا دروازہ کھولتے ہوئے میرے ہاتھ بھی زخمی ہو گئے۔‏ اندر داخل ہوتے ہی مَیں نے آگ جلائی اور کچھ گھنٹوں کیلئے آرام کِیا۔‏ اگلی صبح مجھے ایک ہوٹل تک سواری مِل گئی۔‏ وہاں مَیں نے جی بھر کر کھانا کھایا اور اپنے زخمی ہاتھوں کی مرہم‌پٹی بھی کی۔‏ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میرے بارڈر سے روانہ ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد برف نے پہاڑوں سے پھسل کر سڑک بند کر دی تھی۔‏ اِسلئے کوئی گاڑی نہیں آ رہی تھی۔‏

یہوواہ الاسکا میں ترقی دیتا ہے

جب مَیں نے الاسکا کے شہر فیربینکس کا پہلی مرتبہ دورہ کِیا تو میری بہت حوصلہ‌افزائی ہوئی۔‏ ہم منادی کے کام میں بہت سے لوگوں سے بات کر سکے۔‏ اتوار کے دن عوامی تقریر ایک چھوٹے سے گھر میں منعقد ہوئی جہاں ایک مشنری جوڑا رہتا تھا۔‏ اِس پہلی تقریر کیلئے ۵۰ لوگ حاضر ہوئے۔‏ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے لوگ باورچی‌خانے،‏ آرامگاہ اور برآمدے میں بیٹھ کر تقریر سن رہے تھے۔‏ اِس سے پتہ چلا کہ یہاں ترقی کا امکان ہے۔‏ اِسلئے یہوواہ کی مدد کیساتھ ہم نے ایک عمارت ڈھونڈ لی جسے ایک ہال میں تبدیل کِیا جا سکتا تھا۔‏ سب سے پہلے وہاں کنواں کھود کر پانی کا انتظام کِیا گیا۔‏ پھر غسل‌خانے بنائے گئے اور کمروں کو گرم کرنے کا بندوبست بھی کِیا گیا۔‏ اِسکے بعد باورچی‌خانہ بھی بنایا گیا۔‏ اسطرح ایک سال کے اندر فیربینکس کا پہلا کنگڈم ہال تیار ہو گیا۔‏ سن ۱۹۵۸ میں اِس ہال کو کنونشن کیلئے بھی استعمال کِیا گیا جس پر ۳۳۰ لوگ حاضر ہوئے۔‏

سن ۱۹۶۰ میں،‏ ریاستہائےمتحدہ اور کینیڈا کے تمام سفری نگہبانوں کو نیو یارک بیت‌ایل بلایا گیا جہاں اُنکو مزید تربیت دی گئی۔‏ مَیں نے یہ لمبا سفر گاڑی میں طے کِیا۔‏ نیو یارک میں بھائی ناتھن نار نے مجھے پوچھا کہ کیا الاسکا میں ایک برانچ دفتر کھولا جا سکتا ہے؟‏ اسکے کچھ مہینوں بعد ہی ہم یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ ستمبر ۱،‏ ۱۹۶۱ کے روز الاسکا میں ایک برانچ دفتر کھولا جائیگا۔‏ بھائی اینڈریو کے.‏ واگنر کو اِس دفتر کا سربراہ بنایا گیا۔‏ الاسکا آنے سے پہلے اُس نے اپنی بیوی ویرا کیساتھ ۲۰ سال نیو یارک بیت‌ایل میں خدمت کی تھی اور وہ کچھ عرصے کیلئے سفری نگہبان بھی رہا تھا۔‏ الاسکا میں برانچ دفتر ہونے کا فائدہ یہ تھا کہ اب سفری نگہبانوں کو کم سفر کرنا پڑتا تھا۔‏ اِس وجہ سے وہ کلیسیاؤں کی ضروریات پر زیادہ توجہ دے سکتے تھے۔‏ اِسکے علاوہ وہ ایسے بھائیوں کی مدد کر سکتے تھے جو آبادی سے دُور رہتے تھے۔‏ اِسطرح سفری نگہبان اِن علاقوں میں منادی کے کام کو بھی ترقی دینے کے قابل ہو گئے۔‏

سن ۱۹۶۲ کا موسمِ‌گرما الاسکا میں خوشیوں کی بہار لیکر آیا تھا۔‏ پہلے تو برانچ دفتر کی مخصوصیت کی گئی۔‏ پھر ایک ڈسٹرکٹ کنونشن منعقد کِیا گیا اور تین مختلف شہروں میں کنگڈم ہال تعمیر کئے گئے۔‏ اسکے علاوہ آبادی سے دُور رہنے والے بھائیوں کے چھوٹے گروپ بھی قائم کئے گئے۔‏

دوبارہ کینیڈا میں

میرا کئی سالوں سے مارگریٹ پیٹراس کیساتھ خط‌وکتابت کے ذریعے رابطہ تھا۔‏ مارگریٹ،‏ جسے سب پیار سے ریٹا کہتے ہیں،‏ کینیڈا میں رہتی تھی۔‏ سن ۱۹۴۷ میں اُس نے پائنیر خدمت شروع کی۔‏ پھر ۱۹۵۵ میں،‏ اُس نے گلئیڈ سکول سے مشنری بننے کی تعلیم حاصل کی جسکے بعد اُسے واپس کینیڈا بھیجا گیا۔‏ وہ کینیڈا کے مشرقی علاقے میں پائنیر خدمت کر رہی تھی۔‏ مَیں اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔‏ ریٹا کو یہ منظور تھا اور فروری ۱۹۶۳ میں ہم نے شادی کر لی۔‏ اسکے کچھ مہینوں بعد ہی ہمیں مغربی کینیڈا بھیجا گیا جہاں مَیں نے ۲۵ سال تک سفری نگہبان کے طور پر خدمت کی۔‏ یہ ہمارے لئے بہت اچھا وقت رہا۔‏

سن ۱۹۸۸ میں،‏ ہمیں صحت خراب ہونے کی وجہ سے سپیشل پائنیر کے طور پر کینیڈا کے صوبے مانیٹوبا بھیجا گیا۔‏ وہاں ہم منادی کے کام میں حصہ لینے کیساتھ ساتھ پانچ سال تک ایک اسمبلی ہال کی دیکھ‌بھال بھی کرتے رہے۔‏ اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔‏ جہانتک ہو سکتا ہے ہم اب بھی منادی کرتے اور بائبل مطالعے کراتے ہیں۔‏ یہوواہ نے ہمیں اِس کام میں بہت برکت دی ہے۔‏ کیونکہ جب ہم سفری نگہبان کے طور پر کلیسیاؤں کا دورہ کرتے تھے تو ہم اکثر لوگوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ شروع تو کرتے مگر پھر کوئی دوسرا بھائی مطالعے کو جاری رکھتا تھا۔‏ لیکن اب ہم نہ صرف لوگوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کرتے ہیں بلکہ اب ہم اُنکے ترقی کرکے بپتسمہ لینے تک مطالعہ جاری رکھتے ہیں۔‏

مَیں جانتا ہوں کہ زندگی میں سب سے اچھا کام یہوواہ کی خدمت کرنا  ہے۔‏ اِسطرح ہماری زندگی بامقصد ہو جاتی ہے اور ہم یہوواہ خدا کیلئے دن‌بدن اپنی محبت کو بڑھا سکتے ہیں۔‏ یہ اصلی خوشیوں کا باعث ہے۔‏ چاہے ہمیں یہوواہ کی خدمت میں کیسا بھی کام دیا جائے یا دُنیا کے کسی بھی علاقے میں بھیجا جائے،‏ ہم زبورنویس کے اِن الفاظ سے متفق ہیں:‏ ”‏مبارک ہے وہ قوم جسکا خدا [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۴۴:‏۱۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بطور سفری نگہبان

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ہنری لیپائن کیساتھ ایک ملاقات،‏ مَیں بائیں طرف ہوں

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

الاسکا کے شہر انکریج کا سب سے پہلا کنگڈم ہال

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

سن ۱۹۹۸ میں ریٹا اور مَیں