مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کیسا نام کما رہے ہیں؟‏

آپ کیسا نام کما رہے ہیں؟‏

آپ کیسا نام کما رہے ہیں؟‏

کیا آپ نے کبھی اپنے مقامی اخبار میں کسی کی موت کے اعلان کے ساتھ اُس کی زندگی کی کامرانیوں کی ایک تفصیلی رپورٹ پڑھی ہے؟‏ کیا آپ نے کبھی خود سے پوچھا ہے،‏ ’‏لوگ میرے بارے میں کیا کہینگے؟‏‘‏ اس بات کے لئے کتنے لوگ فکرمند ہوتے ہیں کہ موت کے بعد اُنہیں کیسے یاد کِیا جائے گا؟‏ پس ان سوالات پر غور کریں:‏ اگر کل آپ نے وفات پائی ہوتی تو لوگ آج آپ کی بابت کیا کہہ رہے ہوتے؟‏ آپ کیسا نام کما رہے ہیں؟‏ آپ اپنے واقف‌کاروں اور خدا کے لئے کیسی یادیں چھوڑنا چاہیں گے؟‏

واعظ کی کتاب قلمبند کرنے والے دانشمند شخص نے بیان کِیا:‏ ”‏نیک‌نامی بیش‌بہا عطر سے بہتر ہے اور مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے۔‏“‏ (‏واعظ ۷:‏۱‏)‏ ایک شخص کے مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے کیسے بہتر ہو سکتا ہے؟‏ اسلئےکہ کوئی بھی شخص اپنی پیدائش کے دن کوئی شہرت نہیں رکھتا۔‏ اُسکا کوئی ذاتی ریکارڈ نہیں ہوتا۔‏ اُسکی طرزِزندگی ایک مثبت یا منفی شہرت پر منتج ہو سکتی ہے۔‏ سالوں کے دوران اچھا نام کمانے والوں کیلئے موت کا دن پیدائش کے دن سے واقعی بہتر ہوتا ہے۔‏

لہٰذا ہمارے پاس انتخاب کا موقع ہے۔‏ درحقیقت،‏ ہم ہر روز بہتیرے انتخابات کرتے ہیں جو ہماری موت کے بعد ہماری نیک‌نامی،‏ بالخصوص خدا کی یاد میں ہماری ساکھ کا تعیّن کریں گے۔‏ پس،‏ اسی دانشمند عبرانی شخص نے لکھا:‏ ”‏راست آدمی کی یادگار مبارک ہے لیکن شریروں کا نام سڑ جائیگا۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۷‏)‏ اَجر کے لئے خدا کی یاد میں رہنا کتنی بڑی برکت ہے!‏

اگر ہم دانشمند ہیں تو ہمارا مقصد خدا کے معیاروں کی مطابقت میں زندگی بسر کرتے ہوئے اُسکو خوش کرنا ہوگا۔‏ اسکا مطلب مسیح کے بیان‌کردہ بنیادی اُصولوں پر چلنا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔‏ اور دوسرا اسکی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔‏ اِنہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔‏“‏—‏متی ۲۲:‏۳۷-‏۴۰‏۔‏

بعض لوگوں کو انسانوں سے محبت کرنے،‏ اُنکی مدد کرنے،‏ شہری حقوق کی حمایت کرنے،‏ کاروباری،‏ سائنسی اور طبّی دُنیا میں نام کمانے یا دیگر کارگزاریوں میں کامیابی کیلئے یاد کِیا جاتا ہے۔‏ تاہم،‏ آپ کیا چاہتے ہیں کہ موت کے بعد آپکو کیسے یاد کِیا جائے؟‏

سکاٹ‌لینڈ کے شاعر رابرٹ برنز (‏۱۷۵۹-‏۱۷۹۶)‏ کی خواہش تھی کہ خدا ہمیں دوسروں کے نقطۂ‌نظر سے اپنی ذات کا جائزہ لینے کی صلاحیت عطا کرے۔‏ کیا آپ دیانتداری سے اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ دوسرے لوگوں اور بالخصوص خدا کی نظر میں عمدہ ساکھ کے مالک ہیں؟‏ بالآخر دوسروں کیساتھ ہمارے تعلقات واقعی کھیل یا کاروباری دُنیا کی ہماری عارضی کامیابیوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔‏ پس سوال یہ ہے کہ دوسروں کیساتھ ہمارا برتاؤ‏—‏ہماری بات‌چیت،‏ ہمارے آداب‌واطوار،‏ حرکات‌وسکنات—‏ان پر کیسا اثر ڈالتا ہے؟‏ کیا ہم قابلِ‌رسائی یا تنہائی‌پسند ہونے کا تاثر دیتے ہیں؟‏ کیا لوگ ہمیں مہربان یا سخت‌دل خیال کرتے ہیں؟‏ کیا ہم مطابقت‌پذیر یا غیرمعقول نظر آتے ہیں؟‏ کیا ہم گرمجوش اور ہمدرد یا سردمہر اور نامہربان ہیں؟‏ کیا لوگ ہمیں تباہ‌کُن ناقدین یا مددگار مشیر سمجھتے ہیں؟‏ آئیے ماضی اور زمانۂ‌جدید کی بعض مثالوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہم ان سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

رابرٹ‌برنز کی خواہش تھی کہ خدا ہمیں دوسروں کے نقطۂ‌نظر سے اپنی ذات کا جائزہ لینے کی صلاحیت عطا کرے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

A History of England From the book