ہم ابد تک یہوواہ کے نام سے چلیں گے!
ہم ابد تک یہوواہ کے نام سے چلیں گے!
”ہم ابدالآباد تک [یہوواہ] اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔“ —میکاہ ۴:۵۔
۱. میکاہ ۳ تا ۵ ابواب میں کونسے پیغامات درج ہیں؟
یہوواہ اپنے لوگوں کو میکاہ نبی کی معرفت کچھ بتانا چاہتا ہے۔ خدا خطاکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مقصد رکھتا ہے۔ وہ اسرائیل کو اُس کی برگشتگی کی سزا دینے والا ہے۔ تاہم، یہوواہ اُن کو برکت دینے کے لئے تیار ہے جو اُس کے نام سے چلتے ہیں۔ یہ پیغامات میکاہ کی پیشینگوئی کے ۳ تا ۵ ابواب میں درج ہیں۔
۲، ۳. (ا) اسرائیلی پیشواؤں کو کونسی خوبی ظاہر کرنی تھی مگر وہ دراصل کیا کر رہے تھے؟ (ب) آپ میکاہ ۳:۲، ۳ کے الفاظ کو کیسے بیان کریں گے؟
۲ خدا کا نبی اعلان کرتا ہے: ”اَے یعقوؔب کے سردارو اور بنیاسرائیل کے حاکمو سنو! کیا مناسب نہیں کہ تم عدالت سے واقف ہو؟“ یہ درست ہے کہ اُنہیں یہی کام کرنا ہے مگر درحقیقت وہ کیا کر رہے ہیں؟ میکاہ بیان کرتا ہے: ”تم نیکی سے عداوت اور بدی سے محبت رکھتے ہو اور لوگوں کی کھال اُتارتے اور اُن کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچتے ہو۔ اور میرے لوگوں کا گوشت کھاتے ہو اور اُن کی کھال اُتارتے اور اُن کی ہڈیوں کو توڑتے اور اُن کو ٹکڑےٹکڑے کرتے ہو گویا وہ ہانڈی اور دیگ کے لئے گوشت ہیں۔“—میکاہ ۳:۱-۳۔
۳ پیشوا کیوں غریب اور بےیارومددگار لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں! میکاہ کی بات سننے والے اِن الفاظ سے بخوبی واقف ہیں۔ جب ذبحشُدہ بھیڑ کو اُبالا جاتا ہے تو پہلے اُس کی کھال اُتارتے ہیں اور پھر اُس کے جوڑ توڑتے ہیں۔ بعضاوقات گودا نکالنے کے لئے ہڈیوں کو بھی توڑا جاتا ہے۔ گوشت اور ہڈیاں دونوں کو ایک بڑے برتن میں اُبالا جاتا ہے جیسے میکاہ نے بیان کِیا۔ (حزقیایل ۲۴:۳-۵، ۱۰) میکاہ کے زمانے میں لوگ اپنے بدطینت پیشواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی بدسلوکی کا سامنا کر رہے تھے اُس کی کیا ہی عمدہ مثال!
یہوواہ ہم سے انصاف کی توقع کرتا ہے
۴. یہوواہ اور اسرائیلی پیشواؤں کے مابین کونسا نمایاں فرق ہے؟
۴ شفیق چرواہے یہوواہ اور اسرائیل کے پیشواؤں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ کیونکہ وہ انصاف نہیں کرتے اس لئے وہ گلّے کی حفاظت کرنے کا اپنا کام انجام دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کی بجائے، وہ خودغرضی سے علامتی بھیڑوں سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے اور اُنہیں انصاف سے محروم رکھتے اور میکاہ ۳:۱۰ کے مطابق ”خونریزی“ کرتے ہیں۔ ہم اس صورتحال سے کیا سیکھتے ہیں؟
۵. یہوواہ اپنے لوگوں کے پیشواؤں سے کیا توقع کرتا ہے؟
۵ خدا اپنے لوگوں کے پیشواؤں سے انصاف کرنے کی توقع کرتا ہے۔ آجکل یہوواہ کے خادموں کی بابت یہی بات سچ ہے۔ مزیدبرآں، یہ یسعیاہ ۳۲:۱ سے مطابقت رکھتا ہے جہاں ہم پڑھتے ہیں: ”دیکھ ایک بادشاہ صداقت سے سلطنت کرے گا اور شاہزادے عدالت سے حکمرانی کریں گے۔“ تاہم، میکاہ کے دنوں میں، ہم نے کیا دیکھا؟ ”نیکی سے عداوت اور بدی سے محبت“ انصاف کا خون کر رہی تھی۔
کن کی دُعائیں سنی جاتی ہیں؟
۶، ۷. میکاہ ۳:۴ میں کونسے اہم نکتے کو نمایاں کِیا گیا ہے؟
۶ کیا میکاہ کے زمانے کے شریر لوگ یہوواہ کی کرمفرمائی کی توقع کر سکتے تھے؟ ہرگز نہیں! میکاہ ۳:۴ بیان کرتی ہے: ”تب وہ [یہوواہ] کو پکارینگے پر وہ اُن کی نہ سنے گا۔ ہاں وہ اُس وقت اُن سے مُنہ پھیر لے گا کیونکہ اُن کے اعمال بُرے ہیں۔“ یہ ایک اہم نکتے کو نمایاں کرتا ہے۔
۷ اگر ہم گُناہ کرتے ہیں تو یہوواہ ہماری دُعائیں نہیں سنے گا۔ یہ بات خاص طور پر اُس وقت واقع ہوتی ہے جب ہم دوہری زندگی بسر کرتے ہیں یعنی وفاداری سے خدا کی خدمت کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں جبکہ چوریچھپے گُناہ میں ملوث رہتے ہیں۔ زبور ۲۶:۴ کے مطابق، داؤد نے گیت گایا: ”مَیں بیہودہ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھا۔ مَیں ریاکاروں کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا۔“ تو پھر یہوواہ اُن کی دُعاؤں کے جواب کیسے دے گا جو جانبوجھ کر اُس کے کلام کی خلافورزی کرتے ہیں!
خدا کی رُوح سے تقویت پانا
۸. میکاہ کے زمانے کے جھوٹے نبیوں کو کس چیز سے آگاہ کِیا گیا تھا؟
۸ اسرائیل کے روحانی پیشواؤں میں شرمناک کام کتنے عام ہیں! جھوٹے نبی خدا کے لوگوں کے روحانی طور پر گمراہ ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ لالچی پیشوا جو ”سلامتی سلامتی“ پکارتے ہیں، درحقیقت اگر کوئی شخص اُنہیں کھانے کو نہ دے تو اُس سے لڑنے کو تیار ہوتے ہیں۔ پس یہوواہ فرماتا ہے: ”تم پر رات ہو جائے گی جس میں رویا نہ دیکھو گے اور تم پر تاریکی چھا جائے گی اور غیببینی نہ کر سکو گے اور نبیوں پر آفتاب غروب ہوگا اور اُن کے لئے دن اندھیرا ہو جائے گا۔ تب غیببین پشیمان اور فالگیر شرمندہ ہوں گے بلکہ سب لوگ مُنہ پر ہاتھ رکھیں گے۔“—میکاہ ۳:۵-۷الف۔
۹، ۱۰. ’مُنہ پر ہاتھ رکھنے‘ کا کیا مطلب ہے اور میکاہ کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟
۹ ”مُنہ پر ہاتھ رکھیں گے“ مگر کیوں؟ میکاہ کے زمانے کے شریر لوگ شرم کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ ان شریر لوگوں کا شرمندہ ہونا یقینی ہے۔ جہانتک اُن کا تعلق ہے، ”خدا کی طرف سے کچھ جواب نہ ہوگا۔“ (میکاہ ۳:۷ب) یہوواہ متکبر شریروں کی دُعاؤں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔
۱۰ میکاہ کو ”مُنہ پر ہاتھ رکھنے“ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ شرمندہ نہیں ہے۔ یہوواہ اُس کی دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ میکاہ ۳:۸ پر غور کریں جہاں وفادار نبی کہتا ہے: ”مَیں [یہوواہ] کی رُوح کے باعث قوتوعدالت اور دلیری سے معمور ہوں۔“ میکاہ کتنا شکرگزار ہے کہ اپنی طویل وفادارانہ خدمتگزاری کے دوران وہ ہمیشہ ”[یہوواہ] کی رُوح کے باعث قوت . . . سے معمور“ ہے! اس چیز نے اُسے ”یعقوؔب کو اُس کا گُناہ اور اؔسرائیل کو اُس کی خطا“ جتانے کی قوت بخشی۔
۱۱. انسان کیسے خدا کے پیغامات کا اعلان کرنے کے قابل ہوتے ہیں؟
۱۱ میکاہ کو خدا کی طرف سے سزا کا پیغام سنانے کے لئے انسانی طاقت سے زیادہ کچھ درکار ہے۔ یہوواہ کی رُوح یا سرگرم قوت نہایت ضروری ہے۔ ہماری بابت کیا ہے؟ ہمارا منادی کا کام صرف اُسی صورت میں تکمیل پا سکتا ہے اگر یہوواہ اپنی پاک رُوح کے ذریعے ہماری مدد کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم جانبوجھ کر گُناہ کرتے ہیں تو منادی کرنے کے ہمارے منصوبوں کا ناکام ہو جانا یقینی ہے۔ اس صورت میں خدا اس کام کو انجام دینے کی خاطر طاقت مانگنے کے لئے ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دے گا۔ یقیناً جب تک ’یہوواہ کا رُوح‘ ہمارے ساتھ نہ ہو ہم اپنے
آسمانی باپ کے عدالتی فیصلوں کا اعلان نہیں کر سکتے۔ ہم دُعا اور پاک رُوح کی مدد سے ہی میکاہ کی طرح دلیری سے خدا کا کلام سنانے کے قابل ہوتے ہیں۔۱۲. یسوع کے ابتدائی شاگرد ’دلیری سے خدا کا کلام سنانے‘ کے قابل کیوں تھے؟
۱۲ آپ کو شاید اعمال ۴:۲۳-۳۱ کا بیان یاد ہو۔ فرض کریں کہ آپ یسوع کے پہلی صدی کے شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ جنونی ایذارساں مسیح کے پیروکاروں کے مُنہ بند کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مگر یہ وفادار بندے خدا سے التجا کرتے ہیں: ”اَے [یہوواہ]! اُن کی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔“ نتیجہ؟ جب وہ دُعا کر چکے تو جس مکان میں وہ جمع تھے وہ ہل گیا اور وہ سب رُوحاُلقدس سے بھر گئے اور خدا کا کلام دلیری سے سنانے لگے۔ اسی لئے شاید ہم اپنی خدمتگزاری کو پورا کرنے کے لئے فروتنی کے ساتھ یہوواہ سے دُعا کرتے اور اُس کی رُوحاُلقدس کی مدد پر بھروسا کرتے ہیں۔
۱۳. یروشلیم اور سامریہ کے ساتھ کیا واقع ہوگا اور کیوں؟
۱۳ ایک بار پھر میکاہ کے زمانے کا تصور کریں۔ میکاہ ۳:۹-۱۲ کے مطابق، خون کے مجرم حاکم رشوت لیکر عدالت کرتے ہیں، کاہن اُجرت لیکر تعلیم دیتے ہیں اور جھوٹے نبی پیسے لیکر فالگیری کرتے ہیں۔ اسی لئے یہوواہ نے یہوداہ کے بڑے شہر یروشلیم کی بابت کہا کہ وہ ”کھنڈر ہو جائے گا“! جھوٹی پرستش اور بداخلاقی چونکہ اسرائیل میں بھی بڑی عام ہے لہٰذا میکاہ کو یہ آگاہی دینے کا الہام بخشا گیا کہ خدا سامریہ کو ”کھیت کے تودے کی مانند“ بنا دے گا۔ (میکاہ ۱:۶) واقعی، نبی ۷۴۰ ق.س.ع. میں اسوریوں کے ہاتھوں سامریہ کی اس بربادی کو دیکھنے کے لئے زندہ رہا۔ (۲-سلاطین ۱۷:۵، ۶؛ ۲۵:۱-۲۱) یہ بات بالکل واضح ہے کہ یروشلیم اور سامریہ کی بربادی کی بابت ایسے پیغامات صرف یہوواہ کی طاقت سے ہی سنائے جا سکتے تھے۔
۱۴. میکاہ ۳:۱۲ میں درج پیشینگوئی کیسے پوری ہوئی اور اس کا ہم پر کیا اثر ہونا چاہئے؟
۱۴ یہوداہ یقیناً یہوواہ کی طرف سے سزا سے نہیں بچ سکتا۔ میکاہ ۳:۱۲ میں درج پیشینگوئی کی تکمیل میں، صیون ”کھیت کی طرح جوتا جائے گا۔“ ہماری موجودہ سمجھ کے مطابق، ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اُس وقت واقع ہوا جب بابلی ۶۰۷ ق.س.ع. میں یہوداہ اور یروشلیم پر تباہی لائے تھے۔ یہ میکاہ کے پیشینگوئی کرنے کے کئی سال بعد واقع ہوا مگر اُسے یقین تھا کہ یہ ہونے والا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی ایسے ہی پُراعتماد ہونا چاہئے کہ موجودہ شریر نظاماُلعمل یہوواہ کے ”روزِعظیم“ پر ختم ہو جائے گا۔—۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲۔
یہوواہ معاملات کو درست کرتا ہے
۱۵. آپ میکاہ ۴:۱-۴ میں درج پیشینگوئی کو اپنے الفاظ میں کیسے بیان کریں گے؟
۱۵ پیچھے نظر دوڑاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد میکاہ اُمیدافزا پیغام پیش کرتا ہے۔ میکاہ ۴:۱-۴ میں ہم کیسے حوصلہافزا الفاظ پاتے ہیں! میکاہ بیان کرتا ہے: ”آخری دنوں میں یوں ہوگا کہ [یہوواہ] کے گھر کا پہاڑ پہاڑوں کی چوٹی پر قائم کِیا جائے گا اور سب ٹیلوں سے بلند ہوگا اور اُمتیں وہاں پہنچے گی۔ . . . اور وہ بہت سی اُمتوں کے درمیان عدالت کرے گا اور دُور کی زورآور قوموں کو ڈانٹے گا اور وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوے بنا ڈالیں گے اور قومقوم پر تلوار نہ چلائے گی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے۔ تب ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُن کو کوئی نہ ڈرائے گا کیونکہ ربُالافواج نے اپنے مُنہ سے یہ فرمایا ہے۔“
۱۶، ۱۷. میکاہ ۴:۱-۴ کی تکمیل آجکل کیسے ہو رہی ہے؟
۱۶ یہاں بیانکردہ ”اُمتیں“ اور ”زورآور قومیں“ کون ہیں؟ یہ اس دُنیا کی قومیں اور حکومتیں نہیں ہیں۔ بلکہ اس پیشینگوئی کا اطلاق سب قوموں سے آنے والے اُن اشخاص پر ہوتا ہے جو متحد ہوکر یہوواہ کی سچی پرستش کے پہاڑ پر پاک پرستش میں حصہ لیتے ہیں۔
۱۷ میکاہ کی پیشینگوئی کے مطابق، بہت جلد پوری زمین پر یہوواہ کی پاک پرستش کی جائے گی۔ آجکل، ”ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے“ لوگ یہوواہ کی راہوں کی تعلیم پا رہے ہیں۔ (اعمال ۱۳:۴۸) یہوواہ روحانی طور پر بادشاہت کی حمایت کرنے والے ایمانداروں کے لئے عدالت کر رہا ہے اور معاملات کو درست کر رہا ہے۔ وہ ”بڑی بِھیڑ“ کے حصے کے طور پر ”بڑی مصیبت“ سے بچ جائیں گے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں بنانے والے لوگ آج بھی ساتھی گواہوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ امن سے رہتے ہیں۔ ان کے درمیان رہنا کیسی خوشی کی بات ہے!
یہوواہ کے نام سے چلنے کیلئے پُرعزم
۱۸. ’اپنی تاک اور انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھنا‘ کس چیز کی علامت ہے؟
۱۸ ہمارے زمانے میں، جب زمین پر خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں تو ہم یہ جان کر خوش ہیں کہ بہتیرے یہوواہ کی راہوں کی تعلیم پا رہے ہیں۔ اب ہم ایسے وقت کے منتظر ہیں جب خدا سے محبت رکھنے والے لوگ جنگ سے پاک دُنیا میں رہیں گے اور اپنی تاک اور انجیر کے نیچے بیٹھیں گے۔ انجیر کے درخت اکثر تاکستانوں میں لگائے جاتے ہیں۔ (لوقا ۱۳:۶) اپنی تاک اور انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھنا پُرامن، خوشحال اور محفوظ حالتوں کی علامت ہے۔ اس وقت بھی، یہوواہ کے ساتھ ہمارا رشتہ ہمیں ذہنی سکون اور روحانی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جب بادشاہتی حکمرانی کے تحت ایسے حالات ہوں گے تو ہم بےخوفوخطر اور مکمل طور پر محفوظ ہوں گے۔
۱۹. یہوواہ کے نام سے چلنے کا کیا مطلب ہے؟
۱۹ الہٰی حمایت اور برکت سے استفادہ کرنے کے لئے ہمیں یہوواہ کے نام سے چلنے کی ضرورت ہے۔ اس کا پُرزور اظہار میکاہ ۴:۵ میں کِیا گیا ہے جہاں نبی کہتا ہے: ”سب اُمتیں اپنے اپنے معبود کے نام سے چلیں گی پر ہم ابدالآباد تک [یہوواہ] اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔“ یہوواہ کے نام سے چلنے کا مطلب محض یہ کہنا نہیں کہ وہ ہمارا خدا ہے۔ یہ مسیحی اجلاسوں اور بادشاہتی منادی کے کام میں ہماری شرکت سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے اگرچہ یہ کارگزاریاں اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر ہم یہوواہ کے نام سے چل رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اُس کے لئے مخصوص ہیں اور دلوجان سے محبت اور وفاداری کے ساتھ اُس کی خدمت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (متی ۲۲:۳۷) علاوہازیں، اُس کے پرستاروں کے طور پر، یقیناً ہم ابداُلآباد تک یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلتے رہنے کے لئے پُرعزم ہیں۔
۲۰. میکاہ ۴:۶-۱۳ میں کیا پیشینگوئی کی گئی ہے؟
۲۰ اب ذرا میکاہ ۴:۶-۱۳ کے نبوّتی الفاظ پر غور کریں۔ ”بنتِصیوؔن“ اسیر ہو کر ”بابلؔ تک جائے گی۔“ ساتویں صدی ق.س.ع. میں، یروشلیم کے باشندوں کے ساتھ ایسا ہی واقع ہوا تھا۔ تاہم، میکاہ کی پیشینگوئی ظاہر کرتی ہے کہ بقیہ یروشلیم واپس لوٹے گا اور صیون کی بحالی کے وقت یہوواہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اُس کے دشمن مکمل طور پر نیستونابود ہو جائیں۔
۲۱، ۲۲. میکاہ ۵:۲ کی تکمیل کیسے ہوئی تھی؟
۲۱ دیگر ڈرامائی تبدیلیوں کا ذکر میکاہ ۵ باب میں کِیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، غور کریں کہ میکاہ ۵:۲-۴ کیا بیان کرتی ہیں۔ میکاہ پیشینگوئی کرتا ہے کہ خدا کا مقررہ حکمران یعنی وہ جس کا ”مصدر زمانۂسابق ہاں قدیمالایّام سے ہے“ بیتلحم سے آئے گا۔ وہ چرواہے کے طور پر ’یہوواہ کی قدرت سے‘ حکمرانی کرے گا۔ علاوہازیں، یہ حکمران نہ صرف اسرائیل بلکہ ”انتہایِزمین تک“ حکمرانی کرے گا۔ اُس کی شناخت شاید دُنیا کو پریشان کر دے لیکن یہ ہمارے لئے کوئی بھید نہیں ہے۔
۲۲ بیتلحم میں پیدا ہونے والی سب سے اہم ہستی کون تھی؟ نیز کون ”انتہایِزمین تک بزرگ“ ہوگا؟ مسیحا، یسوع مسیح کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں! جب ہیرودیس نے سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کرکے پوچھا کہ مسیحا کہاں پیدا ہوگا تو اُنہوں نے جواب دیا: ”یہوؔدیہ کے بیتؔلحم میں۔“ اُنہوں نے میکاہ ۵:۲ کا حوالہ بھی دیا۔ (متی ۲:۳-۶) بعض دیگر لوگ بھی اس سے واقف تھے کیونکہ یوحنا ۷:۴۲ میں اُنہیں یہ کہتے ہوئے بیان کِیا گیا ہے: ”کیا کتابِمُقدس میں یہ نہیں آیا کہ مسیح داؔؤد کی نسل اور بیتؔلحم کے گاؤں سے آئے گا جہاں کا داؔؤد تھا؟“
لوگوں کیلئے حقیقی تازگی
۲۳. میکاہ ۵:۷ کی تکمیل میں اس وقت کیا واقع ہو رہا ہے؟
۲۳ میکاہ ۵:۵-۱۵ اسوری حملے کا ذکر کرتی ہیں جو کامیاب نہیں ہوگا اور یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ خدا نافرمان قوموں کے خلاف انتقامی کارروائی کرے گا۔ میکاہ ۵:۷ تائب یہودی بقیے کی بحالی کا وعدہ کرتی ہے لیکن ان الفاظ کا اطلاق ہمارے زمانے پر بھی ہوتا ہے۔ میکاہ بیان کرتا ہے: ”یعقوؔب کا بقیہ بہت سی اُمتوں کے لئے ایسا ہوگا جیسے [یہوواہ] کی طرف سے اوس اور گھاس پر بارش جو نہ انسان کا انتظار کرتی ہے اور نہ بنیآدم کے لئے ٹھہرتی ہے۔“ یہ خوبصورت علامات یہ بیان کرنے کے لئے استعمال کی گئی ہیں کہ روحانی یعقوب یا اسرائیل کا بقیہ لوگوں کے لئے خدا کی طرف سے ایک برکت ہوگا۔ یسوع کی ”دوسری بھیڑیں“ جو زمینی اُمید رکھتی ہیں، دوسروں کو روحانی تازگی حاصل کرنے میں مدد دینے کے لئے خوشی سے جدید زمانہ کے ”خدا کے اسرائیل“ کے شانہبشانہ خدمت انجام دیتی ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ گلتیوں ۶:۱۶؛ صفنیاہ ۳:۹) اس سلسلے میں ایک بات انتہائی غورطلب ہے۔ بادشاہتی مُنادوں کے طور پر ہمیں دوسروں کو حقیقی تازگی بخشنے کے شرف کو عزیز رکھنا چاہئے۔
۲۴. میکاہ ۳ تا ۵ ابواب کے کن نکات نے آپ کو متاثر کِیا ہے؟
۲۴ میکاہ کی پیشینگوئی کے ۳ تا ۵ ابواب سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟ شاید اس طرح کے نکات: (۱) یہوواہ اپنے لوگوں کی پیشوائی کرنے والوں سے انصاف کی توقع کرتا ہے۔ (۲) اگر ہم جانبوجھ کر گُناہ کرتے ہیں تو یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دے گا۔ (۳) ہمارا منادی کا کام اُسی صورت میں تکمیل پا سکتا ہے اگر خدا اپنی رُوحاُلقدس کے ذریعے ہمیں طاقت بخشتا ہے۔ (۴) الہٰی حمایت سے استفادہ کرنے کے لئے ہمیں یہوواہ کے نام سے چلنا چاہئے۔ (۵) بادشاہتی مُنادوں کے طور پر ہمیں لوگوں کو تازگی بخشنے کے شرف کو عزیز رکھنا چاہئے۔ شاید دیگر نکات نے بھی آپ کو متاثر کِیا ہو۔ اس نبوّتی کتاب سے ہم اَور کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اگلا مضمون ہمیں میکاہ کے آخری دو ابواب سے ایمان کو تقویت دینے والے عملی اسباق سیکھنے میں مدد دے گا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• خدا اپنے لوگوں کی پیشوائی کرنے والوں سے کیا توقع کرتا ہے؟
• یہوواہ کے لئے ہماری خدمت کے حوالے سے دُعا اور رُوحاُلقدس کیوں اہم ہیں؟
• لوگ کیسے ’ابد تک یہوواہ کے نام سے چلتے ہیں‘؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
کیا آپ دیگ کے متعلق میکاہ کی مثال کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویریں]
میکاہ کی مانند ہم بھی دلیری سے خدمت انجام دیتے ہیں