یہوواہ کے خادم حقیقی اُمید رکھتے ہیں
یہوواہ کے خادم حقیقی اُمید رکھتے ہیں
’یعقوب کا بقیہ بہت سی اُمتوں کے لئے ایسا ہوگا جیسے یہوواہ کی طرف سے اوس جو انسان کا انتظار نہیں کرتی۔‘—میکاہ ۵:۷۔
۱. روحانی اسرائیل کیسے تازگی کا ذریعہ ہے؟
یہوواہ بارش اور اوس کا خالق ہے۔ لہٰذا اوس یا بارش کے لئے انسان پر بھروسا کرنا بیکار ہے۔ میکاہ نبی نے لکھا: ”یعقوؔب کا بقیہ بہت سی اُمتوں کے لئے ایسا ہوگا جیسے [یہوواہ] کی طرف سے اوس اور گھاس پر بارش جو نہ انسان کا انتظار کرتی ہے اور نہ بنیآدم کے لئے ٹھہرتی ہے۔“ (میکاہ ۵:۷) ہمارے زمانے میں ”یعقوب کا بقیہ“ کون ہے؟ وہ روحانی اسرائیل، ”خدا کے اسرائیل“ کا بقیہ ہے۔ (گلتیوں ۶:۱۶) زمین کی ”بہت سی اُمتوں کے لئے“ وہ ”[یہوواہ] کی طرف سے اُوس“ اور ”گھاس پر بارش“ کی مانند ہے۔ جیہاں، آجکل ممسوح مسیحی خدا کے لوگوں کے لئے ایک برکت ہیں۔ خدا کے بادشاہتی مُنادوں کے طور پر یہوواہ اُنہیں لوگوں کو حقیقی اُمید کا پیغام دینے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔
۲. اس مصیبتزدہ دُنیا میں رہنے کے باوجود ہم کیوں حقیقی اُمید رکھتے ہیں؟
۲ اس سے حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ دُنیا میں حقیقی اُمید نہیں ہے۔ سیاسی عدمِاستحکام، اخلاقی تنزلی، جُرم، معاشی بحران، دہشتگردی، جنگوجدل ایسی دُنیا کا خاصہ ہیں جس پر شیطان اِبلیس حکمرانی کر رہا ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) بیشتر لوگ مستقبل کی بابت خوفزدہ ہیں۔ تاہم، یہوواہ کے پرستاروں کے طور پر، ہم خوفزدہ نہیں کیونکہ ہم مستقبل کی بابت یقینی اُمید رکھتے ہیں۔ یہ حقیقی اُمید ہے کیونکہ اس کی بنیاد خدا کا کلام ہے۔ ہم یہوواہ اور اُس کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ اُس کی ہر بات ہمیشہ سچ ثابت ہوتی ہے۔
۳. (ا) یہوواہ اسرائیل اور یہوداہ کے خلاف کیوں کارروائی کرنے والا تھا؟ (ب) میکاہ کے الفاظ کا اطلاق آجکل بھی کیوں ہوتا ہے؟
۳ میکاہ کی الہامی پیشینگوئی ہمیں یہوواہ کے نام سے چلتے رہنے کی طاقت عطا کرتی اور حقیقی اُمید کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ آٹھویں صدی ق.س.ع. میں، جب میکاہ نے پیشینگوئی کی تو خدا کے ساتھ عہد میں شامل لوگ دو قوموں یعنی اسرائیل اور یہوداہ میں بٹے ہوئے تھے اور دونوں ہی خدا کے ساتھ عہد کو نظرانداز کر رہی تھیں۔ اس کے نتیجے میں اخلاقی تنزلی، مذہبی برگشتگی اور مادہپرستی میں اضافہ ہوا تھا۔ لہٰذا یہوواہ نے آگاہ کِیا کہ وہ اُن کے خلاف کارروائی کرے گا۔ بِلاشُبہ، خدا کی طرف سے آگاہیاں میکاہ کے زمانہ کے لوگوں کے لئے تھیں۔ تاہم، موجودہ زمانے کی صورتحال اس حد تک میکاہ کے زمانے سے مشابہت رکھتی ہے کہ اُس کے الفاظ موجودہ زمانے پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ جب ہم میکاہ کی کتاب کے سات ابواب کے چند خاص حصوں پر باتچیت کریں گے تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی۔
میکاہ کی کتاب کا جائزہ کیا ظاہر کرتا ہے
۴. میکاہ ۱ تا ۳ ابواب کونسی معلومات فراہم کرتے ہیں؟
۴ آئیے میکاہ کی کتاب کا مختصراً جائزہ لیں۔ پہلے باب میں، یہوواہ اسرائیل اور یہوداہ کی بغاوت کو بےنقاب کرتا ہے۔ اُن کے جُرم کے نتیجے میں اسرائیل تباہوبرباد ہو جائے گا اور یہوداہ کی سزا یروشلیم کے دروازوں تک پہنچ جائے گی۔ باب ۲ ظاہر کرتا ہے کہ دولتمند اور طاقتور کمزوروں اور بےیارومددگار لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ تاہم ایک الہٰی وعدہ بھی ہے۔ خدا کے لوگوں کو اکٹھا کِیا جائے گا۔ باب ۳ بیان کرتا ہے کہ قوم کے پیشواؤں اور غافل نبیوں کے خلاف یہوواہ نے سزا سنائی۔ پیشوا انصاف کا خون کر رہے ہیں اور نبی جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود، میکاہ رُوحاُلقدس سے تحریک پاکر یہوواہ کے عدالتی فیصلوں کا اعلان کرتا ہے۔
۵. میکاہ ۴ اور ۵ ابواب کا خلاصہ کیا ہے؟
۵ باب ۴ بیان کرتا ہے کہ آخری زمانے میں سب قومیں یہوواہ سے تعلیم پانے کے لئے یہوواہ کے گھر کے پہاڑ پر آئیں گی۔ اس سے پہلے، یہوداہ بابل کی غلامی میں چلا جائے گا مگر یہوواہ اُسے رہائی بخشے گا۔ باب ۵ آشکارا کرتا ہے کہ مسیحا یہوداہ کے شہر بیتلحم میں پیدا ہوگا۔ وہ اپنے لوگوں کی گلّہبانی کرے گا اور اُنہیں ظالم قوموں سے رہائی دلائے گا۔
۶، ۷. میکاہ ۶ اور ۷ باب میں پیشینگوئی کے کونسے نکات بیان کئے گئے ہیں؟
۶ میکاہ ۶ باب اپنے لوگوں کے خلاف یہوواہ کے الزامات کو قانونی مقدمے کی صورت میں ریکارڈ کرتا ہے۔ کیا چیز اُن کی بغاوت کا سبب بنی ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ دراصل، اُس کے تقاضے بڑے معقول ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے پرستار جب اُس کی راہوں پر چلتے ہیں تو انصاف کو عمل میں لائیں اور مہربان اور شائستہ ہوں۔ ایسا کرنے کی بجائے، اسرائیل اور یہوداہ نے باغیانہ روش اختیار کی جس کا انجام اُنہیں بھگتنا ہی پڑا۔
۷ اپنی پیشینگوئی کے آخری باب میں، میکاہ اپنے زمانہ کے لوگوں کی شرارت کی مذمت کرتا ہے۔ تاہم، وہ دلبرداشتہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ یہوواہ کا ”انتظار“ کرنے کا میلان رکھتا ہے۔ (میکاہ ۷:۷) کتاب کا اختتام ایک پُراعتماد اظہار کے ساتھ ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے لوگوں پر رحم کرے گا۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ اُمید بر آئی تھی۔ جب یہوواہ کی طرف سے اپنے لوگوں کو تنبیہ کرنا مکمل ہو گیا تو ۵۳۷ ق.س.ع. میں اُس نے رحم کرتے ہوئے اپنے لوگوں کے بقیے کو اپنے مُلک میں واپس آباد کر دیا۔
۸. آپ میکاہ کی کتاب کا خلاصہ کیسے پیش کریں گے؟
۸ میکاہ کی معرفت یہوواہ کتنی عمدہ معلومات فراہم کرتا ہے! یہ الہامی کتاب اس بات کی بابت انتباہی مثالیں پیش کرتی ہے کہ خدا اُن کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے جو اُس کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بےوفا ہیں۔ یہ اُن واقعات کی پیشینگوئی کرتی ہے جو آجکل رونما ہو رہے ہیں۔ نیز یہ الہٰی مشورت پیش کرتی ہے کہ ہمیں مشکل ایّام کے دوران کیسے رہنا چاہئے تاکہ اپنی اُمید پر قائم رہیں۔
حاکمِاعلیٰ یہوواہ ہمکلام ہوتا ہے
۹. میکاہ ۱:۲ کے مطابق، یہوواہ کیا کرنے والا تھا؟
۹ آئیے اب میکاہ کی کتاب کا تفصیلاً جائزہ لیں۔ میکاہ ۱:۲ میں ہم پڑھتے ہیں: ”اَے سب لوگو سنو! اَے زمین اور اُس کی معموری کان لگاؤ! اور خداوند [یہوواہ] ہاں [یہوواہ] اپنے مُقدس مسکن سے تم پر گواہی دے۔“ اگر آپ میکاہ کے زمانے میں رہ رہے ہوتے تو یقیناً یہ الفاط آپ کی توجہ کا مرکز بنے ہوتے۔ یہ اس لئے آپ کی توجہ کا مرکز بنے ہوتے کیونکہ یہوواہ اپنے مُقدس مسکن سے مخاطب ہے اور نہ صرف اسرائیل اور یہوداہ سے بلکہ ہر جگہ رہنے والے لوگوں سے ہمکلام ہے۔ میکاہ کے دنوں میں، لوگوں نے کافی وقت تک یہوواہ خدا کو ترک کر دیا تھا۔ مگر اس حالت کو تبدیل ہونا تھا۔ یہوواہ حتمی کارروائی کرنے کے لئے پُرعزم تھا۔
۱۰. میکاہ ۱:۲ کے الفاظ ہمارے لئے اہمیت کے حامل کیوں ہیں؟
۱۰ ہمارے زمانے کی بابت بھی یہی ہے۔ مکاشفہ ۱۴:۱۸-۲۰ ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ ایک بار پھر اپنے مُقدس مسکن سے کلام کر رہا ہے۔ وہ جلد کوئی حتمی کارروائی کرے گا اور دُوررس اثرات کے حامل واقعات دوبارہ نوعِانسان کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ اس مرتبہ شیطان کے نظاماُلعمل کی مکمل بربادی کے لئے ”زمین کے انگور“ یعنی شریروں کو یہوواہ کے قہر کے بڑے حوض میں ڈال دیا جائے گا۔
۱۱. میکاہ ۱:۳، ۴ کے الفاظ کا کیا مطلب ہے؟
۱۱ ذرا سنیں کہ یہوواہ کیا کرنے والا ہے۔ میکاہ ۱:۳، ۴ بیان کرتی ہے: ”دیکھ [یہوواہ] اپنے مسکن سے باہر آتا ہے اور نازل ہو کر زمین کے اُونچے مقاموں کو پایمال کرے گا۔ اور پہاڑ اُس کے نیچے پگھل جائیں گے اور وادیاں پھٹ جائیں گی جیسے موم آگ سے پگھل جاتا اور پانی کراڑے پر سے بہہ جاتا ہے۔“ کیا یہوواہ اپنے آسمانی مسکن کو چھوڑ کر جسمانی طور پر موعودہ مُلک کے پہاڑوں اور وادیوں کو روندے گا؟ ہرگز نہیں۔ اُسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُسے زمین پر اپنی مرضی پوری کرانے کے لئے صرف اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ علاوہازیں، یہ طبیعی زمین نہیں بلکہ اس کے باشندے ہیں جو بیانکردہ حالتوں سے متاثر ہوں گے۔ جب یہوواہ کارروائی کرتا ہے تو بےوفا لوگوں کے لئے اس کے نتائج تباہکُن ہوں گے—گویا پہاڑ موم کی مانند پگھل گئے ہوں اور وادیاں زلزلوں سے پھٹ گئی ہوں۔
۱۲، ۱۳. دوسرا پطرس ۳:۱۰-۱۲ کے مطابق کیا چیز ہماری اُمید کو یقینی بناتی ہے؟
۱۲ میکاہ ۱:۳، ۴ کے نبوّتی الفاظ آپ کو ایک اَور الہامی پیشینگوئی کی یاد دلا سکتے ہیں جو زمین پر رونما ہونے والے تباہکُن واقعات کی بابت بیان کرتی ہے۔ دوسرا پطرس ۳:۱۰ میں پطرس رسول نے لکھا: ”[یہوواہ] کا دن چور کی طرح آ جائے گا۔ اُس دن آسمان بڑے شوروغل کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اجرامِفلک حرارت کی شدت سے پگھل جائیں گے اور زمین اور اُس پر کے کام جل جائیں گے۔“ میکاہ کی پیشینگوئی کی طرح، پطرس کے الفاظ کا اطلاق بھی طبیعی آسمان اور زمین پر نہیں ہوتا۔ یہ اس بےدین نظاماُلعمل پر آنے والی ایک بڑی مصیبت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۳ اس تباہی کے باوجود، مسیحی میکاہ کی طرح مستقبل کی بابت اطمینان رکھ سکتے ہیں۔ کیسے؟ پطرس کے خط کی اگلی آیات کی مشورت پر عمل کرنے سے ایسا اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ پطرس آگاہ کرتا ہے: ”تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور خدا کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔“ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲) اگر ہم فرمانبردار دل پیدا کرتے اور اس بات کا یقین کر لیتے ہیں کہ ہمارا چالچلن پاک ہے اور ہماری زندگی دینداری کے کاموں سے معمور ہے تو مستقبل کی بابت ہماری اُمید یقینی ہوگی۔ اپنی اُمید کو یقینی بنانے کے لئے، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ کا دن ضرور آئے گا۔
۱۴. اسرائیل اور یہوداہ کیوں سزا کے لائق تھے؟
۱۴ یہوواہ خود بیان کرتا ہے کہ ماضی میں اُس کے لوگ کیوں سزا کے لائق تھے۔ میکاہ ۱:۵ بیان کرتی ہے: ”یہ سب یعقوؔب کی خطا اور اؔسرائیل کے گھرانے کے گناہ کا نتیجہ ہے۔ یعقوؔب کی خطا کیا ہے؟ کیا ساؔمریہ نہیں؟ اور یہوؔداہ کے اُونچے مقام کیا ہیں؟ کیا یرؔوشلیم نہیں؟“ اسرائیل اور یہوداہ یہوواہ کی وجہ سے قائم تھے۔ اس کے باوجود، اُنہوں نے اُس کے خلاف بغاوت کی جو اُن کے بڑے شہروں سامریہ اور یروشلیم تک پہنچ گئی۔
بدکاری کی کثرت
۱۵، ۱۶. میکاہ کے زمانے کے لوگوں نے کونسی بدکاری کی تھی؟
۱۵ میکاہ کے زمانے کی بدکاری کی ایک مثال بڑے صاف الفاظ میں میکاہ ۲:۱، ۲ میں بیان کی گئی ہے: ”اُن پر افسوس جو بدکرداری کے منصوبے باندھتے اور بستر پر پڑےپڑے شرارت کی تدبیریں ایجاد کرتے ہیں اور صبح ہوتے ہی اُن کو عمل میں لاتے ہیں! کیونکہ اُن کو اس کا اختیار ہے۔ وہ لالچ سے کھیتوں کو ضبط کرتے اور گھروں کو چھین لیتے ہیں اور یوں آدمی اور اُس کے گھر پر ہاں مرد اور اُس کی میراث پر ظلم کرتے ہیں۔“
۱۶ لالچی لوگ رات کو تدبیریں کرتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے پڑوسی کے کھیتوں اور گھروں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ صبح ہونے کے ساتھ ہی وہ اُن پر عملپیرا ہوتے ہیں۔ اگر وہ یہوواہ کے عہد کو یاد رکھتے تو ایسی شرارت کبھی نہ کرتے۔ موسوی شریعت میں غربیوں کو تحفظ دینے کا بندوبست تھا۔ اُس کے تحت، کوئی بھی خاندان کبھی اپنی میراث سے مستقل طور پر محروم نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم، اس کا اُن لالچی لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُنہوں نے احبار ۱۹:۱۸ کے الفاظ کو نظرانداز کر دیا تھا جو کہتے ہیں: ”اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔“
۱۷. جب خدا کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے لوگ مادی چیزوں کو زندگی میں اوّلیت دیتے ہیں تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟
۱۷ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ روحانی مقاصد کو پسِپُشت ڈال دیتے اور مادی حاصلات کو اوّلیت دیتے ہیں تو کیا واقع ہو سکتا ہے۔ پولس نے اپنے زمانے کے مسیحیوں کو آگاہ کِیا: ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۹) جب کوئی شخص پیسے کو اپنی زندگی کا اہم مقصد بنا لیتا ہے تو وہ دراصل ایک جھوٹے معبود یعنی دولت کی پرستش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ جھوٹا معبود مستقبل کی بابت کوئی اُمید پیش نہیں کرتا۔—متی ۶:۲۴۔
۱۸. میکاہ کے دنوں میں مادہپرست لوگوں کے ساتھ کیا ہونے والا تھا؟
۱۸ میکاہ کے زمانے میں بہتیروں کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ مادی چیزوں پر بھروسا محض دھوکا ہے۔ میکاہ ۲:۴ کے مطابق یہوواہ فرماتا ہے: ”اُس وقت کوئی تم پر یہ مثل لائے گا اور پُردرد نوحہ سے ماتم کرے گا اور کہے گا ہم بالکل غارت ہوئے۔ اُس نے میرے لوگوں کا بخرہ بدل ڈالا۔ اُس نے کیسے اُس کو مجھ سے جُدا کر دیا! اُس نے ہمارے کھیت باغیوں کو بانٹ دئے۔“ جیہاں، گھروں اور کھیتوں کے لٹیرے اپنی خاندانی میراث گنوا بیٹھیں گے۔ اُن کو مُلک سے نکال دیا جائے گا اور اُن کا مال ”باغیوں“ یا غیرقوموں میں بانٹ دیا جائے گا۔ خوشحال مستقبل کی تمام اُمیدیں دم توڑ دیں گی۔
۱۹، ۲۰. یہوواہ پر بھروسا رکھنے والے یہودیوں کا تجربہ کیا تھا؟
۱۹ تاہم، یہوواہ پر اُمید رکھنے والے کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ یہوواہ ابرہام اور داؤد سے کئے گئے اپنے وعدوں پر قائم ہے اور وہ اُن لوگوں پر رحم کرتا ہے جو میکاہ کی طرح اُس سے محبت کرتے اور اپنے مُلک کے لوگوں کے خدا سے دُور ہو جانے پر ماتم کرتے ہیں۔ راستبازوں کی خاطر خدا کے مقررہ وقت میں بحالی ضرور ہوگی۔
۲۰ یہ باتیں بابل کے زوال کے بعد ۵۳۷ ق.س.ع. میں واقع ہوئیں جب یہودیوں کا بقیہ اپنے وطن واپس لوٹا۔ اُس وقت میکاہ ۲:۱۲ کے الفاظ کی ابتدائی تکمیل ہوئی۔ یہوواہ نے فرمایا: ”اَے یعقوؔب مَیں یقیناً تیرے سب لوگوں کو فراہم کروں گا۔ مَیں یقیناً اؔسرائیل کے بقیہ کو جمع کروں گا۔ مَیں اُن کو بصرؔاہ کی بھیڑوں اور چراگاہ کے گلّہ کی مانند اکٹھا کروں گا اور آدمیوں کا بڑا شور ہوگا۔“ یہوواہ کتنا شفیق ہے! اپنے لوگوں کو تنبیہ کرنے کے بعد وہ اُن کے بقیے کو اُس مُلک میں واپس آنے اور اپنی خدمت کرنے کی اجازت دیتا ہے جو اُس نے اُن کے باپدادا کو دیا تھا۔
ہمارے زمانے کی حیرانکُن مماثلتیں
۲۱. زمانۂجدید کی حالتوں اور میکاہ کے دنوں میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے؟
۲۱ جب ہم نے میکاہ کے پہلے دو ابواب پر باتچیت کی تو کیا آپ یہ جان کر حیران ہوئے تھے کہ کتنی باتیں آجکل بھی سچ ثابت ہوئی ہیں؟ میکاہ کے دنوں کی طرح، آج بھی بہتیرے خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاہم، یہوداہ اور اسرائیل کی مانند وہ منقسم ہیں اور اُنہوں نے لڑائیاں بھی کی ہیں۔ دُنیائےمسیحیت کے بعض دولتمندوں نے غریبوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔ مذہبی پیشواؤں کی اکثریت ایسے کاموں کو نظرانداز کرتی ہے جن کی بائبل کھلمکھلا مذمت کرتی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ بہت جلد دُنیائےمسیحیت بھی جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت یعنی ”بڑے بابل“ کے ساتھ ختم ہو جائے گی! (مکاشفہ ۱۸:۱-۵) تاہم، میکاہ کے زمانے کی طرح، یہوواہ کے وفادار خادم اس زمین پر زندہ رہیں گے۔
۲۲. کونسے دو گروہوں نے اپنی اُمید خدا کی بادشاہت پر لگائی ہوئی ہے؟
۲۲ وفادار ممسوح مسیحیوں نے ۱۹۱۹ میں دُنیائےمسیحیت سے مکمل طور پر علیٰحدگی اختیار کر لی اور سب قوموں میں خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانا شروع کر دی۔ (متی ۲۴:۱۴) شروع میں اُنہوں نے، روحانی اسرائیل کے بقیے کو تلاش کِیا۔ اس کے بعد ’دوسری بھیڑوں‘ کو جمع کرنے کا کام شروع ہو گیا اور دونوں گروہ ”ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا“ بن گئے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶) اگرچہ اب وہ ۲۳۴ ممالک میں خدا کی خدمت کر رہے ہیں توبھی یہوواہ کے یہ تمام وفادار پرستار واقعی ”متحد“ ہیں۔ اس وقت باڑا عورتوں اور بچوں سمیت ”آدمیوں کے شور سے گونج رہا ہے۔“ اُن کی اُمید اس نظام پر نہیں بلکہ خدا کی بادشاہی پر ہے جو بہت جلد زمینی فرودس کو بحال کرے گی۔
۲۳. آپ کیوں پُراعتماد ہیں کہ آپ کی اُمید یقینی ہے؟
۲۳ یہوواہ کے وفادار پرستاروں کی بابت میکاہ ۲ باب کی آخری آیت بیان کرتی ہے: ”اُن کا بادشاہ اُن کے آگے آگے گیا یعنی [یہوواہ] اُن کا پیشوا۔“ کیا آپ خود کو فتح کے اس جلوس میں اپنے پیشوا یہوواہ کی سربراہی میں بادشاہ یسوع مسیح کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا پاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ فتح یقینی ہے اور آپ کی اُمید بھی یقینی ہے۔ میکاہ کی پیشینگوئی کی نمایاں باتوں پر مزید غور کرنے سے یہ واضح ہو جائے گا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• یہوواہ نے میکاہ کے دنوں میں، یہوداہ اور اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیوں کِیا تھا؟
• جب خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ مادی حاصلات کو زندگی میں اوّلیت دیتے ہیں تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟
• میکاہ ۱ اور ۲ باب پر غور کرنے کے بعد آپ کیوں پُراعتماد ہیں کہ آپ کی اُمید یقینی ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۹ پر تصویر]
میکاہ کی پیشینگوئی ہمیں روحانی طور پر تقویت بخشتی ہے
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
روحانی اسرائیل اور اُنکے ساتھی ۵۳۷ ق.س.ع. میں یہودی بقیے کی طرح سچی پرستش کو فروغ دیتے ہیں