مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏

یہوواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏

یہوواہ ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ تجھ سے اس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تُو انصاف کرے اور رحم‌دلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟‏“‏—‏میکاہ ۶:‏۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ کے بعض خادم کیوں بےحوصلہ ہو سکتے ہیں مگر کیا چیز معاون ہو سکتی ہے؟‏

ویرا ایک ۷۵ سالہ وفادار مسیحی ہے جس کی صحت کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏بعض‌اوقات،‏ مَیں اپنی کھڑکی سے جھانکتی ہوں تو میرے مسیحی بہن‌بھائی گھرباگھر کی منادی کرتے نظر آتے ہیں۔‏ اُنہیں دیکھکر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں کیونکہ مَیں بھی اُن کے ساتھ منادی کرنا چاہتی ہوں مگر بیماری نے یہوواہ کے لئے میری خدمت کو محدود کر دیا ہے۔‏“‏

۲ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کِیا ہے؟‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ سے محبت رکھنے والے سب لوگ اُس کے نام سے چلنا اور اُس کے تقاضوں پر پورا اُترنا چاہتے ہیں۔‏ تاہم،‏ جب ہماری صحت گِر رہی ہو،‏ عمر بڑھ رہی ہو یا خاندانی ذمہ‌داریوں کا بوجھ بھی ہو تو کیا ہو سکتا ہے؟‏ ہم قدرے بےحوصلہ ہو سکتے ہیں کیونکہ ایسے حالات ہمیں وہ سب کرنے سے روک سکتے ہیں جو ہم یہوواہ کی خدمت میں کرنا چاہتے ہیں۔‏ اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے تو میکاہ ۶ اور ۷ ابواب پر سوچ‌بچار کرنا انتہائی حوصلہ‌افزا رہے گا۔‏ یہ ابواب ظاہر کرتے ہیں کہ یہوواہ کے تقاضے معقول اور پورے کئے جا سکتے ہیں۔‏

یہوواہ اپنے لوگوں سے کیسا برتاؤ کرتا ہے

۳.‏ یہوواہ سرکش اسرائیلیوں سے کیسا سلوک کرتا ہے؟‏

۳ آئیے سب سے پہلے میکاہ ۶:‏۳-‏۵ کو دیکھیں اور غور کریں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے۔‏ یاد رکھیں کہ میکاہ کے زمانے کے اسرائیلی سرکش ہیں۔‏ اس کے باوجود،‏ یہوواہ بڑی نرمی کے ساتھ اِن الفاظ میں مخاطب ہوتا ہے:‏ ”‏اَے میرے لوگو .‏ .‏ .‏ اَے میرے لوگو یاد کرو۔‏“‏ سختی کے ساتھ اُن پر الزام‌تراشی کرنے کی بجائے،‏ وہ اُن کے دل تک رسائی کرنے کے لئے پوچھتا ہے،‏ ”‏مَیں نے تم سے کیا کِیا؟‏“‏ وہ تو اُن سے یہ بھی کہتا ہے،‏ ”‏مجھ پر ثابت کرو۔‏“‏

۴.‏ خدا کی شفقت کے نمونے کو ہم پر کیا اثر ڈالنا چاہئے؟‏

۴ یہوواہ ہم سب کے لئے کیسا نمونہ فراہم کرتا ہے!‏ اُس نے میکاہ کے زمانے کے اسرائیل اور یہوداہ کے سرکش لوگوں کو بھی شفقت کے ساتھ ”‏اَے میرے لوگو“‏ کہہ کر مخاطب کِیا۔‏ پس ہمیں بھی کلیسیا کے لوگوں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں شفقت اور مہربانی دکھانی چاہئے۔‏ سچ ہے کہ بعض کے ساتھ گزارا کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا یا وہ روحانی طور پر کمزور ہو سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اگر وہ یہوواہ سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اُن کی مدد کرنا اور اُن کے لئے نرمی ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔‏

۵.‏ میکاہ ۶:‏۶،‏ ۷ میں کونسا بنیادی نکتہ پیش کِیا گیا ہے؟‏

۵ اس کے بعد،‏ آئیے میکاہ ۶:‏۶،‏ ۷ کو دیکھیں۔‏ میکاہ سوالات کا ایک سلسلہ شروع کرتا ہے:‏ ”‏مَیں کیا لیکر [‏یہوواہ]‏ کے حضور آؤں اور خداتعالےٰ کو کیونکر سجدہ کروں؟‏ کیا سوختنی قربانیوں اور یکسالہ بچھڑوں کو لیکر اُس کے  حضور آؤں؟‏ کیا [‏یہوواہ]‏ ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے خوش ہوگا؟‏ کیا مَیں اپنے پہلوٹھے کو اپنے گُناہ کے عوض میں اور  اپنی اولاد کو اپنی جان کی خطا کے بدلہ میں دیدوں؟‏“‏ ایسا نہیں ہے کیونکہ  یہوواہ کو ”‏ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے“‏ خوش کرنا ممکن نہیں۔‏ مگر ایک ایسی چیز ہے جس سے یہوواہ خوش ہوتا ہے۔‏ وہ  کیا  ہے؟‏

ہمیں انصاف کرنا چاہئے

۶.‏ کونسے تین الہٰی تقاضوں کا میکاہ ۶:‏۸ میں ذکر کِیا گیا ہے؟‏

۶ ہم میکاہ ۶:‏۸ سے سیکھتے ہیں کہ یہوواہ کیا توقع کرتا ہے۔‏ میکاہ کہتا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تجھ سے اس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تُو انصاف کرے اور رحم‌دلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟‏“‏ اِن تین تقاضوں میں یہ شامل ہے کہ ہم کیسا محسوس کرتے،‏ سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔‏ ہمیں اِن خوبیوں کو ظاہر کرنے،‏ انہیں ظاہر کرنے کے طریقوں کی جستجو میں رہنے اور ایسا کرنے کے لئے اقدام اُٹھانے کی طرف مائل ہونا چاہئے۔‏ آئیے اِن تینوں تقاضوں پر باری باری غور کریں۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ ”‏انصاف کرنے“‏ کا مطلب کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ میکاہ کے زمانے میں کونسی ناانصافیاں عام تھیں؟‏

۷ ‏’‏انصاف کرنے‘‏ کا مطلب صحیح کام کرنا ہے۔‏ یہوواہ کا مختلف کام کرنے کا طریقہ ہی انصاف کا معیار ہے۔‏ تاہم،‏ میکاہ کے زمانے کے لوگ انصاف کی بجائے ناانصافی کر رہے تھے۔‏ کن طریقوں سے؟‏ میکاہ ۶:‏۱۰ پر غور کریں۔‏ آیت کے آخر میں بیان کِیا گیا ہے کہ سوداگر ”‏ناقص‌ونفرتی پیمانے“‏ استعمال کرتے ہیں یعنی ایسے پیمانے جو بہت چھوٹے ہیں۔‏ آیت ۱۱ بیان کرتی ہے کہ وہ ”‏جھوٹے باٹوں کا تھیلا“‏ رکھتے ہیں۔‏ نیز ۱۲ آیت کے مطابق،‏ ”‏اُن کے مُنہ میں دغاباز زبان ہے۔‏“‏ پس،‏ دغا کی ترازو،‏ جھوٹے باٹ اور جھوٹ میکاہ کے زمانے کی معاشی دُنیا میں بہت عام تھے۔‏

۸ ناانصافی صرف تجارت تک ہی محدود نہیں ہے۔‏ یہ عدالت میں بھی عام ہے۔‏ میکاہ ۷:‏۳ ظاہر کرتی ہے کہ ”‏حاکم رشوت مانگتا ہے اور قاضی بھی یہی چاہتا ہے۔‏“‏ قاضیوں کو رشوت اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ معصوم لوگوں کو سزا دیں۔‏ ”‏بڑے آدمی“‏ یعنی اثرورسوخ والے لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔‏ درحقیقت،‏ میکاہ بیان کرتا ہے کہ حاکم،‏ قاضی اور بڑے آدمی ”‏سازش“‏ کرتے یا اپنے بُرے منصوبوں کو کامیاب بناتے ہیں۔‏

۹.‏ شریروں کی ناانصافیوں کی وجہ سے یہوداہ اور اسرائیل کیسے متاثر ہوتے ہیں؟‏

۹ شریر پیشواؤں کی ناانصافیاں یہوداہ اور اسرائیل کو متاثر کر رہی تھیں۔‏ میکاہ ۷:‏۵ بیان کرتی ہے کہ انصاف کی کمی ساتھیوں،‏ ہمراز دوستوں اور بیاہتا ساتھیوں کے درمیان اعتماد کی کمی کا باعث بن رہی تھی۔‏ آیت ۶ ظاہر کرتی ہے کہ یہ باپ بیٹوں،‏ ماں بیٹیوں اور دیگر قریبی رشتوں کی بےحرمتی پر منتج ہوا ہے۔‏

۱۰.‏ ناانصافی کی موجودہ فضا میں،‏ مسیحی کس طرح زندگی گزارتے ہیں؟‏

۱۰ ہمارے زمانے کی بابت کیا ہے؟‏ کیا آج بھی ہم اسی طرح کی حالتیں نہیں دیکھتے؟‏ میکاہ کی طرح،‏ ہم بھی انصاف کی کمی،‏ بےاعتباری اور معاشرتی اور خاندانی زندگی میں ٹوٹ‌پھوٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔‏ تاہم،‏ اس ناراست دُنیا میں خدا کے خادموں کے طور پر ہم دُنیا کی ناانصافی کی رُوح کو مسیحی کلیسیا کو آلودہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔‏ بلکہ ہم دیانتداری اور راستی کے اُصولوں پر کاربند رہنے اور اپنی روزمرّہ زندگی میں اِن کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ واقعی ہم ”‏ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ کیا آپ اس سے متفق نہیں کہ انصاف کرنے سے ہم بیشمار برکات سے استفادہ کرتے ہیں جو پُراعتماد برادری کی بدولت حاصل ہوتی ہیں؟‏

لوگ کیسے ’‏یہوواہ کی آواز‘‏ سنتے ہیں؟‏

۱۱.‏ میکاہ ۷:‏۱۲ کی تکمیل کیسے ہو رہی ہے؟‏

۱۱ میکاہ پیشینگوئی کرتا ہے کہ ناانصافی کے باوجود،‏ سب لوگوں کے ساتھ انصاف کِیا جائے گا۔‏ نبی پیشینگوئی کرتا ہے کہ یہوواہ کے پرستار بننے کے لئے لوگ ”‏سمندر سے سمندر تک اور کوہستان سے کوہستان تک“‏ جمع کئے جائیں گے۔‏ (‏میکاہ ۷:‏۱۲‏)‏ آجکل،‏ اس پیشینگوئی کی حتمی تکمیل کے نتیجے میں،‏ کسی مخصوص قوم کی بجائے تمام قوموں کے لوگ خدا کے انصاف سے استفادہ کر رہے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۴۲:‏۱‏)‏ یہ کیسے سچ ثابت ہو رہا ہے؟‏

۱۲.‏ آجکل ’‏یہوواہ کی آواز‘‏ کیسے سنی جا رہی ہے؟‏

۱۲ جواب کے لئے میکاہ کے ابتدائی الفاظ پر غور کریں۔‏ میکاہ ۶:‏۹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آواز شہر کو پکارتی ہے اور دانشمند اُس کے نام کا لحاظ رکھتا ہے۔‏“‏ سب قوموں کے لوگ کیسے ’‏یہوواہ کی آواز‘‏ سنتے ہیں اور اس کا ہمارے انصاف کرنے سے کیا تعلق ہے؟‏ واقعی،‏ آجکل لوگ حقیقت میں خدا کی آواز نہیں سنتے۔‏ تاہم،‏ منادی کے ہمارے عالمگیر کام کے ذریعے،‏ سب نسلوں اور طبقۂ‌زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ یہوواہ کی آواز سُن رہے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ جو سنتے ہیں وہ ’‏خدا سے ڈرتے‘‏ یعنی اُس کا مؤدبانہ خوف رکھتے ہیں۔‏ سرگرم بادشاہتی مُنادوں کے طور پر خدمت انجام دینے سے ہم واقعی راست اور پُرمحبت طریقے سے چل رہے ہیں۔‏ کسی طرح کی جانبداری کے بغیر ہر شخص کو یہوواہ کے نام سے واقف کرانے سے ہم ”‏انصاف“‏ کر رہے ہوں گے۔‏

ہمیں رحم‌دلی کو عزیز رکھنا چاہئے

۱۳.‏ شفقت اور محبت میں کیا فرق ہے؟‏

۱۳ اس کے بعد آئیے ہم میکاہ ۶:‏۸ میں متذکرہ دوسرے تقاضے پر بات کریں۔‏ یہوواہ ہم سے ”‏رحم‌دلی کو عزیز“‏ رکھنے کی توقع کرتا ہے۔‏ عبرانی لفظ جس کا ترجمہ ”‏رحم‌دلی“‏ کِیا گیا ہے اُس کا مطلب ”‏شفقت“‏ یا ”‏وفا“‏ بھی ہے۔‏ شفقت دوسروں کے لئے عملی پاس‌ولحاظ،‏ فکرمندی دکھانا بھی ہے۔‏ شفقت محبت کی خوبی سے مختلف ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ محبت ایک وسیع اصطلاح ہے جسے دیگر چیزوں اور نظریات کے لئے بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ مثلاً،‏ صحائف ایک ایسے شخص کا ذکر کرتے ہیں جو ”‏مے اور تیل کا مشتاق ہے“‏ اور ایک ایسا شخص جو ”‏حکمت سے اُلفت رکھتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۱:‏۱۷؛‏ ۲۹:‏۳‏)‏ اس کے برعکس،‏ شفقت ہمیشہ انسانوں کے لئے بالخصوص خدا کے خادموں کے لئے دکھائی جاتی ہے۔‏ اسی لئے میکاہ ۷:‏۲۰ ”‏ابرہام کو شفقت“‏ دکھانے کا ذکر کرتی ہے جو یہوواہ خدا کی خدمت کرنے والا شخص  تھا۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ شفقت کیسے ظاہر کی جاتی ہے اور اس کا کونسا ثبوت پیش کِیا گیا ہے؟‏

۱۴ میکاہ ۷:‏۱۸ کے مطابق،‏ نبی بیان کرتا ہے کہ خدا ”‏شفقت کرنا پسند کرتا ہے۔‏“‏ میکاہ ۶:‏۸ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ صرف شفقت دکھانا ہی نہیں بلکہ اس خوبی کو عزیز رکھنا ہے۔‏ اِن صحائف سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ شفقت رضامندی اور دل کی خوشی سے دکھائی جاتی ہے کیونکہ ہم اسے ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔‏ یہوواہ کی مانند،‏ ہم بھی حاجتمندوں کے لئے شفقت دکھانے سے تسکین اور خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‏

۱۵ آجکل ایسی شفقت خدا کے لوگوں کا خاصہ ہے۔‏ صرف ایک مثال پر غور کریں۔‏ سن ۲۰۰۱ میں،‏ ٹیکساس یو.‏ایس.‏اے.‏ میں ایک حاری طوفان کی بدولت ہزاروں گھر تباہ ہو گئے جن میں سینکڑوں یہوواہ کے گواہوں  کے  گھر بھی تھے۔‏ اپنے ضرورتمند مسیحی بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے کوئی ۰۰۰،‏۱۰ گواہوں نے خوشی سے اور بِلامعاوضہ اپنے وقت اور طاقت کی پیشکش کی۔‏ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک رضاکار دن رات محنت کرتے رہے اور اپنے مسیحی بھائیوں کے لئے ۷۰۰ سے زائد گھر اور ۸ کنگڈم ہال تعمیر کئے۔‏ جو لوگ یہ کام نہیں کر سکتے تھے اُنہوں نے پیسہ،‏ کھانا اور دیگر چیزیں دیں۔‏ یہ ہزاروں گواہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے کیوں پہنچے؟‏ اسلئےکہ وہ ”‏شفقت“‏ کو پسند کرتے تھے۔‏ پس یہ جاننا کسقدر حوصلہ‌افزا ہے کہ دُنیابھر میں ہمارے بھائی ایسی شفقت ظاہر کرتے ہیں!‏ جی‌ہاں،‏ ”‏شفقت“‏ کے تقاضے کو پورا کرنا بوجھ نہیں بلکہ خوشی بخشتا ہے!‏

خدا کے حضور فروتنی سے چلیں

۱۶.‏ کونسی مثال فروتنی سے خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے؟‏

۱۶ میکاہ ۶:‏۸ میں درج تیسرا تقاضا ”‏خدا کے حضور فروتنی سے“‏ چلنا ہے۔‏ اس کا مطلب اپنی حدود کو پہچاننا اور خدا پر انحصار کرنا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک چھوٹی بچی کا تصور کریں جو طوفان میں بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے باپ کا ہاتھ تھامے ہوئے ہے۔‏ لڑکی جانتی ہے کہ اُس کی قوت محدود ہے مگر وہ اپنے باپ پر بھروسا کرتی ہے۔‏ ہمیں بھی اپنی حدود کو پہچاننا چاہئے مگر اپنے آسمانی باپ پر مکمل بھروسا بھی رکھنا چاہئے۔‏ ہم یہ بھروسا کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟‏ ہم یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک رہنا کیوں دانشمندی کی بات  ہے۔‏ میکاہ ہمیں تین وجوہات یاد دلاتا ہے:‏ یہوواہ ہمارا چھڑانے والا،‏ ہمارا رہبر اور محافظ ہے۔‏

۱۷.‏ یہوواہ نے قدیم زمانے میں اپنے لوگوں کو کیسے چھڑایا،‏ ہدایت دی اور محفوظ رکھا تھا؟‏

۱۷ میکاہ ۶:‏۴،‏ ۵ میں خدا فرماتا ہے:‏ ”‏مَیں تم کو ملکِ‌مصرؔ سے نکال لایا اور غلامی کے گھر سے فدیہ دے کر چھڑا لایا۔‏“‏ یہ درست ہے کہ یہوواہ اسرائیل کا چھڑانے والا تھا۔‏ یہوواہ مزید فرماتا ہے:‏ ”‏تمہارے آگے موسیٰؔ اور ہارؔون اور مرؔیم کو بھیجا۔‏“‏ موسیٰ اور ہارون کو قوم کی رہبری کے لئے جبکہ مریم کو اسرائیلی عورتوں کی ایک فاتحانہ رقص میں راہنمائی کرنے کے لئے استعمال کِیا تھا۔‏ (‏خروج ۷:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱۵:‏۱،‏ ۱۹-‏۲۱؛‏ استثنا ۳۴:‏۱۰‏)‏ یہوواہ نے اپنے خادموں کے ذریعے بھی ہدایت فراہم کی تھی۔‏ میکاہ ۶:‏۵ میں یہوواہ اسرائیلیوں کو یاد دلاتا ہے کہ اُس نے بلق اور بلعام کے معاملے میں بھی اُن کی حفاظت کی اور موآب کے شطیم سے موعودہ مُلک کے جلجال تک اُن کے آخری سفر میں بھی اُنہیں تحفظ فراہم کِیا۔‏

۱۸.‏ آجکل خدا ہمارے چھڑانے والے،‏ رہبر اور محافظ کے طور پر کیسے کام کرتا ہے؟‏

۱۸ جب ہم خدا کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو وہ ہمیں شیطان کی دُنیا سے بچاتا،‏ اپنے کلام اور تنظیم کے ذریعے راہنمائی فراہم کرتا اور جب ہم بطور گروہ مخالفین کی طرف سے حملے کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ ہمیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔‏ پس ہمارے پاس اپنے آسمانی باپ کا ہاتھ تھامے رہنے کی بیشمار وجوہات ہیں جبکہ ہم قدیم زمانے کے موعودہ مُلک کی نسبت کہیں بڑے خدا کے راست نئے نظام میں داخل ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔‏

۱۹.‏ فروتنی کا ہماری حدود سے کیا تعلق ہے؟‏

۱۹ خدا کیساتھ چلتے ہوئے فروتن رہنا ہمیں اپنے حالات کا حقیقت‌پسندانہ جائزہ لینے میں مدد دیتا ہے۔‏ اس کی وجہ یہ ہے کہ فروتنی ظاہر کرنے میں اپنی حدود سے باخبر ہونا بھی شامل ہے۔‏ سن‌رسیدگی یا خراب صحت یہوواہ کی خدمت میں ہماری سرگرمیوں کو محدود کر سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ اس سے بےحوصلہ ہونے کی بجائے،‏ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا ہماری کاوشوں اور قربانیوں کو اُسی حساب سے قبول کرتا ہے ’‏جوکچھ ہمارے پاس ہے نہ کہ اُس کے موافق جو ہمارے پاس نہیں ہے۔‏‘‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۸:‏۱۲‏)‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ جس قدر ہمارے حالات اجازت دیتے ہیں ہم پورے دل‌وجان سے اُس کی خدمت کریں۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۳‏)‏ جب ہم شوق اور سرگرمی کے ساتھ خدا کی خدمت میں وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں تو وہ ہمیں بہت زیادہ برکات سے نوازتا ہے۔‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲‏۔‏

انتظار برکات پر منتج ہوتا ہے

۲۰.‏ کس چیز سے خبردار رہنا ہمیں میکاہ کی طرح انتظار کرنے والا میلان ظاہر کرنے میں مدد دیتا ہے؟‏

۲۰ یہوواہ کی برکات کا تجربہ کرنا ہمیں میکاہ کی طرح کا جذبہ ظاہر کرنے کی تحریک دیتا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏اپنے نجات دینے والے خدا کا انتظار کروں گا۔‏“‏ (‏میکاہ ۷:‏۷‏)‏ اِن الفاظ کا ہمارے فروتنی کے ساتھ چلنے سے کیا تعلق ہے؟‏ انتظار کرنا یا صبر کرنا ہمیں یہوواہ کے دن کے جلد نہ آنے کے سلسلے میں مایوس ہونے سے بچاتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۳:‏۱۲‏)‏ یہ سچ ہے کہ ہم سب اس بدکار دُنیا کے خاتمے کے منتظر ہیں۔‏ تاہم،‏ ہر ہفتے ہزاروں لوگ خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏ یہ جاننا ہمیں انتظار کا میلان رکھنے کی وجہ فراہم کرتا ہے۔‏ اس سلسلے میں ایک طویل عرصہ سے خدمت کرنے والے گواہ نے کہا:‏ ”‏منادی میں صرف‌کردہ ۵۵ سالوں پر نظر ڈالنا مجھے یقین بخشتا ہے کہ یہوواہ کا انتظار کرنے سے مَیں نے کچھ کھویا نہیں ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ مَیں بہت سے غموں سے بچ گیا ہوں۔‏“‏ کیا آپ کو ایسا تجربہ ہوا ہے؟‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ ہمارے زمانے میں میکاہ ۷:‏۱۴ کی تکمیل کیسے ہو رہی ہے؟‏

۲۱ یہوواہ کے ساتھ چلنا بِلاشُبہ ہمیں فائدہ پہنچاتا ہے۔‏ جیساکہ ہم میکاہ ۷:‏۱۴ میں پڑھتے ہیں،‏ میکاہ خدا کے لوگوں کا ایسی بھیڑوں سے موازنہ کرتا ہے جو اپنے چرواہے کے پاس محفوظ ہیں۔‏ آجکل اس پیشینگوئی کی وسیع تکمیل میں،‏ روحانی اسرائیل کا بقیہ اور ”‏دوسری بھیڑیں“‏ اپنے قابلِ‌بھروسا چرواہے یہوواہ کے پاس تحفظ محسوس کرتی ہیں۔‏ روحانی طور پر اس مصیبت‌زدہ اور پُرخطر دُنیا سے الگ ہوتے ہوئے وہ ”‏کرؔمل کے جنگل میں تنہا رہتے ہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ استثنا ۳۳:‏۲۸؛‏ یرمیاہ ۴۹:‏۳۱؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۶‏۔‏

۲۲ میکاہ ۷:‏۱۴ کے مطابق،‏ یہوواہ کے لوگ آسودہ‌حالی سے لطف‌اندوز ہوتے ہیں۔‏ خدا کی بھیڑوں یا اُس کے لوگوں کی بابت میکاہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏اُن کو بسنؔ اور جلعاؔد میں پہلے کی طرح چرنے دے۔‏“‏ جیسے بسن اور جلعاد کی بھیڑیں ہری‌بھری چراگاہوں میں چرتی اور خوشحال تھیں،‏ اسی طرح آجکل خدا کے لوگ بھی روحانی خوشحالی سے استفادہ کرتے ہیں جو فروتنی کے ساتھ خدا کے ساتھ ساتھ چلنے والوں کے لئے ایک اضافی برکت  ہے۔‏—‏گنتی ۳۲:‏۱؛‏ استثنا ۳۲:‏۱۴‏۔‏

۲۳.‏ میکاہ ۷:‏۱۸،‏ ۱۹ سے ہم کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۲۳ میکاہ ۷:‏۱۸،‏ ۱۹ میں نبی یہوواہ کی تائب لوگوں کو معاف کرنے کی خواہش کو نمایاں کرتا ہے۔‏ آیت ۱۸ بیان کرتی ہے کہ ’‏یہوواہ بدکرداری کو معاف اور خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔‏‘‏ آیت ۱۹ کے مطابق،‏ وہ ”‏اُن کے سب گُناہ سمندر کی تہ میں ڈال دے گا۔‏“‏ ہم اس سے کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا ہم اس سلسلے میں یہوواہ کی نقل کرتے ہیں۔‏ کیا ہم دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرتے ہیں جو وہ ہمارے خلاف کرتے ہیں؟‏ جب ایسے لوگ تائب ہوکر تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہم یقیناً یہوواہ کی طرح مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لئے اُنہیں معاف کرنا چاہیں گے۔‏

۲۴.‏ آپ نے میکاہ کی پیشینگوئی سے کیسے استفادہ کِیا ہے؟‏

۲۴ میکاہ کی پیشینگوئی پر غوروخوض کرنے سے ہم نے کیسے استفادہ کِیا ہے؟‏ اس نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ یہوواہ اپنے نزدیک آنے والوں کو حقیقی اُمید فراہم کرتا ہے۔‏ (‏میکاہ ۲:‏۱-‏۱۳‏)‏ ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ سچی پرستش کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکنہ کام کریں تاکہ ہم ہمیشہ خدا کے نام سے چلتے رہیں۔‏ (‏میکاہ ۴:‏۱-‏۴‏)‏ نیز ہمیں یقین‌دہانی کرائی گئی ہے کہ ہم اپنے حالات سے قطعِ‌نظر یہوواہ کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔‏ یہ درست ہے کہ میکاہ کی پیشینگوئی واقعی یہوواہ کے نام سے چلتے رہنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• میکاہ ۶:‏۸ کے مطابق،‏ یہوواہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟‏

‏• اگر ہم نے ”‏انصاف“‏ کرنا ہے تو کیا ضروری ہے؟‏

‏• ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ”‏شفقت“‏ کو عزیز رکھتے ہیں؟‏

‏• ’‏فروتنی سے خدا کے ساتھ ساتھ چلنے میں‘‏ کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویریں]‏

اپنے زمانے کے بُرے حالات کے باوجود،‏ میکاہ یہوواہ کے تقاضوں کو پورا کرتا رہا۔‏ لہٰذا آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ہر طبقۂ‌زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گواہی دینے سے انصاف کو عمل میں لائیں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنے سے ظاہر کریں کہ آپ شفقت کو عزیز رکھتے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

فروتنی کے ساتھ اپنی حدود کو پہچانتے ہوئے حتی‌المقدور کام کریں

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏