مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏جماعت میں“‏ یہوواہ کی ستایش کرو

‏”‏جماعت میں“‏ یہوواہ کی ستایش کرو

‏”‏جماعت میں“‏ یہوواہ کی ستایش کرو

مسیحی اجلاس یہوواہ کی طرف سے اپنے لوگوں کو روحانی طور پر مضبوط رکھنے کا بندوبست ہیں۔‏ باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونے سے،‏ ہم یہوواہ کی فراہمیوں کے لئے قدردانی کا اظہار کرتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہم ”‏ایک دوسرے کو [‏اپنے بھائیوں کو]‏ محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“‏ دینے کے قابل ہوتے ہیں جو باہمی محبت دکھانے کا اہم‌ترین طریقہ ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳۵‏)‏ تاہم،‏ اجلاسوں پر ہم اپنے بھائیوں کو کیسے ترغیب دے سکتے ہیں؟‏

علانیہ اظہار کریں

داؤد بادشاہ نے اپنی بابت لکھا:‏ ”‏مَیں اپنے بھائیوں سے تیرے نام کا اظہار کرونگا۔‏ جماعت میں تیری ستایش کرونگا۔‏ بڑے مجمع میں میری ثناخوانی کا باعث تُو ہی ہے۔‏“‏ ”‏مَیں بڑے مجمع میں تیری شکرگذاری کرونگا۔‏ مَیں بہت سے لوگوں میں تیری ستایش کرونگا۔‏“‏ ”‏مَیں نے بڑے مجمع میں صداقت کی بشارت دی ہے۔‏ دیکھ!‏ مَیں اپنا مُنہ بند نہیں کرونگا۔‏“‏—‏زبور ۲۲:‏۲۲،‏ ۲۵؛‏ ۳۵:‏۱۸؛‏ ۴۰:‏۹‏۔‏

پولس رسول کے دنوں میں بھی پرستش کیلئے جمع ہونے والے مسیحی یہوواہ پر اپنے ایمان اور اُس کے جلال کی بابت اسی طرح کے اظہارات کرتے تھے۔‏ اس طرح وہ ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے اور ایک دوسرے کو محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دیتے تھے۔‏ داؤد اور پولس دونوں کے صدیوں بعد اب ہمارے زمانہ میں،‏ ہم واقعی ”‏اُس دن کو قریب ہوتے دیکھتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ شیطان کا نظام بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے اور مسائل میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔‏ پہلے کی نسبت ہمیں زیادہ ’‏صبر کرنے کی ضرورت ہے۔‏‘‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۶‏)‏ ہمارے بھائیوں کے علاوہ کون ہمیں صبر کرنے میں حوصلہ‌افزائی دے سکتا ہے؟‏

آجکل پہلے وقتوں کی طرح،‏ ایمانداروں کیلئے ”‏جماعت میں“‏ شخصی طور پر اپنے ایمان کا اظہار کرنے کا بندوبست کِیا گیا ہے۔‏ ایک موقع پر تو ہم سب سامعین سے کئے جانے والے سوالات پر تبصرے پیش کرکے کلیسیائی اجلاسوں پر اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔‏ اس سے جو کام انجام پاتا ہے اُسے کم‌اہم خیال نہ کریں۔‏ مثال کے طور پر،‏ مسائل پر غالب آنے کا ذکر کرنے والے تبصرے ہمارے بھائیوں کے بائبل اُصولوں پر چلتے رہنے کے عزم کو مضبوط کرتے ہیں۔‏ تبصرے جو بائبل آیات یا ذاتی تحقیق پر مبنی نظریات پیش کرتے ہیں وہ دوسروں کو مطالعے کی اچھی عادات پیدا کرنے کی حوصلہ‌افزائی کر سکتے ہیں۔‏

اس  بات  کو  سمجھنا  کہ  اگر  ہم  اجلاسوں  پر  تبصرے  کرتے  ہیں  تو اس  سے دوسرے مستفید ہونگے تمام یہوواہ کے گواہوں کو ہچکچاہٹ اور کم‌گوئی پر قابو پانے کی تحریک دیگا۔‏ خاص طور پر بزرگوں اور خدمتگزار خادموں کیلئے بہت ضروری ہے کہ اجلاسوں پر تبصرے کریں کیونکہ اُن سے اجلاسوں میں پیشوائی کرنے اور حاضر ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔‏ تاہم،‏ اُس صورت میں ایک شخص کیسے بہتری لا سکتا ہے اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُسکی مسیحی خدمتگزاری کا یہ پہلو ایک چیلنج ہے؟‏

بہتری لانے کیلئے تجاویز

یاد رکھیں کہ یہوواہ بھی اس میں شامل ہے۔‏ جرمنی میں رہنے والی ایک مسیحی بہن بیان کرتی ہے کہ وہ اپنے تبصروں کو کیسا خیال کرتی ہے۔‏ ”‏خدا کے لوگوں کو اپنے ایمان کا اظہار کرنے سے روکنے کی شیطان کی کوششوں کا یہ میرا ذاتی جواب ہوتا ہے۔‏“‏ اُسی کلیسیا سے رفاقت رکھنے والا ایک نیا بپتسمہ‌یافتہ بھائی کہتا ہے:‏ ”‏جہانتک تبصروں کا تعلق ہے تو مَیں اسکی بابت بہت دُعا کرتا ہوں۔‏“‏

اچھی تیاری کریں۔‏ اگر آپ پہلے سے مواد کو پڑھنے میں ناکام رہتے ہیں تو آپ کیلئے تبصرہ کرنا مشکل ہوگا اور آپکا تبصرہ مؤثر بھی نہیں ہوگا۔‏ کلیسیائی اجلاسوں پر تبصرے کرنے کی بابت تجاویز مسیحی خدمتی سکول سے مستفید ہوں کتاب کے صفحہ ۷۰ پر دی گئی ہیں۔‏ *

ہر اجلاس پر کم‌ازکم ایک تبصرہ کرنے کا نصب‌اُلعین بنائیں۔‏ اسکا مطلب ہے کہ کئی جوابات تیار کریں کیونکہ جتنا زیادہ آپ ہاتھ کھڑا کرینگے اُتنا ہی زیادہ آپ سے پوچھے جانے کا امکان ہوگا۔‏ آپ اُسے پہلے ہی سے یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ آپ نے کن سوالوں کے جواب تیار کئے ہیں۔‏ اگر آپ نئے ہیں تو یہ بالخصوص مفید ہوگا۔‏ جب آپ ”‏مجمع میں“‏ ہاتھ اُٹھانے سے ہچکچاتے ہیں تو یہ جاننا کہ یہ آپکا پیراگراف ہے اور اجلاس کروانے والا آپکا ہاتھ دیکھ رہا ہوگا تو آپکو تبصرہ کرنے کا حوصلہ دیگا۔‏

شروع میں ہی جواب دیں۔‏ مشکل کام کو ایک طرف رکھ دینے سے وہ آسان نہیں ہو جاتا۔‏ اجلاس کے شروع ہی میں تبصرہ کرنا مفید ہوگا۔‏ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائینگے کہ جب آپ ایک تبصرہ کر لیتے ہیں تو پھر دوبارہ تبصرے کیلئے ہاتھ اُٹھانا کتنا آسان ہے۔‏

مناسب نشست کا انتخاب کریں۔‏ بعض نے محسوس کِیا ہے کہ اگر وہ کنگڈم ہال میں سامنے والی نشستوں پر بیٹھتے ہیں تو تبصرہ کرنا آسان ہوتا ہے۔‏ چند چیزیں انتشارِخیال کا باعث ہو سکتی ہیں مگر اجلاس منعقد کرانے والا شاید ہی نظرانداز کرے۔‏ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو ذرا زور سے بولیں بالخصوص اگر کلیسیا میں مائیکروفون کی سہولت نہیں ہے۔‏

غور سے سنیں۔‏ اس سے آپ پہلے دیا ہوا جواب دہرانے سے بچ جائینگے۔‏ اسکے علاوہ دوسروں کے تبصرے آپکو کوئی صحیفہ یا نکتہ یاد کرنے میں مدد دے سکتے ہیں جو اس تبصرے سے تعلق رکھتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار ایک چھوٹا سا تجربہ بھی زیرِبحث نکتے کو اُجاگر کر سکتا ہے۔‏ ایسے تبصرے نہایت مفید ہوتے ہیں۔‏

اپنے الفاظ میں جواب دینے کی کوشش کریں۔‏ مطالعے کے مواد سے پڑھ کر تبصرہ دینا شاید یہ ظاہر کرے کہ آپکو درست جواب مل گیا ہے اور شروع شروع میں ایسا کرنا مفید ہو سکتا ہے۔‏ مگر اپنے الفاظ میں جواب دینے کی طرف ترقی کرنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ نکتے کو سمجھ گئے ہیں۔‏ ہماری مطبوعات کے حقیقی الفاظ کا حوالہ دینا ضروری نہیں ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ اپنی مطبوعات کے الفاظ کو نہیں دہراتے۔‏

موضوع سے دُور نہ جائیں۔‏ موضوع سے ہٹ کر تبصرے کرنا یا زیرِبحث خاص نکات سے توجہ ہٹانا نامناسب ہے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ آپکے تبصرے زیرِبحث مضمون کی مطابقت میں ہونے چاہئیں۔‏ تب ہی آپکے تبصرے جس موضوع پر بات کی جا رہی ہے اُس کیلئے روحانی طور پر تعمیری گفتگو کا باعث بنیں گے۔‏

حوصلہ‌افزائی دینے کی کوشش کریں۔‏ جب تبصرے کرنے کی بنیادی وجہ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنا ہے تو ہمیں ایسی باتیں کہنے سے گریز کرنا چاہئے جو دوسروں کو بےحوصلہ کر سکتی ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں پورے پیراگراف کا احاطہ نہ کریں اسطرح دوسروں کے کہنے کیلئے کچھ نہیں بچے گا۔‏ لمبے اور مشکل جواب مطلب کی وضاحت نہیں کرتے۔‏ چند الفاظ پر مبنی مختصر جواب مؤثر ثابت ہو سکتے اور نئے اشخاص کو بھی مختصر جواب دینے کی تحریک دے سکتے ہیں۔‏

اجلاس منعقد کرانے والوں کا کردار

جہانتک حوصلہ‌افزا ہونے کا تعلق ہے تو اجلاس منعقد کرانے والے پر بھاری ذمہ‌داری آتی ہے۔‏ کسی دوسری طرف متوجہ ہونے کی بجائے وہ غور سے سننے اور تبصرہ پیش کرنے والے شخص کی طرف دھیان دینے سے ہر تبصرے میں حقیقی دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔‏ یہ کتنا نامناسب ہوگا اگر وہ دھیان سے نہیں سنتا اور بعد میں وہی بات دہراتا ہے یا وہی سوال پوچھ لیتا ہے جسکا جواب تھوڑی دیر پہلے دیا گیا تھا!‏

اگر مطالعہ کرانے والا ہر تبصرے کو تھوڑے سے فرق الفاظ کیساتھ دہراتا ہے گویا کہ تبصرہ مکمل نہیں تھا تو یہ بھی بےحوصلہ کرنے والی بات ہوگی۔‏ اسکے برعکس جب تبصرے کسی خاص نکتے پر مزید بات‌چیت کا باعث بنتے ہیں تو یہ کتنا حوصلہ‌افزا ہوتا ہے۔‏ ہم اسکا اطلاق اپنی کلیسیا میں کیسے کر سکتے ہیں؟‏ یا پیراگراف میں کونسا صحیفہ اس بات کی تائید کرتا ہے؟‏ جیسے سوال مثبت جواب کیلئے حوصلہ‌افزا اور بیش‌قیمت ثابت ہوتے ہیں۔‏

جب کوئی شرمیلا یا نیا شخص جواب دیتا ہے تو اُسکی بالخصوص تعریف کی جانی چاہئے۔‏ ممکنہ شرمندگی سے بچنے کیلئے یہ مطالعے کے بعد روبرو کہا جا سکتا ہے اور مطالعہ کرانے والا موقع کے مطابق مناسب تجاویز پیش کر سکتا ہے۔‏

عام گفتگو میں،‏ بات‌چیت پر چھائے رہنے والا شخص رابطے کی حوصلہ‌افزائی نہیں کرتا۔‏ اُسکے سامعین اپنا اظہار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔‏ اگر سنتے بھی ہیں تو وہ بےدلی سے سنیں گے۔‏ اسی طرح جب مطالعہ کرانے والا بہت زیادہ تبصرے کرنے سے گفتگو پر چھایا رہتا ہے تو اُس وقت بھی ایسا ہی واقع ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ اجلاس منعقد کرانے والے کو چاہئے کہ حاضرین کو تحریک دے اور اضافی سوالات کی مدد سے موضوع کی بابت سوچنے کی اُنکی صلاحیت کو اُبھارے۔‏ ایسے سوالات زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے چاہئیں۔‏

ضروری نہیں کہ مطالعہ منعقد کرانے والا پہلے ہاتھ کھڑا کرنے والے شخص سے ہی پوچھے۔‏ یہ اُن کیلئے حوصلہ‌شکن ہو سکتا ہے جنہیں اپنے خیالات کو ترتیب دینے میں کچھ وقت لگتا ہے۔‏ تھوڑے انتظار کے بعد،‏ وہ کسی ایسے شخص کو موقع دیگا جس نے ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔‏ وہ چھوٹے بچوں سے اہم سوالات پر جواب لینے سے گریز کرتے ہوئے بھی دانشمندی کا ثبوت دیگا۔‏

اگر غلط جواب دیا جاتا ہے تو کیا ہو؟‏ مطالعہ کرانے والے کو جواب دینے والے شخص کو شرمندہ نہیں کرنا چاہئے۔‏ غلط تبصروں میں بھی کبھی سچائی ہوتی ہے۔‏ ہوشیاری کیساتھ جواب میں سے کوئی اچھی بات نکالنے،‏ سوال کو دوبارہ پوچھنے یا اضافی سوال کرنے سے،‏ مطالعہ کرانے والا جوابات کو درست کر سکتا ہے۔‏

تبصروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کیلئے،‏ مطالعہ کرانے والا ’‏کیا کوئی کچھ اَور کہنا چاہتا ہے؟‏‘‏ وہ اِس طرح کے عام سوال پوچھنے سے گریز کریگا جیسےکہ ’‏کس نے ابھی جواب نہیں دیا؟‏ یہ آپکا آخری موقع ہے!‏‘‏ معنی‌خیز ہو سکتے ہیں مگر یہ بمشکل ہی کسی شخص کو آزادانہ طور پر اظہار کرنے کی تحریک دینگے۔‏ بھائیوں کو مطالعے کے شروع میں جواب نہ دینے کیلئے مجرم محسوس نہیں کرنا چاہئے۔‏ اِسکے برعکس،‏ اُنکی حوصلہ‌افزائی کی جانی چاہئے کہ جوکچھ وہ جانتے ہیں اُسے دوسروں کو بھی بتائیں کیونکہ دوسروں کو شریک کرنا محبت کا اظہار ہے۔‏ اس کیساتھ ساتھ،‏ جب مطالعہ کروانے والا تبصرے کیلئے کسی کا نام لیتا ہے تو یہ کہنا اچھا نہیں ہوگا کہ ”‏اس کے بعد ہم فلاں بھائی سے سنیں گے اور پھر فلاں کا تبصرہ سنیں گے۔‏“‏ مطالعہ کرانے والے کو پہلے تبصرہ سنکر پھر اس بات کا تعیّن کرنا چاہئے کہ آیا اضافی تبصرہ درکار ہے یا نہیں۔‏

تبصرہ کرنا ایک شرف ہے

مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا روحانی ضرورت ہے؛‏ ان پر تبصرہ کرنا ایک شرف ہے۔‏ اس منفرد طریقے سے ”‏جماعت میں“‏ یہوواہ کی حمد کرنے میں حصہ لینے سے ہم داؤد کے نمونے اور پولس کی مشورت کی پیروی کر رہے ہونگے۔‏ اجلاسوں میں ہماری بھرپور شرکت ثابت کرتی ہے کہ ہم اپنے بھائیوں سے پیار کرتے ہیں اور یہ کہ ہم یہوواہ کی بڑی تنظیم کا حصہ ہیں۔‏ ”‏جس قدر آپ اُس دن کو نزدیک ہوتے دیکھتے ہیں“‏ آپ اَور کہاں ہونا چاہینگے؟‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویریں]‏

مسیحی اجلاسوں پر سننے اور تبصرہ کرنے کی ایک اپنی اہمیت ہے

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

مطالعہ کرانے والا ہر تبصرے میں ذاتی دلچسپی کا اظہار کرتا ہے