مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

بہتیرے ممالک میں شادی کے موقع پر دُلہے اور دُلہن کو تحائف دینے کا رواج ہے۔‏ ایسے تحائف لیتے یا دیتے وقت کن صحیفائی اُصولوں کو ملحوظِ‌خاطر رکھنا چاہئے؟‏

خدا کے کلام کے مطابق مناسب موقع پر صحیح محرک کیساتھ تحفہ دینا اچھی بات ہے۔‏ بائبل ہمیں اپنے خالق یہوواہ خدا کی نقل کرنے کا حکم دیتی ہے جو فراخدلی سے دیتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۷‏)‏ اِس وجہ سے پولس رسول نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ ”‏بھلائی اور سخاوت کرنا نہ بھولو اسلئےکہ خدا ایسی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے۔‏“‏ —‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۶؛‏ لوقا ۶:‏۳۸‏۔‏

کچھ ملکوں میں یہ رواج ہے کہ دُلہا دُلہن پہلے سے ہی لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ وہ کس قِسم کے تحفے چاہتے ہیں۔‏ یہ کسطرح کِیا جاتا ہے؟‏ دونوں ایک ایسی دُکان میں جا کر اپنی پسند کی چیزیں چن لیتے ہیں جہاں ہر طرح کا سامان ہوتا ہے۔‏ پھر وہ اِن چیزوں کی ایک فہرست تیار کرتے ہیں جس پر دُکان کا نام بھی درج ہوتا ہے۔‏ شادی کے دعوت‌ناموں کیساتھ ساتھ مہمانوں کو یہ فہرست بھی دی جاتی ہے۔‏ مہمان فہرست میں سے ایک چیز چن کر اِسے دُلہا دُلہن کیلئے خرید لیتے ہیں۔‏ یہ چیز شادی کے روز اُنکو تحفے کے طور پر دی جاتی ہے۔‏ اِس رواج کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مہمانوں کو مناسب تحفہ تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔‏ اسکے علاوہ دُلہا دُلہن کو اپنی پسند کے تحفے مل جاتے ہیں۔‏

مہمانوں کیلئے ایک ایسی فہرست تیار کرنا ہر جوڑے کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔‏ لیکن تمام مسیحیوں کو ایسے فیصلے کرتے وقت بائبل کے کچھ اصول یاد رکھنے چاہئیں۔‏ مثال کے طور پر کبھی‌کبھار دُلہا دُلہن اپنے مہمانوں سے قیمتی تحفے یا بڑی رقم دینے کی توقع کرتے ہیں۔‏ اسطرح ایسے مہمان جو مالدار نہیں ہوتے مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔‏ وہ مہنگے تحفے دینے کے قابل نہیں ہوتے اور اِس پریشانی میں پڑ کر وہ اکثر شادی پر بھی نہیں جاتے۔‏ اِسکے بارے میں ایک مسیحی عورت نے لکھا:‏ ”‏مَیں شادی کے تحفے دینے سے بڑی خوشی محسوس کِیا کرتی تھی لیکن اب یہ سب کچھ ایک بوجھ بن گیا ہے۔‏“‏ اگر شادی کا موقع دوسروں کیلئے پریشانی کا باعث بن جائے تو یہ بہت افسوس کی بات ہے۔‏

مہمانوں کو کبھی یہ احساس نہیں دلانا چاہئے کہ اُنکے تحفے کی قدر صرف اُس وقت کی جائیگی جب وہ ایک خاص دُکان سے خریدا گیا ہو یا بہت مہنگا ہو۔‏ یسوع نے کہا کہ خدا کی نظر میں ایک تحفے کی اہمیت کا اندازہ اُسکی قیمت سے نہیں بلکہ دینے والے کے خلوص سے لگایا جاتا ہے۔‏ (‏لوقا ۲۱:‏۱-‏۴‏)‏ پولس رسول نے محتاجوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بارے میں جوکچھ کہا وہ تحفہ دینے پر بھی لاگو کِیا جا سکتا ہے۔‏ اُس نے لکھا کہ ”‏جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے۔‏ نہ دریغ کرکے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۷‏۔‏

بائبل کے مطابق یہ ظاہر کرنا کہ تحفہ کس کی طرف سے دیا گیا ہے غلط نہیں۔‏ لیکن دینے والے کے نام کو سب کے سامنے ظاہر کرنا مسائل پیدا کر سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ کئی ملکوں میں شادیوں پر تحفے یا پیسے دکھاوے کیلئے تمام لوگوں کے سامنے دئے جاتے ہیں۔‏ لوگ بڑےبڑے تحفے یا بڑی رقم دیکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو خدا کو ناپسند ہے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۶‏)‏ ایسا رواج خاص طور پر اُن مسیحیوں کیلئے پریشانی کا باعث ہوتا ہے جو متی ۶:‏۳ کے اصول پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔‏ جہاں لکھا ہے کہ ”‏جب تُو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے اُسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے۔‏“‏ مسیحی دکھاوے کی خاطر کسی کو پریشان نہیں کرتے۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏۔‏

جب ہم خدا کے کلام میں دئے گئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو تحائف دینے سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏۔‏