مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ پر توکل رکھیں

یہوواہ پر توکل رکھیں

یہوواہ پر توکل رکھیں

‏”‏اَے [‏یہوواہ]‏ خدا!‏ .‏ .‏ .‏ لڑکپن سے میرا توکل تجھ ہی پر ہے۔‏“‏—‏زبور ۷۱:‏۵‏۔‏

۱.‏ نوجوان چرواہے داؤد کو کس چیلنج کا سامنا تھا؟‏

اُس آدمی کا قد نو فٹ سے زیادہ تھا۔‏ اسلئے اسرائیلی لشکر کے تمام فوجی اُس سے خوفزدہ تھے!‏ کئی ہفتوں سے،‏ فلستی سورما جولیت اسرائیلی لشکر کی فضیحت کر رہا تھا اور اُنہیں چیلنج کرتا تھا کہ اُسکا مقابلہ کرنے کیلئے کسی کو بھیجیں۔‏ انجام‌کار کسی فوجی کی بجائے ایک نوعمر لڑکے نے اس چیلنج کو قبول کِیا۔‏ نوجوان چرواہا داؤد اپنے حریف سے بہت چھوٹا تھا۔‏ درحقیقت،‏ اُسکا وزن تو شاید جولیت کے فوجی لباس اور ہتھیاروں سے بھی بہت کم ہوگا!‏ اسکے باوجود وہ لڑکا اُس سورما کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھا اور دلیری کا ایک بیمثال نمونہ بن گیا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۱-‏۵۱‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ (‏ا)‏ داؤد اسقدر اعتماد کیساتھ جولیت کا مقابلہ کرنے کے قابل کیوں تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ پر توکل رکھنے کے سلسلے میں ہم کن دو اقدام پر بات کرینگے؟‏

۲ کس چیز نے داؤد کو دلیری بخشی؟‏ داؤد کے تحریرکردہ چند الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ خدا!‏ تُو ہی میری اُمید ہے۔‏ لڑکپن سے میرا توکل تجھ ہی پر ہے۔‏“‏ (‏زبور ۷۱:‏۵‏)‏ ایک نوجوان کے طور پر،‏ داؤد نے یہوواہ پرمکمل توکل کِیا تھا۔‏ اُس نے یہ کہتے ہوئے جولیت کا سامنا کِیا:‏ ”‏تُو تلوار بھالا اور برچھی لئے ہوئے میرے پاس آتا ہے پر مَیں رب‌الافواج کے نام سے جو اِؔسرائیل کے لشکروں کا خدا ہے جسکی تُو نے فضیحت کی ہے تیرے پاس آتا ہوں۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۴۵‏)‏ جولیت کا توکل اپنی طاقت اور ہتھیاروں پر تھا لیکن داؤد کا توکل یہوواہ پر تھا۔‏ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ اُسکے ساتھ تھا اسلئے داؤد کو محض ایک انسان سے ڈرنے کی کیا ضرورت تھی خواہ وہ کتنے ہی زیادہ ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو؟‏

۳ جب آپ داؤد کی بابت پڑھتے ہیں تو کیا آپکا دل چاہتا ہے کہ یہوواہ پر آپکا توکل بھی داؤد جیسا ہو؟‏ ہم میں سے بیشتر ایسا محسوس کرتے ہیں۔‏ پس آئیے دو اقدام پر غور کریں جو ہم یہوواہ پر توکل رکھنے کیلئے اُٹھا سکتے ہیں۔‏ پہلے تو ہمیں ایسے توکل کی راہ میں حائل رُکاوٹ پر مکمل عبور حاصل کرنا ہے۔‏ دوسرا،‏ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ پر توکل کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏

یہوواہ پر توکل کی راہ میں حائل عام رُکاوٹ پر قابو پانا

۴،‏ ۵.‏ بہت سے لوگ خدا پر توکل کرنا کیوں مشکل پاتے ہیں؟‏

۴ لوگوں کیلئے خدا پر توکل کرنے کی راہ میں کونسی چیز حائل ہوتی ہے؟‏ اکثراوقات،‏ بعض لوگ اس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ بُرائی کیوں واقع ہوتی ہے۔‏ بہتیروں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ تمام تکلیف کا ذمہ‌دار خدا ہے۔‏ جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو مذہبی راہنما کہہ سکتے ہیں کہ خدا متاثرہ اشخاص کو آسمان پر ”‏لے گیا“‏ ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ بہتیرے مذہبی پیشوا یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا نے پہلے ہی سے ہر واقعہ کا تعیّن کر دیا ہے جس میں دُنیا میں ہونے والے تمام حادثات اور بدکار کام شامل ہیں۔‏ ایسے سنگدل خدا پر توکل کرنا واقعی مشکل ہے۔‏ شیطان جس نے بےایمانوں کی عقلوں کو اندھا کر رکھا ہے وہ ”‏شیاطین کی تعلیم“‏ کو فروغ دینے کیلئے بیتاب ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱‏؛‏ ۲-‏کرنتھیوں  ۴:‏۴۔‏

۵ شیطان لوگوں کو خدا پر توکل کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔‏ خدا کا یہ دشمن نہیں چاہتا کہ ہم انسانی تکالیف کی اصل وجہ کو جانیں۔‏ اگر ہم انسانی تکالیف کی اصل وجہ جان بھی جاتے ہیں تو شیطان چاہیگا کہ ہم اُسے بھول جائیں۔‏ پس ہمارے لئے یہ اچھا ہوگا کہ وقتاًفوقتاً دُنیا میں تکالیف کی تین بنیادی وجوہات پر نظرثانی کرتے رہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم اپنے دلوں کو یقین دلا سکتے ہیں کہ زندگی میں جن مشکلات کا ہمیں سامنا ہے یہوواہ انکا ذمہ‌دار نہیں ہے۔‏—‏فلپیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۶.‏ پہلا پطرس ۵:‏۸ کے مطابق انسانی تکلیف کی ایک بنیادی وجہ کیا ہے؟‏

۶ انسانی تکالیف کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شیطان یہوواہ کے وفادار لوگوں کی راستی کو توڑنا چاہتا ہے۔‏ اُس نے ایوب کی راستی کو بھی توڑنے کی کوشش کی تھی۔‏ اُس وقت شیطان ناکام رہا مگر اُس نے ہمت نہ ہاری۔‏ اس دُنیا کے سردار کے طور پر،‏ وہ یہوواہ کے وفادار خادموں کو ”‏پھاڑ کھانا“‏ چاہتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ اس میں ہم سب شامل ہیں!‏ شیطان کی کوشش ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دیں۔‏ اسلئے وہ اکثر اذیت کو ہوا دیتا ہے۔‏ اگرچہ ایسی حالت تکلیف‌دہ ہوتی ہے توبھی ہمارے پاس برداشت کرنے کی اچھی وجہ ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم شیطان کو جھوٹا ثابت کرنے اور یہوواہ کے دل کو شاد کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ (‏ایوب ۲:‏۴؛‏ امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ جب یہوواہ ہمیں اذیت برداشت کرنے کی طاقت بخشتا ہے تو اُس پر ہمارا توکل اَور زیادہ ہو جاتا ہے۔‏—‏زبور ۹:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۷.‏ گلتیوں ۶:‏۷ ہمیں تکالیف کی کس وجہ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے؟‏

۷ تکلیف کی دوسری وجہ اس اُصول سے سمجھ میں آتی ہے:‏ ”‏آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۷‏)‏ بعض‌اوقات لوگ غلط انتخاب کی صورت میں بوتے ہیں اور اسکے نتیجے میں تکلیف کی فصل کاٹتے ہیں۔‏ وہ لاپروائی سے گاڑی چلانے کا انتخاب کر سکتے ہیں جو حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔‏ بہتیرے سگریٹ‌نوشی کا انتخاب کرتے ہیں جو امراضِ‌قلب یا پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔‏ جو لوگ بداخلاقی میں ملوث ہوتے ہیں وہ شکستہ خاندانی رشتوں،‏ عزتِ‌نفس کی کمی،‏ جنسی بیماریوں اور ناخواستہ حمل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‏ ایسی تکالیف کیلئے لوگ خدا کو الزام دینے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں مگر دراصل وہ اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہے ہوتے ہیں۔‏—‏امثال ۱۹:‏۳‏۔‏

۸.‏ واعظ ۹:‏۱۱ کے مطابق،‏ لوگ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟‏

۸ تکالیف کی تیسری وجہ واعظ ۹:‏۱۱ میں بیان کی گئی ہے:‏ ”‏پھر مَیں نے توجہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دَوڑ میں تیزرفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زورآور کو فتح اور نہ روٹی دانشمند کو ملتی ہے نہ دولت عقلمندوں کو اور نہ عزت اہلِ‌خرد کو بلکہ اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔‏“‏ بعض‌اوقات لوگ غلط وقت پر غلط جگہ پر ہوتے ہیں۔‏ ہماری ذاتی لیاقتوں یا کمزوریوں سے قطع‌نظر،‏ تکالیف اور موت کسی بھی وقت غیرمتوقع طور پر ہم میں سے کسی پر بھی آ سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع کے دنوں میں یروشلیم میں ایک بُرج گرنے سے ۱۸ اشخاص ہلاک ہو گئے تھے۔‏ یسوع نے بیان کِیا کہ یہاں خدا اُن لوگوں کو اُنکے گناہوں کی سزا نہیں دے رہا تھا۔‏ (‏لوقا ۱۳:‏۴‏)‏ بیشک،‏ یہوواہ ایسی تکالیف کا ذمہ‌دار نہیں ہے۔‏

۹.‏ بہتیرے لوگ زمین پر تکالیف کی بابت کیا نہیں سمجھتے؟‏

۹ تکلیف کی چند وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔‏ تاہم،‏ اس معاملے کا ایک پہلو ایسا ہے جسے سمجھنا بہتیروں کیلئے مشکل ہے۔‏ وہ یہ ہے:‏ خدا دُکھ کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏

یہوواہ دُکھ کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ رومیوں ۸:‏۱۹-‏۲۲ کے مطابق،‏ ”‏مخلوقات“‏ کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏ (‏ب)‏ ہم اس بات کا تعیّن کیسے کر سکتے ہیں کہ کس نے مخلوقات کو بطالت کے اختیار میں کر دیا تھا؟‏

۱۰ رومیوں کے نام پولس رسول کے خط کا اقتباس اس اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے۔‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے۔‏ اسلئےکہ مخلوقات بطالت کے اختیار میں کر دی گئی تھی۔‏ نہ اپنی خوشی سے بلکہ اُسکے باعث سے جس نے اُس کو۔‏ اس اُمید پر بطالت کے اختیار میں کر دیا کہ مخلوقات بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائیگی۔‏ کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے۔‏“‏—‏رومیوں ۸:‏۱۹-‏۲۲‏۔‏

۱۱ اِن آیات کا مطلب سمجھنے کیلئے،‏ ہمیں چند بنیادی سوالات کے جواب حاصل کرنے ہوگے۔‏ مثلاً،‏ کس نے مخلوقات کو بطالت کے اختیار میں کر دیا؟‏ بعض کہتے ہیں شیطان نے جبکہ دیگر آدم کو مجرم ٹھہراتے ہیں۔‏ مگر اِن دونوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا۔‏ کیوں نہیں؟‏ اسلئےکہ جو شخص مخلوقات کو بطالت کے اختیار میں کرتا ہے وہ کسی ”‏اُمید پر“‏ ایسا کرتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ وہ اُمید دلاتا ہے کہ وفادار لوگ بالآخر ”‏فنا کے قبضہ سے چھوٹ“‏ جائینگے۔‏ آدم اور شیطان ایسی اُمید نہیں دے سکتے تھے۔‏ صرف یہوواہ ہی ایسی اُمید دے سکتا تھا۔‏ پس واضح طور پر،‏ اُسی نے مخلوقات کو بطالت کے اختیار میں کر دیا تھا۔‏

۱۲.‏ ”‏ساری مخلوقات“‏ کی شناخت کے سلسلے میں کونسی غلط‌فہمی پائی جاتی ہے اور اس سوال کا جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟‏

۱۲ تاہم،‏ اس اقتباس میں بیان‌کردہ ”‏ساری مخلوقات“‏ کیا ہے؟‏ بعض کا کہنا ہے کہ ”‏ساری مخلوقات“‏ کی اصطلاح حیوانات اور نباتات سمیت تمام طبیعی دُنیا کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ مگر کیا حیوان اور نباتات ”‏خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل“‏ ہونے کی اُمید رکھتے ہیں؟‏ ہرگز نہیں۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۱۲‏)‏ لہٰذا ”‏ساری مخلوقات“‏ کی اصطلاح صرف نسلِ‌انسانی کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔‏ یہ وہ مخلوقات ہے جو عدن میں بغاوت کے باعث گُناہ اور موت سے متاثر ہے اور جسے اُمید کی ازحد ضرورت ہے۔‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

۱۳.‏ عدن میں ہونے والی بغاوت نے نوعِ‌انسان کیساتھ کیا کِیا؟‏

۱۳ اُس بغاوت نے انسانوں کیساتھ دراصل کیا کِیا؟‏ اسکے نتائج کو بیان کرتے ہوئے پولس واحد لفظ:‏ بطالت استعمال کرتا ہے۔‏ * ایک کتاب کے مطابق،‏ یہ لفظ،‏ ”‏کسی چیز کے ناکارہ ہونے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے جو وہ کام نہیں کر رہی جس کیلئے اُسے بنایا گیا تھا۔‏“‏ انسانوں کو ابد تک زندہ رہنے،‏ کامل اور متحد خاندان کے طور پر فرودسی زمین کی نگہداشت کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔‏ اسکے برعکس وہ قلیل،‏ دُکھ‌بھری اور اکثر مایوس‌کُن زندگی بسر کرتے ہیں۔‏ بالکل اُسی طرح جیسے ایوب بیان کرتا  ہے،‏ ”‏انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔‏ تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱‏)‏ واقعی بطالت!‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کے انسانوں کو سزا دینے میں ہم کیسے انصاف دیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ پولس نے یہ کیوں کہا کہ مخلوقات کو ’‏اپنی خوشی سے‘‏ بطالت کے اختیار میں نہیں کِیا گیا تھا؟‏

۱۴ اب ہم اصل سوال کی طرف آتے ہیں:‏ ”‏تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا“‏ کیوں انسانوں کو ایسی تکلیف‌دہ اور پریشان‌کُن زندگی دیتا ہے؟‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۲۵‏)‏ کیا وہ ایسا کرنے میں حق‌بجانب تھا؟‏ یاد رکھیں ہمارے پہلے والدین نے کیا کِیا تھا۔‏ خدا کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے وہ شیطان کیساتھ مل گئے جس نے یہوواہ کی حاکمیت کو چیلنج کِیا تھا۔‏ اپنے کاموں سے اُنہوں نے اس دعوے کی حمایت کی کہ سرکش روحانی مخلوق کی زیرِہدایت انسان یہوواہ کے بغیر اپنے اُوپر خود حکمرانی کرکے اچھا کرتا ہے۔‏ باغیوں کو سزا دینے سے،‏ دراصل یہوواہ نے اُنکے ساتھ وہی کِیا جسکے وہ مستحق تھے۔‏ اُس نے انسانوں کو شیطان کے زیرِاثر اپنے اُوپر حکومت کرنے کی اجازت دیدی۔‏ حالات کے پیشِ‌نظر،‏ اس سے بہتر اَور کونسا فیصلہ کِیا جا سکتا تھا کہ انسان بطالت کے اختیار میں کر دئے جائیں مگر ایک اُمید کیساتھ؟‏

۱۵ بیشک یہ مخلوقات کی ”‏اپنی خوشی“‏ سے نہیں تھا۔‏ ہم اپنی مرضی سے گُناہ اور فنا کے غلام پیدا نہیں ہوئے۔‏ مگر یہوواہ نے اپنے رحم کی بدولت آدم اور حوا کو زندہ رہنے اور اولاد پیدا کرنے کی اجازت دی تھی۔‏ اُنکی اولاد ہونے کی وجہ سے،‏ اگرچہ ہم بھی گُناہ اور موت کے اختیار میں ہیں توبھی ہمارے پاس وہ کام کرنے کا موقع ہے جو آدم اور حوا کرنے میں ناکام رہے تھے۔‏ ہم یہوواہ کی بات سُن سکتے اور یہ جان سکتے ہیں کہ اُسکی حاکمیت راست اور بیمثال ہے جبکہ یہوواہ کے برعکس انسانی حکمرانی صرف دُکھ،‏ پریشانی اور بطالت کا باعث بنتی ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ لہٰذا شیطان کا اثر معاملات کو مزید خراب کرتا ہے۔‏ انسانی تاریخ ان حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔‏—‏واعظ ۸:‏۹‏۔‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ہم کیوں یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ دُنیا کی مشکلات کا ذمہ‌دار یہوواہ نہیں ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے پُرمحبت طور پر وفادار لوگوں کیلئے کونسی اُمید فراہم کی ہے؟‏

۱۶ واضح طور پر،‏ یہوواہ کے پاس مخلوقات کو بطالت کے اختیار میں کر دینے کی معقول وجوہات تھیں۔‏ تاہم،‏ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ یہوواہ بطالت اور تکالیف کا سبب ہے جو آجکل ہم سب کو متاثر کرتی ہیں؟‏ ذرا اُس جج کی بابت سوچیں جو ایک مُجرم کو سزا سناتا ہے۔‏ سزا کے دوران اُس شخص کو بہت زیادہ اذیت سے گزرنا پڑ سکتا ہے مگر کیا وہ واجب طور پر جج پر یہ الزام لگا سکتا ہے کہ وہ اُسکی تمام تکلیف کا باعث ہے؟‏ ہرگز نہیں!‏ مزیدبرآں،‏ یہوواہ شرارت کا ماخذ نہیں ہے۔‏ یعقوب ۱:‏۱۳ بیان کرتی ہے:‏ ”‏نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔‏“‏ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ نے اس سزا کیساتھ ساتھ ”‏اُمید“‏ بھی دی تھی۔‏ اُس نے پُرمحبت طور پر آدم اور حوا کی وفادار اولاد کیلئے بطالت کا خاتمہ دیکھنے اور ”‏خدا کے فرزندوں کے جلال“‏ میں خوشی حاصل کرنے کا بندوبست کِیا ہے۔‏ پھر کبھی وفادار انسانوں کو یہ پریشانی نہیں ہوگی کہ تمام مخلوقات دوبارہ کبھی بطالت کی تکلیف‌دہ حالت کو دیکھے۔‏ یہوواہ کے معاملات کو واجب طور پر سدھارنے سے اُسکی حاکمیت ہمیشہ کیلئے راست ثابت ہوگی۔‏—‏یسعیاہ ۲۵:‏۸‏۔‏

۱۷.‏ آجکل دُنیا میں ہونے والی مشکلات کی وجوہات پر غور کرنا ہمیں کیسے متاثر کر سکتا ہے؟‏

۱۷ جب ہم انسانی تکالیف کی اِن وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو کیا ہم یہوواہ کو شرارت کا ذمہ‌دار ٹھہرانے یا اُس پر توکل نہ کرنے کی کوئی وجہ پاتے ہیں؟‏ اسکے برعکس،‏ ایسا تجزیہ ہمیں موسیٰ کے ساتھ ملکر یہ کہنے کی تحریک دیتا ہے:‏ ”‏وہ وہی چٹان ہے۔‏ اُسکی صنعت کامل ہے۔‏ کیونکہ اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔‏ وہ منصف اور برحق ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴‏)‏ اِن معاملات پر غوروخوض کرتے ہوئے،‏ آئیے وقتاًفوقتاً اپنی سمجھ کو تازہ کرتے رہیں۔‏ اس طرح،‏ جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اپنے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی شیطان کی کاوشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ شروع میں متذکرہ دوسرے قدم کی بابت کیا ہے؟‏ یہوواہ پر بھروسا کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

یہوواہ پر توکل کا کیا مطلب ہے

۱۸،‏ ۱۹.‏ کن الفاظ کیساتھ بائبل ہمیں یہوواہ پر توکل کرنے کی تلقین کرتی ہے مگر اس سلسلے میں بعض لوگ کونسے غلط نظریات رکھتے ہیں؟‏

۱۸ خدا کا کلام ہمیں تاکید کرتا ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ یہ کتنے تازگی‌بخش اور ہمت‌افزا الفاظ ہیں۔‏ یقیناً پوری کائنات میں کوئی بھی ہمارے پیارے آسمانی باپ سے زیادہ قابلِ‌بھروسا نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ امثال کی کتاب میں اِن الفاظ کو پڑھنا ان پر عمل کرنے سے زیادہ آسان ہے۔‏

۱۹ بہتیرے یہوواہ پر توکل رکھنے کے سلسلے میں مختلف غلط نظریات کا شکار ہیں۔‏ بعض اس اعتماد کو محض احساس خیال کرتے ہیں یعنی ایک ایسا جذبہ جو فطرتاً ہمارے دل میں جاگزین ہونا چاہئے۔‏ دیگر یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اُسے ہمیں ہر مشکل سے بچانا چاہئے،‏ ہمارے ہر مسئلے کو حل کرنا اور زندگی کے تمام واقعات کو ہماری توقعات کے مطابق پورا کرنا چاہئے!‏ مگر ایسے نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‏ بھروسا محض ایک احساس سے زیادہ کچھ ہے اور یہ غیرحقیقت‌پسندانہ نہیں ہے۔‏ بالغوں میں قابلِ‌بھروسا ہونے میں باشعور،‏ معقول فیصلے کرنا بھی شامل ہے۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ یہوواہ پر توکل کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ مثال دیں۔‏

۲۰ ایک بار پھر غور کریں کہ امثال ۳:‏۵ کیا بیان کرتی ہے۔‏ یہ یہوواہ پر توکل کرنے کا مقابلہ ہمارے اپنے فہم پر تکیہ کرنے کے ساتھ کرتا اور یہ مشورہ دیتا ہے کہ ہم یہ دونوں ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔‏ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے فہم‌وفراست کی لیاقتوں کو بروئےکار نہیں لانا چاہئے؟‏ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہوواہ نے ہی ہمیں یہ قوتیں عطا کی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ہم انہیں اُس کی خدمت میں استعمال کریں۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱‏)‏ مگر ہم کس چیز پر تکیہ یا بھروسا کرتے ہیں؟‏ اگر ہماری سوچ یہوواہ کی سوچ کے ساتھ ہم‌آہنگ ہونے میں ناکام رہتی ہے تو کیا ہم یہوواہ سے حکمت کے طلبگار ہوتے ہیں جو ہماری حکمت سے کہیں بالاتر ہے؟‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ یہوواہ پر توکل کا مطلب اُسے یہ موقع دینا ہے کہ وہ ہماری سوچنے کی صلاحیت کی راہنمائی کرے۔‏

۲۱ مثال کے طور پر:‏ ایک چھوٹے بچے کا تصور کریں جسکے والدین گاڑی میں اگلی نشست پر ہیں جبکہ وہ پیچھے بیٹھا ہوا ہے۔‏ اُسکا والد گاڑی چلا رہا ہے۔‏ جب دورانِ‌سفر مشکلات پیش آتی ہیں یا مناسب راستے کی بابت تشویش ہوتی ہے یا موسم یا سڑک کے سلسلے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے تو ایک فرمانبردار اور والدین پر بھروسا کرنے والے بچے کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟‏ کیا وہ پیچھے سے ہی چیخ چیخ کر ہدایات دیتا یا اپنے والد کو کار چلانے کی بابت سمجھاتا ہے؟‏ ایسا نہیں ہے وہ اُصولی طور پر معاملات کو سلجھانے کیلئے اپنے والدین پر انحصار کرتا ہے اگرچہ وہ ناکامل ہیں۔‏ یہوواہ تو ہمارا کامل باپ ہے۔‏ پس کیا مشکل حالات میں ہمیں اُس پر مکمل بھروسا نہیں کرنا چاہئے؟‏—‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۱‏۔‏

۲۲،‏ ۲۳.‏ (‏ا)‏ جب ہمیں مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں کیوں یہوواہ پر توکل کرنا چاہئے اور ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کونسا موضوع زیرِبحث آئیگا؟‏

۲۲ تاہم،‏ امثال ۳:‏۶ بیان کرتی ہے کہ ہمیں نہ صرف مشکل حالات کے دوران بلکہ ’‏اپنی سب راہوں میں یہوواہ کو پہچاننے‘‏ کی ضرورت ہے۔‏ پس ہمارے روزمرّہ فیصلوں سے بھی یہوواہ پر توکل ظاہر ہونا چاہئے۔‏ جب مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو ہمیں بہترین حل کیلئے یہوواہ کی راہنمائی سے مایوس اور پریشان نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اسکی مزاحمت کرنی چاہئے۔‏ ہمیں آزمائشوں کو یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے،‏ شیطان کو جھوٹا ثابت کرنے اور یہوواہ کو خوش کرنے والی فرمانبرداری جیسی دیگر خوبیاں پیدا کرنے کے مواقع خیال کرنا چاہئے۔‏—‏عبرانیوں ۵:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۲۳ ہمارے سامنے خواہ کیسی بھی مشکلات کیوں نہ ہوں ہم یہوواہ پر توکل ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ ہم اپنی دُعاؤں اور راہنمائی کیلئے یہوواہ کے کلام اور اُسکی تنظیم کی طرف سے راہنمائی کیلئے اپنے میلان سے ایسا ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ آج کی دُنیا میں پیدا ہونے والے مسائل کے پیشِ‌نظر ہم کیسے یہوواہ پر اپنا توکل ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہمارا اگلا مضمون اس موضوع پر بات کریگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 پولس نے ”‏بطالت“‏ کیلئے وہی یونانی لفظ استعمال کِیا جو یونانی سپتواجنتا میں بارہا سلیمان کی کتاب واعظ میں پیش کئے جانے والے اظہار ”‏سب کچھ باطل ہے“‏ کیلئے استعمال کِیا گیا تھا۔‏—‏واعظ ۱:‏۲،‏ ۱۴؛‏ ۲:‏۱۱،‏ ۱۷؛‏ ۳:‏۱۹؛‏ ۱۲:‏۸‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُس نے یہوواہ پر توکل کِیا ہے؟‏

‏• انسانی تکالیف کی تین وجوہات کونسی ہیں اور وقتاًفوقتاً اِن پر غور کرتے رہنا کیوں اچھا ہے؟‏

‏• یہوواہ نے انسانوں کو کونسی سزا سنائی اور یہ کیوں معقول تھی؟‏

‏• یہوواہ پر توکل کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویریں]‏

داؤد نے یہوواہ پر توکل کِیا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یسوع نے بیان کِیا کہ جب یروشلیم میں ایک بُرج گرا تو اسکا ذمہ‌دار یہوواہ نہیں تھا