مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ ہمیشہ ہماری دیکھ‌بھال کرتا ہے

یہوواہ ہمیشہ ہماری دیکھ‌بھال کرتا ہے

میری کہانی میری زبانی

یہوواہ ہمیشہ ہماری دیکھ‌بھال کرتا ہے

از اینیلس مضانگا

سن ۱۹۷۲ میں،‏ ملاوی کی سیاسی پارٹی کے دس نوجوان رُکن زبردستی ہمارے گھر میں گھس آئے۔‏ وہ مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے گنے کے کھیت میں لے گئے۔‏ اُنہوں نے مجھے بہت مارا۔‏ نیز مجھے مرا ہوا سمجھ کر وہیں چھوڑ گئے۔‏

ملاوی میں اَور بھی بہت سے یہوواہ کے گواہوں کیساتھ ایسا ہی برتاؤ کِیا گیا تھا۔‏ اسکے باوجود گواہ مضبوطی سے قائم رہے۔‏ یہ انکے لئے کیسے ممکن ہوا تھا؟‏ ایسی اذیت کی کیا وجہ تھی؟‏ آئیے مَیں آپکو اپنے خاندان کی کہانی سناتی ہوں۔‏

مَیں دسمبر ۳۱،‏ ۱۹۲۱ میں پیدا ہوئی۔‏ ہم ملاوی کے دارالحکومت لیلونگوے کے نزدیک ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے۔‏ میرے والد ایک پادری تھے اور ہمارے خاندان میں مذہب کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔‏ جب مَیں ۱۵ سال کی تھی تو میری شادی ایماس مضانگا سے ہوئی۔‏

ایک دن میرے والد کا ایک دوست جو خود بھی پادری تھا ہمارے گھر آیا۔‏ اُس نے ہم دونوں کو یہ بتایا کہ ”‏تمہارے گھر کے پاس یہوواہ کے گواہ رہتے ہیں۔‏ اِن سے بچ کر رہنا۔‏ یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں کیونکہ اِن پر بدروحوں کا قبضہ ہے۔‏ اگر تم لوگ احتیاط نہیں کرو گے تو تم بھی بدروحوں کے قبضے میں آ جاؤ گے۔‏“‏ یہ سن کر ہم اتنے ڈر گئے کہ ہم دوسرے گاؤں میں جا کر رہنے لگے۔‏ وہاں ایماس کو دُکاندار کے طور پر نوکری مل گئی۔‏ لیکن جلد ہی ہمیں پتہ چلا کہ وہاں بھی ہمارے گھر کے قریب یہوواہ کے گواہ رہتے ہیں!‏

ایماس بائبل میں گہری دلچسپی رکھتا تھا اور اُسکے ذہن میں بائبل کے بارے میں بہت سے سوال تھے۔‏ اِسلئے اُس نے یہوواہ کے گواہوں سے بات‌چیت کرنا شروع کر دی۔‏ جب اُس نے دیکھا کہ گواہ اُسکے تمام سوالات کے جواب دے سکتے ہیں تو ایماس نے اُنکے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا۔‏ شروع میں ایماس اپنی دُکان پر ہی مطالعہ کِیا کرتا تھا۔‏ لیکن پھر گواہ ہمارے گھر پر آ کر ایماس کیساتھ مطالعہ کرنے لگے۔‏ جب بھی گواہ آتے مَیں گھر سے باہر نکل جاتی کیونکہ مجھے اُن سے بہت ڈر لگتا تھا۔‏ تقریباً چھ مہینے بعد،‏ اپریل ۱۹۵۱ میں ایماس نے یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏ لیکن یہ بات اُس نے مجھ سے چھپائے رکھی۔‏ کیونکہ اُسے یہ خوف تھا کہ اگر مجھے پتہ چل گیا کہ وہ بھی یہوواہ کا ایک گواہ بن گیا ہے تو مَیں اُسے چھوڑ کر چلی جاؤنگی۔‏

کٹھن دن

ایک دن میری ایک سہیلی ایلن نے آ کر مجھے بتایا کہ ایماس نے یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا ہے۔‏ مَیں غصے سے پاگل ہو رہی تھی!‏ مَیں نے ایماس سے بات‌چیت کرنا بند کر دی۔‏ مَیں نہ تو اُس کیلئے کھانا پکاتی اور نہ ہی اُسکے نہانے کا پانی تیار کرتی جو ہمارے رواج کے مطابق ایک شادی‌شُدہ عورت کی ذمہ‌داری سمجھی جاتی تھی۔‏

مَیں تین ہفتوں تک ایسا کرتی رہی۔‏ آخرکار ایماس نے مجھے بڑے پیار سے سمجھایا کہ اُس نے یہوواہ کا ایک گواہ بننے کا فیصلہ کیوں کِیا۔‏ اُس نے مجھے ۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۶ کے علاوہ بائبل کے کئی دوسرے صحیفے پڑھکر سمجھائے۔‏ اِن صحیفوں نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا۔‏ اب مَیں بھی دوسروں کو بائبل سے خوشخبری سنانا چاہتی تھی۔‏ اِسلئے مَیں نے گواہوں کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُسی شام مَیں نے اپنے شوہر کیلئے ایک مزیدار کھانا پکایا جس سے وہ بہت خوش ہوا۔‏

رشتہ‌داروں اور دوستوں تک بائبل کی سچائی پہنچانا

جب ہمارے والدین کو پتہ چلا کہ ہم یہوواہ کے گواہوں کیساتھ تعلق رکھنے لگے ہیں تو وہ بہت ناراض ہوئے۔‏ ایک خط میں اُنہوں نے ہمیں لکھا کہ ”‏آئندہ ہم اُن سے ملنے کی جرأت نہ کریں۔‏“‏ یہ پڑھکر ہمیں بہت افسوس ہوا۔‏ لیکن ہمیں یسوع کی اس بات پر پورا یقین تھا کہ جب ہمارا اپنا خاندان ہمیں چھوڑ دیگا تو اسکے بدلے کلیسیا کے بہن‌بھائی ہمارا خاندان بن جائینگے۔‏—‏متی ۱۹:‏۲۹‏۔‏

مَیں نے بائبل سچائی سیکھنے میں جلد ترقی کی اور اگست ۱۹۵۱ میں بپتسمہ لے لیا۔‏ ایلن میری سب سے اچھی سہیلی تھی اسلئے مَیں چاہتی تھی کہ وہ بھی بائبل سچائیوں کو سمجھ سکے۔‏ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ ”‏کیا تم میرے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا چاہو گی؟‏“‏ خوشی کی بات ہے کہ اُس نے مطالعہ شروع کر دیا اور کچھ عرصہ کے بعد مئی ۱۹۵۲ میں بپتسمہ لے لیا۔‏ اب ہم نہ صرف سہیلیاں ہیں بلکہ ہمارے درمیان ایک روحانی رشتہ بھی ہے۔‏

سن ۱۹۵۴ میں،‏ ایماس کو سفری نگہبان بنا دیا گیا۔‏ ہمارے چھ بچے تھے اِسلئے مَیں بچوں کیساتھ گھر پر رہتی اور ایماس ایک ہفتہ کلیسیاؤں کا دورہ کرتا اور ایک ہفتہ ہمارے ساتھ رہتا۔‏ ہم بچوں کیساتھ باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرتے تھے۔‏ یہانتک کہ جس ہفتے ایماس گھر پر نہ ہوتا مَیں بچوں کیساتھ مطالعہ کرتی تھی۔‏ ہم بچوں کیلئے خاندانی بائبل مطالعے کو بہت دلچسپ بناتے۔‏ اِسکے علاوہ ہم اُن پر ظاہر کرتے کہ یہوواہ اور اُسکے کلام کی سچائیاں ہمارے لئے کتنی عزیز ہیں۔‏ ہم سب ملکر منادی کے کام میں بھی حصہ لیتے تھے۔‏ اِس قِسم کی تربیت ہمارے بچوں کے ایمان کی مضبوطی کا باعث بنی تھی۔‏ اسطرح وہ اُن اذیتوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو گئے تھے جو ہم سب پر آنے والی تھیں۔‏

مذہبی اذیت کا آغاز

سن ۱۹۶۴ میں،‏ ملاوی کی حکومت تمام لوگوں کو اپنی پارٹی کا رُکن بنانا چاہتی تھی۔‏ وہ لوگوں کو اپنی پارٹی کا کارڈ خریدنے پر مجبور کر رہی تھی۔‏ جسکے پاس یہ کارڈ ہوتا وہ حکومت کی پارٹی کا رُکن بن جاتا تھا۔‏ * جب حکومت کے کارندوں نے مجھے اور ایماس کو پارٹی کارڈ خریدنے کیلئے کہا تو ہم نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ یہوواہ کے گواہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔‏ اِس پر پارٹی کے کچھ جوانوں نے آ کر ہماری مکئی کی فصل کو تباہ کر دیا۔‏ فصل تباہ کرتے وقت وہ یہ گانا گا رہے تھے:‏ ”‏جو لوگ کارڈ خریدنے سے انکار کرینگے،‏ دیمک اُنکی مکئی کی فصل کو کھا جائیگی اور وہ آنسو بہائینگے۔‏“‏ ہمارے لئے یہ فصل بہت ضروری تھی کیونکہ یہی اگلے سال کیلئے ہماری خوراک تھی۔‏ مگر ہم ہمت نہ ہارے۔‏ ہم نے محسوس کِیا کہ یہوواہ ہماری پرواہ کرتا ہے کیونکہ اُس نے ہمیں طاقت بخشی۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

اگست ۱۹۶۴ کی ایک رات مَیں اپنے بچوں کیساتھ گھر پر اکیلی تھی۔‏ بچے سو رہے تھے۔‏ اچانک مَیں نے دُور سے گانوں کی آواز سنی۔‏ مَیں ایسے گانوں سے اچھی طرح واقف تھی۔‏ یہ قبائلی لوگوں کی ایک خاص برادری کے گانے تھے۔‏ وہ مُردوں کی روحیں ہونے کا دعویٰ کرکے لوگوں پر حملہ کرتے تھے۔‏ تمام لوگ اُن سے ڈرتے تھے۔‏ انکو پارٹی کے جوانوں نے ہم پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا تھا۔‏ مَیں نے جلدی سے بچوں کو جگایا اور ہم باہر جھاڑیوں میں جا کر چھپ گئے۔‏

اچانک ہمیں ایک تیز روشنی نظر آئی۔‏ قبیلے والوں نے ہمارے گھر کو آگ لگا دی تھی۔‏ دیکھتے ہی دیکھتے پورا گھر جل کر راکھ ہو گیا۔‏ جاتے وقت وہ ایک دوسرے سے مذاق میں کہہ رہے تھے کہ ”‏ہم نے اُس آدمی کو تڑپانے کیلئے کیا ہی خوب آگ لگائی ہے۔‏“‏ ہماری تمام چیزیں تباہ ہو گئیں لیکن ہم زندہ بچ نکلے۔‏ ہم یہوواہ خدا کے بہت شکرگزار تھے!‏ اگرچہ اُنہوں نے ہماری چیزیں تباہ کر دیں توبھی وہ یہوواہ پر ہمارے توکل کے عزم کو تباہ نہ کر پائے۔‏—‏زبور ۱۱۸:‏۸‏۔‏

بعدازاں ہمیں پتہ چلا کہ اُنہوں نے ہماری کلیسیا کے پانچ اَور خاندانوں کیساتھ بھی ایسا ہی کِیا تھا۔‏ جب اردگرد کی کلیسیاؤں کے بھائیوں کو پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ کیا واقع ہوا ہے تو اُنہوں نے آ کر ہمارے لئے گھر تعمیر کئے اور کئی ہفتوں تک ہمارے لئے کھانے کا بندوبست بھی کِیا۔‏ ہم اُنکے بہت ہی شکرگزار تھے!‏

اذیت میں اضافہ

ستمبر ۱۹۶۷ میں ملاوی کی حکومت نے ملک کے تمام یہوواہ کے گواہوں کی تلاش شروع کر دی تاکہ وہ اُنکو کارڈ بیچ کر اپنی پارٹی میں شامل کر سکیں۔‏ اِس کام کیلئے حکومت نے اپنی پارٹی کے نوجوان لوگوں کو بھیجا۔‏ یہ نوجوان بہت ظالم تھے اور بڑی بڑی چھریاں ہاتھ میں لئے گھر با گھر جا کر یہوواہ کے گواہوں کو تلاش کرنے اور اُنہیں پارٹی کے کارڈ فروخت کرنے لگے۔‏

جب  یہ  نوجوان  ہمارے  گھر  آئے  تو  اُنہوں  نے  مجھ  سے  پوچھا  کہ  کیا تمہارے پاس پارٹی کارڈ ہے۔‏ مَیں نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں مَیں نے کوئی پارٹی کارڈ نہیں خریدا اور نہ ہی خریدوں گی۔‏“‏ یہ سن کر یہ نوجوان مجھے اور ایماس کو تھانے لے گئے۔‏ ہمیں کوئی چیز ساتھ لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔‏ جب ہمارے چھوٹے بچے سکول سے گھر آئے تو وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ اُنکو معلوم نہ تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔‏ تھوڑی دیر بعد ہمارا بڑا بیٹا ڈینئل بھی سکول سے گھر آ گیا۔‏ اُسے پڑوسیوں سے خبر ملی کہ ہمیں تھانے لے جایا گیا ہے۔‏ پھر وہ اپنے بہن‌بھائیوں کیساتھ عین اُس وقت تھانے پہنچا جب پولیس ہمیں ٹرک میں بیٹھا رہی تھی۔‏ پولیس نے ہمارے بچوں کو بھی ٹرک میں بیٹھا کر ہم سب کو لیلونگوے پہنچا دیا۔‏

لیلونگوے میں ہمیں پولیس ہیڈکوارٹرز پہنچا دیا گیا جہاں ہماری تفتیش شروع ہوئی۔‏ افسران نے ہم سے پوچھا:‏ ”‏کیا تم یہوواہ کے گواہ رہنے پر قائم ہو؟‏“‏ ہم نے جواب میں کہا:‏ ”‏جی‌ہاں!‏“‏ ہم یہ جانتے تھے کہ ہمیں ایسے جواب کیلئے سات سال قید کی سزا سنائی جائیگی۔‏ لیکن کلیسیا چلانے والے ذمہ‌دار اشخاص کیلئے ۱۴ سال کی قید تھی۔‏

ہمیں کھانے کو بھی کچھ نہ دیا گیا اور نہ ہی ہم رات‌بھر سو سکے۔‏ اگلے دن صبح ہمیں جیل بھیج دیا گیا۔‏ پوری جیل یہوواہ کے گواہوں سے بھری ہوئی تھی۔‏ قیدخانے میں اتنے زیادہ لوگ تھے کہ سونے کی بھی جگہ نہ تھی۔‏ رفعِ‌حاجت کیلئے ہر قیدخانے کے کونے میں ایک بالٹی تھی۔‏ کھانا بہت کم اور ٹھیک طرح سے پکا بھی نہیں ہوتا تھا۔‏ تقریباً دو ہفتوں کے بعد سپاہیوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہوواہ کے گواہ پُرامن لوگ ہیں۔‏ اِسلئے ہم سب کو جیل کے میدان میں چلنےپھرنے کی اجازت دیدی گئی۔‏ اِسطرح ہم روزانہ ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے اور دوسرے قیدیوں کو بھی بائبل کا پیغام سناتے تھے۔‏ ملاوی کی حکومت پر عالمی دباؤ کے باعث ہمیں صرف تین ماہ کی قید کے بعد رِہا کر دیا گیا۔‏

پولیس نے ہمیں گھر لوٹنے کو کہا اور یہ بھی بتایا کہ ملاوی کی حکومت نے یہوواہ کے گواہوں پر پابندی لگا دی ہے۔‏ یہ پابندی ۲۰ اکتوبر،‏ ۱۹۶۷ سے لے کر ۱۲ اگست،‏ ۱۹۹۳ تک یعنی تقریباً ۲۶ سال تک رہی۔‏ یہ ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں کیلئے ایک مشکل دَور تھا۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے ہماری بہت مدد کی اور ہم نے اپنی غیرجانبداری قائم رکھی۔‏

جانوروں جیسا سلوک

سن ۱۹۷۲ میں،‏ حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کے خلاف  ایک  فیصلہ سنایا جسکی وجہ سے اذیت کی شدت میں اَور اضافہ ہو گیا۔‏ پورے ملک کے گواہوں کو ملازمت سے نکال دیا گیا اور جو گواہ گاؤں میں رہتے تھے اُن کو گاؤں سے نکالا جا رہا تھا۔‏ ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کِیا جا رہا تھا۔‏

اسی دوران ایک جوان بھائی دوڑتا ہوا ہمارے گھر آیا۔‏ اُس نے ایماس سے کہا کہ ’‏پارٹی کے نوجوانوں نے تمہیں قتل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔‏ وہ تمہارا سر کاٹ کر گاؤں کے سردار کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔‏‘‏ یہ سن کر ایماس وہاں سے فوراً بھاگ گیا۔‏ مَیں نے جلدی سے بچوں کو تیار کرکے اُسکے پیچھے بھیج دیا۔‏ ابھی مَیں گھر سے نکلنے ہی والی تھی کہ پارٹی کے دس نوجوان ہمارے ہاں پہنچ گئے۔‏ ایماس کو نہ پاکر وہ نہایت غصے میں آ گئے۔‏ وہ مجھے گھسیٹ کر گنے کے ایک کھیت میں لے گئے۔‏ وہاں اُنہوں نے مجھے لاتوں اور گنوں سے بہت مارا اور مجھے مرا ہوا سمجھ کر وہیں چھوڑ گئے جب مَیں ہوش میں آئی تو میری حالت اتنی خراب تھی کہ مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔‏ مَیں پیٹ کے بل رینگتی ہوئی گھر واپس پہنچی۔‏

رات کی تاریکی میں ایماس مجھے ڈھونڈتا ہوا گھر واپس آیا۔‏ یہ اُسکے لئے بہت خطرناک تھا۔‏ میری حالت دیکھ کر اُس نے مجھے اپنے دوست کی گاڑی میں بٹھایا اور اِسطرح ہم لیلونگوے چلے گئے۔‏ وہاں ہم ایک مسیحی بھائی کے گھر میں رُکے۔‏ جب میری حالت بہتر ہوگئی تو ایماس نے ملک چھوڑنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔‏

پناہ کیلئے کوئی جگہ نہیں

ہماری بیٹی دینیسی کے شوہر کے پاس ایک بڑا ٹرک تھا۔‏ اُنہوں نے ٹرک کیلئے ایک ایسے ڈرائیور کا بندوبست کِیا جو پہلے ملاوی ینگ پائنیر پارٹی کا رُکن رہ چکا تھا۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہوں پر ظلم ہوتا دیکھ کر اُس نے ہماری اور دیگر گواہوں کی مدد کرنے کی حامی بھری۔‏ وہ رات کو مختلف خفیہ مقامات سے گواہوں کو لیتا۔‏ پھر وہ پارٹی کی وردی پہن کر پولیس کی چوکیوں سے گزرتا ہوا گواہوں کو سرحد پار زمبیا پہنچا دیتا تھا۔‏ وہ کئی دنوں تک ایسا کرتا رہا۔‏ اُسکی وردی کو دیکھ کر پولیس ٹرک کو روکتی نہیں تھی۔‏ اِس آدمی نے اپنی جان پر کھیل کر سینکڑوں بھائیوں کو زمبیا پہنچایا۔‏

کچھ مہینوں بعد زمبیا کی حکومت نے ہمیں زبردستی واپس ملاوی بھیج دیا۔‏ لیکن ہم اپنے آبائی گاؤں واپس نہیں جا سکتے تھے۔‏ لوگوں نے ہماری تمام چیزیں لُوٹ لی تھیں۔‏ ہمارے گھر کی لوہے کی چھت تک چوری ہوگئی تھی۔‏ اِسلئے ہم نے ملاوی سے بھاگ کر موزمبیق میں پناہ لی۔‏وہاں ہمیں ایک خاص کیمپ میں رہنے کی اجازت دی گئی جو پناہ‌گزینوں کیلئے بنایا گیا تھا۔‏ لیکن ڈھائی سال بعد موزمبیق کی حکومت بدل گئی اور نئی حکومت نے ہمیں جون ۱۹۷۵ میں واپس ملاوی بھیج دیا۔‏ ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں کی صورتحال ویسی ہی تھی۔‏ اِسلئے ہم پناہ کی تلاش میں دوبارہ زمبیا بھاگ گئے جہاں ہمیں ایک کیمپ میں رکھا گیا۔‏

دو مہینوں کے بعد فوجیوں کی بڑی تعداد بسوں اور ٹرکوں پر ہمارے کیمپ پہنچ گئی۔‏ فوجی ہتھیاروں سے مسلح تھے۔‏ وہ کہنے لگے،‏ تمہارے لئے بہت اچھے گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔‏ ہم تمہیں وہاں لیجانے کیلئے آئے ہیں۔‏ ہمیں معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔‏ پھر سپاہیوں نے لوگوں کو دھکے دے دیکر ٹرکوں اور بسوں پر چڑھنے کیلئے مجبور کر دیا۔‏ ہم سب ڈر گئے اور چیخنے لگے۔‏ فوجیوں نے اپنی مشین‌گنوں سے ہوا میں گولیاں چلانا شروع کر دیں۔‏ خوف کے مارے ہزاروں بہن‌بھائی چیخ‌وپکار کرتے اور اپنی جانیں بچاتے ہوئے اِدھراُدھر بھاگنے لگے۔‏

اِس بھاگدوڑ میں ایماس زمین پر گِر پڑا۔‏ وہ دوسروں کے پاؤں تلے کچلا جانے والا ہی تھا کہ ایک بھائی نے اُسکو اُٹھا لیا۔‏ ہم سب یہ سوچنے لگے کہ خاتمہ آ گیا ہے۔‏ہم ملاوی کی طرف دوڑنے لگے۔‏ راستے میں ایک دریا تھا۔‏ بھائیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر قطاریں باندھ لیں تاکہ ہم سب آسانی سے دریا پار کر سکیں۔‏ لیکن دریا کے پار زمبیا کے فوجی سپاہی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔‏ اُنہوں نے ہمیں زبردستی ملاوی بھیج دیا۔‏

ملاوی پہنچ کر ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جائیں۔‏ کیونکہ حکومت نے پہلے ہی سے عوام کو ہمارے آنے کی خبر دیدی تھی۔‏ ملک کے تمام گاؤں والوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ”‏نئے لوگوں“‏ سے خبردار رہیں۔‏ اِسلئے ہم نے دارالحکومت لیلونگوے جا کر رہنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اِتنے بڑے شہر میں کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ کون اجنبی ہے۔‏ ہم نے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا اور ایماس دوبارہ سفری نگہبان کے طور پر کلیسیاؤں کا دورہ کرنے لگا۔‏

کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونا

اِن تمام مشکلات کے باوجود ہم خدا کے وفادار کیسے رہے؟‏ کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونے کی وجہ سے!‏۔‏ زمبیا اور موزمبیق میں ہم بِلاخوف‌وخطر کنگڈم ہال میں عبادت کیلئے جمع ہوتے تھے کیونکہ وہاں ہم پر کوئی پابندی نہیں تھی۔‏ لیکن ملاوی میں اجلاسوں پر حاضر ہونا مشکل تھا۔‏ پھر بھی ہم عبادت کیلئے جمع ہونے سے ہمیشہ خوش ہوتے تھے۔‏ ہم رات کو ویران علاقوں میں جمع ہوتے تاکہ کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔‏ اسکے علاوہ،‏ تالیوں کا شور ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا اسلئے ہم مصافحہ کرکے تقریر دینے والے بھائی کا شکریہ ادا کرتے۔‏

لوگوں کو بپتسمہ آدھی رات کو دیا جاتا تھا۔‏ پہلے تو بپتسمہ کی تقریر دی جاتی۔‏ اُسکے بعد بپتسمہ لینے والوں کو ایک ایسی جگہ لے جایا جاتا جہاں ایک گڑھا کھودا گیا تھا۔‏ وہاں اُنکو بپتسمہ دیا جاتا۔‏ میرے بیٹے ابی‌یودی کا بپتسمہ بھی اسی طرح ہوا تھا۔‏

ہمارا چھوٹا سا گھر ایک محفوظ جگہ

پابندی کے دوران زمبیا کے برانچ دفتر سے ڈاک اور رسالے خفیہ طریقے سے ہمارے گھر میں پہنچائے جاتے تھے۔‏ اسکے بعد کچھ بھائی اپنی سائیکلوں پر ڈاک اور رسالے وغیرہ ملاوی کی تمام کلیسیاؤں تک پہنچاتے تھے۔‏ ملاوی کیلئے مینارِنگہبانی رسالے بہت پتلے کاغذ پر چھاپے جاتے تھے۔‏ اِسطرح بھائی اپنی سائیکلوں پر رسالوں کی دُگنی تعداد لیجانے سے کلیسیاؤں کی ضرورت کو پورا کر سکتے تھے۔‏ اِسکے علاوہ صرف مطالعے کے مضامین پر مشتمل مینارِنگہبانی رسالے بھی چھاپے جاتے تھے۔‏ اس چھوٹے رسالے کا فائدہ یہ ہوتا کہ اسے آسانی سے جیب میں چھپایا جا سکتا تھا۔‏

ایسے بھائی جو رسالوں کو سائیکلوں پر کلیسیاؤں تک پہنچاتے تھے بہت ہی دلیر تھے۔‏ اگر وہ پکڑے جاتے تو وہ نہ صرف جیل میں ڈالے جا سکتے تھے بلکہ اُنکی جان کو بھی خطرہ تھا۔‏ اِن بھائیوں نے ہر موسم میں،‏ اکثر اندھیری رات میں،‏ رسالوں کے ڈبے اپنی سائیکلوں پر لاد کر کلیسیاؤں تک پہنچائے۔‏ ایسا کرنے کیلئے اُنکو پولیس کی چوکیوں سے گزرنے کے علاوہ دوسرے خطروں سے بھی نپٹنا پڑتا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کی خدمت میں سینکڑوں میل کا سفر کِیا۔‏ ایسے بہادر بھائی ہمیں بہت ہی عزیز تھے!‏

یہوواہ بیواؤں کا خیال رکھتا ہے

دسمبر ۱۹۹۲ میں،‏ ایماس ایک کلیسیا میں تقریر دے رہا تھا کہ اچانک اُسے دورہ پڑا اور وہ بولنے کے قابل نہ رہا۔‏ اسکے تھوڑے ہی عرصے بعد اُسے پھر سے دورہ پڑا جسکی وجہ سے اُسکا آدھا جسم مفلوج ہو گیا۔‏ اُسکی حالت کو دیکھ کر مَیں بہت مایوس ہوگئی۔‏ لیکن کلیسیا کے بہن‌بھائی ہمارا سہارا بنے اسطرح میری مایوسی دُور ہوئی۔‏ ایماس نومبر ۱۹۹۴ میں فوت ہو گیا۔‏ اُس وقت اُسکی عمر ۷۶ سال تھی۔‏ اُسکی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں پر پابندی اُٹھا لی گئی تھی۔‏ ہم نے زندگی کے ۵۷ سال ایک ساتھ گزارے تھے۔‏ مَیں اب بھی اپنے عزیز ساتھی کی کمی محسوس کرتی ہوں۔‏

اپنے شوہر کی وفات کے بعد میرا داماد مجھے اپنے گھر لے گیا۔‏ اب وہ اپنی بیوی اور پانچ بچوں سمیت میری دیکھ‌بھال بھی کرنے لگا۔‏ پھر وہ اچانک بیماری کی وجہ سے اگست ۲۰۰۰ میں فوت ہو گیا۔‏ اب ہمارے پاس نہ ہی روٹی اور نہ ہی رہنے کیلئے مکان تھا۔‏ لیکن یہوواہ خدا واقعی ”‏یتیموں کا باپ اور بیواؤں کا دادرس ہے۔‏“‏ (‏زبور ۶۸:‏۵‏)‏ اُس نے ہمارے لئے ایک خوبصورت گھر کا انتظام کِیا۔‏ وہ کیسے؟‏ جب کلیسیا کے بہن‌بھائیوں نے ہماری مشکل کو دیکھا تو اُنہوں نے پانچ ہفتوں کے اندر ہمارے لئے ایک گھر بنایا!‏ یہانتک کہ دوسری کلیسیاؤں سے بھی بھائیوں نے آ کر اس کام میں اُنکا ہاتھ بٹایا۔‏ یہ گھر اُن گھروں سے بھی بہتر ہے جن میں ہم پہلے رہتے تھے۔‏ ہمارے پڑوسی یہ دیکھ کر کہ یہوواہ کے گواہ محبت کی بِنا پر ایک دوسرے کیلئے کیا کرنے کو تیار ہیں بہت متاثر ہوئے۔‏ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مَیں ابھی فردوس میں رہ رہی ہوں!‏ جی‌ہاں،‏ یہ گھر اینٹوں سے تو بنایا گیا ہے لیکن اسکی بنیاد محبت پر ڈالی گئی ہے۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

یہوواہ میری دیکھ‌بھال کرتا رہا ہے

مَیں نے اپنی زندگی میں بہت مشکل وقت دیکھے ہیں جنکی وجہ سے مَیں بعض‌اوقات مایوس بھی ہو جاتی تھی۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے ہمیشہ میری دیکھ‌بھال کی۔‏ میرے نو بچوں میں سے آج سات زندہ ہیں۔‏ میرا پورا خاندان ۱۲۳ لوگوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ‌تر یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏

آج میری عمر ۸۲ سال ہے۔‏ جب مَیں دیکھتی ہوں کہ یہوواہ نے ملاوی میں اپنے لوگوں کیلئے کیا کچھ کِیا ہے تو میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔‏ پچھلے چار سالوں میں ملاوی میں ۶۰۰ کنگڈم ہال تعمیر ہوئے ہیں جہاں یہوواہ کے گواہ عبادت کیلئے جمع ہوتے ہیں۔‏ لیلونگوے میں ایک نیا برانچ دفتر بھی تعمیر ہوا ہے۔‏ آج ہمارے پاس بائبل کے بارے میں رسالوں اور کتابوں کی کمی نہیں رہی۔‏ یہوواہ خدا نے یسعیاہ ۵۴:‏۱۷ میں اپنے بندوں سے وعدہ کِیا ہے:‏ ”‏کوئی ہتھیار جو تیرے خلاف بنایا جائے کام نہ آئیگا۔‏“‏ یہ وعدہ میری زندگی میں کتنا سچا ثابت ہوا ہے!‏ مَیں یہوواہ خدا کی خدمت میں تقریباً ۵۰ سال گزار چکی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ چاہے ہمیں سخت اذیت کا سامنا ہی کیوں نہ ہوں یہوواہ ہمیشہ ہماری دیکھ‌بھال کریگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 17 ملاوی میں یہوواہ کے گواہوں کو پیش آنے والے واقعات کی بابت مزید معلومات آپکو مینارِنگہبانی،‏ نومبر ۱۹۹۴،‏ صفحہ ۳۱ اور مینارِنگہبانی،‏ اپریا ۱،‏ ۲۰۰۰ صفحہ ۲۰ پیراگراف ۹ میں ملیں گی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

میرے شوہر ایماس نے اپریل ۱۹۵۱ میں بپتسمہ لیا

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

کچھ بہادر بھائی جنہوں نے رسالوں کو سائیکلوں پر کلیسیاؤں تک پہنچایا

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

محبت کی بنیاد پر تعمیر ہونے والا ہمارا گھر