روحانی باتیں تقویت بخشتی ہیں
روحانی باتیں تقویت بخشتی ہیں
”کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کیلئے اچھی ہو تاکہ اُس سے سننے والوں پر فضل ہو۔“—افسیوں ۴:۲۹۔
۱، ۲. (ا) انسانی قوتِگویائی کتنی قابلِقدر ہے؟ (ب) یہوواہ کے خادم اپنی زبان کیسے استعمال کرنا چاہتے ہیں؟
”انسان کی قوتِگویائی ایک بھید ہے؛ یہ ایک الہٰی بخشش بلکہ ایک معجزہ ہے۔“ یہ بات لغتنویس لڈوِگ کوہیلر نے کہی تھی۔ لیکن بعضاوقات ہم اس بخشش کو نہایت معمولی سمجھنے لگتے ہیں۔ (یعقوب ۱:۱۷) لیکن ذرا سوچیں کہ جب فالج کی وجہ سے کسی شخص کی ذیفہم باتیں کرنے کی لیاقت ختم ہو جاتی ہے تو کتنا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ یوآن حال ہی میں اپنے شوہر کی قوتِگویائی کھو جانے کے بعد یوں اظہارِخیال کرتی ہے: ”ہماری باہمی گفتگو سے ہمارا بندھن مضبوط ہو گیا تھا۔ لیکن مجھے وہ گفتگو کے لمحات بہت یاد آتے ہیں!“
۲ گفتگو رشتوں کو مضبوط کرتی، غلطفہمیاں دُور کرتی، غمگینوں کو تسلی دیتی، ایمان مضبوط کرتی اور زندگی کو خوشگوار بناتی ہے لیکن یہ سب کچھ خودبخود نہیں ہوتا۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے کہا: ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ (امثال ۱۲:۱۸) یہوواہ کے خادموں کے طور پر، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری گفتگو دُکھ اور تکلیف پہنچانے کی بجائے تسلی اور حوصلہ فراہم کرے۔ ہم اپنی زبان کو عوامی خدمت اور ذاتی گفتگو میں بھی یہوواہ کی حمد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ زبورنویس نے اپنے گیت میں یوں کہا: ”ہم دنبھر خدا پر فخر کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ ہم تیرے ہی نام کا شکریہ ادا کرتے رہینگے۔“—زبور ۴۴:۸۔
۳، ۴. (ا) ہم سب کو اپنی گفتگو کے سلسلے میں کس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ (ب) ہماری گفتگو اہمیت کی حامل کیوں ہے؟
۳ شاگرد یعقوب ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ”زبان کو کوئی آدمی قابو میں نہیں کر سکتا۔“ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۲، ۸) ہم میں سے کوئی بھی کامل نہیں ہے۔ اسلئے ہماری تمام کوشش اور نیکنیتی کے باوجود ہماری گفتگو دوسروں کیلئے ہمیشہ ترقی یا خالق کیلئے تمجید کا باعث نہیں ہوتی۔ لہٰذا، ہمیں اپنی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ مزیدبرآں، یسوع نے کہا: ”مَیں تم سے کہتا ہوں کہ جو نِکمّی بات لوگ کہینگے عدالت کے دن اُسکا حساب دینگے۔ کیونکہ تُو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائیگا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائیگا۔“ (متی ۱۲:۳۶، ۳۷) واقعی، خدائےبرحق ہماری باتوں کا حساب لیگا۔
۴ نقصاندہ گفتگو سے بچنے کا بہترین طریقہ روحانی باتچیت کرنے کی عادت اپنانا ہے۔ اس مضمون میں بتایا جائیگا کہ یہ ہم کیسے کر سکتے ہیں، ہم کن موضوعات پر گفتگو کر سکتے ہیں اور ہم حوصلہافزا گفتگو سے کونسے فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔
دل پر دھیان دیں
۵. ترقیبخش گفتگو کو فروغ دینے میں دل کیا کردار ادا کرتا ہے؟
۵ ترقیبخش گفتگو کرنے کی عادات اپنانے کے لئے پہلے ہمیں یہ متی ۱۲:۳۴) اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم اہم معاملات پر ہی گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ پس، ہمیں خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے: ’میری باتچیت میرے دل کی بابت کیا ظاہر کرتی ہے؟ جب مَیں اپنے خاندان یا ہمایمانوں کیساتھ ہوتا ہوں تو کیا میری گفتگو روحانی معاملات پر مُرتکز ہوتی ہے یا کیا کھیل، لباس، فلمیں، کھانا، نئی چیزیں یا پھر دیگر معمولی باتیں اسکا محور ہوتی ہیں؟‘ شاید غیراہم معاملات ہماری زندگی اور ہمارے خیالات کا مرکز بن گئے ہیں۔ اپنی ترجیحات میں ردوبدل ہماری گفتگو اور زندگی کو بہتر بنائیگا۔—فلپیوں ۱:۱۰۔
سمجھنا ہوگا کہ ہماری گفتگو دراصل ہمارے دل کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ یسوع نے کہا: ”جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔“ (۶. ہماری گفتگو کے سلسلے میں غوروخوض کیا کردار ادا کرتا ہے؟
۶ اپنی گفتگو کو بہتر بنانے کا ایک اَور طریقہ بامقصد غوروخوض ہے۔ اگر ہم روحانی معاملات پر سوچبچار کرنے کی پوری کوشش کریں تو ہم خودبخود روحانی گفتگو کی طرف مائل ہو جائینگے۔ بادشاہ داؤد اس تعلق کو سمجھ گیا تھا۔ اُس نے اپنے گیت میں یوں بیان کِیا: ”میرے مُنہ کا کلام اور میرے دل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔“ (زبور ۱۹:۱۴) نیز زبورنویس آسف نے کہا: ”مَیں تیری ساری صنعت پر دھیان کرونگا اور تیرے کاموں کو سوچونگا۔“ (زبور ۷۷:۱۲) خدا کے کلام کی سچائیوں پر غوروفکر کرنے والے دلودماغ سے قابلِتعریف باتیں نکلتی ہیں۔ یرمیاہ یہوواہ کی سکھائی ہوئی باتوں کی بابت گفتگو کرنے سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔ (یرمیاہ ۲۰:۹) اگر ہم باقاعدگی سے روحانی معاملات پر غور کرتے ہیں تو ہم بھی ایسے ہی ہو سکتے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۴:۱۵۔
۷، ۸. کونسے موضوعات ترقیبخش گفتگو کیلئے موزوں ہوتے ہیں؟
۷ روحانی کاموں کا اچھا معمول ہمیں ترقیبخش گفتگو کے لئے بہت سے موضوعات فراہم کرتا ہے۔ (فلپیوں ۳:۱۶) اسمبلیاں، کنونشنیں، کلیسیائی اجلاس، حالیہ مطبوعات اور روزانہ کی آیت اور تبصرہ ایسی بیشقیمت باتیں بیان کرتے ہیں جنہیں ہم دوسروں کو بتا سکتے ہیں۔ (متی ۱۳:۵۲) ہماری مسیحی خدمتگزاری میں پیش آنے والے تجربات بھی روحانی طور پر بہت تحریکانگیز ہوتے ہیں!
۸ بادشاہ سلیمان اسرائیل کے درختوں، جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کی مختلف اقسام دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔ (۱-سلاطین ۴:۳۳) وہ خدا کے تخلیقی کاموں کی بابت گفتگو کرکے بہت خوش ہوتا تھا۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ یہوواہ کے خادم بھی مختلف موضوعات پر گفتگو کرکے خوش ہوتے ہیں مگر روحانی باتیں ہمیشہ روحانی لوگوں کی گفتگو کا خاصہ ہوتی ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۲:۱۳۔
”اُن پر غور کِیا کرو“
۹. پولس نے فلپیوں کو کیا نصیحت کی تھی؟
۹ موضوعات خواہ کوئی بھی ہوں، اگر ہم فلپی کی کلیسیا کے لئے پولس رسول کی مشورت پر دھیان دیں تو ہماری گفتگو دوسروں کے لئے تقویتبخش ہوگی۔ اُس نے کہا: ”غرض اَے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی [”سنجیدہ،“ اینڈبلیو] ہیں اور جتنی باتیں واجب [”راست،“ اینڈبلیو] ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔“ (فلپیوں ۴:۸) جن باتوں کا پولس ذکر کرتا ہے وہ اتنی اہم ہیں کہ وہ کہتا ہے ”اُن پر غور کِیا کرو۔“ ہمیں اپنے دلودماغ کو اِن سے معمور کر لینا چاہئے۔ پس آئیے دیکھیں کہ پولس کی بیانکردہ اِن آٹھ باتوں پر توجہ دینا گفتگو کے سلسلے میں کیسے ہماری مدد کر سکتا ہے۔
۱۰. ہماری گفتگو سچ باتوں پر مشتمل کیسے ہو سکتی ہے؟
۱۰ سچ میں محض صحیح اور درست معلومات بیان کرنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ یہ کسی راست اور قابلِبھروسا چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے، جیسےکہ خدا کے کلام کی سچائی۔ لہٰذا، جب ہم دوسروں سے بائبل سچائیوں کی بابت باتچیت کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں متاثر کِیا ہے، ایسی تقاریر جنہوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا ہے یا صحیفائی مشورت جس نے ہماری مدد کی تو ہم دراصل ایسی باتوں پر غور کر رہے ہونگے جو سچ ہیں۔ اسکے برعکس، ہم ظاہری سچ یعنی اُس علم کو بھی رد کرتے ہیں جسے ”علم کہنا ہی غلط ہے۔“۔ (۱-تیمتھیس ۶:۲۰) نیز ہم ایسی فضولگوئی اور غیرمصدقہ تجربات یا واقعات بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں جنکی تصدیق نہیں ہو سکتی۔
۱۱. ہماری گفتگو میں سنجیدہ نوعیت کی کونسی باتیں شامل ہو سکتی ہیں؟
سنجیدہ باتیں دراصل ایسے موضوعات ہوتی ہیں جو غیراہم اور معمولی ہونے کی بجائے پُروقار اور نتیجہخیز ہوتے ہیں۔ اس میں ہماری مسیحی خدمتگزاری، بُرے دنوں کی اہمیت کو سمجھنا جن میں ہم رہتے ہیں اور عمدہ چالچلن برقرار رکھنا شامل ہے۔ جب ہم ایسے سنجیدہ معاملات پر گفتگو کرتے ہیں تو ہم روحانی طور پر بیدار اور اپنی راستی پر قائم رہنے کے علاوہ خوشخبری کی منادی جاری رکھنے کے عزم کو مضبوط کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ، خدمتگزاری میں دلچسپ تجربات اور حالیہ واقعات جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم آخری زمانہ میں رہ رہے ہیں، گفتگو کو تحریک دینے کیلئے مختلف مواد فراہم کرتے ہیں۔—اعمال ۱۴:۲۷؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
۱۱۱۲. راست اور پاک باتوں پر غور کرنے کی پولس کی مشورت کے پیشِنظر ہمیں کس چیز سے گریز کرنا چاہئے؟
۱۲ لفظ راست کا مطلب ہے خدا کی نظر میں صحیح یعنی اُسکے معیاروں کے عین مطابق ہونا۔ پاک اپنی سوچ اور چالچلن میں پاکیزہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ الزامتراشی، گندے مذاق یا جنسی طور پر تحقیرآمیز باتیں ہماری گفتگو کا حصہ نہیں ہونی چاہئیں۔ (افسیوں ۵:۳؛ کلسیوں ۳:۸) جائےملازمت یا سکول میں، ایسی گفتگو شروع ہو جانے پر مسیحی دانشمندی سے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
۱۳. ایسی گفتگو کی مثالیں دیں جنکا محور پسندیدہ اور دلکش باتیں ہیں۔
۱۳ جب پولس نے پسندیدہ باتوں پر غور کرنے کی نصیحت کی تو وہ دراصل ایسی باتوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو نفرت، تلخی یا لڑائیجھگڑے کی بجائے خوشی اور اتحاد کو فروغ دینے والی ہیں یا جن سے محبت کو تحریک ملتی ہے۔ دلکش باتوں سے مُراد قابلِاحترام اور حقائق پر مبنی معلومات ہیں۔ ایسی اچھی باتوں میں وفادار بھائیوں اور بہنوں کی کہانیاں شامل ہیں جو باقاعدگی کیساتھ مینارِنگہبانی اور جاگو! رسالوں میں شائع ہوتی ہیں۔ جب آپ ایسے ایمانافزا مضامین پڑھتے ہیں تو کیوں نہ اپنے تاثرات کی بابت دوسروں سے بھی گفتگو کریں؟ نیز دوسروں کی روحانی کامرانیوں کی بابت سننا کتنا حوصلہافزا ہے! ایسی گفتگو کلیسیا میں محبت اور اتحاد کو فروغ دیگی۔
۱۴. (ا) نیکی ظاہر کرنا ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ (ب) ہماری گفتگو میں تعریف کی باتیں کیسے شامل ہو سکتی ہیں؟
۱۴ پولس ”نیکی“ کی باتوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔ نیکی اچھائی یا اخلاقی فضیلت کا مفہوم پیش کرتی ہے۔ ہمیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارے ہونٹ ہمیشہ صحیفائی اُصولوں سے راہنمائی پائیں اور راست، پاک اور نیک باتوں سے کبھی نہ پھریں۔ تعریف کا مطلب ”قابلِستائش ہے۔“ اگر آپ اچھی باتچیت سنتے یا کلیسیا میں کسی کی وفاداری دیکھتے ہیں تو اسکا متعلقہ شخص سے اور دوسروں سے ذکر کریں۔ پولس رسول نے بارہا اپنے ساتھی پرستاروں کی عمدہ خوبیوں کی تعریف کی تھی۔ (رومیوں ۱۶:۱۲؛ فلپیوں ۲:۱۹-۲۲؛ فلیمون ۴-۷) نیز، ہمارے خالق کی کاریگری بھی واقعی قابلِتعریف ہے۔ اس میں ہمیں تعمیری گفتگو کے بیشمار موضوعات ملتے ہیں۔—امثال ۶:۶-۸؛ ۲۰:۱۲؛ ۲۶:۲۔
تعمیری گفتگو کریں
۱۵. کونسا صحیفائی حکم والدین پر اپنے بچوں کیساتھ پُرمطلب گفتگو کرنے کی ذمہداری عائد کرتا ہے؟
۱۵ استثنا ۶:۶، ۷ بیان کرتی ہے: ”یہ باتیں جنکا حکم آج مَیں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تُو ان کو اپنی اولاد کے ذہننشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے وقت انکا ذکر کِیا کرنا۔“ واضح طور پر، یہ حکم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ پُرمطلب، روحانی گفتگو کریں۔
۱۶، ۱۷. یہوواہ اور ابرہام کے نمونے سے مسیحی والدین کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۶ ہم اُس طویل گفتگو کا تصور کر سکتے ہیں جو یسوع اپنے آسمانی باپ کیساتھ کرتا ہوگا جب وہ اُسکی زمینی تفویض پر غور کرتے ہونگے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”باپ جس نے مجھے بھیجا اُسی نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔“ (یوحنا ۱۲:۴۹؛ استثنا ۱۸:۱۸) بزرگ ابرہام نے بھی اپنے بیٹے اضحاق سے یہ باتیں کرتے ہوئے کافی وقت گزارا ہوگا کہ کیسے یہوواہ نے اُسے اور اُنکے آباؤاجداد کو برکتوں سے نوازا تھا۔ ایسی گفتگو نے یقیناً یسوع اور اضحاق کو فروتنی کیساتھ خدا کی مرضی بجا لانے میں مدد دی ہوگی۔—پیدایش ۲۲:۷-۹؛ متی ۲۶:۳۹۔
۱۷ ہمارے بچوں کو بھی تعمیری گفتگو کی ضرورت ہے۔ والدین کو اپنی تمامتر مصروفیات کے باوجود اپنے بچوں کیساتھ باتچیت کرنے کیلئے
وقت نکالنا چاہئے۔ اگر ممکن ہو تو دن میں ایک مرتبہ بطور خاندان اکٹھے کھانا کھانے کا بندوبست بنائیں؟ کھانے کے ایسے اوقات کے دوران اور بعد میں، تعمیری گفتگو کے مواقع ہونگے جو خاندان کی روحانی صحت کیلئے گراںبہا ثابت ہو سکتے ہیں۔۱۸. والدین اور بچوں کے درمیان اچھے رابطے کے فوائد ظاہر کرنے والا تجربہ بیان کریں۔
۱۸ بیس سالہ پائنیر الیجاندرو اُن شکوک کو یاد کرتا ہے جو وہ ۱۴ برس کی عمر میں رکھتا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”مَیں ہممکتبوں اور اساتذہ کے اثر کی وجہ سے، خدا کے وجود اور بائبل کے مستند ہونے کی بابت متذبذب تھا۔ میرے والدین نے میرے ساتھ استدلال کرنے میں کئی گھنٹے صرف کئے۔ اِن باتوں نے نہ صرف اس مشکل وقت کے دوران مجھے اپنے شکوک پر قابو پانے میں مدد دی بلکہ اپنی زندگی میں اچھے فیصلے کرنے میں بھی مدد دی۔“ اب کیا ہے؟ الیجاندرو مزید بیان کرتا ہے: ”مَیں ابھی بھی گھر ہی میں رہتا ہوں۔ مگر ہمارے مصروف شیڈول نے میرے اور میرے والد کیلئے اکیلے میں باتچیت کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ لہٰذا ہم دونوں ہفتے میں ایک دفعہ اُسکے کام کی جگہ پر اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ مَیں واقعی اس گفتگو کی بڑی قدر کرتا ہوں۔“
۱۹. ہم سب کو روحانی گفتگو کی ضرورت کیوں ہے؟
۱۹ کیا ہم اپنے ساتھی ایمانداروں کیساتھ بااَجر روحانی گفتگو کے مواقع کی بھی تلاش میں نہیں رہتے؟ ہمیں اجلاسوں، میدانی خدمتگزاری، معاشرتی میلجول یا سفر کے دوران ایسے مواقع ملتے ہیں۔ پولس روم کے مسیحیوں سے باتچیت کرنے کا مشتاق تھا۔ اُس نے لکھا: ”مَیں تمہاری ملاقات کا مشتاق ہوں تاکہ تمکو کوئی روحانی نعمت دوں جس سے تُم مضبوط ہو جاؤ۔ غرض مَیں بھی تمہارے درمیان ہو کر تمہارے ساتھ اُس ایمان کے باعث تسلی پاؤں جو تُم میں اور مجھ میں دونوں میں ہے۔“ (رومیوں ۱:۱۱، ۱۲) ایک مسیحی بزرگ یوہانز کا مشاہدہ ہے کہ ”ساتھی مسیحیوں کیساتھ روحانی گفتگو ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ وہ دل کو گرما دیتے اور دنبھر کے بوجھ کو ہلکا کر دیتے ہیں۔ مَیں اکثر عمررسیدہ سے اُنکی زندگیوں کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ کس چیز نے اُنہیں وفادار رہنے کے قابل بنایا ہے۔ سالوں کے دوران مَیں نے بہتیروں کیساتھ گفتگو کی ہے اور ہر ایک نے کسی نہ کسی طرح کی حکمت یا روشنخیالی عطا کی ہے جس نے میری زندگی کو مالامال کر دیا ہے۔“
۲۰. ہم اُس وقت کیا کر سکتے ہیں جب ہماری ملاقات کسی شرمیلے شخص سے ہو جاتی ہے؟
۲۰ اُس صورت میں کیا ہو اگر آپ روحانی موضوع کو چھیڑتے ہیں لیکن دوسرا شخص کوئی جوابیعمل ظاہر نہیں کرتا؟ ہمت نہ ہاریں۔ شاید بعد میں آپکو کوئی زیادہ مناسب موقع مل جائے۔ سلیمان نے لکھا، ”باموقع باتیں روپہلی ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں۔“ (امثال ۲۵:۱۱) شرمیلے لوگوں کیساتھ سمجھداری سے پیش آئیں۔ ”آدمی کے دل کی بات گہرے پانی کی مانند ہے لیکن صاحبِفہم آدمی اُسے کھینچ نکالیگا۔“ * (امثال ۲۰:۵) سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کے رویوں سے متاثر ہو کر وہ بات کہنے سے نہ شرمائیں جو آپکے دل میں ہے۔
روحانی گفتگو بااَجر ہے
۲۱، ۲۲. روحانی گفتگو کرنے سے ہمیں کونسے فائدے حاصل ہوتے ہیں؟
۲۱ پولس نے نصیحت کی، ”کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کیلئے اچھی ہو تاکہ اس سے سننے والوں افسیوں ۴:۲۹؛ رومیوں ۱۰:۱۰) گفتگو کا رُخ صحیح سمت میں رکھنے کیلئے کوشش درکار ہوتی ہے مگر اسکا اَجر بہت ہے۔ روحانی گفتگو ہمیں اپنے ایمان میں دوسروں کو شریک کرنے اور برادری کو تقویت دینے کے قابل بناتی ہے۔
پر فضل ہو۔“ (۲۲ پس آئیے ہم اپنی گفتگو کی خوبی کو دوسروں کی حوصلہافزائی اور خدا کی تمجید کرنے کے لئے استعمال کریں۔ ایسی گفتگو ہمارے لئے تسلی اور دوسروں کے لئے حوصلہافزائی کا باعث ہوگی۔ سب سے بڑھ کر، یہ یہوواہ کے دل کو شاد کریگی کیونکہ وہ ہماری گفتگو پر توجہ دیتا اور جب ہم اپنی زبان کو مناسب طریقے سے استعمال کرتے ہیں تو خوش ہوتا ہے۔ (زبور ۱۳۹:۴؛ امثال ۲۷:۱۱) جب ہم روحانی گفتگو کرتے ہیں تو ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں بھولیگا۔ ہمارے زمانے میں یہوواہ کی خدمت کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بائبل بیان کرتی ہے: ”تب خداترسوں نے آپس میں گفتگو کی اور [یہوواہ] نے متوجہ ہو کر سنا اور اُن کے لئے جو [یہوواہ] سے ڈرتے اور اُسکے نام کو یاد کرتے تھے اُس کے حضور یادگار کا دفتر لکھا گیا۔“ (ملاکی ۳:۱۶؛ ۴:۵) یہ کتنا ضروری ہے کہ ہماری گفتگو روحانی طور پر ترقیبخش ہو!
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 20 اسرائیل میں بعض کنوئیں بہت گہرے ہوتے تھے۔ جبعون میں آثارِقدیمہ کے ماہرین نے کوئی ۸۰ فٹ گہرا کنواں دریافت کِیا ہے۔ اسکا زینہ لوگوں کو پانی نکالنے کیلئے نیچے اُترنے کے قابل بناتا تھا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہماری گفتگو ہماری بابت کیا آشکارا کرتی ہے؟
• ہم کونسی تعمیری باتوں کی بابت گفتگو کر سکتے ہیں؟
• خاندانی دائرے اور مسیحی کلیسیا میں گفتگو کیا کردار ادا کرتی ہے؟
• تعمیری گفتگو کے کونسے فائدے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
ترقیبخش گفتگو کا محور . . .
”جتنی باتیں سچ ہیں“
”جتنی باتیں سنجیدہ ہیں“
”جتنی باتیں پسندیدہ ہیں“
”جتنی باتیں دلکش ہیں“
[تصویروں کے حوالہجات]
;Video cover, Stalin: U.S. Army photo
:Creator book cover, Eagle Nebula
J. Hester and P. Scowen
AZ State Univ.(, NASA)
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
کھانے کے اوقات روحانی گفتگو کے شاندار مواقع فراہم کرتے ہیں