مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

‏”‏اپنےآپ میں زندگی“‏ رکھنے کا کیا مطلب ہے؟‏

بائبل میں یوحنا ۵:‏۲۶ میں لکھا ہے کہ یسوع ”‏اپنےآپ میں زندگی“‏ رکھتا ہے اور یوحنا ۶:‏۵۳ میں کہا گیا ہے کہ ’‏اُسکے پیروکاروں میں بھی زندگی ہے۔‏‘‏ تاہم،‏ ان دونوں صحائف کا مطلب ایک نہیں ہے۔‏

یسوع نے یوں کہا،‏ ”‏مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سنینگے اور جو سنینگے وہ جئیں گے۔‏“‏ اِسکے بعد یسوع نے یہ اہم الفاظ کہے:‏ ”‏جسطرح باپ اپنےآپ میں زندگی رکھتا ہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنےآپ میں زندگی رکھے۔‏“‏ اِن الفاظ کا مطلب ہے کہ خدا نے یسوع کو یہ اختیار بخشا ہے کہ اُسکے ذریعے انسان خدا کے نزدیک جائیں اور اُسکی مقبولیت حاصل کر سکیں۔‏ اس سے بڑھ کر یسوع کو مُردوں کو زندہ کرنے کی قوت بھی دی گئی ہے۔‏ اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یسوع کے ”‏اپنےآپ میں زندگی“‏ رکھنے سے مُراد یہ ہے کہ یہوواہ خدا کی طرح اُس میں بھی زندگی دینے کی قوت ہے۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۴-‏۲۶‏)‏ کیا اُسکے پیروکاروں میں بھی ایسی ہی قوت ہے؟‏

اسکے ایک سال بعد یسوع نے اپنے سب سننے والوں سے یوں کہا:‏ ”‏مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جبتک تم ابنِ‌آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُسکا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں۔‏ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے اور مَیں اُسے آخری دن پھر زندہ کرونگا۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۵۳،‏ ۵۴‏)‏ یہاں پر یسوع کے مطابق،‏ ”‏تم میں زندگی“‏ سے مُراد یہ ہے کہ اُسکے پیروکار ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اسی قِسم کے الفاظ ہمیں یونانی صحائف میں اَور جگہوں پر بھی ملتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر مرقس ۹:‏۵۰ میں یسوع نے کہا کہ ”‏اپنے میں نمک رکھو۔‏“‏ یہاں اس سے مُراد یہ ہے کہ شاگردوں کو صرف اپنےآپ میں ہی نمک رکھنے کی صلاحیت دی گئی تھی وہ دوسروں کو یہ صلاحیت نہیں دے سکتے تھے۔‏ اسکے علاوہ رومیوں ۱:‏۲۷ میں بھی بیان کِیا گیا ہے کہ لوگوں نے ’‏اپنےآپ میں بدلہ پایا۔‏‘‏ یہاں بھی اس سے مُراد یہ نہیں ہے کہ اُنکو کسی اَور سے بدلہ لینے کی صلاحیت دی گئی تھی بلکہ وہ خود بدلہ پائینگے۔‏ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یوحنا ۶:‏۵۳ میں استعمال کئے گئے الفاظ ”‏تم میں زندگی“‏ سے مُراد یہ ہے کہ اُسکے پیروکاروں کو ہمیشہ کی زندگی ملیگی۔‏

یوحنا ۶:‏۵۳ میں جب یسوع اپنے شاگردوں کو کہہ رہا تھا کہ ”‏تم میں زندگی“‏ ہے تو اُس نے اپنے گوشت اور خون کا بھی ذکر کِیا۔‏ اِسی کے ایک سال بعد یسوع نے اپنے شاگردوں کیساتھ اپنا آخری کھانا کھاتے ہوئے پھر سے اپنے گوشت اور خون کا ذکر کِیا۔‏ اِس موقع پر یسوع اُنکو یہ سمجھا رہا تھا کہ اُس نئے عہد میں شریک ہونے کیلئے اُنہیں بےخمیری روٹی اور مے کی علامات میں سے کھانا پینا ہوگا۔‏ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ صرف ممسوح مسیحیوں کو ہی ہمیشہ کی زندگی ملیگی؟‏ جی‌نہیں۔‏ یسوع نے یوحنا ۶:‏۵۳،‏ ۵۴ میں جو الفاظ استعمال کئے وہ اُن الفاظ سے بہت فرق ہیں جو یسوع نے آخری کھانے پر کہے تھے۔‏ ان دونوں واقعات میں ایک سال کا فرق ہے اور وہ بالکل مختلف موقع پر کہے گئے تھے۔‏ جب یسوع نے یوحنا ۶:‏۵۳،‏ ۵۴ کے الفاظ کہے اُس وقت لوگوں کو مسیح کے گوشت اور خون کو ظاہر کرنے والی علامات پر مبنی کسی سالانہ تقریب کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔‏

یوحنا ۶ باب کے مطابق یسوع نے اپنے بدن کو من کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏تمہارے باپ دادا نے بیابان میں من کھایا اور مر گئے۔‏ یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُترتی ہے تاکہ آدمی اُس میں سے کھائے اور نہ مرے۔‏ مَیں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔‏ اگر کوئی اس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا۔‏“‏ یسوع کا گوشت اور خون من سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‏ وہ کیسے؟‏ کیونکہ اُس نے اپنا بدن سارے ”‏جہان کی زندگی“‏ کے لئے دیا اور اُن کے لئے ہمیشہ تک زندہ رہنا ممکن بنایا ہے۔‏* اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا ۶:‏۵۳ میں درج الفاظ ”‏تم میں زندگی“‏ کا اطلاق اُن تمام مسیحیوں پر ہوتا ہے جو ہمیشہ کی زندگی پائیں گے چاہے یہ آسمان میں ہو یا زمین پر ہو۔‏—‏یوحنا ۶:‏۴۸-‏۵۱‏۔‏

یسوع کے پیروکار کب اپنےآپ میں زندگی رکھینگے؟‏ ممسوح مسیحیوں کے لئے یہ اُس وقت ہوگا جب وہ قیامت پا کر آسمان پر روحانی مخلوق کے طور پر رہن گے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۲،‏ ۵۳؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۲‏)‏ یسوع کی دوسری بھیڑیں مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت کے بعد امتحان میں سے گزریگی اور اگر وفادار رہیں تو پھر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی وارث بنیں گی۔‏—‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ مکاشفہ ۲۰:‏۵‏،‏  ۷-‏۱۰۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

بیابان میں اسرائیلیوں کیساتھ ایک ”‏ملی‌جلی گروہ“‏ بھی تھی۔‏ اِن سب کو زندہ رہنے کیلئے من کی ضرورت تھی۔‏ (‏خروج ۱۲:‏۳۷،‏ ۳۸؛‏ ۱۶:‏۱۳-‏۱۸‏)‏ اسی طرح چاہے کسی کی اُمید آسمانی ہو یا زمینی تمام مسیحیوں کیلئے یسوع مسیح کی دی گئی قربانی پر ایمان لانا ضروری ہے۔‏—‏دی واچ‌ٹاور فروری ۱،‏ ۱۹۸۸،‏ صفحہ ۳۰،‏ ۳۱ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویریں]‏

تمام سچے مسیحی ’‏اپنےآپ میں زندگی‘‏ رکھ سکتے ہیں