ہمیں بِلاناغہ دُعا کیوں کرنی چاہئے؟
ہمیں بِلاناغہ دُعا کیوں کرنی چاہئے؟
”بِلاناغہ دُعا کرو۔ ہر ایک بات میں شکرگذاری کرو۔“—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷، ۱۸۔
۱، ۲. دانیایل نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ دُعا کے شرف کی قدر کرتا ہے اور اس چیز نے یہوواہ کیساتھ اُسکے رشتے پر کیسا اثر ڈالا؟
دانیایل نبی کا دستور تھا کہ وہ دن میں تین مرتبہ دُعا کِیا کرتا تھا۔ وہ یروشلیم کی طرف کھلنے والے اپنے بالاخانے کے دریچے میں گھٹنے ٹیک کر دُعا کِیا کرتا تھا۔ (۱-سلاطین ۸:۴۶-۴۹؛ دانیایل ۶:۱۰) جب شاہی حکم کے مطابق مادی بادشاہ، دارا کے علاوہ کسی اَور سے دُعا کرنے پر پابندی عائد کی گئی تو اُس وقت بھی دانیایل نے کوئی کوتاہی نہ برتی۔ خواہ اس سے اُسکی زندگی خطرے میں تھی یا نہیں یہ دُعاگو شخص مستعدی سے یہوواہ سے دُعا کرتا رہا۔
۲ یہوواہ نے دانیایل کو کیسا خیال کِیا؟ جب جبرائیل فرشتہ دانیایل کی دُعا کا جواب دینے کیلئے آیا تو اُس نے دانیایل کو ”بہت عزیز“ شخص کے طور پر بیان کِیا۔ (دانیایل ۹:۲۰-۲۳) حزقیایل کی پیشینگوئی میں، یہوواہ نے دانیایل کو ایک صادق شخص کے طور پر بیان کِیا۔ (حزقیایل ۱۴:۱۴، ۲۰) دُعاؤں کی بدولت دانیایل کا رشتہ یہوواہ کیساتھ مضبوط ہو گیا تھا اور اِس حقیقت کو دارا بادشاہ نے بھی تسلیم کِیا تھا۔—دانیایل ۶:۱۶۔
۳. ایک مشنری کے تجربے کی طرح دُعا کیسے راستی پر قائم رہنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۳ باقاعدہ دُعا ہمیں شدید آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، چین میں ایک مشنری، ہیرلڈ کنگ کو پانچ سال تک قیدِتنہائی میں رکھا گیا۔ بھائی کنگ اپنے تجربے کی بابت بیان کرتا ہے: ”یہ ساتھی انسانوں سے تو دُوری ہو سکتی تھی مگر کوئی شخص مجھے خدا سے دُور نہیں کر سکتا تھا۔ . . . پس میرے کمرے کے پاس سے خواہ کوئی بھی گزرے، مَیں بائبل میں دانیایل کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے دن میں تین مرتبہ گھٹنے ٹیک کر
بلند آواز سے دُعا کِیا کرتا تھا۔ . . . ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ایسے اوقات میں خدا کی رُوح میرے خیالات کی راہنمائی کرتی اور مجھے دلیری بخشتی تھی۔ دُعا مجھے بہت زیادہ روحانی طاقت اور تسلی بخشتی تھی!“۴. اس مضمون میں ہم دُعا کی بابت کن سوالوں پر غور کرینگے؟
۴ بائبل بیان کرتی ہے: ”بِلاناغہ دُعا کرو۔ ہر ایک بات میں شکرگذاری کرو کیونکہ مسیح یسوؔع میں تمہاری بابت خدا کی یہی مرضی ہے۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷، ۱۸) اس مشورت کے پیشِنظر، آئیے مندرجہذیل سوالات پر غور کریں: ہمیں اپنی دُعاؤں پر خاص توجہ کیوں دینی چاہئے؟ متواتر یہوواہ کے پاس جانے کی ہمارے پاس کونسی وجوہات ہیں؟ نیز اگر ہم اپنی خامیوں کی وجہ سے خود کو دُعا کرنے کے لائق نہیں سمجھتے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
دُعا کے ذریعے دوستی پیدا کریں
۵. دُعا ہمیں کونسی منفرد دوستی سے استفادہ کرنے میں مدد دیتی ہے؟
۵ کیا آپ چاہینگے کہ یہوواہ آپ کو اپنا دوست خیال کرے؟ اُس نے آبائی بزرگ ابرہام کی بابت یہ کہا تھا۔ (یسعیاہ ۴۱:۸؛ یعقوب ۲:۲۳) یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم بھی اُسکے ساتھ ایسا ہی رشتہ قائم کریں۔ دراصل وہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ اُسکے نزدیک آئیں۔ (یعقوب ۴:۸) کیا اس دعوت کو دُعا کرنے کے منفرد بندوبست پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے؟ کسی اعلیٰ افسر سے خواہ وہ آپکا دوست ہی کیوں نہ ہو، بات کرنے کیلئے ملاقات کا وقت لینا کتنا مشکل ہوتا ہے! تاہم، کائنات کا خالق ہماری حوصلہافزائی کرتا ہے کہ جب کبھی ہمیں ضرورت ہو تو دُعا میں آزادانہ طور پر اُس تک رسائی کریں۔ (زبور ۳۷:۵) ہماری مستعد دُعائیں ہمیں یہوواہ کیساتھ قریبی رشتہ رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔
۶. ’دُعا کرنے‘ کے سلسلے میں یسوع کا نمونہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟
۶ تاہم، دُعا کے سلسلے میں غفلت برتنا کتنا آسان ہو سکتا ہے! صرف زورمرّہ کے دباؤ سے نپٹنا ہی ہماری اتنی توجہ لے سکتا ہے کہ ہم خدا سے ہمکلام ہونے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ یسوع نے خود بھی ایسا کِیا اور اپنے شاگردوں کی ’دُعا کرتے رہنے‘ کے لئے حوصلہافزائی کی۔ (متی ۲۶:۴۱) اگرچہ وہ خود بھی صبح سے رات تک مصروف رہتا تھا توبھی اُس نے اپنے آسمانی باپ سے ہمکلام ہونے کے لئے وقت نکالا۔ بعضاوقات یسوع دُعا کرنے کے لئے ”صبح ہی دن نکلنے سے بہت پہلے“ اُٹھ جایا کرتا تھا۔ (مرقس ۱:۳۵) دیگر مواقع پر، وہ یہوواہ سے گفتگو کرنے کے لئے دن کے دوران بھی ویران جگہ چلا جاتا تھا۔ (متی ۱۴:۲۳) یسوع نے ہمیشہ دُعا کے کئے وقت نکالا اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔—۱-پطرس ۲:۲۱۔
۷. کن حالات کو ہمیں روزانہ اپنے آسمانی باپ سے باتچیت کرنے کی تحریک دینی چاہئے؟
افسیوں ۶:۱۸) جب ہم زندگی کے ہر موڑ پر خدا کی راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں تو اُسکے ساتھ ہمارا رشتہ یقیناً مضبوط ہوتا ہے۔ جب دو دوست ملکر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو کیا اُنکی دوستی اَور زیادہ مضبوط نہیں ہو جاتی؟ (امثال ۱۷:۱۷) جب ہم یہوواہ پر تکیہ کرتے اور اُسکی مدد کا تجربہ کرتے ہیں تو ہمارے سلسلے میں بھی یہ سچ ثابت ہوتا ہے۔—۲-تواریخ ۱۴:۱۱۔
۷ ہر روز دن میں کئی بار جب ہمیں مسائل کا سامنا ہوتا ہے، آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو ہمارے پاس نجی طور پر دُعا کرنے کا مناسب وقت ہوتا ہے۔ (۸. نحمیاہ، یسوع اور حنّہ کے نمونے سے ہم اپنی شخصی دُعاؤں کی طوالت کی بابت کیا سیکھتے ہیں؟
۸ ہم کتنے خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا اس پر کوئی پابندی نہیں لگاتا کہ ہم ہر روز اُس سے کتنی مرتبہ دُعا کر سکتے ہیں! نحمیاہ نے فارس کے بادشاہ کے حضور درخواست کرنے سے پہلے جلدی جلدی دل ہی دل میں دُعا کی تھی۔ (نحمیاہ ۲:۴، ۵) یسوع نے بھی یہوواہ سے لعزر کو زندہ کرنے کی طاقت مانگنے کیلئے دُعا کی تھی۔ (یوحنا ۱۱:۴۱، ۴۲) حنّہ بھی جب ”[یہوواہ] کے حضور دُعا کر رہی تھی“ تو اُس نے یہوواہ کے آگے اپنا دل اُنڈیل دیا تھا۔ (۱-سموئیل ۱:۱۲، ۱۵، ۱۶) ہماری شخصی دُعائیں ضرورت اور حالات کے مطابق مختصر یا طویل ہو سکتی ہیں۔
۹. ہماری دُعاؤں میں یہوواہ کی تمام فراہمیوں کیلئے شکرگزاری اور قدردانی کیوں شامل ہونی چاہئے؟
۹ بائبل میں بیانکردہ بیشتر دُعائیں یہوواہ کے اعلیٰ مرتبے اور حیرتانگیز کاموں کیلئے دلی قدردانی کا اظہار ہیں۔ (خروج ۱۵:۱-۱۹؛ ۱-تواریخ ۱۶:۷-۳۶؛ زبور ۱۴۵) ایک رویا میں، یوحنا رسول ۲۴ بزرگوں—آسمانی مقام میں ممسوح مسیحیوں کے مکمل عدد—کو دیکھتا ہے جو یہوواہ کی حمد میں یہ گیت گا رہے ہیں: ”اَے ہمارے خداوند اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔“ (مکاشفہ ۴:۱۰، ۱۱) ہمارے پاس بھی باقاعدگی کیساتھ خالق کی حمد کرنے کی وجہ ہے۔ والدین اُس وقت کتنے خوش ہوتے ہیں جب اُنکا بچہ کسی چیز کیلئے دل سے اُنکا شکریہ ادا کرتا ہے! یہوواہ کی مہربانیوں کیلئے قدردانی ظاہر کرتے ہوئے اپنی دلی شکرگزاری کا اظہار کرنا اپنی دُعاؤں کو بہتر بنانے کا اچھا طریقہ ہے۔
”بِلاناغہ دُعا“ کیوں کریں؟
۱۰. دُعا ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟
۱۰ باقاعدہ دُعا ہمارے ایمان کے لئے بہت ضروری ہے۔ ’ہر وقت دُعا کرتے رہنے اور ہمت نہ ہارنے‘ کی ضرورت پر زور دینے کے بعد یسوع نے سوال کِیا: ”جب ابنِآدم آئیگا تو کیا زمین پر ایمان پائیگا؟“ (لوقا ۱۸:۱-۸) پُرمطلب، دلی دُعائیں ایمان کو مضبوط کرتی ہیں۔ جب آبائی بزرگ ابرہام ضعیف ہو رہا تھا اور ابھی اُس نے نسل پیدا کرنی تھی تو وہ اس سلسلے میں خدا سے ہمکلام ہوا۔ جواب میں، یہوواہ نے پہلے اُس سے کہا کہ آسمان کی طرف آنکھیں اُٹھا اور اگر ستاروں کو گن سکتا ہے تو گن۔ اس کے بعد خدا نے ابرہام کو یقیندہانی کرائی: ”تیری اولاد ایسی ہی ہوگی۔“ نتیجہ؟ ابرہام ”[یہوواہ] پر ایمان لایا اور اِسے اُس نے اُس کے حق میں راستبازی شمار کِیا۔“ (پیدایش ۱۵:۵، ۶) اگر ہم دُعا میں اپنا دل یہوواہ کے سامنے اُنڈیل دیتے، بائبل سے اُس کی یقیندہانیوں کو قبول کرتے اور اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو وہ ضرور ہمارے ایمان کو مضبوط کریگا۔
۱۱. دُعا مسائل سے نپٹنے میں کیسے ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۱۱ دُعا ہمیں مسائل سے نپٹنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ کیا ہماری زندگی بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور ہمیں کٹھن حالات کا سامنا ہے؟ بائبل ہمیں بتاتی ہے: ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالیگا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دیگا۔“ (زبور ۵۵:۲۲) جب مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں تو ہم یسوع کے نمونے کی نقل کر سکتے ہیں۔ اپنے ۱۲ رسولوں کے انتخاب سے پہلے وہ پوری رات دُعا میں مشغول رہا۔ (لوقا ۶:۱۲-۱۶) نیز اپنی موت سے پہلے کی رات یسوع نے اتنی دلسوزی سے دُعا کی کہ ”اُسکا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا۔“ (لوقا ۲۲:۴۴) اسکا نتیجہ کیا ہوا؟ ”خداترسی کے سبب سے اُسکی سنی گئی۔“ (عبرانیوں ۵:۷) اشتیاق اور باقاعدگی سے کی جانے والی ہماری دُعائیں ہمیں پریشانکُن صورتحال اور مشکل آزمائشوں سے نپٹنے میں مدد دینگی۔
۱۲. دُعا کے ذریعے رسائی ہم میں یہوواہ کی ذاتی دلچسپی کو کیسے ظاہر کرتی ہے؟
۱۲ دُعا کے ذریعے یہوواہ کے نزدیک جانے کی ایک اَور وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارے نزدیک آتا ہے۔ (یعقوب ۴:۸) جب ہم دُعا میں یہوواہ کے حضور اپنا دل اُنڈیل دیتے ہیں تو کیا ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہماری ضروریات میں دلچسپی رکھتا اور شفقت سے ہماری پرواہ کرتا ہے؟ ہم ذاتی طور پر خدا کی محبت کو محسوس کرتے ہیں۔ یہوواہ کے زمینی خادم اپنے آسمانی باپ سے جو بھی دُعائیں کرتے ہیں اُسے سننے کی ذمہداری اُس نے کسی اَور کو نہیں سونپی۔ (زبور ۶۶:۱۹، ۲۰؛ لوقا ۱۱:۲) نیز وہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ’اپنی ساری فکر اُس پر ڈال دیں کیونکہ اُسکو ہماری فکر ہے۔‘—۱-پطرس ۵:۶، ۷۔
۱۳، ۱۴. ہمارے پاس بِلاناغہ دُعا کرنے کی کونسی وجوہات ہیں؟
اعمال ۴:۲۳-۳۱) دُعا ہمیں ”ابلیس کے منصوبوں“ کے خلاف قائم رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔ (افسیوں ۶:۱۱، ۱۷، ۱۸) روزمرّہ کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی صورت میں، ہم متواتر خدا سے مضبوط رہنے کیلئے درخواست کر سکتے ہیں۔ یسوع کی نمونے کی دُعا میں یہ درخواست بھی شامل ہے کہ یہوواہ ہمیں ”بُرائی سے“ یعنی شیطان اِبلیس سے بچائے۔—متی ۶:۱۳۔
۱۳ دُعا ہمیں عوامی خدمتگزاری میں زیادہ پُرجوش بنا سکتی ہے اور جب سردمہری یا مخالفت ہمیں پست کر رہی ہو تو یہ ہمیں تقویت بخش سکتی ہے۔ (۱۴ اگر ہم اپنی گنہگارانہ رغبتوں پر قابو پانے کے لئے مدد کی درخواست کرتے رہتے ہیں تو ہم یہوواہ کے قوی ہاتھ کو محسوس کرینگے۔ ہمیں اُسکی طرف سے یقیندہانی حاصل ہے: ”خدا سچا ہے۔ وہ تمکو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دیگا بلکہ آزمایش کیساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) پولس رسول نے خود بھی مختلف حالات کے تحت یہوواہ کے تسلیبخش ہاتھ کو محسوس کِیا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“—فلپیوں ۴:۱۳؛ ۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۳-۲۹۔
خامیوں کے باوجود دُعا میں مشغول رہیں
۱۵. جب ہمارا چالچلن یہوواہ کے معیاروں کے مطابق نہیں رہتا تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟
۱۵ دُعاؤں کے قبول کئے جانے کیلئے ہمیں خدا کے کلام کی مشورت کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”جوکچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہمیں اُسکی طرف سے ملتا ہے کیونکہ ہم اُسکے حکموں پر عمل کرتے ہیں اور جوکچھ وہ پسند کرتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔“ (۱-یوحنا ۳:۲۲) تاہم، اُس صورت میں کیا ہے جب ہمارا چالچلن یہوواہ کے معیاروں کے مطابق نہیں رہتا؟ باغِعدن میں گُناہ کے بعد آدم اور حوا نے خود کو چھپایا۔ ہم بھی خود کو ”خدا کے حضور سے“ چھپانے اور دُعا نہ کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ (پیدایش ۳:۸) ایک تجربہکار سفری نگہبان، کلاؤس کا مشاہدہ ہے کہ ”یہوواہ اور اُسکی تنظیم سے بہہ کر دُور چلے جانے والے لوگوں کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ وہ دُعا کرنا بند کر دیتے ہیں۔“ (عبرانیوں ۲:۱) جوسی اینجل کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ کہتا ہے: ”تقریباً آٹھ سال تک مَیں نے شاید ہی یہوواہ سے دُعا کی ہو۔ اگرچہ مَیں یہوواہ کو اپنا آسمانی باپ تسلیم کرتا تھا مگر مَیں خود کو دُعا کرنے کے لائق نہیں سمجھتا تھا۔“
۱۶، ۱۷. مثالیں دیں کہ کیسے باقاعدہ دُعائیں روحانی کمزوریوں پر غالب آنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔
۱۶ ہم میں سے بعض محسوس کر سکتے ہیں کہ روحانی طور پر کمزور ہو جانے یا غلطکاری میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہم دُعا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ مگر یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں خاص طور پر دُعا کی فراہمی سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ یوناہ اپنی تفویض سے بھاگ گیا۔ مگر ’پریشانی کی حالت میں یوناہ نے یہوواہ کو پکارا اور اُس نے اُسے جواب دیا۔ مچھلی کے پیٹ سے یوناہ نے مدد کیلئے دُہائی دی اور یہوواہ نے اُسکی آواز سنی۔‘ (یوناہ ۲:۲) یوناہ نے دُعا کی، یہوواہ نے اُسکی دُعا کا جواب دیا اور یوناہ روحانی طور ٹھیک ہو گیا۔
۱۷ جوسی اینجل نے بھی مدد کے لئے مستعدی سے دُعا کی۔ وہ یاد کرتا ہے: ”مَیں نے اپنا دل یہوواہ کے سامنے اُنڈیل دیا اور معافی کیلئے درخواست کی۔ اُس نے میری مدد کی۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ دُعا کی مدد کے بغیر مَیں واپس سچائی میں آ سکتا تھا۔ اب مَیں ہر روز دُعا کرتا اور ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہوں۔“ ہمیں ہمیشہ خدا کیساتھ اپنی غلطیوں کی بابت بات کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے اور معافی کے طلبگار ہونا چاہئے۔ جب داؤد بادشاہ نے اپنی تقصیروں کا اعتراف کِیا تو یہوواہ نے اُسکی خطائیں بخش زبور ۳۲:۳-۵) یہوواہ ہمیں رد کرنا نہیں بلکہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔ (۱-یوحنا ۳:۱۹، ۲۰) علاوہازیں کلیسیا کے بزرگوں کی دُعائیں بھی ہمیں روحانی طور پر مدد دے سکتی ہیں کیونکہ ایسی دُعاؤں کے ”اثر سے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔“—یعقوب ۵:۱۳-۱۶۔
دیں۔ (۱۸. خدا کے خادم خواہ کتنے ہی دُور کیوں نہ چلے گئے ہوں وہ کیا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۱۸ اگر ایک بچہ غلطی کرنے کے بعد فروتنی کے ساتھ مدد اور مشورت کے لئے اپنے باپ کے پاس آتا ہے تو کیا وہ اُس کی درخواست کو مسترد کر دیگا؟ مسرف بیٹے کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ ہم خواہ کتنے دُور ہی کیوں نہ چلے جائیں جب ہم واپس لوٹتے ہیں تو ہمارا آسمانی باپ خوش ہوتا ہے۔ (لوقا ۱۵:۲۱، ۲۲، ۳۲) یہوواہ تمام خطاکاروں کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اُسکی طرف رجوع ہوں ”کیونکہ وہ کثرت سے معاف کریگا۔“ (یسعیاہ ۵۵:۶، ۷) اگرچہ داؤد نے کئی سنگین گُناہ کئے توبھی اُس نے یہوواہ سے یہ کہتے ہوئے درخواست کی: ”اَے خدا! میری دُعا پر کان لگا اور میری منت سے مُنہ نہ پھیر۔“ اُس نے مزید کہا: ”صبحوشام اور دوپہر کو مَیں فریاد کرونگا اور کراہتا رہونگا اور وہ [یہوواہ] میری آواز سن لیگا۔“ (زبور ۵۵:۱، ۱۷) کسقدر پُریقین الفاظ!
۱۹. ہمیں کیوں اس نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہئے کہ بظاہر دُعاؤں کا جواب نہ ملنا خدا کی ناپسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے؟
۱۹ اگر ہماری دُعا کا فوری جواب نہیں ملتا تو کیا ہو؟ پس، ہمیں اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ ہماری درخواست یہوواہ کی مرضی کی مطابقت میں ہے۔ (یوحنا ۱۶:۲۳؛ ۱-یوحنا ۵:۱۴) یعقوب شاگرد نے بعض ایسے مسیحیوں کی دُعاؤں کا ذکر کِیا جنکا جواب نہیں ملا تھا کیونکہ وہ ”بُری نیت سے مانگتے“ تھے۔ (یعقوب ۴:۳) اسکے برعکس، ہمیں فوراً اس نتیجے پر بھی نہیں پہنچ جانا چاہئے کہ بظاہر دُعاؤں کا جواب نہ ملنا ہمیشہ خدا کی ناپسندیدگی کا ثبوت ہے۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی واضح جواب دینے سے پہلے یہوواہ چاہتا ہے کہ اُسکا وفادار پرستار اُس معاملے کے سلسلے میں متواتر دُعا کرتا رہے۔ یسوع نے کہا، ’مانگتے رہو تو تمکو دیا جائیگا۔‘ (متی ۷:۷) پس ہمیں ”دُعا کرنے میں مشغول“ رہنے کی ضرورت ہے۔—رومیوں ۱۲:۱۲۔
باقاعدہ دُعا کریں
۲۰، ۲۱. (ا) اس ”اخیر زمانہ“ میں ہمیں بِلاناغہ دُعا کرنے کی کیوں ضرورت ہے؟ (ب) جب ہم یہوواہ کے فضل کے تخت کے پاس ہر روز جائینگے تو ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
۲۰ اس ”اخیر زمانہ“ میں دباؤ اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں جو ’بُرے دنوں‘ کا نشان ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) نیز آزمائشیں بڑی آسانی سے ہمارے ذہنوں پر حاوی ہو سکتی ہیں۔ تاہم، بِلاناغہ دُعائیں ہمیں مشکلات، آزمائشوں اور حوصلہشکنی کے باوجود روحانی روش پر قائم رہنے میں مدد دینگی۔ یہوواہ کے حضور ہماری روزانہ کی دُعائیں ہمیں درکار مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
۲۱ ’دُعا کا سننے والا!‘ یہوواہ ہمیشہ سننے کیلئے تیار رہتا ہے۔ (زبور ۶۵:۲) پس ہمیں ہمیشہ اُس سے ہمکلام ہونے کیلئے وقت نکالنا چاہئے۔ خدا کیساتھ دوستی ہی ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اسے کبھی بھی معمولی خیال نہ کریں۔ ”پس آؤ ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رحم ہو اور وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے۔“—عبرانیوں ۴:۱۶۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہم دُعا کی اہمیت کی بابت دانیایل نبی سے کیا سیکھتے ہیں؟
• ہم یہوواہ کیساتھ اپنے رشتے کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟
• ہمیں بِلاناغہ دُعا کیوں کرنی چاہئے؟
• ہمیں یہوواہ سے دُعا کرنے کے لائق نہ ہونے کے احساس کو رکاوٹ بننے کی اجازت کیوں نہیں دینی چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
بادشاہ سے ہمکلام ہونے سے پہلے نحمیاہ نے خاموشی سے مختصر دُعا کی
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
حنّہ نے ” [یہوواہ] کے آگے اپنا دل اُنڈیلا“
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
اپنے ۱۲ رسولوں کا انتخاب کرنے سے پہلے یسوع نے ساری رات دُعا کی
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
ہمارے پاس پورا دن دُعا کرنے کے مواقع ہوتے ہیں